جنگل دے وچ شیر مریلا باز پوے وچ گھر دے ھو
عشق جیہا صراف ناں کوئی کجھ ناں چھوڑے وچ زردے ھو
عاشقاں نیندر بھکھ ناں کائی عاشق مول نہ مردے ھو
عاشق جِیندے تڈاں ڈٹھوسے باھو(رح) جداں صاحب اگے سر دھردے ھو
Jangal dey vich sher marela baaz povey vich ghar dey Hoo
Ishq jiha saraaf na koe kujh naaN cho'Rey vich zardey Hoo
AshqaaN neendar bhukh naaN kayee ashiq mool na mardey Hoo
Ashiq jeendey tada'N diTHosey "Bahoo" jadaaN sahib agey sar dhardey Hoo
In jungle is a killer lion and falcon strikes in house hither Hoo
There is no jeweller like Ishq, which would leave any impurity within gold either Hoo
Aashiq don't have appetite for hunger, sleep or they die neither Hoo
Liven aashiq is only seen "Bahoo" In Divine Honour when he surrenders his will there Hoo
تشریح:
دل ایک رُوحانی ریاست ہے جس پہ عمل داری کے لئے عشق نے سلطنت وحکومت قائم کرنا ہے - مدینۂ قلب میں خیروشرّ کی مثبت اور منفی قوتیں حکومت کی دعویدار ہیں -عشق تصورِ اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جب کہ نفس امّارہ اورابلیس شرّ کی عمل داری چاہتے ہیے -سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ نے تصورِ اسم اللہ ذات کو جنگل کے نرشیر کے استعارے سے بیان فرمایااور مرشد ِ کامل کو عقاب﴿شاہین﴾ سے تعبیر فرمایا-جیسے جنگل میں شیر کی موجودگی میں وحشی درندے اوردیگر جانور گھبراکربھاگ جاتے ہیں بعینہٰ جس دل میں اسم اللہ ذات ڈیرہ ڈال لے وہاں خواہشاتِ نفس اور خطرات شیطانی دور ہوجاتے ہیں -آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:-’’ذکر ِاَللّٰہُ اور اسم اَللّٰہُ شیر کی مثل ہے- جہاں شیر کا بسیرا ہو وہاں اُس کے ڈر سے دوسرے جانور ہرگز نہیں جاتے، اِسی طرح جس طالب کے وجود میں اسم اَللّٰہُ کا ذکر قرار پکڑ لے اُس میں خطرات و وہمات کا گزر نہیں ہوتا اور اگر ہو تو یہ اِس بات کی علامت ہے کہ اُس پر ابھی ذکر ِ اَللّٰہُ کی تاثیر وارد نہیں ہوئی‘‘-﴿عین الفقر:۳۱۱﴾
دل کی رُوحانی ریاست میں عشقِ الٰہی کی حکومت کے لئے دوسری فیصلہ کن طاقت مرشد کامل کی ہے ، جسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ’’شہباز ِلامکانم ‘‘سے تعبیر فرمایا:-
جائے کہ من رسیدم امکان نہ ہیچ کس را شہبازِ لامکانم آنجا کجا مگس را
’’قرب ذات کے جس مرتبے پرمَیں پہنچا ہوں وہاں کسی اورکے پہنچنے کاامکان ہی نہیں -مَیں لامکان کاشہباز ہوں ،لامکان میں مکھیوں﴿ناقص مرشد﴾کی جگہ نہیں ہے-‘‘﴿کلید التوحید:۴۸۳﴾
مرشد عنقا بود شہباز پر مگس مرشد کی برد کوہ سر بسر
’’عنقا صفت مرشد بلند پرواز شہباز ہوتا ہے ،لیکن مکھی صفت مرشد کوہِ معرفت کی بلندچوٹیوں تک کہاں پہنچ سکتا ہے-‘‘﴿نور الہدٰی:۴۳۵﴾
تصورِ اسم اللہ ذات کی برکتوں اورشہباز لامکانم صفت مرشد کی تربیت سے طالبِ مولیٰ کے مدینۂ قلب میں عشق اپنی سلطنت وحکومت کی بساط بچھا دیتا ہے - مرید لایریدکو عشق اپنی لپیٹ میںلے کر کھرا اور خالص بنادیتا ہے کیونکہ عشق صراف کی مانند ہوتا ہے اس لئے طالب فقیر کی نیت ،طلب اورقلب ورُوح کو ماسوٰی اللہ کی ملاوٹ سے پاک کردیتا ہے - جب عشق طالبِ حق کو قربِ الٰہی کی وادیوں کی سیر کرواتا ہے تو طالب خود سے بیگانہ ہوجاتا ہے اوراُس کاکھانا پینا حتٰی کہ اس کی نیند کے نتائج بھی عام لوگوں سے مختلف ہو جاتے ہیں -اس لیے فرمایاگیاکہ’’فقرا کاکھانا نور ہے اُن کا پیٹ تنور ہے اُن کادل بیت المعمور ہے اُن کی نیند حالت حضور ہے -﴿عین الفقر: ۱۱۱﴾ - اِسی برکت سے عاشق مرتے نہیں بلکہ واصل بحق ہو جاتے ہیں اور اقبال کے الفاظ میں یوں ہوگا کہ ﴿فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا - تیرے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے ﴾ -
عشق میں استقامت تسلیم ورضا کے خوگر ہونے سے ملتی ہے اس لئے عاشق ہمہ وقت جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوتاہے - زندگی سے پیاری کوئی چیز نہیں ، جب طالب اپنی زندگی اور سر کو قربانی کیلئے پیش کر دیتا ہے تو پھر اِس حیاتِ جاودان کو پا جاتا ہے جس کی آپ نے شرط بیان کی کہ ’’عاشق جیندے تداں ڈٹھوسے‘‘ کہ تب عاشق کو تیسرے مصرعہ میں بیان کردہ زندگی نصیب ہوتی ہے جب چوتھے مصرعہ کی شرط پوری ہو جائے یعنی سب کچھ اُس کی راہ میں اور بارگاہ میں پیش کر دے-