|
تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے آپ کو قابل اصلاح سمجھتے ہوئے صوفیاء کرام(رض)کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کیا اور صوفیاء کرام (رض)نے یہ فریضہ بخوبی نبھایا-’’طلب اور رسد‘‘ کے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کی اصلاح کے لئے ہدایت یافتہ صوفیاء کرام (رض)نے نگاہ و قلم کا بھر پور استعمال کر کے ہمارے قلوب و اذہان کو منور کیا، اخلاق میں درستگی کا درس دیااور ہمارے چھبتے ہوئے کونوں کو گول کیا تاکہ کسی کو ہماری وجہ سے کوئی معمولی سی تکلیف بھی نہ ہو-صوفیاء کرام(رض) کے قلم کی روشنائی صفحات کو منور کرتی گئی اورمنور صفحات ترتیب پاتے پاتے کتب و رسائل کی شکل میں متشکل ہوتے رہے-ایک سے بڑھ کر ایک مشاہدہ اور تجربہ عوام تک پہنچتا رہا، شوق اور جستجو کے دَر وَا ہونے لگے-شوق کی تکمیل اور جستجو کو منزل مراد تک پہنچانے کے لئے صوفیاء اکرام(رض) کے درِ دولت ہمہ وقت کھلے رہتےجہاں طالبانِ مولیٰ کو راہِ ہدایت کی جانب رہنمائی دستیاب ہوتی رہتی -دن کے اُجالے میں مساجد کے صحن،علم وعرفان کے مرکز ہوتے جبکہ انہی مساجد سے ملحق خانقاہوں کے حجرے دن میں حاصل کئے گئےجہاں علم کومشاہدے اور تجربہ سے گزرنے کے بعد علمِ کامل اور عالم کو،عالم با عمل بنانے میں مدد گار ہوتے-علم کی پرکھ تحقیق، تجربہ اور مشاہدہ سے کی جاتی، پھر نازک اور پر جمال نکات کو عوام الناس کی رہنمائی کے لئے ضبط ِتحریر میں لایا جاتا- |
حضرت حبیب عجمی(رض)، حضرت سری سقطی (رض)، حضرت جنید بغدادی(رض)، حضرت شیخ محی الدین ابن عربی(رض)،غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی(قدس اللہ سرّہٗ)،حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا صاحب(رض)اور حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)جیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے علم تصوف پر قلم اٹھایا اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ خواص کی بھی رہنمائی کی-
لیکن افسوس کہ اب ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو کہ چند کتابوں اور رسائل سے کچھ اقتباسات کو اکھٹا کر کے علم تصوف کے ’’خود ساختہ‘‘ مصنف بن بیٹھے ہیں جن کا تصوف اور علم مشاہدہ سے دور دور تک کوئی بھی واسطہ نہیں ہے- سونے پہ سہاگہ یہ کہ معاشرے میں ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو خود کو ہر فن مولا اور اصلاح یافتہ سمجھتےہوئے صوفیاء اور تعلیمات ِصوفیاء کو حرفِ تنقید کا نشانہ بناتا ہے-تصوف کے ’’خود ساختہ‘‘ مصنفین کی تحریریں تنقید اور اعتراض کرنے والے طبقہ کو اعتراض کا موقع فراہم کرتی ہیں- عوام کو چاہیئے کہ ایسے نام نہاد تجارت پیشہ مصنفین سے بچ کر رہیں-
اگر ہم غور کریں!تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صوفیاء کرام (رض)کی حیاتِ مبارکہ اور ان کی زندگیوں پر زیادہ کام ہوا ہے جبکہ ان کی تعلیمات اور افکار پر نسبتاً بہت کم کام ہوا ہے-اس کی بڑی وجہ راقم کی ناقص رائے میں یہ ہے کہ صوفیاء کرام (رض)نے تجربہ، مشاہدہ وتحقیق اورعمل کی بات کی ہے-صوفیاء کرام (رض)نے صرف کہا ہی نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ کر کےدکھایا اوراپنے تجربات کا نچوڑ نکال کرہمارے سامنے رکھا تاکہ ہم گمراہ و رسوا نہ ہوں بلکہ ہم ہدایت یافتہ اور کامیاب ہو جائیں -جبکہ ہم بحیثیت قوم عمل و تحقیق میں کافی پیچھے ہیں اور ابھی تک اس طرف مائل نہیں ہو رہے،بلکہ جدوجہد اور محنت سے جان چھڑا کر ’’شارٹ کٹ‘‘ کے ذریعے شہرت اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں- جبکہ صوفیاءکرام(رض) عالم با عمل ہیں اور دعوت بھی تحقیق و عمل کی دیتے ہیں اور ہم صریحا ًاپنے اجدادکے طریق کو ترک کر کے ’’شارٹ کٹ‘‘ کی جانب دھیان لگائے ہوئےہیں-
اگر ہم علمِ تصوف پر تحریر کرنے کی ہی بات کریں تو ہم جان لیں گے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے راستے سے کتنا دور ہیں-علِم تصوف جو کہ تحقیق اور مشاہدہ کے بعد سمجھ میں آتا ہے،ہم اس پر بھی اِدھر اُدھر سے چیزوں کو جوڑ کر کتاب یا مضمون تحریر کر دیتے ہیں جبکہ صوفیاء کرام (رض)کا اس پر کیا مؤقف تھا یہ جاننے کے لئے حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کا فرمان ہے کہ :
’’علمِ تصوف کے مصنف کو چاہیئے کہ پہلے وہ ہر علم کو اپنے عمل اور قبضہ و تصرف میں لا کر اس کا معائنہ و تجربہ اور امتحان و آزمائش کرے تاکہ رجعت و پریشانی کا شکار نہ ہو اور اس کے بعد ضبطِ تحریر میں لا کر کتاب تصنیف کرے‘‘- [1]
یوں تو ہر مصنف اپنی تحریر کو چانچنے اور پرکھنے کے بعد ماہرین کے پاس بھیجتا ہے تاکہ پبلش ہو نے کے بعد اس پر اعتراض کم سے کم کیا جا سکے لیکن حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کے بقول علِم تصوف کے مصنف کو خصوصاً ہدایت کی جا رہی ہے کہ علِم تصوف کو تحریر میں لانے سے پہلے باقی تمام ظاہر و باطن کے علوم کو پریکٹس کرے ان پر عمل کرے ، قبضہ و تصرف سے مراد ہے کہ ان علوم میں مصنف پرفیکٹ ہو یعنی کاملیت رکھتا ہو، پھر اس علم کا معائنہ کرے ، پھر اس کو تجربہ کی کسوٹی پر پرکھے، جانچے اور ایسا بار ہا کرے تاکہ اس علم کی جانچ ہو جائے کہ آیا وہ علم قابل بھروسہ ہےیا نہیں-کیا یہ کسی مقام پر دھوکہ تو نہ دے جائے گا، ان کے اثرات و ثمرات کا جائزہ لے، اس علم میں موجود کمی و کوتاہی کو اچھی طرح جان لے،پھر اس کو ضبط ِتحریر میں لائے- ایسا کیوں ہے اس لئے کہ جب مصنف کا لکھا ہوا شائع ہو جاتا ہےتوعین ممکن ہے کہ اگر اس علم میں نقائص موجود ہوں تو اس کو حاصل کر کے کو ئی گمراہ ہو جائے گایا کوئی اپنا نقصان کر بیٹھےگا- صوفیاء کرام (رض)جو کہ معاشرتی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں،یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کبھی بھی، کسی بھی طالبِ مولیٰ کا خسارہ ہو ، کا نقصان ہو یا وہ بھٹکے -
اگر ہم غور کریں!تو یہ جان لیں گے کہ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی رسائی (approach ) کتنی مکمل، جامع اور جدید ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی سوچ سائنسی طریقہ کار کے نزدیک ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریر میں بے پناہ تحرک(motivation) موجود ہے کہ تحقیق و تجربہ کرکے اثرات و نتائج کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے کہ کیا غلط اور کیا درست ہے-غلط کو غلط اور درست کو درست لکھا جائے - اسی طرح اگر سائنسی طریقہ کار کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی یہی بتاتا ہے کہ سائنس حقائق کا مطالعہ کرکےصحیح اور غلط کے مابین فرق کرتی ہے، اور اپنے راستے پہ چلنے والے کو تجربات کی روشنی میں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کو غلط بتاتی ہے- عمومًا جب ہم حقائق کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف صحیح چیز کا جان لینا اور اس کا ثبوت مل جانا ہی کافی ہے-لیکن اگر غور کیا جائے تو ہم جان جائیں گے کہ جتنا صحیح چیز کو جان لینا ضروری ہے اتنا ہی غلط چیز کو پہچاننا بھی ضروری ہے ،ورنہ نقصان کا اندیشہ ہے- غلط چیز کی پرکھ بھی دراصل حقیقت کا ادراک ہی ہے-
ظاہر میں اگرظاہری تجربہ کے نتائج درست نہ آئیں تو نقصان ظاہر یعنی مادیت پرستی کا ہی ہوتا ہے لیکن اگر روحانی تجربہ غلط ہو اور اس کی صحیح پرکھ کے بغیربارہا عمل(practice) کیا جاتا رہے تو نقصان ایمان سے خلاصی کی صورت میں نکلتا ہے- لہذا روحانی یا تصوف کی دنیا میں تحقیق اور تجربہ اشد ضروری ہے-اس لئے اس ضرورت کا اظہارحضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بار ہا کیا، جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :
’’جو لوگ ہر بات کی تحقیق کرتے ہیں وہ صاحبِ بیان محقق کہلاتے ہیں‘‘-[2]
عہد ِحاضر، انسانی ترقی کے عروج کا دور ہے جہاں ہر شعبہ میں انسان اوج کمال کو چھو رہا ہے-جامعات میں طرح طرح کے علوم پڑھائےجا رہے ہیں، علوم و فنون کے دریا بہہ رہے ہیں،ہر شعبہ میں ’’سپیشلائزیشن‘‘ ہو رہی ہےاورروز بروز تحقیق کا معیار بلند سے بلند تر ہو رہا ہے-تحقیق، اس کے نتائج، نتائج کے اثرات، پھر ان کی پرکھ اور جانچ پڑتال میں سختی ہوتی جا رہی ہے تاکہ معیار کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جایا جا سکے-اگر علومِ سائنس اور ایجادات کی بات کی جائے تو ایجادات کی بھر مار ہے، علِم طب یا میڈیکل سائنس کے عروج کی داستان ہی انوکھی ہے-ناممکن،ممکن ہوتا جا رہا ہے، ایک انسان کے اعضاء دوسرے کو لگا دئے جاتے ہیں اورایسے آلات تیار ہو رہے ہیں جن کی مدد سے بصارت سے محروم افراد دیکھنے کے لائق ہو جائیں گے-ایسا صرف میڈیکل سائنس یا نیچرل سائنس میں نہیں ہو رہا بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہے-ایسا صرف تحقیق کی بدولت ہے،ایسے ہی اگر علِم تصوف میں بھی تحقیق کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ راہِ تصوف کے راز انسان پر آشکار نہ ہوں- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :
’’وہ اپنے ظاہر و باطن کو علِم نعم البدل سے تحقیق کرتا ہے، کہ ظاہر و باطن کی تحقیق علمِ نعم البدل سے ہوتی ہے-علمِ نعم البدل اسے کہتے ہیں کہ جب باطن میں مجلس محمدی (ﷺ) سے کوئی حکم صادر ہو اور ظاہر میں اُس کا ظہور نہ ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ طالب ابھی تک مقامات و درجات طے کر رہا ہے،ابھی وہ تمامیتِ حضوری کے مراتب تک نہیں پہنچا-جب ظاہر و باطن برابر ہو جائے تو دیکھا نہ دیکھا یکساں ہو جاتا ہے‘‘-
ایسے ہی آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اِدھر اُدھر سے کچھ جمع کر کے لکھ دینے کی نفی فرماتے ہوئے مشاہدہ اور تجربہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ :
’’ حضوری کے بغیر نہ تو قلب کی حیات و جسم کی نجات ممکن ہےاور نہ ہی تحقیقِ تصدیقِ قلب نصیب ہوتی ہے‘‘-[3]
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے ان فرمودات کی روشنی میں یہ طے کر نا مشکل نہیں کہ ہمیں علم تصوف پر قلم اٹھانے سے پہلے عمل تصوف میں غوطہ زن ہو کر تصوف اور علِم تصوف پر عبور حاصل کر نا ہو گا ورنہ ہم بھَلا کرتے کرتے بُرا کر بیٹھیں گے-
٭٭٭
|
علمِ تصوُّف اور تحقیق و مُشاہدہ
محمد ذیشان دانش |
تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے آپ کو قابل اصلاح سمجھتے ہوئے صوفیاء کرام ()کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ کیا اور صوفیاء کرام ()نے یہ فریضہ بخوبی نبھایا-’’طلب اور رسد‘‘ کے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کی اصلاح کے لئے ہدایت یافتہ صوفیاء کرام ()نے نگاہ و قلم کا بھر پور استعمال کر کے ہمارے قلوب و اذہان کو منور کیا، اخلاق میں درستگی کا درس دیااور ہمارے چھبتے ہوئے کونوں کو گول کیا تاکہ کسی کو ہماری وجہ سے کوئی معمولی سی تکلیف بھی نہ ہو-صوفیاء کرام() کے قلم کی روشنائی صفحات کو منور کرتی گئی اورمنور صفحات ترتیب پاتے پاتے کتب و رسائل کی شکل میں متشکل ہوتے رہے-ایک سے بڑھ کر ایک مشاہدہ اور تجربہ عوام تک پہنچتا رہا، شوق اور جستجو کے دَر وَا ہونے لگے-شوق کی تکمیل اور جستجو کو منزل مراد تک پہنچانے کے لئے صوفیاء اکرام() کے درِ دولت ہمہ وقت کھلے رہتےجہاں طالبانِ مولیٰ کو راہِ ہدایت کی جانب رہنمائی دستیاب ہوتی رہتی -دن کے اُجالے میں مساجد کے صحن،علم وعرفان کے مرکز ہوتے جبکہ انہی مساجد سے ملحق خانقاہوں کے حجرے دن میں حاصل کئے گئےجہاں علم کومشاہدے اور تجربہ سے گزرنے کے بعد علمِ کامل اور عالم کو،عالم با عمل بنانے میں مدد گار ہوتے-علم کی پرکھ تحقیق، تجربہ اور مشاہدہ سے کی جاتی، پھر نازک اور پر جمال نکات کو عوام الناس کی رہنمائی کے لئے ضبط ِتحریر میں لایا جاتا-
حضرت حبیب عجمی()، حضرت سری سقطی ()، حضرت جنید بغدادی()، حضرت شیخ محی الدین ابن عربی()،غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی(قدس اللہ سرّہٗ)،حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا صاحب()اور حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)جیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے علم تصوف پر قلم اٹھایا اور عوام الناس کے ساتھ ساتھ خواص کی بھی رہنمائی کی-
لیکن افسوس کہ اب ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو کہ چند کتابوں اور رسائل سے کچھ اقتباسات کو اکھٹا کر کے علم تصوف کے ’’خود ساختہ‘‘ مصنف بن بیٹھے ہیں جن کا تصوف اور علم مشاہدہ سے دور دور تک کوئی بھی واسطہ نہیں ہے- سونے پہ سہاگہ یہ کہ معاشرے میں ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو خود کو ہر فن مولا اور اصلاح یافتہ سمجھتےہوئے صوفیاء اور تعلیمات ِصوفیاء کو حرفِ تنقید کا نشانہ بناتا ہے-تصوف کے ’’خود ساختہ‘‘ مصنفین کی تحریریں تنقید اور اعتراض کرنے والے طبقہ کو اعتراض کا موقع فراہم کرتی ہیں- عوام کو چاہیئے کہ ایسے نام نہاد تجارت پیشہ مصنفین سے بچ کر رہیں-
اگر ہم غور کریں!تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صوفیاء کرام ()کی حیاتِ مبارکہ اور ان کی زندگیوں پر زیادہ کام ہوا ہے جبکہ ان کی تعلیمات اور افکار پر نسبتاً بہت کم کام ہوا ہے-اس کی بڑی وجہ راقم کی ناقص رائے میں یہ ہے کہ صوفیاء کرام ()نے تجربہ، مشاہدہ وتحقیق اورعمل کی بات کی ہے-صوفیاء کرام ()نے صرف کہا ہی نہیں ہے بلکہ یہ سب کچھ کر کےدکھایا اوراپنے تجربات کا نچوڑ نکال کرہمارے سامنے رکھا تاکہ ہم گمراہ و رسوا نہ ہوں بلکہ ہم ہدایت یافتہ اور کامیاب ہو جائیں -جبکہ ہم بحیثیت قوم عمل و تحقیق میں کافی پیچھے ہیں اور ابھی تک اس طرف مائل نہیں ہو رہے،بلکہ جدوجہد اور محنت سے جان چھڑا کر ’’شارٹ کٹ‘‘ کے ذریعے شہرت اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں- جبکہ صوفیاءکرام() عالم با عمل ہیں اور دعوت بھی تحقیق و عمل کی دیتے ہیں اور ہم صریحا ًاپنے اجدادکے طریق کو ترک کر کے ’’شارٹ کٹ‘‘ کی جانب دھیان لگائے ہوئےہیں-
اگر ہم علمِ تصوف پر تحریر کرنے کی ہی بات کریں تو ہم جان لیں گے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے راستے سے کتنا دور ہیں-علِم تصوف جو کہ تحقیق اور مشاہدہ کے بعد سمجھ میں آتا ہے،ہم اس پر بھی اِدھر اُدھر سے چیزوں کو جوڑ کر کتاب یا مضمون تحریر کر دیتے ہیں جبکہ صوفیاء کرام ()کا اس پر کیا مؤقف تھا یہ جاننے کے لئے حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کا فرمان ہے کہ :
’’علمِ تصوف کے مصنف کو چاہیئے کہ پہلے وہ ہر علم کو اپنے عمل اور قبضہ و تصرف میں لا کر اس کا معائنہ و تجربہ اور امتحان و آزمائش کرے تاکہ رجعت و پریشانی کا شکار نہ ہو اور اس کے بعد ضبطِ تحریر میں لا کر کتاب تصنیف کرے‘‘- [1]
یوں تو ہر مصنف اپنی تحریر کو چانچنے اور پرکھنے کے بعد ماہرین کے پاس بھیجتا ہے تاکہ پبلش ہو نے کے بعد اس پر اعتراض کم سے کم کیا جا سکے لیکن حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کے بقول علِم تصوف کے مصنف کو خصوصاً ہدایت کی جا رہی ہے کہ علِم تصوف کو تحریر میں لانے سے پہلے باقی تمام ظاہر و باطن کے علوم کو پریکٹس کرے ان پر عمل کرے ، قبضہ و تصرف سے مراد ہے کہ ان علوم میں مصنف پرفیکٹ ہو یعنی کاملیت رکھتا ہو، پھر اس علم کا معائنہ کرے ، پھر اس کو تجربہ کی کسوٹی پر پرکھے، جانچے اور ایسا بار ہا کرے تاکہ اس علم کی جانچ ہو جائے کہ آیا وہ علم قابل بھروسہ ہےیا نہیں-کیا یہ کسی مقام پر دھوکہ تو نہ دے جائے گا، ان کے اثرات و ثمرات کا جائزہ لے، اس علم میں موجود کمی و کوتاہی کو اچھی طرح جان لے،پھر اس کو ضبط ِتحریر میں لائے- ایسا کیوں ہے اس لئے کہ جب مصنف کا لکھا ہوا شائع ہو جاتا ہےتوعین ممکن ہے کہ اگر اس علم میں نقائص موجود ہوں تو اس کو حاصل کر کے کو ئی گمراہ ہو جائے گایا کوئی اپنا نقصان کر بیٹھےگا- صوفیاء کرام ()جو کہ معاشرتی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں،یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کبھی بھی، کسی بھی طالبِ مولیٰ کا خسارہ ہو ، کا نقصان ہو یا وہ بھٹکے -
اگر ہم غور کریں!تو یہ جان لیں گے کہ حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)کی رسائی (approach) کتنی مکمل، جامع اور جدید ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی سوچ سائنسی طریقہ کار کے نزدیک ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تحریر میں بے پناہ تحرک(motivation) موجود ہے کہ تحقیق و تجربہ کرکے اثرات و نتائج کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے کہ کیا غلط اور کیا درست ہے-غلط کو غلط اور درست کو درست لکھا جائے - اسی طرح اگر سائنسی طریقہ کار کا مطالعہ کیا جائے تو وہ بھی یہی بتاتا ہے کہ سائنس حقائق کا مطالعہ کرکےصحیح اور غلط کے مابین فرق کرتی ہے، اور اپنے راستے پہ چلنے والے کو تجربات کی روشنی میں صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کو غلط بتاتی ہے- عمومًا جب ہم حقائق کی بات کرتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف صحیح چیز کا جان لینا اور اس کا ثبوت مل جانا ہی کافی ہے-لیکن اگر غور کیا جائے تو ہم جان جائیں گے کہ جتنا صحیح چیز کو جان لینا ضروری ہے اتنا ہی غلط چیز کو پہچاننا بھی ضروری ہے ،ورنہ نقصان کا اندیشہ ہے- غلط چیز کی پرکھ بھی دراصل حقیقت کا ادراک ہی ہے-
ظاہر میں اگرظاہری تجربہ کے نتائج درست نہ آئیں تو نقصان ظاہر یعنی مادیت پرستی کا ہی ہوتا ہے لیکن اگر روحانی تجربہ غلط ہو اور اس کی صحیح پرکھ کے بغیربارہا عمل(practice) کیا جاتا رہے تو نقصان ایمان سے خلاصی کی صورت میں نکلتا ہے- لہذا روحانی یا تصوف کی دنیا میں تحقیق اور تجربہ اشد ضروری ہے-اس لئے اس ضرورت کا اظہارحضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)نے بار ہا کیا، جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :
’’جو لوگ ہر بات کی تحقیق کرتے ہیں وہ صاحبِ بیان محقق کہلاتے ہیں‘‘-[2]
عہد ِحاضر، انسانی ترقی کے عروج کا دور ہے جہاں ہر شعبہ میں انسان اوج کمال کو چھو رہا ہے-جامعات میں طرح طرح کے علوم پڑھائےجا رہے ہیں، علوم و فنون کے دریا بہہ رہے ہیں،ہر شعبہ میں ’’سپیشلائزیشن‘‘ ہو رہی ہےاورروز بروز تحقیق کا معیار بلند سے بلند تر ہو رہا ہے-تحقیق، اس کے نتائج، نتائج کے اثرات، پھر ان کی پرکھ اور جانچ پڑتال میں سختی ہوتی جا رہی ہے تاکہ معیار کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جایا جا سکے-اگر علومِ سائنس اور ایجادات کی بات کی جائے تو ایجادات کی بھر مار ہے، علِم طب یا میڈیکل سائنس کے عروج کی داستان ہی انوکھی ہے-ناممکن،ممکن ہوتا جا رہا ہے، ایک انسان کے اعضاء دوسرے کو لگا دئے جاتے ہیں اورایسے آلات تیار ہو رہے ہیں جن کی مدد سے بصارت سے محروم افراد دیکھنے کے لائق ہو جائیں گے-ایسا صرف میڈیکل سائنس یا نیچرل سائنس میں نہیں ہو رہا بلکہ ہر شعبہ زندگی میں ہے-ایسا صرف تحقیق کی بدولت ہے،ایسے ہی اگر علِم تصوف میں بھی تحقیق کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ راہِ تصوف کے راز انسان پر آشکار نہ ہوں- حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :
’’وہ اپنے ظاہر و باطن کو علِم نعم البدل سے تحقیق کرتا ہے، کہ ظاہر و باطن کی تحقیق علمِ نعم البدل سے ہوتی ہے-علمِ نعم البدل اسے کہتے ہیں کہ جب باطن میں مجلس محمدی (ﷺ) سے کوئی حکم صادر ہو اور ظاہر میں اُس کا ظہور نہ ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ طالب ابھی تک مقامات و درجات طے کر رہا ہے،ابھی وہ تمامیتِ حضوری کے مراتب تک نہیں پہنچا-جب ظاہر و باطن برابر ہو جائے تو دیکھا نہ دیکھا یکساں ہو جاتا ہے‘‘-
ایسے ہی آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اِدھر اُدھر سے کچھ جمع کر کے لکھ دینے کی نفی فرماتے ہوئے مشاہدہ اور تجربہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے فرماتے ہیں کہ :
’’ حضوری کے بغیر نہ تو قلب کی حیات و جسم کی نجات ممکن ہےاور نہ ہی تحقیقِ تصدیقِ قلب نصیب ہوتی ہے‘‘-[3]
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے ان فرمودات کی روشنی میں یہ طے کر نا مشکل نہیں کہ ہمیں علم تصوف پر قلم اٹھانے سے پہلے عمل تصوف میں غوطہ زن ہو کر تصوف اور علِم تصوف پر عبور حاصل کر نا ہو گا ورنہ ہم بھَلا کرتے کرتے بُرا کر بیٹھیں گے-
٭٭٭