حضرت سلطان باھو(قدس سرہ العزیز) کے سماجی نظریات اورعہدحاضرمیں ان کااطلاق

حضرت سلطان باھو(قدس سرہ العزیز) کے سماجی نظریات اورعہدحاضرمیں ان کااطلاق

حضرت سلطان باھو(قدس سرہ العزیز) کے سماجی نظریات اورعہدحاضرمیں ان کااطلاق

مصنف: توقیر عامر ملک فروری 2017

سماجی تعلقات کا وہ جال  جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ شعوری طور پر وابستہ ہوتے ہیں سماج کہلاتا ہے -عربی لغت ’’المنجد‘‘ میں سماج کا مفہوم اس طرح واضح کیا گیا ہےکہ:

’’سماج سے مراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا‘‘-

’’آکسفورڈ ڈکشنری‘‘میں سماج کی مختصر مگرجامع تعریف ملاحظہ ہو:

’’لوگوں کا ایسا مجموعہ جو کم یا زیادہ منظم جماعت میں مل کر رہ رہا ہو‘‘-

ان تعریفوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سماج سے مراد ایک ایسا گروہ ہے جس کے افراد میں شعوری وابستگی یا شناخت کا احساس پایا جاتا ہے- سماج کے سب ارکان اپنے آپ کو اس کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں-یہ ایک بہت بڑا خود کفیل اور مستقل نوعیت کا گروہ ہوتا ہے جو اپنے ارکان کی تمام ضروری حاجات پوری کرتا رہتا ہے-اس میں ہمہ اقسام کے لوگ پائے جاتے ہیں جو آپس میں تعاون، مسابقت اور تصادم کے باہمی عمل میں مبتلا رہتے ہیں جو عموماً جغرافیائی اور علاقائی حدود کے پابند ہوتے ہیں-لیکن سماج کووسیع معنوں میں پوری انسانی برادری اور محدود معنیٰ میں ایک گروہ کہاجا سکتا ہے-اسی طرح سماج کی اصطلاح ایک پسماندہ قبیلہ اور ترقی یافتہ شہری آبادی دونوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے-

انسان کی زندگی ہمیشہ سے گروہ میں گزری ہے چاہے یہ گروہ چھوٹے ہوں یا بڑے،منظم ہو یا غیر منظم،سماج نہ صرف انسان کی ضروریات کی تسکین کے لئے ضروری ہےبلکہ سماج انسان کی شخصیت کی نشوونما اور تربیت کے لئےبھی  ضروری ہے-کسی بھی سماج کے نظام کو چلانے کےلئے نظریات قائم کیے جاتے ہیں جن کی روشنی میں کوئی بھی سماج ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے-

قرآن اور سماجی نظریات:

سماج افراد سے تشکیل پا تا ہے اور جب افراد میں با ہمی رابطہ قا ئم ہو تا ہے تو تب ہی نسلِ انسانی پھیلتی ہے- اس طر ف ارشارہ کر تے ہو ئے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فر مایا ہے:-

’’يَـٰٓأَيُّھَا اْلنَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَآءًوَاْتَّقُواْ اللہَ اْلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَاْلأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِيبًا‘‘[1]

’’لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا- پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے- اور ڈروخدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘-

اور اس کے سا تھ سا تھ  قرآن پا ک  نے بھی ہمیں سما ج کے متعلق مختلف نظر یا ت فرا ہم کیے ہیں- 

’’يَـٰٓأَيُّہَا اْلنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَـٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوٓاْ إِنَّ أَکْرَمَكُمْ عِندَ اللہِ أَتْقَٮكُمْ إِنَّ اللہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‘‘[2]

’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے- تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو- اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے- بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے‘‘-

’’وَاْلسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ ٱلْمِيزَانَo أَلَّا تَطْغَوْاْ فِى اْلْمِيزَانِo وَأَقِيمُواْ ٱلْوَزْنَ بِٱلْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُواْ الْمِيزَانَ‘‘[3]

’’اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی o کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو o اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو- اور تول کم مت کرو‘‘

يَـٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ وَذَرُواْ مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَoفَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُولِہٖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوسُ أَمْوَٲلِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ‘‘[4]

’’مومنو! خدا سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو o اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) خدا اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور تمہارا نقصان‘‘-

’’إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّیْطٰـٰنُ أَن يُوقِعَ بَیْنَكُمُ ٱلْعَدَٲوَةَ وَالْبَغْضَآءَ فِى الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَعَنِ ٱلصَّلَوٰةِ‌ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَہُونَ‘‘[5]

’’شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیئے‘‘-

’’وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ، جَھَنَّمُ خَـٰلِدًا فِيْھَا وَغَضِبَ اللہُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ، وَأَعَدَّ لَهُ، عَذَابًا عَظِيمًا‘‘[6]

’’اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لئے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘-

’’وَلَا تَقْرَبُواْ الزِّنَىٰٓ‌ۖ إِنَّهُ، كَانَ فَـٰحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلاً‘‘[7]

’’اور زنا کے بھی پاس نہ جانا کہ وہ بےحیائی اور بری راہ ہے‘‘-

احادیث مبارکہ اور  سماجی نظریات:

جن برائیوں  کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فر مایا ہے،اگر احا دیث مبار کہ میں دیکھیں تو یہا ں بھی انہی برا ئیو ں کی نشاندہی کی گئی ہے  جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں-

حضرت ابو سعید خذری (﷜)سے روایت ہے،آپ (﷜)فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ (ﷺ) سے فرماتے ہوئے سنا کہ:

’’من رأی منکم فلیعیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ،فان لم، یستطع فبقلبہ، وذلک اضعف الایمان‘‘[8]

” اگر برائی کو دیکھو تو اسے ہاتھ کی طاقت سے روکو، اور اگر ایسا نہ ہو تو زبان سے روکو،یا اس کو دل میں بُرا سمجھو، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے “-

حضرت عبداللہ بن مسعود(﷜)سے روایت ہے کہ آقا علیہ صلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:

’’سباب المسلم فسق و قتالہ کفر‘‘[9]

مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور مسلمان کو قتل کرنا کفر ہے‘‘-

حضرت ابوہریرہ (﷜)سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا

’’أیت لیلۃ أسری لی علی قوم بطو نھم کا لبیوت فیھا الحیات تری من خارج بطونھم- فقلت مولاء یا جبرائیل؟ قال ھولا، أکلۃ الربا‘‘[10]

’’شب معراج کو  اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کے تمام مقامات کی سیر کرائی- مَیں نے جہنم کا نظارہ کیا اور جہنم میں ایسی قوم دیکھی جس قوم کے پیٹ لوگوں کے گھروں کے کمروں کی طرح باہر نکلے ہوئے تھے اور سانپ ان کے پیٹوں میں چلتے ہوئے پیٹوں سے باہر نظر آ رہے تھے- مَیں نے کہا اے جبرائیل!یہ کون سی ایسی قوم ہے جن کو اتنا سخت عذاب دیا جا رہا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام)نے کہا یہ وہ قوم ہے جو سود کا کاروبار کرتی تھی‘‘-

حضرت ابوہریرہ (﷜)بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ () نے فرمایا:

’’ثلاثہ لایکلمھم اللہ یوم القیامۃ ولا یزکیھم ولا ینظر الیھم ولھم عذاب الیم- شیخ زان، وملک کذاب، وعائل مستکبر‘‘[11]

’’تین آدمیوں سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا،اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا،اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا- بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ ، تکبر کرنے والا (سردار یا حاکم) ‘‘-

’’الراشی والمرتشی کلا ھما فی النار‘‘[12]

’’رشوت دینے والا اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘-

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے سماجی نظریات:

سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا شمار ان جلیل القدر ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے خطہ ارضی میں سماج کی اصلاح کے لئے منفرد نظریات پیش کئے جو حقیقی طور پر ایک انسانی معاشرہ کی بنیاد ہیں-

سماجی تعلقات کے حوالے سے اگر دیکھیں تو حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)ہمیں آگاہی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات نہ بنائے جائیں جو بے وفا ہیں-کیونکہ انسان کی فطرت کے اثرات پورے سماج پر پڑتے ہیں مثلاً جو شخص فطرتاً کڑوا ہے،اسے  جتنی نصیحتیں کر لی جائیں وہ بے سود ہیں، اس کے سامنے سدھار کی باتیں کرنا ایسے ہے جیسے کوؤں کو موتی چنگانا،ایسے لوگوں کے ساتھ علم و حکمت کی باتیں کرنا ایسے ہے جیسےشکر کو کڑوے پانی میں ضائع کرنا-اس لئے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:

نال کُوسنگی سنگ نہ کرئیے کُل نوں لاج نہ لائیے ھو
تمے تربوز مول نہ ہوندےتوڑ مکے لے جائیے ھو
کانْواں دے بچے ہنس ناں تھیندے توڑے موتی چوگ چگائیے ھو
کوڑے کھوہ  ناں  مٹھے  ہوندے  باھو  توڑے  سے مناں  کھنڈپائیے ھو

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کے اس نظریہ کو مدنظر رکھتے ہوئے سماج کی ترقی کی لئے ہمیں سنگی، تربوز،ہنس اور میٹھے کنوؤں کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے-

سماج کو محبت و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لئے اس کے افراد میں حسن سلوک راست بازی و خود اعتمادی، عجز و انکساری کا ہونا ضروری ہے- انسان کو خلق عظیم کا مالک ہونا چاہیے، اس کے منہ سے کبھی غیر شائستہ یا تندوتیزبات نہ نکلے، وہ جو بات کرے مکمل تحقیق اور سچ پر مبنی ہو،اس کے اندر عجزونیاز موجود ہو جو اس کو باحوصلہ اور باتدبیر بناتی ہے وہ اختیار کلی کے باوجود اپنے آپ کو کم تر وبے بس سمجھے- ایسے لوگوں کے متعلق حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:

سو ہزار تنہاں توں صدقے جہڑے منہ نہ بولن پھکّا ھو
لکھ ہزار تنہاں توں صدقے جیہڑے گل کریندے ہکّا ھو
لکھ کروڑ تنہاں توں صدقے جہڑے نفس رکھیندے جھکّا ھو
نیل پدم تنہاں توں صدقے باھو جہڑے ہوون سون سڈاون سکّا ھو

عہد حاضر کے سماج کو بنظر عمیق دیکھا جائے تو افراد میں انہی خصوصیات  کی کمی ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ تنزلی کا شکار ہے اس کو بہتر بنانے کے لئے سلطان العارفین حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ) کے نظریے پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے-

ہمیشہ اُس سماج میں نکھار آتا ہے جس کے افراد کے دل اصلاح یافتہ ہوں کیونکہ زندہ دل انسان میں ہی لوگوں کےلئے جذبہ ہمدردی پیدا ہوتا ہے- محض سفید چہروں سے ہی معاشرہ نہیں سدھرتا بلکہ اُس کے لئے روشن دل چاہیے کیونکہ  دل کی سیاہی چہرے کی سیاہی سے زیادہ نقصان دہ ہے-جب انسان کا دل روشن ہو گا تو اس کے اندر دوسروں کی قدر پیدا ہو گی-

 بقول حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ):

دل کالے کولوں منہ کالا چنگا جے کوئی اس نون جانے ھو
منہ کالا دل اچھا ہووے تاں دل یار پچھانے ھو

اگرعہد جدید کا فرد آپ  (قدس اللہ سرّہٗ)کے اس نظریے کو اپنا لے تو معاشرہ سے انسانی درندگی کا قلع قمع ہو سکتا ہے-

کسی بھی سماج کا کامیاب فرد وہ ہے جو قوت برداشت رکھتا ہو اور رضا ئے الہٰی کا پیکر ہو- وہ معاشرے کے تمام افراد کو خدا کا کنبہ سمجھتے ہوئے ان کے جائز حقوق کے اآگے تو سرتسلیِم خم کر ے لیکن اگر کوئی اُس سے زیادتی بھی کر لے تو اخلاقِ نبوت کی سُنت ادا کرتے ہوئے اُسے مُعاف کرے اور برداشت کرے ، اِس سے معاشرے میں انسان کی اعلیٰ ظرفی بڑھے گی اور اُس کے وقار میں اضافہ ہوگا  - جیسا کہ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) کا بیت مبارک ہےکہ:

جیوندیاں مر رہناں ہووے تاں ویس فقیراں بہیئے ھو
جے کوئی سٹے گودڑ کوڑا وانگ اروڑی سہیئے ھو
جے کوئی کڈھے گاہلاں مہنے اسنوں جی جی کہیئے ھو
گِلا اُلاہماں بھنڈی خواری یار دے پاروں سہیئے ھو
قادر دے ہتھ ڈور اساڈی باھُو جیوں رکھیے تیوں رہیئے ھو

معاشرے کے اندر عدم برداشت کی جو جڑیں زور پکڑتی جا رہی ہیں ان کو اکھاڑ پھینکنے کیےلئے آپ کے اس نظریے کا اطلاق لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو رضائے الٰہی کے تابع کر دیں-

حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات میں سماجی برائیوں کا ذکر بھی ملتا ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) شراب نوشی کے متعلق فرماتے ہیں-

’’جان لے کہ شراب پینے والا شیطان کا دوست اور اس کا مقرب ہے- اُم الخبائث،شراب پینے والا دونوں جہاں میں خراب ہوتا ہے-شراب پینی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ساقیٔ کوثر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)کے عشق و محبت کی شراب پی جائے، جس سے یہ شرابی محروم
ہے‘‘-
[13]

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے نزدیک جھوٹ دل کی سیاہی کا سبب بنتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا :

’’یقین صفاء ُالقلب ہے اور جھوٹ ظلماتِ قلب ہے‘‘-[14]

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فقر کی شان و عظمت بیان کرتے ہوئے فقیر کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

’’یہ محتاج لوگ درویش فقیر نہیں ہوتے جو طمع کی نظر سے درمِ دنیا کی رشوت وصول کرتے ہیں‘‘-[15]

یعنی وہ لوگ اپنے آپ کو فقیر کہلوانے کا حق نہیں رکھتے ہیں  جو ہر وقت درمِ دنیا کی ہوس میں مبتلا رہتے ہیں-

حضور رسالت مآب (ﷺ)کی دنیا میں بعثت سے بیشتر اگر ہم عرب سماج کا جائزہ لیتے ہیں،تو وہاں وہی خصائل عام تھے- جن سے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے ممانعت کرنے کا حکم دیا ہے- آپ (ﷺ)نے جب اس معاشرہ میں علمِ نبوت بلند کیا تو آپ (ﷺ) کی صحبت اختیار کرنے والوں کے اندر سے وہ تمام برائیاں ختم ہو گئیں جو سماج کی تعمیر و ترقی کے لئے مُضرتھیں- اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہی عرب معاشرہ ایک مثالی ریاست کی صورت میں دنیا کے نقشہ پر اُبھر کر ہمارے سامنے آیا- اسی طرح خلفائے راشدین نے بھی اپنے اپنے عہد میں سماج کی فلاح و بہبود کے لئے عملی اقدامات کیے-

اس کے بعد اگر ہم جیّد صوفیائے کرام کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی ہمیں سماج کو نکھارنے کے نظریات ملتے ہیں،جن کو اپنا کر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے جو لوگوں کو امن کی ضمانت فراہم کرتا ہے-

حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ) کے سماجی نظریات قرآن و احادیث کے عین مطابق ہیں، جن کا عہدِ حاضر کے سماج میں اطلاق از حد ضروری ہے-کیونکہ ان نظریات کے بغیر ایک مثالی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا- جس معاشرہ میں جھوٹ، غیبت، سود، زنا، شراب ، قتل اور اس قسم کے خصائلِ رزیلہ پائے جائیں وہاں انسانی معاشرہ، حیوانی معاشرہ میں تبدیل ہو جاتا ہے جس سے نہ صرف انسان کی دنیاوی زندگی خراب ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات اخروی زندگی پر بھی پڑتے ہیں-انسان اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کےلئے نہیں آیا، دنیاوی زندگی تو عارضی ہے،اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے لئے  پیدا کیا ہےاور اس کی تکمیل کےلئے دنیا کے کمرہ امتحان میں بھیجا ہے،جب یہ ظاہری زندگی ختم ہو گی تو اس کا حساب لیا جائے گا-

 جس طرح حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:

ہسن دے کے رون لیوئی تینوں دتا کس دلاسا ھو
عمر بندے دی اینویں وہانی جیویں پانی وچ پتاسا ھو
سوڑی اسامی سٹ
گھتیسن پلٹ نہ سکسیں پاسا ھو
تیتھوں صاحب لیکھا
منگھسی باھو رتی گھٹ نہ ماسا ھو

قرآن و حدیث کی روشنی میں حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)کے دئیے گئے ان نظریات کو اپنا لیا جائے تو ہم مقصد زیست حاصل کر سکتے ہیں -آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کےلئے بانیٔ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی(قدس اللہ سرّہٗ) نے ایک عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی تھی اورآج اس پیغام کو جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب مدظلہ القدس کی قیادت میں پوری دنیا کے طول و عرض میں پھیلانے کےلئے کوشاں ہے-  اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے زیرِ اہتمام دُنیا بھر کے کئی ممالک میں اِصلاحی و تربیتی کام ہو رہا ہے اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نوجوان اپنے قلب و نظر کی اِصلاح حاصل کر چکے ہیں ۔ اِس لئے تمام نوجوانوں کو یہ دعوتِ عام ہے کہ معاشرتی رذائل اور فتور سے بچنے کیلئے اس مردِ کامل کی تعلیمات کو اختیار کریں جن کا تمام تر نظریہ کتاب و سُنت کی عملی تشریح ہے اور انسانیت کیلئے زندگی اور تپش و حرارت کا پیغام ہے ۔

٭٭٭


[1](النساء:۱)

[2](الحجرات:۱۳)

[3](الرحمٰن:۹،۸،۷)

[4](البقرۃ:۲۷۹،۲۷۸)

[5](المائدہ:۹۱)

[6](النساء:۹۳)

[7](اسرائیل:۳۲)

[8](صحیح مسلم)

[9](ایضاً)

[10]( سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارہ)

[11](صحیح مسلم)

[12]( الترغیب و ترحیب، امام حافظ زکی الدین متوفی: ۶۵۶ ھ)

[13](عین الفقر،ص:۳۱۱)

[14](محک الفقر،ص:۶۳۹)

[15](محک الفقر،ص:۵۷۳)

aسماجی تعلقات کا وہ جال  جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ شعوری طور پر وابستہ ہوتے ہیں سماج کہلاتا ہے -عربی لغت ’’المنجد‘‘ میں سماج کا مفہوم اس طرح واضح کیا گیا ہےکہ:

’’سماج سے مراد ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا‘‘-

’’آکسفورڈ ڈکشنری‘‘میں سماج کی مختصر مگرجامع تعریف ملاحظہ ہو:

’’لوگوں کا ایسا مجموعہ جو کم یا زیادہ منظم جماعت میں مل کر رہ رہا ہو‘‘-

ان تعریفوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سماج سے مراد ایک ایسا گروہ ہے جس کے افراد میں شعوری وابستگی یا شناخت کا احساس پایا جاتا ہے- سماج کے سب ارکان اپنے آپ کو اس کا ایک حصہ تصور کرتے ہیں-یہ ایک بہت بڑا خود کفیل اور مستقل نوعیت کا گروہ ہوتا ہے جو اپنے ارکان کی تمام ضروری حاجات پوری کرتا رہتا ہے-اس میں ہمہ اقسام کے لوگ پائے جاتے ہیں جو آپس میں تعاون، مسابقت اور تصادم کے باہمی عمل میں مبتلا رہتے ہیں جو عموماً جغرافیائی اور علاقائی حدود کے پابند ہوتے ہیں-لیکن سماج کووسیع معنوں میں پوری انسانی برادری اور محدود معنیٰ میں ایک گروہ کہاجا سکتا ہے-اسی طرح سماج کی اصطلاح ایک پسماندہ قبیلہ اور ترقی یافتہ شہری آبادی دونوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے-

انسان کی زندگی ہمیشہ سے گروہ میں گزری ہے چاہے یہ گروہ چھوٹے ہوں یا بڑے،منظم ہو یا غیر منظم،سماج نہ صرف انسان کی ضروریات کی تسکین کے لئے ضروری ہےبلکہ سماج انسان کی شخصیت کی نشوونما اور تربیت کے لئےبھی  ضروری ہے-کسی بھی سماج کے نظام کو چلانے کےلئے نظریات قائم کیے جاتے ہیں جن کی روشنی میں کوئی بھی سماج ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے-

Text Box: حضرت سلطان باہو ؒ کے سماجی نظریات
 اور عہد حاضر میں ان کا اطلاق



توقیر عامرملک
	
قرآن اور سماجی نظریات:

سماج افراد سے تشکیل پا تا ہے اور جب افراد میں با ہمی رابطہ قا ئم ہو تا ہے تو تب ہی نسلِ انسانی پھیلتی ہے- اس طر ف ارشارہ کر تے ہو ئے اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فر مایا ہے:-

’’يَـٰٓأَيُّھَا اْلنَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَآءًوَاْتَّقُواْ اللہَ اْلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَاْلأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِيبًا‘‘[1]

’’لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا- پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے- اور ڈروخدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘-

اور اس کے سا تھ سا تھ  قرآن پا ک  نے بھی ہمیں سما ج کے متعلق مختلف نظر یا ت فرا ہم کیے ہیں- 

’’يَـٰٓأَيُّہَا اْلنَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَـٰكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوٓاْ إِنَّ أَکْرَمَكُمْ عِندَ اللہِ أَتْقَٮكُمْ إِنَّ اللہَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ‘‘[2]