چڑھ چناں تےکرروشنائی تارےذکرکریندےتیراھو
تیرے جہے چن کئی چڑھدے سانوں سجناں باجچھ ہنیرا ھو
جتھےچن اساڈا چڑھدا اتھے قرر نہیں کجھ تیرا ھو
جِس دے کارن اساں جنم گوایا باھو یارملے اک پھیرا ھو
Stars are engaged in your dhikr o moon, rise and shine Hoo
Hundreds of moons like you have arisen but it is darkness without beloved of mine Hoo
Where our moon rises, there your worth is in decline Hoo
For whom we have sacrificed our life Bahoo once we meet beloved in illumine Hoo
Cha’Rh chana’N tay kar roshnai, taaray zikr karenday tera Hoo
Teray jehay chann kai sah cha’Rday saano sajna baajh hanera Hoo
Jithay chann asa’Da chaRhda uthay qadar nahi kujh tera Hoo
Jis day kaaran asa”N janam gawaya Bahoo yaar milay ek phera Hoo (Translated by: M.A.Khan)
تشریح:
ہر شے مسافر ہر چیز راہی |
|
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی[1] |
(۱)سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہ)فرماتے ہیں کہ اشتیاق کے مارے چار چیزوں کو قرار نہیں ہے (۱)ہوا کو(۲)سورج کو(۳)چاندکو(۴ )اورعاشق کو-[2]
یہی تحرک وشوقِ اطاعت اور مخلوقِ خدا کے جڑے مفادات ہی وہ سبب ہیں جس کی وجہ سے اولیاء کرام چاند کو پسند فرماتے ہیں کیونکہ اولیاء اللہ بھی کسی ایک مقام پہ قناعت کرنا باطل سمجھتے ہیں -آپ(قدس اللہ سرّہ) نے عین الفقر میں جن چودہ تجلیات کاذکرکیا اُن میں سے تیرویں تجلی چاند کی ہے،آپ(قدس اللہ سرّہ)فرماتے ہیں کہ:’’تیرہویں تجلی چاند کی ہے جس سے نورِپرتو پیدا ہوتاہے‘‘-[3]
یہ حقیقت ہے چاند اورستاروں کاشمار کائنات کی اُن اشیاء میں ہوتاہے جو کہ ہدایت کی علامت سمجھی جاتیں ہیں-غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرّہ)فرماتے ہیں کہ :’’اخلاق حمیدہ کے نتیجہ میں آنے والے خوابوں میں جنت اورنعمائے جنت ،حوروقصوروغلمان ،سفید نورانی صحرا،سورج ،چاندوستارے اورایسی ہی دیگر چیزیں نظرآتی ہیں -ان سب کاتعلق صفتِ دِل سے ہے‘‘- [4]
شیطان وہ تمام صورتیں اختیار نہیں کرسکتا جو مظہرِ رحمت ،شفقت،لطف،ہدایت ہیں مثلاً جملہ انبیائے کرام،اولیائے کرام ،ملائکہ ،خانہ کعبہ ،سورج وچاند،سفید بادل اوراِلہامی کتب،مصحف وغیرہ-[5]
حضرت سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہ) نے آسمانی چاند کو مخاطب فرمایاکہ تیرے نہ ہونے سے دُنیا میں اندھیرا چھایا رہتاہے جس کی وجہ سے خلقِ خدا پریشان ہوجاتی ہے اورستاروں کی روشنی بھی ان کی مشکلات کم نہیں کرسکتی لہٰذا تو طلوع ہوکرچاندنی بکھیرکیونکہ ستارے اوردیگر مخلوق تیرے منتظر ہیں-
تارے آوارہ و کم آمیز |
|
تقدیرِ وجود ہے جدائی |
(2)اے چاند! تومحبوب (مرشد)سے جدائی کے درد سے ناآشنا ہے-تیرے جیسے کئی چاند اکٹھے ہوکر بھی روشنی پھیلائیں تب بھی عاشق کے کربِ دوری اورتشنگیٔ دِید کم نہیں کر سکتے -ہمارے اندھیرے تو مرشد کامنورچہرہ ہی دُور کرسکتاہے کیونکہ اُس کے دیدار کی ایک جھلک سے دِل پہ چھائی ظلمت ہٹ جاتی ہے-اے چاند! تو سورج کی روشنی سے چمکتا ہے جب کہ ہمارے دِل کاچاند فقط آفتاب نما مرشد کامل کے نُور سے منور ہوتاہے کیونکہ چہرۂ مرشد آفتاب سے روشن تر ہے-اگر وہ نہ ہوتو ہمارادِل بجھ جاتا ہے اوررُوح تاریک ہوجاتی ہے-
(۳)اے چاند! توفقط زمین کے آسمان کو تابندہ کرتاہے ہمارے مرشد کریم حضور غوث الاعظم ،پیرانِ پیر حضرت سیّد عبدالقادرجیلانی الحسنی والحسینی آسمان شریعت کے چاند ہیں یعنی وہ رحمۃ اللعالمین (ﷺ)کے چاند ہیں اوراُن کے رُوبرو تیری قدر نہ ہونے کے برابر ہے-آپ (قدس اللہ سرّہ)نے فرمایاکہ :خداکی قسم! آپ کا ثانی کوئی نہیں -کیا نا سوتی، کیاملکوتی،کیا جبروتی اور کیا لاہُوتی، سب آپ (قدس اللہ سرّہ)کے زیرِ قدم ہیں،آہا! کیسی عالیشان سُلطانی ہے آپ (قدس اللہ سرّہ)کی-حقیقت آپ (قدس اللہ سرّہ)سے روشن ہوئی، طریقت آپ (قدس اللہ سرّہ)سے گلشن بنی،آپ (قدس اللہ سرّہ)آسمانِ شریعت کے چاند اور نورانی خورشید ہیں، گلشن ِصوفیا کے سرو ہیں، بزمِ مصطفیٰ (ﷺ)کی شمع ہیں، حضرت علی ()کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے محبوب ہیں-اے دل! تُو اُن کا مرید ہو جا تا کہ تجھ پر اُن کا لطف و کرم مزید بڑھے اور تُودیکھے کہ وہ کتنے اوصافِ حمیدہ کے مالک ہیں-پہلے اپنی زبان کو آب ِکوثر سے دھو کر پاک کر لے اور پھر محی الدین قدس سرّہ العزیزکا نام لے-[7]
(۴)ہم نے تو اپنی پوری زندگی محبو بِ حقیقی کے وصال کی آرزومیں گزاردی اورطالبِ مولیٰ لقائے باری تعالیٰ کی اُمید آخری سانس تک برقراررکھتا ہے -اے خدا ! ہمیں ایک بار تو اپنے قرب کی تجلی سے سرفراز فرما-
[1](بالِ جبریل)
[2](عین الفقر:۱۳۵)
[3](عین الفقر،ص:۹۱)
[4](سرالاسرار:۱۹۲)
[5](سرالاسرار:۱۸۹)
[6](بالِ جبریل)
[7](کلیدالتوحید:۸۳)