وحانیت سے مراد ہے کہ انسان عبادت و ریاضت کے ذریعے پاکیزگی و طہارت کی اس منزل پر پہنچ جائے- جہاں اس کے ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی منور ہوجائے بطور اشرف المخلوقات انسان تمام مخلوقات بشمول فرشتے جنات وغیرہ سے برتر ہے لیکن یہ اصطلاح حقیقتاََ ان انسانوں کے لئے ہے جو اپنے دل کو ذکر اللہ کے ذریعے پاک کر کے روح کو بیدار کر لیتے ہیں اور ان کی زندگی کا محور و مقصد محض رضائے الہی ہوتا ہے-روحانیت تعویز گنڈوں ،عملیات یا دعاؤں کا نام نہیں بلکہ روح کی حقیقت سے آشنا ہو کر خالق حقیقی سے ظاہری و باطنی ربط قائم کرنا ہے-
روحانیت کا نظریہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام اور اپنی برگزیدہ ہستیوں یعنی انبیائے کرام کے ذریعے دیا-عالم انسانیت پر یہ واضح کردیا کہ تمھاری فلاح اسی میں ہے کہ تم مادیت کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی بھی حاصل کرو-آج اگر ہم شعوری طور پر معاشرے میں نظر ڈالیں تو یہ حقیقت ’’اظہر من الشمس‘‘ ہے کہ روحانیت کو پس پشت ڈال کر ایک مستحکم اور فلاحی معاشرہ کی بنیاد نہیں رکھ سکتے-
قرآن پاک کی روشنی میں روحانی نظریات:
اگر ہم قرآن پاک میں دیکھیں تو انسان کو شرف ہی روحانیت کی بدولت ملا-اس لئے تکمیل آدم کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ‘‘[1](الحجر:۲۹)
’’پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لا چکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا‘‘-
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے انسان کے اندر جو روح موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے آئی ہے یعنی روح اللہ تعالیٰ کا’’امر‘‘ ہے اور اس کی خوراک نور (ذکر الہیٰ) ہے جس کا اشارہ ہمیں قرآن مجید میں بھی ملتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں اٹھارہ(۱۸)ہزار عالم کی اروح کو پیدا فرمایا تو ارشاد فرمایا:
’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط قَالُوْا بَلٰی ج شَہِدْنَا‘‘[2](الاعراف:۱۷۲)
’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ (سب) بول اٹھے: کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے) ہم گواہی دیتے ہیں‘‘-
قابل غور بات ہے کہ عالمِ ارواح میں موجود ارواح کس چیز پر پل رہی تھیں ؟حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کے مطابق اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے روح کی خوراک اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیات کا مشاہدہ نصیب ہوجاتا ہے تو انسان کی روحانیت بیدار ہو جاتی ہے جس سے معرفت الہیٰ نصیب ہوجاتی ہے-کیونکہ معرفت کے لئے روحانی آگاہی ضروری ہے اس لئے اللہ رب العزت نے اپنے قرب کا پتہ دیتے ہوئےقرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہےکہ:
وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ‘‘[3](الذریٰت: ۲۱)
’’اور مَیں تمھارے اندر ہوں تم غور نہیں کرتے ‘‘
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے کہ:
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ [4](ق:۱۶)
’’اور ہم بندہ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘ -
اس لئے روحانیت کی ترقی بہت ضروری ہے کیونکہ روحانیت تذکیہ نفس کا سبب بنتی ہے اور تذکیہ نفس سے انسان کو فلاح نصیب ہوتی ہے –جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَاo وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا‘‘ [5](الشمس:۹-۱۰)
’’بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)-اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)‘‘-
اس لئے جب انسان کے اندر جذبہ روحانیت عروج پکڑتا ہے تو اسے حق الیقین کی دولت نصیب ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فر مایا:
’’وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ‘‘[6](الحجر:۹۹)
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو (آپکی شان کے لائق) مقامِ یقین مل جائے (یعنی انشراحِ کامل نصیب ہو جائے یا لمحۂِ وصالِ حق)o
یہاں موت سے مراد یہ نہیں کہ انسان ظاہری دنیا کو چھوڑ دیتا ہے یا اس کی روح تنِ خاکی سے پرواز کر جاتی ہے بلکہ اس سے مراد مرنے سے پہلے مرنا ہے یعنی انسان اپنی ذات کی گہرائیوں میں اتر کر اللہ کے انوار و تجلیات کا مشاہدہ کر لیتا ہے جو روحانیت کی معراج ہے -روحانیت کے ذریعے انسان کے اندر وہ فکر پیدا ہو تی ہے جس کے متعلق فرمان الہی ہے -
’’اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قف مَا خَلَقَ اﷲُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآئِ رَبِّہِمْ لَکٰفِرُوْنَ‘‘[7] (روم:۸)
’’کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا کہ اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو اور جوکچھ ان دونوں کے درمیان ہے پیدا نہیں فرمایا مگر (نظامِ) حق اور مقرّرہ مدت (کے دورانیے) کے ساتھ، اور بے شک بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے مُنکِر ہیں‘‘-
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
سَنُرِیْہِمْ اٰیٰـتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقّ‘‘[8] (حم السجدہ/فصلت:۵۳)
’’عنقریب دکھائیں گے ہم انہیں اپنی نشانیاں اطراف عالم میں اور خود ان کی ذات میں بھی جہاں تک ظاہر ہو جائے ان پر یہ کہ حق ہے‘‘-
پھر جب انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ روحانی تعلق قائم ہو جاتا ہے تو اللہ پاک اس کو ظلمات سے نکال کر نورکی طرف لے آتا ہے جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘[9] (البقرۃ:۲۵۷)
’’اللہ دوست ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے نکالتا ہے ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف‘‘-
حدیث مبارکہ کی روشنی میں روحانیت :
قرآن مجید کے بعد حضور رسالت مآب(ﷺ) کی سیرت طیبہ میں دیکھیں تو روحانیت کے وہ عالمگیر نظریات ملتے ہیں جنہوں نے نہ صرف عرب کے جاہلانہ معاشرے کو تبدیل کیا بلکہ اگرپورے انسانی معاشرے کا کوئی بھی فرد اپنا لے تو وہ اسے امن کی ضمانت فراہم کرتے ہیں-
انسانی وجود کے تین تقاضے ہیں ’’جسم، عقل اور روح‘‘،ان تینوں کے اعمال بھی الگ الگ صادر فرمائے گئے ہیں مثلاََ جسم کا عمل ظاہری عبادت ہے، عقل کا عمل علم ہے اور روح کا عمل احسان ہے -مرتبہ احسان سے مراد یہ ہے کہ روح اپنے اس مقام کو پالے جیسا کہ حضرت عمر فاروق ()سے مروی ہے جس کے متعلق حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’ اَلْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ ‘‘[10] (صحیح بخاری ،کتاب الایمان،ص:۸۴)
’’ مرتبہ احسان یہ ہے کہ اللہ پاک کی عبادت اس طرح کرو کہ تم اُسے دیکھ رہے ہو اگر یہ نہ ہو تو اتنا ضرور ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘-
اسی طرح دل کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے آقا پاک (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُاللّٰہِ تَعَالٰی‘‘[11] ( مشکوۃ المصابیح)
’’ہر چیز کو پاک کرنے کا ایک آلہ ہے اور دل کی صفائی کا آلہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ‘‘-
اسی طرح ذکر الہی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
’’اَلشَّیْطَانُ جَاثِمٌ عَلَی قَلْبِ اِبْنِ آدَمَ اِذَا ذَکَرَ اللہَ خَنَسَ وَاِذَا غَفَلَ وَ سْوَسَ‘‘[12] (جامع الاصول،من احادیث الرسول، جلد:۲،ص ۸۹۹)
’’شیطان ابن آدم کے دل کو قبضہ میں لے لیتا ہے اور جب آدمی اللہ کا ذکر کرتا ہے تو یہ جدا ہوتا ہے اور جب غافل ہوتا ہے تو وسوسے ڈالتا ہے‘‘ -
جب انسان کا دل روشن ہوتا ہے تو اسے عرفان ذات نصیب ہوجاتا ہے جس سے معرفت الہی نصیب ہوتی ہے اسی طرح مومن کے دل کو عرش الہٰی بھی کہا گیا ہے جیسا کہ رسول(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’ قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی ‘‘[13] (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الایمان،ج:۱،ص:120)
’’مومن کا دل اللہ کا عرش ہے‘‘-
ظاہری عبادت کا ثمر بھی تب ملتا ہے جب انسان کو معرفت الہی نصیب ہوجاتی ہے جیسا کہ آقا پاک (ﷺ) نے نماز کی حقیقت بیان کرتے ہوئے ارشا د فرمایا:
’’اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُوْمِنِیْنَ‘‘ [14] (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الایمان،ج:۱،ص:113)
’’نماز مومنین کی معراج ہے‘‘-
یعنی جس انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے تو اسےنماز میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوتی ہے- مزیددل (باطن) کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے آقا کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃٌ فِاذَ صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ ‘‘[15] (صحیح بخاری)
’’بے شک انسان کے جسم کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہوجاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے توسارا جسم خراب ہو جاتا ہے،خبردار وہ دل ہے‘‘-
یعنی دل جسے ہم محض خون کا ایک لوتھڑا سمجھتے ہیں اگر اس کی حقیقت تک رسائی حاصل کی جائے تو حدیث قدسی کے مطابق دل کی کائنات لا محدود ہے جس کی وسعت کاتصور ہی نہیں کیاجاسکتا -حدیث قدسی میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
’’لَا یَسَعُنِیْ اَرْضِیْ وَلَا سَمَآئِیْ وَلٰکِنْ یَّسَعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ ‘‘[16] (تفسیر روح البیان،ج:9، ص:163)
’’ میں آسمانوں اور زمین میں نہیں سماتا بلکہ بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں ‘‘
حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کے روحانی نظریات:
حضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ)کا شمار ان روحانی قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے فلسفۂ روحانیت کے تحت معاشرے میں انقلاب برپا کیا- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کے روحانی نظریات نہ صرف ایک عہد یا ایک خطہ ٔزمین تک محدود رہےبلکہ ان کی وسعت عالمگیر نوعیت کی ہے جو ہر عہد اور ہر سماج کے لئے ازحد ضروری ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تعلیمات و شاعری کے ذریعے ان نظریات کو عوام الناس تک پہنچایا جو آج بھی بنی نوع انسان کی بقاء کے لئے کارگر ثابت ہورہے ہیں-
مثلاًَ انسانی وجود کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اسے اپنا مکان قرار دیا اور انسان کو اس میں جھانکنے کا حکم دیا اور اس پر واضح کر دیا کہ میری ذات تیرے وجود کے اندر موجود ہے اسے باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں-مگر شرط یہ ہے کہ اپنے وجود کے اندر میری طلب پیدا کی جائے اور جب تیری ذات ذکر اللہ میں فنا ہوجائے گی تو تجھے راز الہی نصیب ہوگا جیسا کہ حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:
ایہہ تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ھو |
|
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو |
روحانیت کا تعلق انسان کے دل (باطن) سے ہے اس لئےحضرت سلطان باہو(قدس اللہ سرّہٗ) دل کی وسعت اور اس کی حقیقت کو اس طرح واضح فرماتے ہیں کہ:
دل دریا سمندروں ڈوگھے کون دلاں دیاں جانے ھو |
|
وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ موہانے ھو |
انسان کی سانسوں کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور دل کا تعلق روح کے ساتھ ہے جب وہ اپنے سانسوں کو ذکر الہی میں لگا لیتا ہے تو اس کا دل ذکر کرتا ہے، جب دل ذکر کرتا ہے تو اس کی روح ذکر کرتی ہے اور اسے روحانی آسودگی نصیب ہوتی ہے- اس کے بر عکس اگر انسان اللہ پاک کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے تو اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور ایسا دل خالق کائنات کا عرفان حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے حیات جاو دانی نصیب ہوتی ہے جیسا کہ حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ:
جو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہ پڑھایا ھو |
|
سنیاں سخن گیاں کھل اکھیں اساں چت مولا ول لایا ھو |
جو دل ہمہ وقت ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے وہ اللہ پاک کے انوارو تجلیات کا مرکز بن جاتا ہے ایسے دل سے معرفت الہٰی کی ایسی کرنیں پھوٹتی ہیں جن کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی اور اگر انسان روحانیت کے راستہ پر چلتے ہوئے رضائے الہٰی کی خاطر ثابت قدم رہے تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جہاں ’’مَن و تُو ‘‘کا فرق ختم ہو جاتا ہے اور رُوح جسم کو مکمل طور پہ اپنی لپیٹ میں لیکر اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے ، یعنی جسم رُوح کا آئینہ بن جاتا ہے–جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
جس دل اسم اللہ دا چمکے عشق بھی کر دا ہلے ہو |
|
بھار کستوری دے چھپدے ناہیں بھانویں دے رکھئے سئے پلے ھو
|
مٹا دیا میرے ساقی نے عالِم مَن و تُو پلا کے مجھ کو مئے لَا اِلٰہ اِلَّا ھُو[17] (بالِ جبریل) |
ظاہراًکسی مقام و مرتبہ تک پہنچنے کے لئے انتہائی تگ و دو کی ضرورت ہوتی ہے بعینہ خالق حقیقی تک رسائی کے لئے انسان کو عشق کی بازی لگانا پڑتی ہے- پھر انسان اپنا ذاتی نفع و نقصان نہیں دیکھتا بلکہ انسان اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر اپنا ’’تن، من ،دھن ‘‘رضائے الٰہی کی خاطر قربان کر دیتا ہے کیونکہ عاشق صادق وہی ہوتا ہے جو امام عالی مقام حضرت امام حسین (علیہ السلام)کی طرح اپنا سب کچھ راہ خدا میں نچھاور کردیتا ہے- تب جاکر اُسے لقائے الٰہی نصیب ہوتی ہے اور یہی عاشقوں کی منزل مقصود ہے جس شرح حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)نے یوں فرمائی ہےکہ:
یار یگانہ ملسی تینوں جے سردی بازی لائیں ھو |
|
عشق اللہ وچ ہو مستانہ ھو ھو سدا الائیں ھو |
حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی فارسی تصانیف میں بھی روحانی نظریات پیش کئے جن کا اطلاق اگر معاشرے میں ہو تو اس کے اندر استحکام قائم ہو جائے گا- اس نظرے کی وضاحت کے لیے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
جسم مادیت ہے اسم اللہ ذات روحانیت ہے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)جسم اور اسم اللہ ذات کے تعلق کو اس طرح واضح فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص تصور کے ذریعے اپنے جسم کو اسم اللہ ذات کے ساتھ اس طرح یکجا کر لیتا ہے کہ جس طرح سیاہی کاغذ کے ساتھ یکجا ہوجاتی ہے - تو وہ ولی اللہ کے اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے جس کی ابتداء وانتہا ایک ہوتی ہے‘‘-[18] (نور الہدیٰ،ص:۱۵۷)
آپ(قدس اللہ سرّہٗ)علم کے بارے میں اپنا نظریہ اس طرح پیش فرماتے ہیں :
’’علم دو قسم کا ہے ایک رسمی ورواجی ظاہری علم ہے جو زبان سے پڑھا جاتا ہے اور دوسرا علم حی و قیوم ہے جو کہیں لکھا ہوا نہیں ہے اس کا مطالعہ تصور سے کیا جاتا ہے‘‘-[19] (نورالہدیٰ ،ص: ۲۱۵)
جب انسان اپنی روحانیت کو اجاگر کر لیتا ہے تو اس کی روح کا ارتقائی سفر شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ:
’’ اس کا نفس قلب بن جاتا ہے قلب روح کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور روح سر بن جاتا ہے اور سر خفی بن جاتا ہے، خفی انا میں تبدیل ہوجاتی ہے اور انا مخفی میں ڈھل جاتی ہے اسے توحید مطلق کہتے ہیں یہاں پر پہنچ کر ابتدا ء،انتہا ءبن جاتی ہے کہ ابتدا ءنور توحید ہے جس سے نور محمدی (ﷺ) پیدا ہوا نور محمدی (ﷺ) سے روح پیدا ہوئی اور روح سے نو ر روشنائی اسم، جسم، قلب، نفس، قالب، مطلب، مطالب اور وجود اربعہ عناصر پیدا ہوئے‘‘-[20] ( عین الفقر ،ص: ۱۰۷)
حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)کے افکار کے مطابق اصل انسان وہ ہے جو مادیت کے اوپر روحانیت کو غالب کر لیتا ہے- اس طریق کی وضاحت آپ(قدس اللہ سرّہٗ) یوں فرماتے ہیں کہ:
’’جب تصور کی کثرت سے اسم اللہ ذات صاحب تصور کے قلب و قالب پر غالب آتا ہے تو خساست و نفسانیت کی ساری کثافت اس کے جامہ کثیف اربعہ عناصر سے دور ہو جاتی ہے اور اس کے وجود میں روحانیت کے خصائل حمیدہ پیدا و ہو یدا ہو جاتے ہیں‘‘-[21] (اسرارالقادری،ص:۴۵)
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)کے روحانی نظریات قرآن و سنت کی واضح دلیل ہیں کہ معاشرے میں مادیت عروج پر پہنچ چکی ہے جبکہ روحانی قدریں پامال ہو رہی ہیں -مادی ترقی میں ہم اوج ثریا پر پہنچ چکے ہیں لیکن روحانی طور پرشاید ’’اسفل السافلین ‘‘سے بھی نچلے درجے میں گر چکے ہیں -اگر روحانی پہلو کو ترک کر دیں گے تو ہمارے معاشرے کی بھی وہی حالت ہو جائے گی جو قبل از اسلام عرب معاشرے کی تھی- اس لئےہم پر لازم ہے کہ اعتدال کی فضا قائم کی جائے تاکہ امن و سکون کا دور دور ہ ہو-اس لئےآج! حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)کے آستانہ عالیہ سے جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب مدظلہ القدس اسی عالم گیر پیغام کی ترویج و اشاعت کے لئے عملی طور پر برسریپکار ہیں-
٭٭٭