حضورعلیہ الصلوٰة والسلام کا فرمان ہے:-’’ جس نے اپنے نفس کو پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچانا، جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا‘‘-پس عالمِ نفس و عالمِ قلب و روح کو ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی کہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں- حق شناس مرشد ِکامل اِن میں سے ہر ایک کو ایک ہی نظرسے شناخت کر لیتا ہے جس طرح کہ صراف سونے و چاندی کو شناخت کر لیتا ہے- مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ طالب اللہ کو پہلے ہی روز اپنی توجہ سے جمعیت ِکل و جز کے اِن مراتب تک ضرور پہنچائے تاکہ طالب کا وجود سر سے قدم تک نور ہو جائے اور وہ حضورِ حق سے سوال و جواب کر سکے-
ابیات :-(1)’’علم اگر قربِ الٰہی کی خاطر پڑھا جائے تو لقائے حق سے مشرف کرتا ہے اور اگر حصولِ دنیا کی خاطر پڑھا جائے تو قربِ خدا سے دُور کردیتا ہے‘‘-
(2) ’’علمِ دنیا فتنہ ہے جو ورثہ فرعون ِلعین ہے، سود مند علم وہ ہے کہ جس سے معرفت ِحق الیقین حاصل ہو‘‘-(3)’’ جو آدمی علم کو محض اجر و ثواب کی خاطر پڑھتا ہے علم اُسے عامل کا خطاب دیتا ہے‘‘-(4) ’’جس نے علم کو خوشنودی مصطفےٰ علیہ الصلوٰةُ و السلام کی خاطر پڑھا وہ اسرارِ الٰہی سے واقف ہو گیا‘‘-
جمعیت تین قسم کی ہے:- جمعیت ِنفس، جمعیت ِقلب و جمعیت ِروح- روح کی جمعیت مشاہدہ معراج کی لذت سے ہے،قلب کی جمعیت قرب ِخدا کی لذت سے ہے اور نفس کی جمعیت ہوائے شہوت کی لذت سے ہے - یہ تینوں جمعیتیں طالب اللہ کے لئے پشتی (پشت پر حفاظتی ڈھال ) کی مثل ہیں جیسے کشتی کی جمعیت آبِ دریا کی پشتی سے ہے یا جیسے مچھلی کی جمعیت آب ِدریا کی پشتی سے ہے- نفس کو جمعیت علمِ اکسیر وعلمِ تکسیرو سنگ ِپارس کی بازیابی و سونے چاندی کی ذخیرہ اندوزی اور تمام دنیا کے تصرف کے لئے مراقبہ کشی سے حاصل ہو تی ہے-تمام دنیا کے تصرف کی جمعیت محض نفس کی بازی گری اور لذاتِ ہوا و ہوس کا استدراج ہے- قلب کو جمعیت تاثیرِ تصورِ اسم اللہ ذات کی غنایت سے حاصل ہوتی ہے جو اُسے لا یحتاج کرتی ہے اور روح کو جمعیت ہدایت ِمشاہدہ قرب اللہ دیدارِ پروردگارِ دوام معراج سے حاصل ہوتی ہے- نفس ہمیشہ استدراج کا طلب گار ہے، قلب ہمیشہ غنایت ِلایحتاج کا طلب گار ہے اور روح ہمیشہ معراجِ دیدار کی طلب گار ہے- مرشد ِکامل اِن تینوں کو یعنی نفس و قلب و روح کو حاضراتِ اسم اللہ ذات کی تلقین اور حاضراتِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدالرَّسُولُ اللہ کی تعلیم سے ایک ہی قدم پر اور ایک ہی دم میں جمعیت ِکل و جز بخش کر طالب کو ہر حال دکھاتا ہے جس سے وہ مرید ِلا یرید بن جاتا ہے-اِس کے بعدنفس قلب کی صفات اختیار کر لیتا ہے اور قلب روح کی خصلت اختیار کر لیتا ہے - اِس طرح جب نفس و قلب و روح کو جمعیت ِنورِ توحید ِمطلق حاصل ہو جاتی ہے تو طالب دائمی طور پر مراتب ِقرب اللہ دیدار کی حضوری سے مشرف ہو جاتا ہے-
یادرہے کہ ہر ایک تصرفِ گنج کا مرتبہ حاصل کرنا اور مشرفِ دیدارہونا آسان ہے مگر وجود میں حوصلہ وسیع رکھنا اور صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے بچ کر لازوال ہونا بہت مشکل و دشوار کام ہے-پانی پیاسا پیتاہے، کھانا بھوکا کھاتاہے، سرکوفداعاشق کرتا ہے اور طلب ِمولیٰ کا بھوکا اپنے جگر کا خون کھاتاہے، طلب ِمولیٰ کا پیاسا دریائے معرفت پیتا ہے کہ وہ عاشق ِدیدار ہوتاہے-اُس کے لئے دنیا و عقبیٰ کی طرف متوجہ ہونا بہت دشوار ہوتاہے-
ابیات-: (1)’’ اگر کوئی یہ کہے کہ مَیں نے اُسے دیکھا ہے تو یہ دیدارنہیں کہ دیدار کے بعد مخلوق کو دیکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی‘‘-(2) ’’ جو اُسے دیکھ لیتاہے وہ ہر وقت اُس کی دید میں غرق رہتاہے اور اُس کے وجود سے ہر تصرف کا ظہور ہوتارہتا ہے‘‘-(3) ’’ وہ تمام خزائن ِالٰہی کا مالک ہوجاتاہے، ہر تصرف اُس کے حکم و عمل میں آ جاتا ہے اور وہ حکمِ ’’قُمْ‘‘سے مردوں کو زندہ کر سکتاہے‘‘-(4) ’’ جو اُسے دیکھ لیتاوہ صاحب ِ لقا ہو جاتاہے، اُس کا قلب سلیم اوروجود اہل ِکرم و باحیا ہوجاتاہے‘‘-
تُو اِس راز سے آگاہ و دانا بن -
ابیات-:(1) ’’ مَیں اُسے کیوں نہ دیکھوں کہ وہ مجھے اپنا آپ دکھاتاہے ، مَیں نے اُسی کے لقا سے صفات ِوحدت کو پایاہے‘‘-(2) ’’ مَیں جسم و جان سے مجلس ِمصطفی علیہ الصلوٰۃُ و السلام میں حاضر رہتاہوں اِس لئے مجھے اور کوئی حاجت نہیں ہے‘‘-
مَیں نے اِن تمام کبیرواکبر و عظیم مراتب کی ہر چھوٹی بڑی سعادت شریعت سے حاصل کی ہے اور شریعت ہی کو مَیں نے اپنا پیشوابنایاہے- طالب اللہ مبتدی ہو یا منتہی اُس پر لازم ہے کہ وہ صبح و شام ہر وقت شریعت کو مدِّنظر رکھے- شریعت اُسے جو حکم دے وہ اُسے بجالائے کہ شریعت حق ہے اور جس بات سے شریعت منع کرے وہ اُسے چھوڑ دے کہ وہ باطل ہے اور بدعت و باطل سے ہزار بار استغفار کرے-شریعت کیا چیزہے اور شریعت کسے کہتے ہیں؟ شریعت قرآن ہے اور سارا قرآن باطن میں اسم اللہ ذات ہے جو موافق ِرحمن اور مخالف ِدنیا و نفس ِامارہ و شیطان ہے-مرشد پر سب سے پہلے فرضِ عین ہے کہ وہ طالب اللہ کو تین مراتب ِجمعیت بخشے یعنی جمعیت ِنفس و جمعیت ِقلب و جمعیت ِروح- جب یہ تین قسم کی جمعیت طالب اللہ کے وجود میں جمع ہو کر قرار پکڑلے اور اُسے کل وجز جمعیت حاصل ہو جائے تو مرشد کے لئے مناسب ہے کہ وہ طالب اللہ کو دست بیعت کر کے ارشادِ تلقین کرے اور اُسے مشاہدۂ حضوروقرب اللہ دیدار کی معرفت بخش دے-اگر وہ یہ عنایت کردے تو سمجھ لو کہ وہ ایک جمعیت بخش مرشد ِکامل ہے - جمعیت تین طرح کی ہے، نفس کی جمعیت یہ ہے کہ مرشد طالب کو دنیا میں موجود تمام خزائن ِالٰہی کا تصرف بخش دے-قلب کی جمعیت یہ ہے کہ طالب اللہ تمام خزائن ِدنیا کو ایک ہی قدم پر اور ایک ہی دم میں فی سبیل اللہ خرچ کردے اوراُس کے دل میں کوئی افسوس و غم پیدانہ ہو- جمعیت ِروح یہ ہے کہ طالب دیدارِپروردگارسے مشرف ہو جائے اور اُسے مشاہدۂ دوام حاصل ہو جائے اور وہ تصور و تصرف و توجہ کے ذریعے موت و حیات کے دونوں مراتب حاصل کرلے-اِس کے بعد جب طالب کا دل غنایت سے بھرجائے تو وہ دست بیعت و تلقین ِہدایت کے لائق ہو جاتاہے اور اُس کا نفس حکایت ِشکایت سے رک جاتاہے- اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس-اے عزیز ! عجیب احمق و بے حیا لوگ ہیں وہ جو رات دن حُبّ ِدنیا میں پریشان ہو کر بے جمعیت سائل گداہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم باطن صفا مرشد ہیں- مرشد ِکامل وہ ہے جو اگر کسی پر التفات کرے تو اُسے بے شمار خزانے بخش دے اور اُسے سیم و زر بنانے کا علمِ کیمیائے اکسیر عطاکردے- اِس کے بعد اُسے نظر و توجہ سے قرب اللہ حضوری کے مراتب بخش دے- جو مرشد طالب اللہ کو پہلے ہی روز علمِ معرفت ِتوحید و مشاہدۂ دیدارکا سبق پڑھا سکتاہے اُسے مشقت ِذکر مذکور کی کیا حاجت ہے؟اور اُسے کیا ضرورت ہے ورد وظائف و مراقبہ کی - اہل ِدیدارعارف کی آنکھیں ہر وقت مشاہدۂ دیدارمیں پیوست رہتی ہیں، اُس کا دل بھی مشاہدۂ دیدار میں مشغول رہتاہے، اُس کی روح بھی مشاہدۂ دیدارمیں غرق رہتی ہے اور وہ نگاہِ عیان سے بے حجاب مشاہدۂ دیدار کر کے غرق فنا فی اللہ رہتا ہے-اہل ِدیدار کا الہام بھی مشاہدۂ دیدارسے ہوتاہے، اُس کی نگاہ بھی مشاہدۂ دیدرار پر مرکوز ہوتی ہے، اُس کی دلیل بھی مشاہدۂ دیدارسے ہوتی ہے،سلطان الوہم بھی مشاہدۂ دیدار سے ہوتاہے، جمعیت ِکل غنایت بھی مشاہدۂ دیدار سے ہوتی ہے، اور ہدایت بھی مشاہدۂ دیدارسے ہوتی ہے- پہلے دیدارہے پھر اعتبار ہے- پہلے مشاہدۂ حضورہے اور بعد میں لقائے غرق فی التوحید نورہے-
بیت -:’’ اِس فقیر(باھُو) کولقائے حق و فیض و فضل ِحق کے جملہ مراتب روزِ ازل سے حاصل ہیں‘‘-
یہ راہِ رحمت آثار تلقین ِدیدارسے حاصل ہوتی -
ابیات-:(1) ’’ مجھے تمام مراتب کی انتہائی تحقیق حاصل ہے اور کل و جز ہر طریقہ کی انتہا میری نظر میں ہے‘‘-
(2) ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تلقین فرما کر اِس قابل بنا دیا ہے کہ مَیں طالبانِ حق کو بارگاہِ حضورمیں پہنچا سکتا ہوں‘‘-
دیدارکے یہ مراتب نمازِ شریعت یعنی نمازِ زبان ، نمازِ طریقت یعنی نماز ِقلب ، نمازِ حقیقت یعنی نمازِ روح اور نمازِ سرّیعنی باعیان نماز سے حاصل ہوتے ہیں کہ جب چشمِ راز کھل جا تی ہے اور بندہ بے سر ہو کر سجدہ کرتاہے تو قرب اللہ دیدار کی حضوری سے مشرف ہو جاتاہے-
بیت -:’’ نماز وہ ہے کہ سر سجدہ میں جائے تو خدانظر آئے- جس سجدہ میں خدا نظر نہ آئے وہ سجدہ کہاں رواہے؟ ‘‘
خواص کی نمازمشرف بدیدار ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے روبرو ہو کر دائم سجود ِراز کرتے ہیں جب کہ عوام کی نماز محض رسم رسوم بہ سجدۂ آوازہوتی ہے- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے -:ــ’’ جو آدمی فرضِ دائمی ادا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اُس کا وقتی فرض قبول نہیں کرتا‘‘-
بیت -:’’بے نماز لوگوں پر دائم لعنت برستی ہے ورنہ نماز میں ہردم لقائے وحدت نصیب ہوتاہے‘‘-
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے -:’’ نماز مومنوں کی معراج ہے‘‘- فقیرِ کامل مرشد طالب اللہ کو ہر گنج و ہر تصرف وہر تصوروہر تفکر وہر توجہ و ہر حکمت وہر علم وہر مقامِ ذات وصفات اور کل و جز ہر قسم کی مخلوقِ خداوندی و تماشائے ازل و تماشائے ابد و تماشائے عقبیٰ، تماشائے عرش تا تحت الثریٰ و ما ہ تا ماہی قدرتِ سرّ اسرارِ الٰہی ، علمِ غیب آگاہی، علمِ توفیق، علمِ تحقیق، علمِ صدیق، علمِ تصدیق، علمِ عیان، علمِ لقائے لا مکان، علمِ لاھُوت علمِ جبروت، علمِ ملکوت، علمِ ناسوت، علمِ معرفت، علمِ شریعت، علمِ طریقت، علمِ حقیقت، علمِ حق، علمِ باطل، علمِ فقہ، علمِ نص وحدیث، علمِ تفسیر، علمِ روشن ضمیر، علمِ با تاثیر، علمِ جملہ کیمیائے اکسیر، علمِ سنگ ِپارس، علمِ سنگ ِشفا، علمِ نظر، علمِ طلب ، علمِ محبت، علمِ جمعیت، علمِ جامع، علمِ تلقین، علمِ راسخ دین، علمِ حیا، علمِ ادب، علمِ راز، علمِ کلید، علمِ قفل، علمِ نصاب، علمِ دورمدور، علمِ بذل، علمِ وقت، علمِ نحس، علمِ سعد، علمِ سعید، علمِ تجرید، علمِ تفرید، علمِ ترک، علمِ توکل، علمِ الہام ، علمِ مجاہدہ اور اِسی طرح کے دیگر جملہ علوم کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حروف سے کھول کر دکھادیتا ہے کہ کلمہ طیب کا ہر حرف بارگاہِ حق سے برحق ہے اور حقیقت ِحق بخشنے والاہے- مرشد ِکامل اِس قسم کے علوم بخش کرطالب اللہ کو دنیا و آخرت میں لایحتاج کردیتاہے- جوآدمی پہلے ہی روز کنۂ کلمہ طیب کا سبق پڑھ کر اسمِ اعظم کو کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے تلاش کر لیتاہے وہ اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات کا امیر بن جاتاہے- اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوق جزہے اور تمام مخلوق کا امیر کل ہے-جز محتاج ہے کل کی اور کل کسی کا محتاج نہیں، کل لا یحتاج ہے-مرشد ِکامل طالب ِصادق کو علمِ جز کی تعلیم اور علمِ کل کی تلقین بخشتاہے- علمِ جز توفیق ہے اور علمِ کل تحقیق ہے جو رفیقِ حق ہے- جو طالب اللہ مرشد ِجامع سے پہلے ہی روز کل و جزعلم کا سبق پڑھ لیتاہے وہ کل و جز تماشے و مجاہدے وتصرف پر قادر ہوجاتاہے اور دونوں جہان کے خزائن ِکیمیا کو قوتِ تصورسے اپنی قیدوقبضے و تصرف میں لے آتاہے - وہ ہر عمل میں عامل اور ہر تصرف میں کامل ہو جاتاہے-
جو طالب ابتدا ہی میں تعلیم وتلقین ِعلمِ کل و جز حاصل کرلیتاہے اُسے عمر بھر علم وریاضت و مجاہدہ و حکمت کی حاجت نہیں رہتی- اِسے مراتب جمعیت کہتے ہیں- جمعیت کا یہ منصب مرشد ِجامع سے نصیب ہوتاہے-نیز اِسے بھی مرتبۂ جمعیت کہتے ہیں کہ طالب جملہ کل و جز کے لکھے ہوئے دفاتر ِحساب و جملہ رسم رسومِ مخلوقاتِ حیُّ قیوم کو ایک ہی حرفِ طاعت کی طے میں لا کر اُن کا تماشا ہاتھ کی ہتھیلی یا پشت ِ ناخن پر دیکھے اور دونوں جہان کو اپنے ہاتھ کی مٹھی میں قبض کرلے-اِسے بھی جمعیت کہتے ہیں کہ بندہ معرفت ِاللہ ذات کے نور سے اپنے وجود کو تمام خطرات سے پاک کر دے-یہ بھی مرتبۂ جمعیت ہے کہ مرشد طالبوں کے وجود سے بیماری و زحمت و امراض کو شرفِ لقائے دیدار و معراجِ مشاہدۂ دوام کی دواوداروئے معالجہ سے شفابخشے اوراُنھیں لا یحتاج و بے غم ولا رجعت ولا غلط و لاسلب و لازوال کرکے معرفت ِقرب اللہ وصال کی حضوری بخشے- مراتب ِجمعیت عظیم ہیں- علم و حکمت و سلک سلوک جمعیت ہے، توفیق جمعیت ہے، اقرارو تصدیق جمعیت ہے، عطائے گنج جمعیت ہے، قال و حال جمعیت ہے، تصورو تصرف جمعیت ہے، ترک و توکل جمعیت ہے،غنایت ِہدایت جمعیت ہے ، طریقہ ٔ قادریہ کا عارف ِکامل صاحب ِنظروصاحب ِصفت ِمحمدی محمود، حق بردارو شکر گزارہی دوام مشرفِ دیدارِ پروردگارہوتاہے- اگر کسی اورطریقے یا خانوادے کا کوئی طالب مریداِن مراتب کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا اور لاف زن ہے -محض علمِ ظاہر پڑھنے والا عالم خسارے میں رہتاہے-تین علوم کے اندرتین عالم ہوتے ہیں؟ عالمِ نفس، عالمِ قلب و عالمِ روح- جب کسی کے وجود میں نفس وزبان ایک ہو جائیں تو وہ عالمِ نفسانی بن کر کبر وہوا کا پتلا بن جاتا ہے - جب کسی کے وجود میں زبان وقلب ایک ہو جائیں تو وہ عالمِ قلب بن کر قربِ خدا کوپالیتاہے اور جب کسی کے وجود میں زبان و روح ایک ہو جائیں تو وہ عالمِ روح بن کرہردم مشرفِ لقا رہتاہے-حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-:’’ جس نے اپنے نفس کو پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچانا، جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا‘‘-پس عالمِ نفس و عالمِ قلب وروح کو ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی کہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں- حق شناس مرشد ِکامل اِن میں سے ہر ایک کو ایک ہی نظرسے شناخت کرلیتاہے جس طرح کہ صراف سونے و چاندی کو شناخت کرلیتا ہے - مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ طالب اللہ کو پہلے ہی روز اپنی توجہ سے جمعیت ِکل و جز کے اِن مراتب تک ضرور پہنچائے تاکہ طالب کا وجود سر سے قدم تک نور ہو جائے اور وہ حضورِ حق سے سوال و جواب کر سکے-
ابیات -:(1)’’ علم اگر قربِ الٰہی کی خاطر پڑھا جائے تو لقائے حق سے مشرف کرتاہے اور اگر حصولِ دنیا کی خاطر پڑھا جائے تو قربِ خدا سے دُورکردیتا ہے‘‘-(2)ــ ’’ علمِ دنیا فتنہ ہے جو ورثۂ فرعون ِلعین ہے، سود مند علم وہ ہے کہ جس سے معرفت ِحق الیقین حاصل ہو‘‘-(3)’’ جو آدمی علم کو محض اجر و ثواب کی خاطر پڑھتا ہے علم اُسے عامل کا خطاب دیتا ہے‘‘-(4) ’’ جس نے علم کو خوشنودی ٔ مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃُ و السلام کی خاطر پڑھا وہ اسرارِ الٰہی سے واقف ہو گیا‘‘-
جمعیت تین قسم کی ہے:جمعیت ِنفس، جمعیت ِقلب و جمعیت ِروح- روح کی جمعیت مشاہدۂ معراج کی لذت سے ہے،قلب کی جمعیت قرب ِخدا کی لذت سے ہے اور نفس کی جمعیت ہوائے شہوت کی لذت سے ہے - یہ تینوں جمعیتیں طالب اللہ کے لئے پشتی (پشت پر حفاظتی ڈھال ) کی مثل ہیں جیسے کشتی کی جمعیت آبِ دریا کی پشتی سے ہے یا جیسے مچھلی کی جمعیت آب ِدریا کی پشتی سے ہے- نفس کو جمعیت علمِ اکسیر وعلمِ تکسیرو سنگ ِپارس کی بازیابی و سونے چاندی کی ذخیرہ اندوزی اور تمام دنیا کے تصرف کے لئے مراقبہ کشی سے حاصل ہو تی ہے-تمام دنیا کے تصرف کی جمعیت محض نفس کی بازی گری اور لذاتِ ہواو ہوس کا استدراج ہے- قلب کو جمعیت تاثیرِ تصورِ اسم اللہ ذات کی غنایت سے حاصل ہوتی ہے جو اُسے لا یحتاج کرتی ہے اور روح کو جمعیت ہدایت ِمشاہدۂ قرب اللہ دیدارِ پروردگارِ دوام معراج سے حاصل ہوتی ہے - نفس ہمیشہ استدراج کا طلب گار ہے، قلب ہمیشہ غنایت ِلایحتاج کا طلب گار ہے اور روح ہمیشہ معراجِ دیدار کی طلب گارہے- مرشد ِکامل اِن تینوں کو یعنی نفس و قلب و روح کو حاضراتِ اسم اللہ ذات کی تلقین اور حاضراتِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تعلیم سے ایک ہی قدم پر اور ایک ہی دم میں جمعیت ِکل و جز بخش کر طالب کو ہر حال دکھا تاہے جس سے وہ مرید ِلایریدبن جا تا ہے-اِس کے بعدنفس قلب کی صفات اختیار کر لیتاہے اور قلب روح کی خصلت اختیار کر لیتا ہے - اِس طرح جب نفس و قلب و روح کو جمعیت ِنورِ توحید ِمطلق حاصل ہو جاتی ہے تو طالب دائمی طورپر مراتب ِقرب اللہ دیدارکی حضوری سے مشرف ہو جا تاہے-
ابیات -:(1)ــ ’’ دیدار کے سات علم اور سات راستے ہیں جنھیں اختیار کر کے ایک ہی ہفتہ میں وحدتِ اِلٰہ تک پہنچا جا سکتا ہے‘‘-
(2)ــ ’’ اِن سات علوم کو سات قسم کی آیات سے یاد کرلے تاکہ تُومحرمِ خدا بن کر رازِ کن کو پالے‘‘-
وہ سات قسم کی آیاتِ قرآن یہ ہیں : آیاتِ وعدہ، آیاتِ وعید، آیاتِ امرمعروف، آیاتِ نہی عن المنکر، آیاتِ قصص الانبیا ٔ، آیاتِ منسوخ اور آیاتِ ناسخ- ہر مرتبہ شریعت سے نکلتا ہے اور شریعت ہی میں واپس آتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-:’’ انتہا ابتدا کی طرف لوٹ آنے کا نام ہے‘‘-شریعت قرآن ہے، طریقت قرآن میں بیان ہے، حقیقت قرآن سے عین بخش عیان ہے اورمعرفت قرآن سے بخشش ِجمعیت ِجاودان ہے- قرآن کاہر مرتبہ وہر مقام قربِ معرفت و مشرفِ دیدارِ رحمن پر دلالت کرتاہے-کوئی علم، کوئی حکمت اور کوئی تصرف قرآن سے باہر نہیں ہے اور نہ ہو گا-علمائے مردہ دل اورزندہ دل فقیر میں کیا فرق ہے؟جو علما ٔتصورِ اسم اللہ ذات اور تصورِاسمِ محمد سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ناواقف ہیں وہ نادان بچے ہیں لیکن جو فقیر تصورِ اسم اللہ ذات میں عامل اور تصرفِ اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں کامل ہے وہ دنیا وآخرت میں لا یحتاج رہتا ہے- تمام علم تصرفِ اسمِ اللہ ذات میں قید ہے مگر اسمِ اللہ ذات علم کی قیدمیں نہیں ہے کہ اسم اللہ ذات نفس کو نیست و نابود کر کے اللہ تعالیٰ کی دائم حضوری میں پہنچاتاہے‘‘-فرمانِ حق تعالیٰ ہے-:’’ غیب کی چابیوں کو اُس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا -خشکی اور تری کی ہر چیز کو وہ جانتا ہے ، ہر گرنے والے پتے اور زمین کے اندر والے ہردانے کو وہ جانتا ہے -کوئی چھوٹی بڑی ایسی چیز نہیں جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو‘‘- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے -: ’’ بے شک قرآن خَلقِ خدا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے‘‘-
(جاری ہے)