دونوں جہان کو یک دم اپنی قید و قبضے و حکم میں لے آنا آسان ہے لیکن نفس سے خلاصی پانا نہایت ہی مشکل و دشوار کام ہے -ہاں مگر تصور و تصرف ِاسم اللہ ذات ، با ترتیب مطالعۂ آیاتِ قرآن مجید اور کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘کو کنۂ کُنْ سے پڑھا جائے تو یہ کام آسان بھی ہے -
ابیات :- (1) ’’ کچھ نہ تھا ، کوئی بھی نہ تھا، مَیں تھا، مَیں بس خدا کے ساتھ تھا‘‘ - (2) ’’ مجھے آئینۂ عین نما میں اُس کا دائم دیدار حاصل تھا جس سے مجھے دائم بقا حاصل ہوئی اور یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہوا‘‘- (3) ’’میرے وجود کا ہر بال صاحب ِمعرفت عارف ہے ، جو یہ اوصاف حاصل کر لے اُسے ذکر اذکار کی حاجت نہیں رہتی ‘‘-(4) ’’ تُو نے باھُو کو نام و تن کے پردے میں بد نام کر دیا حالانکہ میرا تن لامکان کا پُر امن لازوال ملک ہے ‘‘-
جس کا وجود انوارِ نور الحق میں پک کر نور ہوجائے اُسے معرفت ِمشاہدۂ دیدارِ پروردگار کی معراج حاصل ہو جاتی ہے- ایسا پُر اسرار جثۂ نور دنیا میں قبر سے باہر آکر بچشمِ سرلوگوں سے ملاقات کرتا ہے ، اُن سے ہم صحبت و ہم کلام ہوتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی نظر میں دائم منظور ہو کر ظاہر باطن میں مشرفِ دیدار رہتا ہے اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں دائم حضور ہو کر جملہ انبیا ٔو اولیا ٔاللہ کی اروح سے ملاقات کرتا ہے- تُو اِن امورِ غیب میں عیب مت نکال ،اِن پر تعجب مت کر اور نہ ہی اِن میں عیب جوئی کر-ایسا نہ ہو کہ تیرا شمار قومِ کفار اہل ِزنار لائق ِجہنم نار میں ہو جائے - تُو اِس سے ہزار بار استغفار کر- حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :-’’ خبردار! بے شک اولیائے اللہ مرتے نہیں ہیں‘‘- عالم و عالم باللہ فقیر میں یہ فرق ہے کہ عالم کا نام علما ءہے اور فقیر کا نام اولیا ء ہے - عالم کا نام عامل ہے اور فقیر کا نام کامل ہے -عالم کا نام موت ہے اور فقیر کا نام حیات ہے -جو علم کا عالم ہے وہ مسائل ِفقہ اور قرآن و حدیث کی تفسیر بیان کرتا ہے اور فقیر قرب اللہ کی حضوری مشروحاً دکھاتا ہے-بیان کرنے والے اور دکھانے والے کو ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی جس طرح کہ مست کو ہوشیار کی اور اہل ِخواب کو بیدار کی مجلس راس نہیں آتی-اِسے یاد رکھنا چاہیے -
ابیات:- (1) ’’ مَیں خدا کی رضا جوئی کے لئے نفس کو رسوا کرتا ہوں اور اِس غرض سے ہر دروازے پر بھیک مانگنے جاتا ہوں‘‘-
(2)’’ مَیں تصرف میں عامل اور فقر میں کامل ہوں ، مَیں ہر خاص و عام سے کوئی غرض نہیں رکھتا‘‘ -
یاد رکھ کہ چور دغا باز فتنہ انگیز و زیان گیر بھی فقیر ہو تا ہے اور صاحب ِتصرفِ کیمیائے اکسیر ، تاثیر بخش صاحب ِگنجِ خزائن اللہ ولی اللہ اولیا ءاللہ روشن ضمیر دونوں جہان کا عالم گیر امیر بھی فقیر ہو تا ہے - اِن دونوں میں سے جھوٹا فقیراور سچا فقیر کون سا ہے؟ اور اِن دونوں کی پہچان کس عمل ، کس علم ، کس حکمت ، کس بات اور کل و جز کے کس معمے سے ہو سکتی ہے ؟ ناقص بڑے دھڑلے سے قصہ خوانی و افسانہ طرازی کر کے وقت کو آج اور کل کے وعدوں پر ٹالتا رہتا ہے اور کامل پہلے ہی روز نظر و توجہ سے مشاہدہ بخش کر طالب کا ہر مطلب پورا کر دیتا ہے -
بیت:- ’’ نامرد مرشد عورت کی مثل ناقص ہوتا ہے ، وہ بے حیا طالبوں سے مال و زر بٹورتا رہتا ہے ‘‘-
مرشد ِکامل تصورِ اسم اللہ ذات سے علمِ عین کھول کر طالب اللہ کو عین بعین مشاہدہ کراتا ہے اور مرشد ِناقص طالب اللہ کو ذکر فکر مراقبہ اور وِرد وظائف میں مشغول کر کے خراب و خوار کرتا ہے- مرشد ِکامل طالب اللہ کو پہلے ہی روز دیدارِ پروردگار سے مشرف کرتا ہے -
بیت:- ’’ اِس عطائے مرشد سے طالب اللہ راہِ دیدار کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں دیکھتا ، یہ رابعہ بصری و بایزید بسطامیؒ کے مراتب ہیں ‘‘-
مراتب ِذکر زوال ہے ، مراتب ِفکر خام خیال ہے ، مراتب ِمراقبہ مبتدی احوال ہے ، مراتب ِالہام ناتمام ہے اور مراتب ِمذکور نا منظور ہے-
ابیات :- (1) ’’ اے طالب مرشد سے مرتبۂ دیدار حاصل کر تاکہ تیری آنکھیں دیدار میں محو ہو کر رازِ کن حاصل کر سکیں‘‘-
(2) ’’ ذکر فکر کی ریاضت تجھے خراب کرے گی کہ اِس قسم کے ذاکروں کو لقائے وحدت کی کوئی خبر نہیں ہوتی ‘‘-
فقیرِ کامل چند صفات سے متصف ہوتا ہے،اوّل یہ کہ وہ نفس کے حق میں بخیل،طالبوں کے حق میں خلیل، دائم مشرفِ دیدارِ ربِّ جلیل اور قرب اللہ حضوری میں حیُّ القلب صاحب ِوہم و دلیل ہوتا ہے -
(---جاری ہے---)
دونوں جہان کو یک دم اپنی قید و قبضے و حکم میں لے آنا آسان ہے لیکن نفس سے خلاصی پانا نہایت ہی مشکل و دشوار کام ہے -ہاں مگر تصور و تصرف ِاسم اللہ ذات ، با ترتیب مطالعۂ آیاتِ قرآن مجید اور کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘کو کنۂ کُنْ سے پڑھا جائے تو یہ کام آسان بھی ہے -
ابیات :- (1) ’’ کچھ نہ تھا ، کوئی بھی نہ تھا، مَیں تھا، مَیں بس خدا کے ساتھ تھا‘‘ - (2) ’’ مجھے آئینۂ عین نما میں اُس کا دائم دیدار حاصل تھا جس سے مجھے دائم بقا حاصل ہوئی اور یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہوا‘‘- (3) ’’میرے وجود کا ہر بال صاحب ِمعرفت عارف ہے ، جو یہ اوصاف حاصل کر لے اُسے ذکر اذکار کی حاجت نہیں رہتی ‘‘-(4) ’’ تُو نے باھُو کو نام و تن کے پردے میں بد نام کر دیا حالانکہ میرا تن لامکان کا پُر امن لازوال ملک ہے ‘‘-
جس کا وجود انوارِ نور الحق میں پک کر نور ہوجائے اُسے معرفت ِمشاہدۂ دیدارِ پروردگار کی معراج حاصل ہو جاتی ہے- ایسا پُر اسرار جثۂ نور دنیا میں قبر سے باہر آکر بچشمِ سرلوگوں سے ملاقات کرتا ہے ، اُن سے ہم صحبت و ہم کلام ہوتا ہے اوراللہ تعالیٰ کی نظر میں دائم منظور ہو کر ظاہر باطن میں مشرفِ دیدار رہتا ہے اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم میں دائم حضور ہو کر جملہ انبیا ٔو اولیا ٔاللہ کی اروح سے ملاقات کرتا ہے- تُو اِن امورِ غیب میں عیب مت نکال ،اِن پر تعجب مت کر اور نہ ہی اِن میں عیب جوئی کر-ایسا نہ ہو کہ تیرا شمار قومِ کفار اہل ِزنار لائق ِجہنم نار میں ہو جائے - تُو اِس سے ہزار بار استغفار کر- حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :-’’ خبردار! بے شک اولیائے اللہ مرتے نہیں ہیں‘‘- عالم و عالم باللہ فقیر میں یہ فرق ہے کہ عالم کا نام علما ءہے اور فقیر کا نام اولیا ء ہے - عالم کا نام عامل ہے اور فقیر کا نام کامل ہے -عالم کا نام موت ہے اور فقیر کا نام حیات ہے -جو علم کا عالم ہے وہ مسائل ِفقہ اور قرآن و حدیث کی تفسیر بیان کرتا ہے اور فقیر قرب اللہ کی حضوری مشروحاً دکھاتا ہے-بیان کرنے والے اور دکھانے والے کو ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی جس طرح کہ مست کو ہوشیار کی اور اہل ِخواب کو بیدار کی مجلس راس نہیں آتی-اِسے یاد رکھنا چاہیے -
ابیات:- (1) ’’ مَیں خدا کی رضا جوئی کے لئے نفس کو رسوا کرتا ہوں اور اِس غرض سے ہر دروازے پر بھیک مانگنے جاتا ہوں‘‘-
(2)’’ مَیں تصرف میں عامل اور فقر میں کامل ہوں ، مَیں ہر خاص و عام سے کوئی غرض نہیں رکھتا‘‘ -
یاد رکھ کہ چور دغا باز فتنہ انگیز و زیان گیر بھی فقیر ہو تا ہے اور صاحب ِتصرفِ کیمیائے اکسیر ، تاثیر بخش صاحب ِگنجِ خزائن اللہ ولی اللہ اولیا ءاللہ روشن ضمیر دونوں جہان کا عالم گیر امیر بھی فقیر ہو تا ہے - اِن دونوں میں سے جھوٹا فقیراور سچا فقیر کون سا ہے؟ اور اِن دونوں کی پہچان کس عمل ، کس علم ، کس حکمت ، کس بات اور کل و جز کے کس معمے سے ہو سکتی ہے ؟ ناقص بڑے دھڑلے سے قصہ خوانی و افسانہ طرازی کر کے وقت کو آج اور کل کے وعدوں پر ٹالتا رہتا ہے اور کامل پہلے ہی روز نظر و توجہ سے مشاہدہ بخش کر طالب کا ہر مطلب پورا کر دیتا ہے -
بیت:- ’’ نامرد مرشد عورت کی مثل ناقص ہوتا ہے ، وہ بے حیا طالبوں سے مال و زر بٹورتا رہتا ہے ‘‘-
مرشد ِکامل تصورِ اسم اللہ ذات سے علمِ عین کھول کر طالب اللہ کو عین بعین مشاہدہ کراتا ہے اور مرشد ِناقص طالب اللہ کو ذکر فکر مراقبہ اور وِرد وظائف میں مشغول کر کے خراب و خوار کرتا ہے- مرشد ِکامل طالب اللہ کو پہلے ہی روز دیدارِ پروردگار سے مشرف کرتا ہے -
بیت:- ’’ اِس عطائے مرشد سے طالب اللہ راہِ دیدار کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں دیکھتا ، یہ رابعہ بصری و بایزید بسطامی()کے مراتب ہیں ‘‘-
مراتب ِذکر زوال ہے ، مراتب ِفکر خام خیال ہے ، مراتب ِمراقبہ مبتدی احوال ہے ، مراتب ِالہام ناتمام ہے اور مراتب ِمذکور نا منظور ہے-
ابیات :- (1) ’’ اے طالب مرشد سے مرتبۂ دیدار حاصل کر تاکہ تیری آنکھیں دیدار میں محو ہو کر رازِ کن حاصل کر سکیں‘‘-
(2) ’’ ذکر فکر کی ریاضت تجھے خراب کرے گی کہ اِس قسم کے ذاکروں کو لقائے وحدت کی کوئی خبر نہیں ہوتی ‘‘-
فقیرِ کامل چند صفات سے متصف ہوتا ہے،اوّل یہ کہ وہ نفس کے حق میں بخیل،طالبوں کے حق میں خلیل، دائم مشرفِ دیدارِ ربِّ جلیل اور قرب اللہ حضوری میں حیُّ القلب صاحب ِوہم و دلیل ہوتا ہے - (---جاری ہے---)