چڑھ چناں تےکر رشنائی ذکر کریندے تارے ھو
گلیاں دے وچ پھرن نمانے لعلاندے ونجارے ھو
شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں توں بھارے ھو
تاڑی مار اڈاو ناں باھو اساں آپے اُڈن ہارے ھو
O moon, rise and illuminate with your radiant, engaged in your remembrance are stars Hoo
The traders of rubies are modestly roaming the alleys thus far Hoo
God forbid when for wayfarers heavy becomes blade of grass Hoo
Don’t make us fly with hand clapping Bahoo we are about to fly across Hoo
Cha’Rh chana’N tay kar roshnai zikr karenday taaray Hoo
Gallia’N day wich phiran nimanay lalaanday wanjaaray Hoo
Shala musafir koi nah theway kakh jinha’N to’N bhaaray Hoo
Ta’Ri maar uddao na’H Bahoo asaa’N Aapy uddan haaray Hoo
تشریح:
(۱)یہ بیت شاعرانہ حُسن کادرجہ اولیٰ رکھتا ہے -اندھیری رات میں تنہائی ،انتظار اوراُمید کا خوبصورت تخیل اوردل کش منظر کشی اس بیت کے محاسن ہیں جو ہر حساس آدمی کے دِل کو براہِ راست متاثرکرتے ہیں-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرّہٗ نے سادہ و عام فہم علامتوں سے راہِ قرب کی کیفیت بیان فرمائی ہے-اماوس کی رات جب چاند غائب ہوتاہے اورآسمان پہ صرف ستارے چمک رہے ہوتے ہیں اوریہ ستارے چاند کاذکر کرتے ہیں یعنی اُس کے منتظر ہوتے ہیں-ایسے میں دِل سے دُعا نکلتی ہے کہ ان ستاروں کی مراد بر آئے اوران کی تنہائی ختم ہوجائے-ستاروں سے مراد تصورِ اسم اللہ ذات کے مراقبے میں محو رہنے والے طالب ہیں اورچاند قرب الٰہی کی تمنا برآنے کانام ہے-یہ طالب مولیٰ تصورِ اسم اللہ ذات میں مستغرق ہوکر قربِ خداوندی کے چاند کے منتظرہوتے ہیں-آپ قدس اللہ سرّہٗ طالبوں کے لیے بارگاہِ حق میں ملتجی ہیں کہ اےخدا! یہ جو طالب تیرے قرب کی آرزو میں دُنیا سے الگ تھلگ بیٹھے ہیں انہیں اپنے وصال سے سرفراز فرما- آپ قدس اللہ سرّہٗ اس قسم کے مراقبے کاذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:-
’’پس اہل ِمراقبہ اُسے کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی اور چیز کا متلاشی نہ ہو، اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس- اُٹھتے بیٹھتے ہر حال میں اللہ کے ساتھ-مراقبہ ایسے ہے جیسے کہ آفتاب، آفتا ب جب رات کی تاریکی کا پردہ پھاڑ کر نکلتا ہے تو زمین و آسمان کے کونے کونے کو روشن کر دیتا ہے یا مراقبہ ستاروں کے جھرمٹ میں چمکتے ہوئے چاند کی مثل ہے- جب صاحب ِمراقبہ آنکھ کھولتا ہے تو جدھر دیکھتا ہے اُس کی تاب ِنظر سے اللہ کے سوا ہر چیز کا حجاب جل کر خاکستر ہو جاتا ہے‘‘-(عین الفقر:۲۴۱)
دوسری جگہ محبت الٰہی کو چاند اورفقیر کی طلب مولیٰ اورارادہ ’’الی اللہ‘‘کو ستاروں سے تعبیرکرتے ہیں ، آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور غوث الاعظم قدس اللہ سرّہٗ کو اِلہام فرمایاکہ :-
’’میرا خزانہ (قرب) عرش سے زیادہ وسیع ہے ، بہشت سے زیادہ پاکیزہ ہے اورملکوت سے زیادہ خوبصورت ہے- اُس کی زمین معرفت ہے ، اُس کا آسمان اِیمان ہے ، اُس کا سورج شوق ہے ، اُس کا چاندمحبت ہے ،اُس کے ستارے خواطر ( اِرادے ) ہیں ،اُس کے بادل عقل ہے ، اُس کی بارش رحمت ہے ، اُس کے درخت طاعت ہے ، اُس کی دیواریں یقین ہے،اُس کے مکانات ہمت ہے اور اُس کے رکن چار ہیں ، توکل ، تفکر، اُنس اور ذکر اور اُس کے دروازے بھی چار ہیں ، علم،حلم،صبر اور رضائے قلب -پس اے غوث ! عرشِ اعظم کہ جسے عرشِ کریم و رحیم بھی کہا جاتا ہے وہ یہی دل ہے کہ جس کے اوصاف بیان نہیں کئے جا سکتے ‘‘-(محک الفقر:۲۶۱)
اس کی تشریح معنوی طور پہ یوں بھی کی جاسکتی ہے ’’اے ماہتابِ محبت! طلوع ہو کہ ہمارے ارادوں کے ستارے تیرے نور کے ہالے کے گرد منڈلانے کیلئے بیتاب ہیں‘‘۔
(۲)فقیر کو جب مرشدکی نگاہِ کرم اورتصورِ اسم اللہ ذات کے حاضرات سے لقائے باری تعالیٰ نصیب ہوجاتاہے تووہ ہمہ وقت بے قرار رہتاہے -اب اُس کی آرزوہوتی ہے کہ خلق خدا کو بھی اللہ کے راستےپہ گامزن کیا جائے-اس مقصد کے لیے فقراء خلق خدا کی جانب رجوع کرتے ہیں اورلوگوں کو معرفت حق کی دانائی وحکمت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں لیکن عوام اُن کی بے قدری کرتے ہیں -وہ اس امر سے ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ جنہیں بے توقیر کررہے ہیں وہ بارگاہِ حق کے لعل وجواہر ہیں-
(۳)یہ حقیقت ہے کہ بادشاہِ وقت بھی پردیس میں بے اختیار ہوجاتاہے -وہ اپنے اقتدار اورحکومت کی حدود سے باہر محض ایک عام انسان ہوتاہے بلکہ اُس کادرجہ پردیس میں مقامی افراد سے بھی کم ہوتاہے- یہی حال انسانِ حقیقی کاہے کہ عالمِ باری تعالیٰ میں اُسے کسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ کا ایسا قرب نصیب تھا کہ جس پہ فرشتے بھی رشک کرتے تھے مگر جب اُسے عالم ناسوت میں اُتارا گیا تب سے وہ اپنا شرف کھو بیٹھا - اِس لیے اہل اللہ فقراء ہر وقت اپنے اصلی وطن سِدھارنے کی فکر میں ہوتے ہیں -علامہ اقبال نے فرمایاکہ:
اے طائرِ لاہُوتی اُس رزق سے موت اچھّی |
|
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی[1] |
(۴)جو پرندے خود ہی اُڑنا چاہتے ہوں انہیں تالی کے اشارے اُڑانے کی کیاضرورت؟آپ () فرماتے ہیں کہ اے دُنیاوالو! ہم سے بیزارکیوں ہوتے ہو ہم تو شوق الی اللہ میں ہمہ وقت موت کوگلے لگانے کے لیے تیاربیٹھے ہیں -اتنی تمہیں زندگی پیاری نہیں جتنی ہمیں موت سے محبت ہے-