موجودہ عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے-رُوح سے عاری و غافل اور مادہ پرستی میں ڈوبا ہوا انسان مادیت کے میدان میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کی جانب گامزن ہے- زمینی ترقی تو زمینی رہی ، آسمانی سیاروں پر بھی زندگی بسانے اور انرجی کے متبادل ذرائع لے جانے پر تحقیق ہو رہی ہے- ہر شعبہ زندگی تیز ترین ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی کے اس تمام تر سفر میں دورِ حاضر کے انسان کی نفسیاتی بے چینی،روحانی اِضطراب اور باطنی تذبذب کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ آیا کہ ترقی کی اس دوڑ نے انسانیت کو امن و آشتی کا پیغام دیا؟ یا دوسرا رُخ انسانیت کی تباہی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے؟
آج انسان گوں ناگوں مسائل سے دوچار ہے،جانوروں ،پرندوں،حشرات الارض اور فطرتی مناظر کے تحفظ پہ تو بے تحاشا وسائل بہائے جا رہے ہیں لیکن ان سب خوبصورتیوں اور رعنائیوں کی بارات کا دُلہا یعنی انسان جس عدمِ تحفظ کا شکار ہے ہم اُس پہ سوچنے کو تیار نہیں-سمندری مخلوق کو تعفن زدہ خوراک سے بچانے کےلئے ہر سال دنیا کے کئی ممالک میں اجلاس کئے جاتے ہیں کہ سمندروں کو گندگی سے پاک کرنے کے اقدامات کئے جائیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان نفرتوں،تعصبات اورجنگوں کے تعفن اور گندگی کو انسانوں سے دور کرنے پہ ہم نے کیا سوچا ہے؟-انسانی تذلیل کی روک تھام پہ ہم نے کیا کیا ہے ؟ وہ انسان جس کی تخلیق کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
’’وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِo وَطُوْرِ سِیْنِیْنَo وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[1]
انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسم اور سینا کے (پہاڑ) طور کی قَسم اس امن والے شہر (مکہ) کی قَسم بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘-
افسوس!کہ آج خالق سے اتنے عظیم رُتبے پانے والا اِنسان کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے- ہزاروں انسانوں کا دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پہ قتل عام کیا جا رہا ہے اور خالق کائنات کی اس اشرف مخلوق کا خون گلی کوچوں میں پانی کی طرح بہتا ہے-ایسی صورت حال میں ڈاکٹر بدر منیر کایہ شعر صادق آتا ہے-
بن گئے انسان اپنی ذات میں جنگل منیر |
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’وَالْعَصْرِ oإِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘[2]
’’قسم ہے اس زمانہ کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور صبر کی وصیت کی‘‘-
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج انسانوں پہ پہلی دو آیات کس طرح صادق طور پہ منطبق ہوتی نظر آتی ہیں-کس قدر افسوس! کی بات ہے کہ عالمی ادارے بھی انسانی قدروں کی پامالی کا تماشہ دیکھتے ہوئے خاموش رہتے ہیں- دنیا میں مقتدر طاقتوں کے ظلم و جبر کے خلاف کوئی ادارہ یا انسانی گروہ عالمی سطح پر آواز اٹھانے کو تیار نہیں-ان مظلوم ممالک اور اقوام میں ہمارے سامنے بڑی مثالیں کشمیر، فلسطین اور روہنگیا وغیرہ کی ہے کئی طاقتیں ان کی حمایت محض اس لئے نہیں کرتیں کہ کہیں ان طاقتوں کی معیشت متاثر نہ ہو جائے-گو یا آج کے نام نہاد مہذبوں کے نزدیک معیشت و اقتصاد انسانوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے-انسانیت کی پامال ہوتی قدریں اسی اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہیں-اگر اس امر کی طرف توجہ نہ دی گئی تو انسانیت کی بقاء کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-انسانیت کو درپیش چلینجز میں ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی اقدار کا بھی مذاق اڑایا جا رہاہے افسوس کی بات یہ ہے کہ مذاق اُڑوانے میں (اپنے مخصوص رویوں کی وجہ سے ) مذہبی طبقہ برابر کا شریک ہے-نہ صرف اسلام،بلکہ دیگر مذاہب عالم میں بھی شر پسند عناصر نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں اور مذاہب کے ماننے والے بھی تذبذب و افرا تفری کا شکار ہوچکے ہیں- جس کی سب سے بڑی مثال مذہب اسلام ہے کہ محسنِ انسانیت پیغمبرِ اعظم سرور دو عالم(ﷺ)کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے اور پوری ملت اسلامیہ کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا گیا-اس سے بڑا مذہبی اقدار کا اورکیا مذاق ہو سکتا ہے ؟
اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ کے صفحات ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ انسانی درجہ بندی کا مسئلہ ہر دور میں لاحق رہا ہے-حاکم اور جاگیردار طبقہ نے خوب انسانوں کا استحصال کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فرد کی تنہائی اور وحشت و بربریت کا بازار گرم ہواہے-
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ معاشرتی تقسیم کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے- معاشرے میں تین (۳)قسم کے لوگ رہتے ہیں-
1۔ امیر ترین لوگ (Upper Class)
2۔ درمیانی طبقے کے لوگ (Middle Class)
3۔ نچلےطبقے کے لوگ(Lower Class)
معاشرتی درجہ بندی کی وجہ سے درمیانی طبقہ اور نچلا طبقہ کے لوگ کافی پریشان ہیں-انسانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا تذلیل ہو سکتی ہے کہ یہ سب ہمارے ترقی یافتہ معاشروں میں اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ہے-انسانی زندگی کے دو پہلوؤں ہیں مادی پہلو اورروحانی پہلو-آج کل ہم نے صرف ایک پہلو کو پکڑا ہوا ہے-جس کی وجہ سے آج کے دور میں، انسان کی شخصی آزادی،اس کی بہترین ذات،قبل اس کا معاشرتی مقام اور اعلیٰ تمدن حتیٰ کہ اس کی اپنی حقیقی بنیاد انسان سے چُھوٹ چکی ہے اور انسان انتشار کا شکار ہوگیا ہے-انسان اپنے انتشار سے باہر آنا چاہتا ہےمگر یہ معلوم نہیں کہ کس طرح اس کو نکالا جائے کیونکہ دنیا کا اقتصادی نظام،اس کی ذاتی اَنا اس کے ظاہری علم کی بے مطلب حقیقت اس کے راستے میں اپنی تعمیر کی ہوئی بڑی رکاوٹیں ہیں-
سلف صالحین اور اولیائے کاملین کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے مادی ، روحانی دونوں تقاضوں کو بیک وقت پورا کیا- وہ انسان کامل کا علمی نمونہ ہیں جس کے اثرات معاشرے میں بھی نظر آتے ہیں- جہاں جہاں ایسی ہستیوں کا بسیرا رہا ہے وہاں انسانی بقاء کو اولین حیثیت دینے کی کوشش جاری رہتی ہے اور سماج میں اخوت،تحمل مزاجی، بردباری اور مساوات وغیرہ کو فروغ دیا جاتا ہے-حقیقی معنوں میں انہی چیزوں کی وجہ سے ایک زندہ معاشرہ کا وجود ممکن ہے- جس سے انسانیت کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے-
اب ہم ایک زندہ معاشرہ ہیں حقیقی انسان کا تصور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کی روشنی میں لیتے ہیں-جس سے دورِ جدید کے انسان کے مسائل کا تدارک ممکن ہے-جہاں جہاں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے انسان کے ظاہری پہلو (مادی وجود) کو عیاں کیا ہے وہیں پر باطنی وجود(روح) کی حقیقت کو بھی آشکار کیا ہےکیونکہ انسان کی حقیقت میں ان دونوں کا امتزاج ہے اور اسی بارے میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں انسانِ حقیقی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو |
|
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو |
جیسا کہ قبل ازاں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کے دو وجود ہیں- جن کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے کیونکہ اگر انسان محض اس ظاہری وجود کو اپنا لے اور باطن کی حقیقت سے بے خبر ہو جائے تو منزل مقصود تک پہنچنا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اس بیت میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے انسان!یہ تیرا وجود خالق حقیقی کی جلوہ گاہ ہے اور اس حقیقت کا ادراک انسان کو اس وجہ سے نہیں ہوا کہ اس نے کبھی اپنا باطن آباد کرنے کی طرف غور ہی نہیں کیا جبکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کے باطن کی حقیقت کو یوں واضح فرمایا ہے:
وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ‘‘
’’اور میں توتمہارے انفس (سانسوں)میں ہوں کیا تم غور نہیں کرتے‘‘-
آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تصنیفِ لطیف’’عین الفقر‘‘ میں علم کی حقیقت کو واضح کیا ہے کیونکہ موجودہ دور میں علم کی روز افزوں ترقی بقائے انسانی کی ضامن نہیں ہو سکتی جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جب ظاہری علم اپنے عروج کو پہنچا تو یہ کائنات کا سب سے طاقتور ترین ذرہ (ایٹم) دریافت کرنے میں کامیاب تو ہوگیا لیکن وہی ایٹم جاپان کے دو شہروں ’’ناگا ساکی اور ہیرو شیما‘‘ کی تباہی کا سبب بنا اور اسی ایٹم سے آج بھی عالم انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم کو محض ظاہر تک محدود کر دیا گیا جبکہ علم ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی علم کا اکتساب فیض بھی ضروری تھا جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:
علم باطن ہم چو مسکہ علم ظاہر ہم چوں شیر |
’’علم با طن مکھن ہے اور علم ظا ہر دو دھ بھلا دودھ کے بغیر مکھن کہا ں سے آئے گا اور پیر کے بغیر بزرگی کہا ں سے آئے گی‘‘ -
اللہ تبارک و تعا لیٰ نے قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر انسان کے با طن کی طرف تو جہ دلائی ہے- بعین ہی حضور(ﷺ)کے اسو ہ ٔحسنہ اور احا دیث مبارکہ میں بھی انسان کے با طن ( روح ) کی تفصیلاً وضا حت ملتی ہے-صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) ،آئمہ کرا م،سلف صالحین اور صو فیا ئے کا ملین(رحمتہ اللہ علیہ) نے بھی انسان کی اصل ( با طن ) کو گفتگو کا حصہ بنا یا ہے کیونکہ در اصل ہمار ی باطن کی حقیقت کے بارے میں کم علمی کا معیار یہ ہے کہ ہم ظا ہری و جو د کو سب کچھ تصور کر تے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے-
حضرت سلطان با ھُو(قدس اللہ سرّہٗ) مندر جہ با لا گفتگو کو قرآن و سنت کی رو شنی میں اپنے پنجا بی کلا م میں ارشاد فر ما تے ہیں:
سینے وچ مقام ہے کیندا سانوں مرشد گل سمجھائی ھو |
|
ایہو ساہ جو آوے جاوے ہور نہیں شے کائی ھو |
آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اس کی وضا حت یو ں فر ما تے ہیں :
’’ ایک سنیے میں مقا م قلب ہے اور دوسرا دما غ میں مقا م رو ح ہے- پس ذکر کا تعلق دل و رو ح سے ہے- جب کوئی دل مر دہ ’’ذکر اللہ‘‘ سے زند ہ ہو جا تا ہے تو اُسے ’’ دلِ زندہ‘‘ کہتے ہیں اور جب کوئی دل زند ہ تصو ’’اسم اللہ‘‘ سے بیدار ہو جا تا ہے تو اُس کی رُوح بھی زند ہ ہو جا تی ہے‘‘[4]-
سلطان العارفین حضر ت سلطا ن با ھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیما ت اور فکر و فلسفہ قرآن و سنت کی روشنی میں آگے بڑ ھتا ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے تمام شعبہ ہا ئے زند گی میں انسا ن کے سا تھ پیش آنے والے مسا ئل پر گفتگو کی ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تعلیما ت میں انسا نیت سے محبت امن و آتشی، روحا نیت کی بیدار ی کا درس دیا ہے- کیو نکہ بقا ئے ظا ہر (جسم ) اور با طن ( روح) کے امتزا ج سے مکمل ہو سکتی ہے-اب ضرورت اِ س امر کی ہے کہ اِ ن تعلیما ت سے ہر ممکن حد تک اکتسا ب کیا جا ئے -
٭٭٭
موجودہ عہد سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے-رُوح سے عاری و غافل اور مادہ پرستی میں ڈوبا ہوا انسان مادیت کے میدان میں دن دگنی رات چوگنی ترقی کی جانب گامزن ہے- زمینی ترقی تو زمینی رہی ، آسمانی سیاروں پر بھی زندگی بسانے اور انرجی کے متبادل ذرائع لے جانے پر تحقیق ہو رہی ہے- ہر شعبہ زندگی تیز ترین ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے-سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی کے اس تمام تر سفر میں دورِ حاضر کے انسان کی نفسیاتی بے چینی،روحانی اِضطراب اور باطنی تذبذب کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ آیا کہ ترقی کی اس دوڑ نے انسانیت کو امن و آشتی کا پیغام دیا؟ یا دوسرا رُخ انسانیت کی تباہی کی صورت میں ہمارے سامنے آیا ہے؟
آج انسان گوں ناگوں مسائل سے دوچار ہے،جانوروں ،پرندوں،حشرات الارض اور فطرتی مناظر کے تحفظ پہ تو بے تحاشا وسائل بہائے جا رہے ہیں لیکن ان سب خوبصورتیوں اور رعنائیوں کی بارات کا دُلہا یعنی انسان جس عدمِ تحفظ کا شکار ہے ہم اُس پہ سوچنے کو تیار نہیں-سمندری مخلوق کو تعفن زدہ خوراک سے بچانے کےلئے ہر سال دنیا کے کئی ممالک میں اجلاس کئے جاتے ہیں کہ سمندروں کو گندگی سے پاک کرنے کے اقدامات کئے جائیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان نفرتوں،تعصبات اورجنگوں کے تعفن اور گندگی کو انسانوں سے دور کرنے پہ ہم نے کیا سوچا ہے؟-انسانی تذلیل کی روک تھام پہ ہم نے کیا کیا ہے ؟ وہ انسان جس کی تخلیق کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
’’وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِo وَطُوْرِ سِیْنِیْنَo وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘[1]
انجیر کی قَسم اور زیتون کی قَسم اور سینا کے (پہاڑ) طور کی قَسم اس امن والے شہر (مکہ) کی قَسم بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘-
افسوس!کہ آج خالق سے اتنے عظیم رُتبے پانے والا اِنسان کس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے- ہزاروں انسانوں کا دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پہ قتل عام کیا جا رہا ہے اور خالق کائنات کی اس اشرف مخلوق کا خون گلی کوچوں میں پانی کی طرح بہتا ہے-ایسی صورت حال میں ڈاکٹر بدر منیر کایہ شعر صادق آتا ہے-
بن گئے انسان اپنی ذات میں جنگل منیر |
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’وَالْعَصْرِ oإِنَّ الْإِنسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘‘[2]
’’قسم ہے اس زمانہ کی بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور صبر کی وصیت کی‘‘-
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج انسانوں پہ پہلی دو آیات کس طرح صادق طور پہ منطبق ہوتی نظر آتی ہیں-کس قدر افسوس! کی بات ہے کہ عالمی ادارے بھی انسانی قدروں کی پامالی کا تماشہ دیکھتے ہوئے خاموش رہتے ہیں- دنیا میں مقتدر طاقتوں کے ظلم و جبر کے خلاف کوئی ادارہ یا انسانی گروہ عالمی سطح پر آواز اٹھانے کو تیار نہیں-ان مظلوم ممالک اور اقوام میں ہمارے سامنے بڑی مثالیں کشمیر، فلسطین اور روہنگیا وغیرہ کی ہے کئی طاقتیں ان کی حمایت محض اس لئے نہیں کرتیں کہ کہیں ان طاقتوں کی معیشت متاثر نہ ہو جائے-گو یا آج کے نام نہاد مہذبوں کے نزدیک معیشت و اقتصاد انسانوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے-انسانیت کی پامال ہوتی قدریں اسی اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہیں-اگر اس امر کی طرف توجہ نہ دی گئی تو انسانیت کی بقاء کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-انسانیت کو درپیش چلینجز میں ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں مذہبی اقدار کا بھی مذاق اڑایا جا رہاہے افسوس کی بات یہ ہے کہ مذاق اُڑوانے میں (اپنے مخصوص رویوں کی وجہ سے ) مذہبی طبقہ برابر کا شریک ہے-نہ صرف اسلام،بلکہ دیگر مذاہب عالم میں بھی شر پسند عناصر نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں اور مذاہب کے ماننے والے بھی تذبذب و افرا تفری کا شکار ہوچکے ہیں- جس کی سب سے بڑی مثال مذہب اسلام ہے کہ محسنِ انسانیت پیغمبرِ اعظم سرور دو عالم(ﷺ)کے گستاخانہ خاکے شائع کیے گئے اور پوری ملت اسلامیہ کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا گیا-اس سے بڑا مذہبی اقدار کا اورکیا مذاق ہو سکتا ہے ؟
اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ کے صفحات ہماری راہنمائی کرتے ہیں کہ انسانی درجہ بندی کا مسئلہ ہر دور میں لاحق رہا ہے-حاکم اور جاگیردار طبقہ نے خوب انسانوں کا استحصال کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فرد کی تنہائی اور وحشت و بربریت کا بازار گرم ہواہے-
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ معاشرتی تقسیم کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے- معاشرے میں تین (۳)قسم کے لوگ رہتے ہیں-
v امیر ترین لوگ (Upper Class)
v درمیانی طبقے کے لوگ (Middle Class)
v نچلےطبقے کے لوگ(Lower Class)
معاشرتی درجہ بندی کی وجہ سے درمیانی طبقہ اور نچلا طبقہ کے لوگ کافی پریشان ہیں-انسانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا تذلیل ہو سکتی ہے کہ یہ سب ہمارے ترقی یافتہ معاشروں میں اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ہے-انسانی زندگی کے دو پہلوؤں ہیں مادی پہلو اورروحانی پہلو-آج کل ہم نے صرف ایک پہلو کو پکڑا ہوا ہے-جس کی وجہ سے آج کے دور میں، انسان کی شخصی آزادی،اس کی بہترین ذات،قبل اس کا معاشرتی مقام اور اعلیٰ تمدن حتیٰ کہ اس کی اپنی حقیقی بنیاد انسان سے چُھوٹ چکی ہے اور انسان انتشار کا شکار ہوگیا ہے-انسان اپنے انتشار سے باہر آنا چاہتا ہےمگر یہ معلوم نہیں کہ کس طرح اس کو نکالا جائے کیونکہ دنیا کا اقتصادی نظام،اس کی ذاتی اَنا اس کے ظاہری علم کی بے مطلب حقیقت اس کے راستے میں اپنی تعمیر کی ہوئی بڑی رکاوٹیں ہیں-
سلف صالحین اور اولیائے کاملین کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو انہوں نے مادی ، روحانی دونوں تقاضوں کو بیک وقت پورا کیا- وہ انسان کامل کا علمی نمونہ ہیں جس کے اثرات معاشرے میں بھی نظر آتے ہیں- جہاں جہاں ایسی ہستیوں کا بسیرا رہا ہے وہاں انسانی بقاء کو اولین حیثیت دینے کی کوشش جاری رہتی ہے اور سماج میں اخوت،تحمل مزاجی، بردباری اور مساوات وغیرہ کو فروغ دیا جاتا ہے-حقیقی معنوں میں انہی چیزوں کی وجہ سے ایک زندہ معاشرہ کا وجود ممکن ہے- جس سے انسانیت کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے-
اب ہم ایک زندہ معاشرہ ہیں حقیقی انسان کا تصور حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کی روشنی میں لیتے ہیں-جس سے دورِ جدید کے انسان کے مسائل کا تدارک ممکن ہے-جہاں جہاں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے انسان کے ظاہری پہلو (مادی وجود) کو عیاں کیا ہے وہیں پر باطنی وجود(روح) کی حقیقت کو بھی آشکار کیا ہےکیونکہ انسان کی حقیقت میں ان دونوں کا امتزاج ہے اور اسی بارے میں آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں انسانِ حقیقی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو |
|
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو |
جیسا کہ قبل ازاں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کے دو وجود ہیں- جن کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے کیونکہ اگر انسان محض اس ظاہری وجود کو اپنا لے اور باطن کی حقیقت سے بے خبر ہو جائے تو منزل مقصود تک پہنچنا کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اس بیت میں انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اے انسان!یہ تیرا وجود خالق حقیقی کی جلوہ گاہ ہے اور اس حقیقت کا ادراک انسان کو اس وجہ سے نہیں ہوا کہ اس نے کبھی اپنا باطن آباد کرنے کی طرف غور ہی نہیں کیا جبکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کے باطن کی حقیقت کو یوں واضح فرمایا ہے:
وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ‘‘
’’اور میں توتمہارے انفس (سانسوں)میں ہوں کیا تم غور نہیں کرتے‘‘-
آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تصنیفِ لطیف’’عین الفقر‘‘ میں علم کی حقیقت کو واضح کیا ہے کیونکہ موجودہ دور میں علم کی روز افزوں ترقی بقائے انسانی کی ضامن نہیں ہو سکتی جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جب ظاہری علم اپنے عروج کو پہنچا تو یہ کائنات کا سب سے طاقتور ترین ذرہ (ایٹم) دریافت کرنے میں کامیاب تو ہوگیا لیکن وہی ایٹم جاپان کے دو شہروں ’’ناگا ساکی اور ہیرو شیما‘‘ کی تباہی کا سبب بنا اور اسی ایٹم سے آج بھی عالم انسانیت کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم کو محض ظاہر تک محدود کر دیا گیا جبکہ علم ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی علم کا اکتساب فیض بھی ضروری تھا جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:
علم باطن ہم چو مسکہ علم ظاہر ہم چوں شیر |
’’علم با طن مکھن ہے اور علم ظا ہر دو دھ بھلا دودھ کے بغیر مکھن کہا ں سے آئے گا اور پیر کے بغیر بزرگی کہا ں سے آئے گی‘‘ -
اللہ تبارک و تعا لیٰ نے قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر انسان کے با طن کی طرف تو جہ دلائی ہے- بعین ہی حضور(ﷺ)کے اسو ہ ٔحسنہ اور احا دیث مبارکہ میں بھی انسان کے با طن ( روح ) کی تفصیلاً وضا حت ملتی ہے-صحابہ کرام () ،آئمہ کرا م،سلف صالحین اور صو فیا ئے کا ملین() نے بھی انسان کی اصل ( با طن ) کو گفتگو کا حصہ بنا یا ہے کیونکہ در اصل ہمار ی باطن کی حقیقت کے بارے میں کم علمی کا معیار یہ ہے کہ ہم ظا ہری و جو د کو سب کچھ تصور کر تے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے-
حضرت سلطان با ھُو(قدس اللہ سرّہٗ) مندر جہ با لا گفتگو کو قرآن و سنت کی رو شنی میں اپنے پنجا بی کلا م میں ارشاد فر ما تے ہیں:
سینے وچ مقام ہے کیندا سانوں مرشد گل سمجھائی ھو |
|
ایہو ساہ جو آوے جاوے ہور نہیں شے کائی ھو |
آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اس کی وضا حت یو ں فر ما تے ہیں :
’’ ایک سنیے میں مقا م قلب ہے اور دوسرا دما غ میں مقا م رو ح ہے- پس ذکر کا تعلق دل و رو ح سے ہے- جب کوئی دل مر دہ ’’ذکر اللہ‘‘ سے زند ہ ہو جا تا ہے تو اُسے ’’ دلِ زندہ‘‘ کہتے ہیں اور جب کوئی دل زند ہ تصو ’’اسم اللہ‘‘ سے بیدار ہو جا تا ہے تو اُس کی رُوح بھی زند ہ ہو جا تی ہے‘‘[4]-
سلطان العارفین حضر ت سلطا ن با ھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیما ت اور فکر و فلسفہ قرآن و سنت کی روشنی میں آگے بڑ ھتا ہے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے تمام شعبہ ہا ئے زند گی میں انسا ن کے سا تھ پیش آنے والے مسا ئل پر گفتگو کی ہے-آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تعلیما ت میں انسا نیت سے محبت امن و آتشی، روحا نیت کی بیدار ی کا درس دیا ہے- کیو نکہ بقا ئے ظا ہر (جسم ) اور با طن ( روح) کے امتزا ج سے مکمل ہو سکتی ہے-اب ضرورت اِ س امر کی ہے کہ اِ ن تعلیما ت سے ہر ممکن حد تک اکتسا ب کیا جا ئے -
٭٭٭