مسلم انسٹیٹیوٹ نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اشتراک سے ڈاکٹر زیڈ اے اعوان کے ابیاتِ باھُوؒکے انگلش ترجمہ ’’Heart Deeper than Ocean“ دل دریا سمندروں ڈونگھے “کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد نظریہ پاکستان ٹرسٹ،لاہور میں۲۴مارچ ۲۰۱۷ء بروز جمعرات کو کیا-تقریب میں ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ،ملک آصف تنویر نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے- یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء،محققین،دانشوروں،سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی-
تقریب میں شرکت کرنے والے مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-
جناب پروفیسرڈاکٹر خاور سعید بھٹہ: (شعبہ پنجابی،پنجاب یونیورسٹی )
پروفیسر خاور سعید بھٹہ صاحب نے کتاب پہ اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر زیڈ اے اعوان صاحب نے ۲۰۴پنجابی ابیات کا انگریزی نثر میں ترجمہ کیا ہے - حضرت سلطان صاحب (قدس اللہ سرّہٗ)کے کلام کو ترجمہ کے ذریعے کماحقہ ھو پہنچانا ناممکنات میں سے ہے یا مشکل ہے- ڈاکٹر زیڈ اے اعوان نے ابیات کو محبت اور عقیدت سے پڑھا ہے اور کئی پنجابی الفاظ و محاوروں کو خوبصورتی سے انگلش زبان میں لکھ دیا ہے اس کے علاوہ انہوں نے ابیات میں موجود صوفیانہ اصطلاحات کو قرآن و حدیث اور صوفیانہ بیک گراونڈ میں سمجھا ہے-وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں کس طرح صوفی ازم کو فیشن کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اسلامی تصوف کو کس طرح توڑ موڑ کر سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں اس ترجمہ میں شامل مقدمہ بھی تصوف کے باب میں ایک اہم اضافہ ہے -یہ ترجمہ و مقدمہ دوسرے براعظموں کے باشندوں کوابیات باھُوکو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لئے مدد گار ہو گا-
جناب طارق اسماعیل ساگر:(معروف ادیب، صحافی )
العارفین پبلی کیشنز نے ابیاتِ باھُو کا جو ترجمہ شائع کیا ہے اور بالخصوص صوفیانہ اصطلاحات کی جو سلیس انگریزی میں تشریح مرتب کروائی ہے اس سے ویسٹ میں رہنے والے کسی بھی شخص کے لئے اسےسمجھنا آسان بنا دیا ہے-مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ مترجم کا قلبی تعلق کہیں سے قائم نہ ہو-مکتبہ العارفین کی خصوصیت یہ ہے کہ مکتبہ کی پبلیکشنز میں سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے افکار و خیالات، تعلیمات اور ان کی زندگی کے وہ پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل تھے یا کم از کم اس سے پہلے ہماری نظروں سے نہیں گزرتے تھے-اس سے پہلے شائع ہونے والی کتابوں کے مترجم جناب سید امیر خان نیازی مرحوم فارسی کے کوئی اسکالر تو نہیں تھے یہ فقط حضرت سُلطان الفقر (قدس اللہ سرّہٗ)کا نظر ِانتخاب تھا کہ ان کو اس راستے پر گامزن کردیا اور انہوں نے وہ کام کر دِکھایا کہ واقعتاً قابلِ رشک ہے-بصیرت اور علم ہمیں صوفیائے کرام کی تعلیمات سے ہی حاصل ہوتی ہے سلطان الفقر کے جگر گوشہ حضرت سُلطان محمد علی صاحب نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرہٗ)کی تعلیمات اورپیغام کے پھیلانے کو ہی اپنی اور اپنے متوسلین کی زندگی کا مشن بنایا ہے اور یہ بہت جدید انداز میں ہماری نئی نسل کو اس پیغام سے روشناس کروا رہے ہیں ، میرے خیال میں یہ امید کی عظیم کرن ہیں-
محترمہ بیگم بشریٰ رحمان :(معروف شاعرہ و ادیبہ )
صوفیائے کرام اس مقام تک پہنچے ہیں کہ انہوں نے دل کی حقیقت بیان کی اور انہوں نے اللہ کے بندوں کو مقامِ ھُو سے آشنا کرایا اور مقام ھُو دل کا سب سے بڑا مقام ہے- برصغیر کے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا انعام اولیائے کرام ہیں- صوفیاء کرام دلوں کو زندہ کرنے کے لئے آئے کیونکہ جب دل زندہ ہو جاتا ہے تو انسان زندہ ہو تا ہے،انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ آ جاتا ہے آج ہم احسان مند ہیں ان صوفیاء کے جن کی تعلیمات ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم ان سے فیض پاتے ہیں ،اُن کے ترجمے ہو رہے ہیں اور ان شاء اللہ ہوتے رہیں گے-ڈاکٹر صاحب نے جتنے ابیات کا ترجمہ کیا ہے بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے میرا خیال ہے کہ اس قسم کی بہت سی کتابیں مزید بھی شائع کی جانی چاہئیں اور عام نصاب میں بھی ان کو شامل کرنا چاہیے کیونکہ سکولوں اور کالجوں میں کوئی ایسا طریقہ ہو نا چاہیے جس کے ذریعہ صوفیا ءکی تعلیمات کو سمجھایا جا سکے- صُوفی خود بھی سراپا محبت ہوتا ہے اس لئے ان کی تعلیمات بھی سراپا محبت ہیں -
جناب پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر:( سربراہ ، شعبہ فارسی ، پنجاب یونیورسٹی )
جناب پروفیسر سلیم مظہر صاحب نے کتاب پہ اپنا تفصیلی ریویو پڑھتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں جہاں انسان ایک گلوبل شہری بن گیا ہے اور الیکٹرانک میڈ یا نے فاصلوں کو مختصر اور لوگوں کو قریب کر دیا ہے، یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی ابیات کو دنیا کے اُن لوگوں تک پہنچایا جائے جو پنجابی زبان نہیں سمجھتے-یہ خطیر ذمہ داری خانوادہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے عالم اور نوجوان چشم و چراغ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے زیرِسایہ العارفین پبلیکیشنز کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر زیڈ اے اعوان نے کمال خلوص لگن اور مہارت سے ادا کی-مَیں دل کی گہرائیوں سے مترجم اور ناشر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں-’’Heart Deeper Than Ocean ‘‘ کا عنوان ہی بے ساختہ،پُر اثر اور دل نشین ہے اس سے مترجم کے ترجمہ کے فن میں مہارت کی غمازی ہوتی ہے-
محترمہ ماریہ عیزابل مالڈوناڈو گارثیا:( انچارج شعبہ لسانیات، پنجاب یونیورسٹی )
ماضی میں تحقیق کے مقصد سے مَیں نے سو (۱۰۰)سے زائد حضرت سلطان باھوُ (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات کا مطالعہ کیا ہے اور ایک ماہر لسانیات ہونے کے ناطے سائنسی نقطہ نظر سے ان کو پرکھا ہے- سلطان باھوُ (قدس اللہ سرّہٗ)کے کلام کی ایک خصوصیت جو مجھ پہ عیاں ہوئی وہ یہ ہے کہ شاعر خالق میں مستغرق ہے اور یہ کلام خود شناسی اور روحانی استغراق سے اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کو پانے کی دعوت دیتا ہے-کلام میں جگہ جگہ استعاروں کا استعمال بہت شاندار طریقے سے کیا گیا ہے-عشق کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یگانگت کا درس بھی ملتا ہے اور یہ خصوصیت مجھے ان تمام ابیات کے اندر نظر آئی ہے-اس کتاب کے تعارفی صفحات میں ڈاکٹر زیڈ اعوان نے خدا تعالیٰ کی یکتائی پہ زور دیا اور اس کے لیے ’’wahdaniyyat‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ﷺ) سے عشق کی اہمیت پہ زور دیا ہے-
جناب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری :(ڈائریکٹر ، محکمہ اوقاف و مذہبی امور ، پنجاب)
مسلمان معاشرے کے تین اہم ادارے ہیں مسجد مدرسہ اور خانقاہ-جب تک خانقاہیں فعال رہیں گی تب تک معاشرے میں روشنی اور بیداری کے آثار قائم رہیں گے-خانقاہ کے بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ علم کا ابلاغ بھی ہے-یہ فریضہ صاحبزادہ صاحب نے جس بطریق احسن سر انجام دیا اور اس کو انجام دے رہے ہیں اس پر وہ یقیناً ہدیہ طبریق کے مستحق ہیں-ہمیں صوفیا ء کرام کی تعلیمات کو عام کرنا چاہیے اور اس کے لیے جو ان صوفی گھرانوں کے سربروردہ اور لیڈ کرنے والے افراد کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ ان گھرانوں سے اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں اس میں یقیناً حضرت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی شخصیت ممتاز اور منفرد ہے-
جناب سہیل وڑائچ:(معروف صحافی )
اس تقریب میں شامل ہونامیرے لیے اعزازکی بات ہے-مَیں حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے تبرکات کے علاقے میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے چاہنے والوں اور تعلیمات سے واقف رہا ہوں ان کے عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور ان کی زندگیوں میں حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کا اثر،ان کی شخصیت پر ان کے اخلاق پر حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کا اثر صاف نظر آ تا ہے وہ عام لوگوں سے ممیز اور مختلف ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ان کے اندر اولیاء اللہ کی محبت اور ان کا فیضان نظر آتا ہے-صوفی انسانوں سے محبت سکھاتاہے-
میری رائے میں جس دن اجودھن کا نام پاکپتن پڑا،جس دن بابا فرید گنج شکر (قدس اللہ سرّہٗ)یہاں تشریف لائے اسی دن پاکستان کا قیام عمل میں آگیا- یہ خطہ صوفیا کے اثر سے مسلمان ہوا ، اِسی لئے یہاں امن و برداشت کا رویہ عام رہا ہے،آج بھی صوفیاء کے پیغام کی معاشرے کو بہت ضرورت ہے تاکہ رویوں میں اعتدال اور برداشت کو پیدا کیا جا سکے-
جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی:(چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )
ڈاکٹر زیڈ- اے-اعوان صاحب اپنی اس کاوش پر بہت ہی مبارک با د کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات کا بڑے احسن پیرائے اور بہت جدید انداز میں ترجمہ کیا ہے گو کہ اس سے قبل بھی عالمی سطح پر ابیات ِباھُو (قدس اللہ سرّہٗ)پرکافی کام ہوا ہے-پنچابی کے کلاسیکل لٹریچر کے پانچ بنیادی ماخذات میں ایک حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے پنچابی ابیات ہیں حتی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی لندن،کیمبرج یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی امریکہ، لویولا یونیورسٹی شکاگو، یونیورسٹی آف کیلفورنیا ، یونیورسٹی آف پینسلو نیا، ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی یا اور کہیں بھی پنجابی ادب پڑھایا جاتا ہے ابیاتِ باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)بنیادی ماخذ کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں- مرحوم ڈاکٹر مقبول الٰہی نے سب سے پہلے ابیات شریف کا ترجمہ کیا ، اُن کے بعد یونیورسٹی آف کیلفورنیا نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات پر انگریزی ترجمہ’’ DEATH BEFORE DYING ‘‘ کے نام سے شائع کیا لیکن یہ تمام ابیات کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس میں منتخب ابیات ہیں- ڈاکٹر زیڈ اے اعوان کی اس کاوش سے جس طرح رومی،حافظ سعدی اور دیگر صوفیاء کرام پر عالمی سطح پر کام ہوا ہے اسی طرح حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی ابیات پر بھی تحقیق کا سلسلہ آگے بڑھے گاان شاء اللہ-
جناب ڈاکٹر زیڈ اے اعوان :(ابیا ت باھوُ کے مترجم)
اصل مفسرِ قرآن حکیم اولیائے کرام ہیں،علماء کی اپنی جگہ ہے لیکن میرے نزدیک وحدانیت، رسالت آخرت یہ جتنے بھی مضامین ہیں ان کے اصل مفسر اولیاء اکرام ہیں اور ان میں سب سے اونچے مفسر قرآن حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)ہیں-میری زندگی کا بہت سارا حصہ امریکہ اور یورپ میں گزرا مَیں نے دیکھا کہ بہت سارے تراجم موجود ہیں بہت سارا لٹریچر ہے لیکن میرے وجدان میں جو چیز آئی کہ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کو ویسٹ کے سامنے مفسر ِقران کے طور پر پیش کیا جائے-دوسری چیز جب آپ کلام باھو (قدس اللہ سرّہٗ)پڑھتے ہیں تو وہ آپ کے دماغ کے علاوہ آپ کے دل کی طرف رجوع کرتا ہے لفظ باھوُ ایک اتنا بڑا سمندر ہے جوں جوں چلتے چلے جائیں، چلتے چلے جائیں، اس کی کوئی حد نہیں-
جناب شاہد رشید :(سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور)
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے میں تمام مہمانِ گرامی کی تشریف آوری کا بے حد مشکور ہوں- ڈاکٹر زیڈ اے اعون صاحب کی یہ عظیم کاوش ہے کہ انہوں نے حضرت سلطان باھوُ (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات کا انگریزی ترجمہ کیا- مَیں مرأۃ العارفین اور مسلم انسٹیٹیوٹ کو بھی اس کتاب کی اشاعت اور اس کی تقریب رونمائی کا اہتمام کرنے پہ مبارکباد پیش کرتا ہوں-
٭٭٭
مسلم انسٹیٹیوٹ نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اشتراک سے ڈاکٹر زیڈ اے اعوان کے ابیاتِ باھُوؒکے انگلش ترجمہ ’’Heart Deeper than Ocean“ دل دریا سمندروں ڈونگھے “کتاب کی تقریب رونمائی کا انعقاد نظریہ پاکستان ٹرسٹ،لاہور میں۲۴مارچ ۲۰۱۷ء بروز جمعرات کو کیا-تقریب میں ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ،ملک آصف تنویر نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے- یونیورسٹی پروفیسرز اور طلباء،محققین،دانشوروں،سماجی شخصیات اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں افراد نے شرکت کی-
تقریب میں شرکت کرنے والے مہمان گرامی کے اظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-
جناب پروفیسرڈاکٹر خاور سعید بھٹہ: (شعبہ پنجابی،پنجاب یونیورسٹی )
پروفیسر خاور سعید بھٹہ صاحب نے کتاب پہ اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر زیڈ اے اعوان صاحب نے ۲۰۴پنجابی ابیات کا انگریزی نثر میں ترجمہ کیا ہے - حضرت سلطان صاحب (قدس اللہ سرّہٗ)کے کلام کو ترجمہ کے ذریعے کماحقہ ھو پہنچانا ناممکنات میں سے ہے یا مشکل ہے- ڈاکٹر زیڈ اے اعوان نے ابیات کو محبت اور عقیدت سے پڑھا ہے اور کئی پنجابی الفاظ و محاوروں کو خوبصورتی سے انگلش زبان میں لکھ دیا ہے اس کے علاوہ انہوں نے ابیات میں موجود صوفیانہ اصطلاحات کو قرآن و حدیث اور صوفیانہ بیک گراونڈ میں سمجھا ہے-وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ میں کس طرح صوفی ازم کو فیشن کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اسلامی تصوف کو کس طرح توڑ موڑ کر سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سلسلے میں اس ترجمہ میں شامل مقدمہ بھی تصوف کے باب میں ایک اہم اضافہ ہے -یہ ترجمہ و مقدمہ دوسرے براعظموں کے باشندوں کوابیات باھُوکو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لئے مدد گار ہو گا-
جناب طارق اسماعیل ساگر:(معروف ادیب، صحافی )
العارفین پبلی کیشنز نے ابیاتِ باھُو کا جو ترجمہ شائع کیا ہے اور بالخصوص صوفیانہ اصطلاحات کی جو سلیس انگریزی میں تشریح مرتب کروائی ہے اس سے ویسٹ میں رہنے والے کسی بھی شخص کے لئے اسےسمجھنا آسان بنا دیا ہے-مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ مترجم کا قلبی تعلق کہیں سے قائم نہ ہو-مکتبہ العارفین کی خصوصیت یہ ہے کہ مکتبہ کی پبلیکشنز میں سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے افکار و خیالات، تعلیمات اور ان کی زندگی کے وہ پہلو دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل تھے یا کم از کم اس سے پہلے ہماری نظروں سے نہیں گزرتے تھے-اس سے پہلے شائع ہونے والی کتابوں کے مترجم جناب سید امیر خان نیازی مرحوم فارسی کے کوئی اسکالر تو نہیں تھے یہ فقط حضرت سُلطان الفقر (قدس اللہ سرّہٗ)کا نظر ِانتخاب تھا کہ ان کو اس راستے پر گامزن کردیا اور انہوں نے وہ کام کر دِکھایا کہ واقعتاً قابلِ رشک ہے-بصیرت اور علم ہمیں صوفیائے کرام کی تعلیمات سے ہی حاصل ہوتی ہے سلطان الفقر کے جگر گوشہ حضرت سُلطان محمد علی صاحب نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرہٗ)کی تعلیمات اورپیغام کے پھیلانے کو ہی اپنی اور اپنے متوسلین کی زندگی کا مشن بنایا ہے اور یہ بہت جدید انداز میں ہماری نئی نسل کو اس پیغام سے روشناس کروا رہے ہیں ، میرے خیال میں یہ امید کی عظیم کرن ہیں-
محترمہ بیگم بشریٰ رحمان :(معروف شاعرہ و ادیبہ )
صوفیائے کرام اس مقام تک پہنچے ہیں کہ انہوں نے دل کی حقیقت بیان کی اور انہوں نے اللہ کے بندوں کو مقامِ ھُو سے آشنا کرایا اور مقام ھُو دل کا سب سے بڑا مقام ہے- برصغیر کے مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا انعام اولیائے کرام ہیں- صوفیاء کرام دلوں کو زندہ کرنے کے لئے آئے کیونکہ جب دل زندہ ہو جاتا ہے تو انسان زندہ ہو تا ہے،انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ آ جاتا ہے آج ہم احسان مند ہیں ان صوفیاء کے جن کی تعلیمات ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم ان سے فیض پاتے ہیں ،اُن کے ترجمے ہو رہے ہیں اور ان شاء اللہ ہوتے رہیں گے-ڈاکٹر صاحب نے جتنے ابیات کا ترجمہ کیا ہے بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے میرا خیال ہے کہ اس قسم کی بہت سی کتابیں مزید بھی شائع کی جانی چاہئیں اور عام نصاب میں بھی ان کو شامل کرنا چاہیے کیونکہ سکولوں اور کالجوں میں کوئی ایسا طریقہ ہو نا چاہیے جس کے ذریعہ صوفیا ءکی تعلیمات کو سمجھایا جا سکے- صُوفی خود بھی سراپا محبت ہوتا ہے اس لئے ان کی تعلیمات بھی سراپا محبت ہیں -
جناب پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر:( سربراہ ، شعبہ فارسی ، پنجاب یونیورسٹی )
جناب پروفیسر سلیم مظہر صاحب نے کتاب پہ اپنا تفصیلی ریویو پڑھتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں جہاں انسان ایک گلوبل شہری بن گیا ہے اور الیکٹرانک میڈ یا نے فاصلوں کو مختصر اور لوگوں کو قریب کر دیا ہے، یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی ابیات کو دنیا کے اُن لوگوں تک پہنچایا جائے جو پنجابی زبان نہیں سمجھتے-یہ خطیر ذمہ داری خانوادہ حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے عالم اور نوجوان چشم و چراغ صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے زیرِسایہ العارفین پبلیکیشنز کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر زیڈ اے اعوان نے کمال خلوص لگن اور مہارت سے ادا کی-مَیں دل کی گہرائیوں سے مترجم اور ناشر کو مبارک باد پیش کرتا ہوں-’’Heart Deeper Than Ocean ‘‘ کا عنوان ہی بے ساختہ،پُر اثر اور دل نشین ہے اس سے مترجم کے ترجمہ کے فن میں مہارت کی غمازی ہوتی ہے-
محترمہ ماریہ عیزابل مالڈوناڈو گارثیا:( انچارج شعبہ لسانیات، پنجاب یونیورسٹی )
ماضی میں تحقیق کے مقصد سے مَیں نے سو (۱۰۰)سے زائد حضرت سلطان باھوُ (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات کا مطالعہ کیا ہے اور ایک ماہر لسانیات ہونے کے ناطے سائنسی نقطہ نظر سے ان کو پرکھا ہے- سلطان باھوُ (قدس اللہ سرّہٗ)کے کلام کی ایک خصوصیت جو مجھ پہ عیاں ہوئی وہ یہ ہے کہ شاعر خالق میں مستغرق ہے اور یہ کلام خود شناسی اور روحانی استغراق سے اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کو پانے کی دعوت دیتا ہے-کلام میں جگہ جگہ استعاروں کا استعمال بہت شاندار طریقے سے کیا گیا ہے-عشق کی اہمیت کے ساتھ ساتھ یگانگت کا درس بھی ملتا ہے اور یہ خصوصیت مجھے ان تمام ابیات کے اندر نظر آئی ہے-اس کتاب کے تعارفی صفحات میں ڈاکٹر زیڈ اعوان نے خدا تعالیٰ کی یکتائی پہ زور دیا اور اس کے لیے ’’wahdaniyyat‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ﷺ) سے عشق کی اہمیت پہ زور دیا ہے-
جناب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری :(ڈائریکٹر ، محکمہ اوقاف و مذہبی امور ، پنجاب)
مسلمان معاشرے کے تین اہم ادارے ہیں مسجد مدرسہ اور خانقاہ-جب تک خانقاہیں فعال رہیں گی تب تک معاشرے میں روشنی اور بیداری کے آثار قائم رہیں گے-خانقاہ کے بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ علم کا ابلاغ بھی ہے-یہ فریضہ صاحبزادہ صاحب نے جس بطریق احسن سر انجام دیا اور اس کو انجام دے رہے ہیں اس پر وہ یقیناً ہدیہ طبریق کے مستحق ہیں-ہمیں صوفیا ء کرام کی تعلیمات کو عام کرنا چاہیے اور اس کے لیے جو ان صوفی گھرانوں کے سربروردہ اور لیڈ کرنے والے افراد کی ذمہ داری ہے اور جو لوگ ان گھرانوں سے اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو رہے ہیں اس میں یقیناً حضرت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کی شخصیت ممتاز اور منفرد ہے-
جناب سہیل وڑائچ:(معروف صحافی )
اس تقریب میں شامل ہونامیرے لیے اعزازکی بات ہے-مَیں حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے تبرکات کے علاقے میں پیدا ہوا اور بچپن سے ہی حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کے چاہنے والوں اور تعلیمات سے واقف رہا ہوں ان کے عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے اور ان کی زندگیوں میں حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کا اثر،ان کی شخصیت پر ان کے اخلاق پر حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کی تعلیمات کا اثر صاف نظر آ تا ہے وہ عام لوگوں سے ممیز اور مختلف ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ ان کے اندر اولیاء اللہ کی محبت اور ان کا فیضان نظر آتا ہے-صوفی انسانوں سے محبت سکھاتاہے-
میری رائے میں جس دن اجودھن کا نام پاکپتن پڑا،جس دن بابا فرید گنج شکر (قدس اللہ سرّہٗ)یہاں تشریف لائے اسی دن پاکستان کا قیام عمل میں آگیا- یہ خطہ صوفیا کے اثر سے مسلمان ہوا ، اِسی لئے یہاں امن و برداشت کا رویہ عام رہا ہے،آج بھی صوفیاء کے پیغام کی معاشرے کو بہت ضرورت ہے تاکہ رویوں میں اعتدال اور برداشت کو پیدا کیا جا سکے-
جناب صاحبزادہ سلطان احمد علی:(چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ )
ڈاکٹر زیڈ- اے-اعوان صاحب اپنی اس کاوش پر بہت ہی مبارک با د کے مستحق ہیں کہ انہوں نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات کا بڑے احسن پیرائے اور بہت جدید انداز میں ترجمہ کیا ہے گو کہ اس سے قبل بھی عالمی سطح پر ابیات ِباھُو (قدس اللہ سرّہٗ)پرکافی کام ہوا ہے-پنچابی کے کلاسیکل لٹریچر کے پانچ بنیادی ماخذات میں ایک حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے پنچابی ابیات ہیں حتی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی لندن،کیمبرج یونیورسٹی، ییل یونیورسٹی امریکہ، لویولا یونیورسٹی شکاگو، یونیورسٹی آف کیلفورنیا ، یونیورسٹی آف پینسلو نیا، ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی یا اور کہیں بھی پنجابی ادب پڑھایا جاتا ہے ابیاتِ باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)بنیادی ماخذ کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں- مرحوم ڈاکٹر مقبول الٰہی نے سب سے پہلے ابیات شریف کا ترجمہ کیا ، اُن کے بعد یونیورسٹی آف کیلفورنیا نے حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات پر انگریزی ترجمہ’’ DEATH BEFORE DYING ‘‘ کے نام سے شائع کیا لیکن یہ تمام ابیات کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس میں منتخب ابیات ہیں- ڈاکٹر زیڈ اے اعوان کی اس کاوش سے جس طرح رومی،حافظ سعدی اور دیگر صوفیاء کرام پر عالمی سطح پر کام ہوا ہے اسی طرح حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)کے پنجابی ابیات پر بھی تحقیق کا سلسلہ آگے بڑھے گاان شاء اللہ-
جناب ڈاکٹر زیڈ اے اعوان :(ابیا ت باھوُ کے مترجم)
اصل مفسرِ قرآن حکیم اولیائے کرام ہیں،علماء کی اپنی جگہ ہے لیکن میرے نزدیک وحدانیت، رسالت آخرت یہ جتنے بھی مضامین ہیں ان کے اصل مفسر اولیاء اکرام ہیں اور ان میں سب سے اونچے مفسر قرآن حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)ہیں-میری زندگی کا بہت سارا حصہ امریکہ اور یورپ میں گزرا مَیں نے دیکھا کہ بہت سارے تراجم موجود ہیں بہت سارا لٹریچر ہے لیکن میرے وجدان میں جو چیز آئی کہ حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)کو ویسٹ کے سامنے مفسر ِقران کے طور پر پیش کیا جائے-دوسری چیز جب آپ کلام باھو (قدس اللہ سرّہٗ)پڑھتے ہیں تو وہ آپ کے دماغ کے علاوہ آپ کے دل کی طرف رجوع کرتا ہے لفظ باھوُ ایک اتنا بڑا سمندر ہے جوں جوں چلتے چلے جائیں، چلتے چلے جائیں، اس کی کوئی حد نہیں-
جناب شاہد رشید :(سیکرٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ، لاہور)
نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی جانب سے میں تمام مہمانِ گرامی کی تشریف آوری کا بے حد مشکور ہوں- ڈاکٹر زیڈ اے اعون صاحب کی یہ عظیم کاوش ہے کہ انہوں نے حضرت سلطان باھوُ (قدس اللہ سرّہٗ)کے ابیات کا انگریزی ترجمہ کیا- مَیں مرأۃ العارفین اور مسلم انسٹیٹیوٹ کو بھی اس کتاب کی اشاعت اور اس کی تقریب رونمائی کا اہتمام کرنے پہ مبارکباد پیش کرتا ہوں-
٭٭٭