فقرِ قدیم کی یہ امداد نبی ٔکریم (ﷺ)کے کرم سے حاصل ہوتی ہے اور یہی صراط المستقیم ہے کہ اِس میں عطائے لقا ہے لیکن اِس راہ میں کبھی فقرِ مکب(منہ کے بل گرانے والے فقر)اور کبھی فقرِ محب سے واسطہ پڑتا ہے-اگر دیدارِ الٰہی کے اُس پھول کو کھا لیا جائے تو بندے پر قرآن و حدیث کا علم کھل جاتا ہے اور بندہ ابلیس پرغالب آجاتا ہے ورنہ جاہل احمق تارکِ نماز ہو کر خبیث بن جاتا ہے-عالمِ ظاہر کے علم میں اندیشہ ہائے خطرات پائے جاتے ہیں مگر عالمِ باطن کاعلم غیبی علم ہے جو غلط ہوتا ہے نہ زوال پذیر ہوتا ہے-یہ معرفت ِقرب اللہ وصال کا علم ہے جس میں رجعت ہوتی ہے نہ یہ سلب ہوتا ہے-اِس سے قلب زندہ ہو تا ہے اور توفیقِ تحقیق حاصل ہوتی ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ ہی نے مجھے یہ توفیق بخشی ہے‘‘-اولیا ءاللہ عالم باللہ فقیر ولی اللہ اُسے کہتے ہیں جو اپنے عمل میں گنجِ کیمیا کا مکمل تصرف رکھتا ہو مگر اپنے نفس کے لئے دنیا کا ایک دام بھی روا نہ رکھے-ہاں یہ بھی سچ اور کھلی حقیقت ہے کہ قرب اللہ حضور کی طرف کوئی بھی پیش قدمی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی طالب ِخدا بن کر لقائے الٰہی کی کوشش کرتا ہے-مَیں نے ایسا کوئی عالم نہیں دیکھا جو معرفت ِقرب اللہ دیدار اور روشن ضمیری و قلب بیداری کے لئے علم پڑھتا ہو-جو بھی علم پڑھتا ہے وہ دنیوی روزی معاش کے لئے پڑھتاہے-ابیات:
(1) ’’خود پسند و مغرور آدمی عالم نہیں ہو سکتا،عالم وہ ہے جس کی نظر حق پر ہو‘‘-
(2) ’’ وہ جو علم بھی پڑھے معرفت ِالٰہی کے لئے پڑھے کہ بے معرفت عالم شیطان کی مثل ہوتا ہے‘‘-
(3) ’’ تُو وصالِ حق کے لئے وسیلۂ مرشد تلاش کر تاکہ تجھے معرفت ِوحدتِ حق نصیب ہو‘‘-
جو دل اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ہو وہ اللہ تعالیٰ کی دو اُنگلیوں کے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے،ایک انگشت ِجلالی کہ جب مؤمن فقیر کے وجود میں جلالیت پیدا ہوتی ہے تو اُس کے اثر سے وجود میں سکر صحو قبض بسط ذکر فکر مراقبہ اورکشف کرامات کاظہور ہوتا ہے-دوسرے انگشت ِجمالی کہ جس سے کامل یقین و اعتبار کے ساتھ مشاہدۂ دیدار نصیب ہوتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’ فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘-یہ اِفتخارِ فقر اُس فقیر کے جذبِ نظر کا نتیجہ ہے جو روشن ضمیر و نفس پر امیر ہو اور کل وجز کی ہر چیز اُس کے حکم میں ہو-اِس جملہ تاثیر کی وجہ یہ ہے کہ وہ علمِ نص و حدیث کی تفسیر پڑھتا بھی ہے اوراُسے بیان بھی کرتا ہے-اِس کے بر عکس مردہ دل آدمی کا دل شیطان کی دو اُنگلیوں میں ہوتا ہے،ایک انگشت طمع و حرص کی ہے جس کی تاثیر سے وہ حرام و حلال میں تمیز کھو بیٹھتا ہے اور مطلق کافر ہو جاتا ہے اور دوسری انگشت ہوا و کبر کی ہے جس کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’ جس کے دل میں کبر کا ایک ذرہ بھی ہوا تو وہ جنت میں نہیں جائے گا ‘‘-مرشد ِکامل اپنی نظرسے طالب کے مردہ دل کو شیطان کی دونوں اُنگلیوں سے نجات دلاتا ہے اور اُسے مجلس محمدی (ﷺ)کی حضوری بخش کر غرق فی التوحید کرتا ہے جس کی وجہ سے طالب ظاہر باطن میں بے نیاز و باتوفیق ہو کر گنجِ تصدیق کو اپنے تصرف میں لاتا ہے اور تمام خزائن ِالٰہی کو تصرف میں لاکر تصورالعیان سے قربِ الٰہی میں صدیق با تحقیق ہو جاتا ہے-اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-
ابیات:(1)’’ جب تجھے مرشد ِکامل سے توحید ِپروردگار کا علم حاصل ہو جائے تو تُو اُس سے معرف ِتوحید طلب کر‘‘- (2)’’ جس کا مرشد نہیں اُس بد نصیب کا نفس عالم بن کر اُس کی پیشوائی کرتا ہے‘‘- (3) ’’ اگرچہ ظاہر میں تُوعلمِ تفسیر و حدیث پڑھتا ہے لیکن باطن میں تیرا نفس جاہل دیو ِخبیث بنا رہتا ہے‘‘-(4) ’’ تیرا مرشد سلیمان علیہ السلام کی مثل ہونا چاہیے جو تیرے دیونفس کو قید کر کے تجھے وصالِ الٰہی بخشے ‘‘- (5)’’ تیرا دل گہوارۂ امن ہونا چاہیے ، یہی ایک بات اہل ِعلم کے لئے کافی ہے‘‘-(6)’’ علم کی فرمائش ہے کہ تُو حرص و ہوا کو ترک کر دے اور نفس کو چھوڑ کرعالمِ خدا بن جا ‘‘- (7)’’ غیب کے علم کو حق مان لیا جائے تو ایمان قائم رہتا ہے اور اگر غیب کے علم میں عیب جوئی کی جائے تو ایمان چلا جاتا ہے‘‘-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’ الٓمٓ‘‘یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں - یہ ہدایت بخشتی ہے اُن پرہیزگاروں کو جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘-علمِ فرض و واجب و سنت و مستحب سے زیادہ علم حاصل کرنا فرضِ عین نہیں ہے مگر گناہوں سے بچنا ، اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور معرفت و محبت ِ الٰہی حاصل کرنا، غنایت ِ ہدایت سے سرفراز ہونا اور غیبت سے بچنا فرضِ عین ہے- فرمایا گیا ہے کہ امور ِغیب کی شکایت کرنا زنا سے برا فعل ہے-
(جاری ہے---)
فقرِ قدیم کی یہ امداد نبی ٔکریم (ﷺ)کے کرم سے حاصل ہوتی ہے اور یہی صراط المستقیم ہے کہ اِس میں عطائے لقا ہے لیکن اِس راہ میں کبھی فقرِ مکب(منہ کے بل گرانے والے فقر)اور کبھی فقرِ محب سے واسطہ پڑتا ہے-اگر دیدارِ الٰہی کے اُس پھول کو کھا لیا جائے تو بندے پر قرآن و حدیث کا علم کھل جاتا ہے اور بندہ ابلیس پرغالب آجاتا ہے ورنہ جاہل احمق تارکِ نماز ہو کر خبیث بن جاتا ہے-عالمِ ظاہر کے علم میں اندیشہ ہائے خطرات پائے جاتے ہیں مگر عالمِ باطن کاعلم غیبی علم ہے جو غلط ہوتا ہے نہ زوال پذیر ہوتا ہے-یہ معرفت ِقرب اللہ وصال کا علم ہے جس میں رجعت ہوتی ہے نہ یہ سلب ہوتا ہے-اِس سے قلب زندہ ہو تا ہے اور توفیقِ تحقیق حاصل ہوتی ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ ہی نے مجھے یہ توفیق بخشی ہے‘‘-اولیا ءاللہ عالم باللہ فقیر ولی اللہ اُسے کہتے ہیں جو اپنے عمل میں گنجِ کیمیا کا مکمل تصرف رکھتا ہو مگر اپنے نفس کے لئے دنیا کا ایک دام بھی روا نہ رکھے-ہاں یہ بھی سچ اور کھلی حقیقت ہے کہ قرب اللہ حضور کی طرف کوئی بھی پیش قدمی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی طالب ِخدا بن کر لقائے الٰہی کی کوشش کرتا ہے-مَیں نے ایسا کوئی عالم نہیں دیکھا جو معرفت ِقرب اللہ دیدار اور روشن ضمیری و قلب بیداری کے لئے علم پڑھتا ہو-جو بھی علم پڑھتا ہے وہ دنیوی روزی معاش کے لئے پڑھتاہے-ابیات:
(1) ’’خود پسند و مغرور آدمی عالم نہیں ہو سکتا،عالم وہ ہے جس کی نظر حق پر ہو‘‘-
(2) ’’ وہ جو علم بھی پڑھے معرفت ِالٰہی کے لئے پڑھے کہ بے معرفت عالم شیطان کی مثل ہوتا ہے‘‘-
(3) ’’ تُو وصالِ حق کے لئے وسیلۂ مرشد تلاش کر تاکہ تجھے معرفت ِوحدتِ حق نصیب ہو‘‘-
جو دل اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ہو وہ اللہ تعالیٰ کی دو اُنگلیوں کے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے،ایک انگشت ِجلالی کہ جب مؤمن فقیر کے وجود میں جلالیت پیدا ہوتی ہے تو اُس کے اثر سے وجود میں سکر صحو قبض بسط ذکر فکر مراقبہ اورکشف کرامات کاظہور ہوتا ہے-دوسرے انگشت ِجمالی کہ جس سے کامل یقین و اعتبار کے ساتھ مشاہدۂ دیدار نصیب ہوتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’ فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘-یہ اِفتخارِ فقر اُس فقیر کے جذبِ نظر کا نتیجہ ہے جو روشن ضمیر و نفس پر امیر ہو اور کل وجز کی ہر چیز اُس کے حکم میں ہو-اِس جملہ تاثیر کی وجہ یہ ہے کہ وہ علمِ نص و حدیث کی تفسیر پڑھتا بھی ہے اوراُسے بیان بھی کرتا ہے-اِس کے بر عکس مردہ دل آدمی کا دل شیطان کی دو اُنگلیوں میں ہوتا ہے،ایک انگشت طمع و حرص کی ہے جس کی تاثیر سے وہ حرام و حلال میں تمیز کھو بیٹھتا ہے اور مطلق کافر ہو جاتا ہے اور دوسری انگشت ہوا و کبر کی ہے جس کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے :’’ جس کے دل میں کبر کا ایک ذرہ بھی ہوا تو وہ جنت میں نہیں جائے گا ‘‘-مرشد ِکامل اپنی نظرسے طالب کے مردہ دل کو شیطان کی دونوں اُنگلیوں سے نجات دلاتا ہے اور اُسے مجلس محمدی (ﷺ)کی حضوری بخش کر غرق فی التوحید کرتا ہے جس کی وجہ سے طالب ظاہر باطن میں بے نیاز و باتوفیق ہو کر گنجِ تصدیق کو اپنے تصرف میں لاتا ہے اور تمام خزائن ِالٰہی کو تصرف میں لاکر تصورالعیان سے قربِ الٰہی میں صدیق با تحقیق ہو جاتا ہے-اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-
ابیات:(1)’’ جب تجھے مرشد ِکامل سے توحید ِپروردگار کا علم حاصل ہو جائے تو تُو اُس سے معرف ِتوحید طلب کر‘‘- (2)’’ جس کا مرشد نہیں اُس بد نصیب کا نفس عالم بن کر اُس کی پیشوائی کرتا ہے‘‘- (3) ’’ اگرچہ ظاہر میں تُوعلمِ تفسیر و حدیث پڑھتا ہے لیکن باطن میں تیرا نفس جاہل دیو ِخبیث بنا رہتا ہے‘‘-(4) ’’ تیرا مرشد سلیمان علیہ السلام کی مثل ہونا چاہیے جو تیرے دیونفس کو قید کر کے تجھے وصالِ الٰہی بخشے ‘‘- (5)’’ تیرا دل گہوارۂ امن ہونا چاہیے ، یہی ایک بات اہل ِعلم کے لئے کافی ہے‘‘-(6)’’ علم کی فرمائش ہے کہ تُو حرص و ہوا کو ترک کر دے اور نفس کو چھوڑ کرعالمِ خدا بن جا ‘‘- (7)’’ غیب کے علم کو حق مان لیا جائے تو ایمان قائم رہتا ہے اور اگر غیب کے علم میں عیب جوئی کی جائے تو ایمان چلا جاتا ہے‘‘-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’ الٓمٓ‘‘یہ وہ کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں - یہ ہدایت بخشتی ہے اُن پرہیزگاروں کو جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘-علمِ فرض و واجب و سنت و مستحب سے زیادہ علم حاصل کرنا فرضِ عین نہیں ہے مگر گناہوں سے بچنا ، اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور معرفت و محبت ِ الٰہی حاصل کرنا، غنایت ِ ہدایت سے سرفراز ہونا اور غیبت سے بچنا فرضِ عین ہے- فرمایا گیا ہے کہ امور ِغیب کی شکایت کرنا زنا سے برا فعل ہے-
(جاری ہے---)