فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’سلامتی ہے اُس کے لئے جو ہدایت کی راہ چلا‘‘- معرفت و فقر اور جمعیت و ہدایت کا متفقہ تعلق دیدار ِرحمن سے ہے اور نفس ِامارہ و دنیا و ہوا کا متفقہ تعلق شیطان سے، تجھے اِن میں سے کیا پسند ہے؟
ابیات:(1) ’’ علم وہ سود مند ہے جو سجدہ و نماز و روزہ کے لئے پڑھا جائے یا حج و زکوٰۃ و کلمہ طیب کےلئے پڑھا جائے‘‘- (2)’’جو کوئی علم کو درمِ دنیا کے لئے پڑھتا ہے وہ معرفت وجودو کرم سے بے نصیب رہتا ہے‘‘- (3) ’’ جو علم شہوات ِ نفسانی کی تسکین کے لئے پڑھا جائے وہ سراسر ریا کاری ہے، ایسے علم کو خدا کہاں روا رکھتا ہے‘‘-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’اے ایمان والو!تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے‘‘- علم پڑھنا اور اُسے اپنے عمل میں لے آنا آسان ہے مگر عامل عالم بننا نہایت مشکل و دشوار کام ہے‘‘-
ابیات: (1)’’علم کے تین حرف ہیں اور عالم اُن سے تین چیزیں حاصل کرتا ہے :علم ،عمل اور معرفت اور یہ سب اللہ کے لئے ہونا چاہیے‘‘- (2)’’ علم کے تین حرف ہیں اور عالم اُن سے تین مراتب حاصل کرتا ہے یعنی وہ باحیا و بارضا و باادب ہوتا ہے‘‘- (3)’’ علم درخت کی مثل ہے جس پر معرفت کا پھل لگتا ہے ، جو کوئی علم کا یہ پھل کھا تا ہے وہ عارف بن جاتا ہے‘‘-
علمِ قَال کے تمام مناصب و درجات کا مطالعہ آواز ہے اور معرفت دائم مشاہدۂ قرب اللہ حضوری و دیدار ِ راز ہے- اگر تُو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے - وہ طالب اللہ کہ جس کا واحد مقصد طلب ِ دیدار ہے اُسے طمعِ بہشت و خوف ِ دوزخ سے کیا واسطہ کہ وہ تو ہر دم نظارۂ دیدار کی طرف متوجہ رہتا ہے -حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’جو آدمی جس چیز کی طلب میں کوشش کرتا ہے بے شک وہ اُسے پا لیتا ہے‘‘-
بیت:’’اولیا ءکا راہبر و پیشوا کون ہے؟ اُن کا راہبر و پیشوا جذب ِ وحدت ہے جو طالب اللہ کو خدا کی طرف کھینچ لیتا ہے‘‘-
حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’جذب اللہ تعالیٰ کے جذبات میں سے جذبہ حق ہے ‘‘-
ایبات :(1) ’’اللہ جسے چاہتا ہے اُسے اپنی حضوری بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے خود سے دُور کر دیتا ہے‘‘- (2) ’’ اُس وقت کوشش کی حاجت ختم ہو جاتی ہے جب خدا کی طرف سے کشش کارفرما ہو جائے‘‘- (3)’’ حقیقت و معرفت کی جستجو میں فرحت و آسائش تلاش مت کر ، ہر شے کو ترک کر دے اور اُس کی بدنامی مول نہ لے‘‘- (4)’’وجود کے چاروں عناصر کو چھوڑ کر یکتا صفت ہو جا کہ جو کوئی اِن چاروں کو چھوڑ تا ہے واصل بخدا ہو جاتا ہے‘‘- (5)’’واصلانِ حق کے لئے یہی ایک نصیحت ہی کافی ہے کہ ہر مقام وہر مرتبہ اُن کے لئے ناتمام و راہزن ہے ‘‘-
جو طالب اپنے مرشد سے اخلاصِ خاص رکھ لیتا ہے مرشد اُسے مطالعۂ علمِ معرفت بخش دیتا ہے کہ ہر علم مطالعۂ معرفت سے کھلتا ہے اور ہر علم مطالعۂ معرفت میں آتا ہے چنانچہ علمِ موت، علمِ محبت، علمِ معرفت، علمِ مشاہدہ، علمِ مراقبہ ، علمِ مکاشفہ، علمِ مطالب، علمِ معراجِ دیدارو لقا اور باقی جتنے علوم ہیں وہ سب اِسی علمِ’’ یک دم‘‘ میں آ جاتے ہیں اور علمِ’’ یک دم‘‘ اُسے کہتے ہیں کہ ایک ہی دم کی جنبش سے تماشائے ازل، تماشائے ابد، تماشائے دنیا، تماشائے عقبیٰ حور و قصورِ بہشت ، تماشائے معرفت مشاہدۂ انوارِ دیدارغرق فنا فی اللہ بقا کے تمام مراتب ایک ہی دم میں اُس کے قدموں میں آ جاتے ہیں -اِسے مراتب ِاستقامت بھی کہتے ہیں-مطالعۂ علمِ موت کس علم سے کھلتا ہے؟ علمِ تصورِ اسم اللہ ذات با توفیق و علمِ تصرفِ تحقیق اور علمِ توجہ بحق رفیق سے-یہ صدیق عالم کے مراتب ہیں جس کے علم کا تمام سودا سویدا غیبی طور پر اُس کے لطیفہ ٔدل میں پیدا ہوتا ہے-جو آدمی علمِ موت کا مطالعہ کرتا ہے اُس سے کل و جز کا کوئی علم مخفی و پوشیدہ نہیں رہتا -
ابیات: (1)’’ راہِ فقر میں ہر ایک مرتبہ مردود ہے اور ہر منزل ناقص و ناتمام ہے اِس لئے فقیر پر ہر ایک مقام حرام ہے‘‘- (2)’’ فقیر عین بِین ہوتا ہے ، وہ چشمِ بصیرت سے عین ذات کو دیکھتا ہے جہاں آسمان ہے نہ زمین ہے‘‘- (3)’’جو آدمی اپنی خودی کو چھوڑ دیتا ہے وہ اُسے پا لیتا ہے اور اسم اللہ ذات کو اپنا رفیق پیشوا بنا لیتا ہے‘‘-اسم صاحب ِتصور کو مسمّٰی تک پہنچاتا ہے-مسمّٰی تک رسائی ایک ہی حرف سے ہو جاتی ہے اور وہ ایک حرف معما ہے کل و جز کا جو کاملوں کو معلوم ہے اور ناقص اُس سے محروم ہیں-ناقص اسمِ مسمّٰی سے سلک سلوک و راہ ِطریقت بتاتا ہے اور کامل قرب اللہ حضوری کا مشاہدہ کراتا ہے- (جاری ہے)
فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’سلامتی ہے اُس کے لئے جو ہدایت کی راہ چلا‘‘- معرفت و فقر اور جمعیت و ہدایت کا متفقہ تعلق دیدار ِرحمن سے ہے اور نفس ِامارہ و دنیا و ہوا کا متفقہ تعلق شیطان سے، تجھے اِن میں سے کیا پسند ہے؟
ابیات:(1) ’’ علم وہ سود مند ہے جو سجدہ و نماز و روزہ کے لئے پڑھا جائے یا حج و زکوٰۃ و کلمہ طیب کےلئے پڑھا جائے‘‘- (2)’’جو کوئی علم کو درمِ دنیا کے لئے پڑھتا ہے وہ معرفت وجودو کرم سے بے نصیب رہتا ہے‘‘- (3) ’’ جو علم شہوات ِ نفسانی کی تسکین کے لئے پڑھا جائے وہ سراسر ریا کاری ہے، ایسے علم کو خدا کہاں روا رکھتا ہے‘‘-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’اے ایمان والو!تم وہ بات کیوں کرتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے‘‘- علم پڑھنا اور اُسے اپنے عمل میں لے آنا آسان ہے مگر عامل عالم بننا نہایت مشکل و دشوار کام ہے‘‘-
ابیات: (1)’’علم کے تین حرف ہیں اور عالم اُن سے تین چیزیں حاصل کرتا ہے :علم ،عمل اور معرفت اور یہ سب اللہ کے لئے ہونا چاہیے‘‘- (2)’’ علم کے تین حرف ہیں اور عالم اُن سے تین مراتب حاصل کرتا ہے یعنی وہ باحیا و بارضا و باادب ہوتا ہے‘‘- (3)’’ علم درخت کی مثل ہے جس پر معرفت کا پھل لگتا ہے ، جو کوئی علم کا یہ پھل کھا تا ہے وہ عارف بن جاتا ہے‘‘-
علمِ قَال کے تمام مناصب و درجات کا مطالعہ آواز ہے اور معرفت دائم مشاہدۂ قرب اللہ حضوری و دیدار ِ راز ہے- اگر تُو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے - وہ طالب اللہ کہ جس کا واحد مقصد طلب ِ دیدار ہے اُسے طمعِ بہشت و خوف ِ دوزخ سے کیا واسطہ کہ وہ تو ہر دم نظارۂ دیدار کی طرف متوجہ رہتا ہے -حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’جو آدمی جس چیز کی طلب میں کوشش کرتا ہے بے شک وہ اُسے پا لیتا ہے‘‘-
بیت:’’اولیا ءکا راہبر و پیشوا کون ہے؟ اُن کا راہبر و پیشوا جذب ِ وحدت ہے جو طالب اللہ کو خدا کی طرف کھینچ لیتا ہے‘‘-
حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’جذب اللہ تعالیٰ کے جذبات میں سے جذبہ حق ہے ‘‘-
ایبات :(1) ’’اللہ جسے چاہتا ہے اُسے اپنی حضوری بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے خود سے دُور کر دیتا ہے‘‘- (2) ’’ اُس وقت کوشش کی حاجت ختم ہو جاتی ہے جب خدا کی طرف سے کشش کارفرما ہو جائے‘‘- (3)’’ حقیقت و معرفت کی جستجو میں فرحت و آسائش تلاش مت کر ، ہر شے کو ترک کر دے اور اُس کی بدنامی مول نہ لے‘‘- (4)’’وجود کے چاروں عناصر کو چھوڑ کر یکتا صفت ہو جا کہ جو کوئی اِن چاروں کو چھوڑ تا ہے واصل بخدا ہو جاتا ہے‘‘- (5)’’واصلانِ حق کے لئے یہی ایک نصیحت ہی کافی ہے کہ ہر مقام وہر مرتبہ اُن کے لئے ناتمام و راہزن ہے ‘‘-
جو طالب اپنے مرشد سے اخلاصِ خاص رکھ لیتا ہے مرشد اُسے مطالعۂ علمِ معرفت بخش دیتا ہے کہ ہر علم مطالعۂ معرفت سے کھلتا ہے اور ہر علم مطالعۂ معرفت میں آتا ہے چنانچہ علمِ موت، علمِ محبت، علمِ معرفت، علمِ مشاہدہ، علمِ مراقبہ ، علمِ مکاشفہ، علمِ مطالب، علمِ معراجِ دیدارو لقا اور باقی جتنے علوم ہیں وہ سب اِسی علمِ’’ یک دم‘‘ میں آ جاتے ہیں اور علمِ’’ یک دم‘‘ اُسے کہتے ہیں کہ ایک ہی دم کی جنبش سے تماشائے ازل، تماشائے ابد، تماشائے دنیا، تماشائے عقبیٰ حور و قصورِ بہشت ، تماشائے معرفت مشاہدۂ انوارِ دیدارغرق فنا فی اللہ بقا کے تمام مراتب ایک ہی دم میں اُس کے قدموں میں آ جاتے ہیں -اِسے مراتب ِاستقامت بھی کہتے ہیں-مطالعۂ علمِ موت کس علم سے کھلتا ہے؟ علمِ تصورِ اسم اللہ ذات با توفیق و علمِ تصرفِ تحقیق اور علمِ توجہ بحق رفیق سے-یہ صدیق عالم کے مراتب ہیں جس کے علم کا تمام سودا سویدا غیبی طور پر اُس کے لطیفہ ٔدل میں پیدا ہوتا ہے-جو آدمی علمِ موت کا مطالعہ کرتا ہے اُس سے کل و جز کا کوئی علم مخفی و پوشیدہ نہیں رہتا -
ابیات: (1)’’ راہِ فقر میں ہر ایک مرتبہ مردود ہے اور ہر منزل ناقص و ناتمام ہے اِس لئے فقیر پر ہر ایک مقام حرام ہے‘‘- (2)’’ فقیر عین بِین ہوتا ہے ، وہ چشمِ بصیرت سے عین ذات کو دیکھتا ہے جہاں آسمان ہے نہ زمین ہے‘‘- (3)’’جو آدمی اپنی خودی کو چھوڑ دیتا ہے وہ اُسے پا لیتا ہے اور اسم اللہ ذات کو اپنا رفیق پیشوا بنا لیتا ہے‘‘-اسم صاحب ِتصور کو مسمّٰی تک پہنچاتا ہے-مسمّٰی تک رسائی ایک ہی حرف سے ہو جاتی ہے اور وہ ایک حرف معما ہے کل و جز کا جو کاملوں کو معلوم ہے اور ناقص اُس سے محروم ہیں-ناقص اسمِ مسمّٰی سے سلک سلوک و راہ ِطریقت بتاتا ہے اور کامل قرب اللہ حضوری کا مشاہدہ کراتا ہے- (جاری ہے)