Whatever within heart you are saying, is beyond your perceptions Hoo
Broaden remits of your heart from finite to infinite exceptions Hoo
Qalb (soul) is excellence of beautiful beings and gem of Majestic Lord’s residence Hoo
The qalb illuminated direction ‘Bahoo’ with Allah’s beloved acquaintance Hoo
Dilay wich dil jo Aakhay so dil door dalilo’N Hoo
Dil da door agoha’N kijye kasrat kano’N qalilo’N Hoo
Qalb kamal jamalo’N jismo’N johar jah jalilo’N Hoo
Qibla qalb munawwar hoya Bahoo khilwat khas Khalilo’N Hoo (Translated by: M.A.Khan)
تشریح:
مقصدِ حیات میں دل کی اہمیت سے مَفَر ممکن نہیں ہے-دل وہ خلوت خانہ ہے کہ جوذاتِ حقیقی کاٹھکانہ ہے-لیکن ذاتِ حق تعالیٰ کے نور کی آماج گاہ صرف وہ دل ہوتا ہے جو غیر سے پاک ہو -محدث اورحادث دونوں کو ایک ہی طلب ونیت سے اپنایا نہیں جاسکتا-محدث اس امر کا متقاضی ہوتاہے کہ اُس کا ٹھکانہ حوادث سے پاک ہو-اس لیے دِل کی اہمیت کو زبانی مان لینا ہی کافی نہیں ہوتا کیونکہ جودل اللہ تبارک وتعالیٰ کا عرش ہے وہ ہماری سوچ وفکر واداراک سے بہت پرے ہے-اُس دل تک فقط اُن فقراء کی رسائی ہوتی ہے جو عملی طور پہ اپنی زندگی کو غیر اللہ کی محبتوں سے پاک کرتے ہیں-دل ایک برتن ہے جس میں یا تو اللہ تعالیٰ کی محبت رہتی ہے یا پھر دُنیا -اِس لیے یہ دونوں محبتیں ایک ہی دل میں جمع نہیں ہوسکتیں -اس امر کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادِ ربّانی ہے کہ :-مَاجَعَلَ االلہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ ‘‘[1]، ’’اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے-اس کی تفسیر میں حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :-
خدا یکی دل یکی یکی را بجو |
|
بایکی یک شوی چوں عین او |
’’خدا ایک ہے، دل بھی ایک ہے، اُس ایک کو ڈھونڈ اور اُس کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتاکہ عین وہی ایک رہ جائے‘‘[2]-
از د ل بروں کنم غمِ د نیا و آخرت |
|
یا خانہ جائِ رخت بود یا جمالِ دوست |
’’مَیں نے اپنے دل سے طلب ِ دنیا و عقبیٰ کو نکال دیا ہے کہ اِس گھر میں غمِ دنیا وآخرت رہ سکتا ہے یا جمالِ دوست‘‘[3]-
(۲)راہِ حقیقت میں کثرت سے وحدت کی جانب گامزن ہونا ضرور ی ہے-کثرت ازخود پہچانی نہیں جاسکتی البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاں وحدتِ حق نہیں ہوتی وہاں الائشِ کثرت ضرور ڈیرہ ڈال لیتی ہے-نگاہِ مرشد سے پہلے طالب مولیٰ بھی الائش کثرت میں جکڑا ہوتا ہے لیکن مرشد کی تربیت کے بعد اُس کی خواہشات بتدریج کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں یعنی کثرت سے وحدت کی جانب سفر کاآغاز ہوجاتاہے-اِسی لیے کہاجاتا ہے کہ آرزوؤں میں کمی سے رُوحانی خوشی میّسر آتی ہے-درویش کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دل کو کثرت کی الائشوں سے صاف کرے اوروحدت حق کے لیے دل وجان پاک کرے-
(۳) رُوح کے کمال اورجسم کے جمال کادارومدار دِل ِخستہ پہ ہے یعنی ایسا دِل جوہمہ وقت انوارِ باری تعالیٰ سے شکستہ ہوکر رہے-جو انسان دِل کی خستگی سے محروم ہو وہ رُوحانی کمال حاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی اُس کی جسمانی وجاہت حصول مقصد کے لیے کام آتی ہے-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے فرمایاکہ:
دید اربین دیدہ بود د یدہ بہ دل |
|
دید اردر دل خوش ببین ای رُو خجل |
’’دیدار کرنے والی آنکھ دل کی آنکھ ہی ہوتی ہے، اے شرمندہ رُو! اپنے دل کی آنکھ کھول اور جی بھر کے دیدار کر-اے باھُو ! تحقیق مَیں نے اُسے اپنے دل میں پایا ہے کہ اہل ِدل ہمیشہ اپنے دل سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں‘‘[4]-
(۴)حقیقی قبلہ تو دل ہی ہوتاہے-اس لیے ہرانسان پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نورِ اسم اللہ ذات سے اِسے منور کرے-جب خلوت خانۂ دل میں اسم اللہ ذات کی شمع روشن ہوجائے تویہ خلیل اکبر کے لیے خاص ہوجاتا ہے-ایسا فقیر اللہ تعالیٰ کامحرم بن جاتاہے اوردُنیا کے لیے نامحرم-خاص خلوت وہی ہے کہ جہاں عاشق اور معشوق کے سوا تیسرا کوئی موجود نہ ہو-
تشریح:
مقصدِ حیات میں دل کی اہمیت سے مَفَر ممکن نہیں ہے-دل وہ خلوت خانہ ہے کہ جوذاتِ حقیقی کاٹھکانہ ہے-لیکن ذاتِ حق تعالیٰ کے نور کی آماج گاہ صرف وہ دل ہوتا ہے جو غیر سے پاک ہو -محدث اورحادث دونوں کو ایک ہی طلب ونیت سے اپنایا نہیں جاسکتا-محدث اس امر کا متقاضی ہوتاہے کہ اُس کا ٹھکانہ حوادث سے پاک ہو-اس لیے دِل کی اہمیت کو زبانی مان لینا ہی کافی نہیں ہوتا کیونکہ جودل اللہ تبارک وتعالیٰ کا عرش ہے وہ ہماری سوچ وفکر واداراک سے بہت پرے ہے-اُس دل تک فقط اُن فقراء کی رسائی ہوتی ہے جو عملی طور پہ اپنی زندگی کو غیر اللہ کی محبتوں سے پاک کرتے ہیں-دل ایک برتن ہے جس میں یا تو اللہ تعالیٰ کی محبت رہتی ہے یا پھر دُنیا -اِس لیے یہ دونوں محبتیں ایک ہی دل میں جمع نہیں ہوسکتیں -اس امر کے بارے میں قرآن مجید میں ارشادِ ربّانی ہے کہ :-مَاجَعَلَ االلہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ ‘‘[1]، ’’اللہ تعالیٰ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے-اس کی تفسیر میں حضرت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ :-
خدا یکی دل یکی یکی را بجو |
|
بایکی یک شوی چوں عین او |
’’خدا ایک ہے، دل بھی ایک ہے، اُس ایک کو ڈھونڈ اور اُس کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتاکہ عین وہی ایک رہ جائے‘‘[2]-
از د ل بروں کنم غمِ د نیا و آخرت |
|
یا خانہ جائِ رخت بود یا جمالِ دوست |
’’مَیں نے اپنے دل سے طلب ِ دنیا و عقبیٰ کو نکال دیا ہے کہ اِس گھر میں غمِ دنیا وآخرت رہ سکتا ہے یا جمالِ دوست‘‘[3]-
(۲)راہِ حقیقت میں کثرت سے وحدت کی جانب گامزن ہونا ضرور ی ہے-کثرت ازخود پہچانی نہیں جاسکتی البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاں وحدتِ حق نہیں ہوتی وہاں الائشِ کثرت ضرور ڈیرہ ڈال لیتی ہے-نگاہِ مرشد سے پہلے طالب مولیٰ بھی الائش کثرت میں جکڑا ہوتا ہے لیکن مرشد کی تربیت کے بعد اُس کی خواہشات بتدریج کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں یعنی کثرت سے وحدت کی جانب سفر کاآغاز ہوجاتاہے-اِسی لیے کہاجاتا ہے کہ آرزوؤں میں کمی سے رُوحانی خوشی میّسر آتی ہے-درویش کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دل کو کثرت کی الائشوں سے صاف کرے اوروحدت حق کے لیے دل وجان پاک کرے-
(۳) رُوح کے کمال اورجسم کے جمال کادارومدار دِل ِخستہ پہ ہے یعنی ایسا دِل جوہمہ وقت انوارِ باری تعالیٰ سے شکستہ ہوکر رہے-جو انسان دِل کی خستگی سے محروم ہو وہ رُوحانی کمال حاصل کرسکتا ہے اورنہ ہی اُس کی جسمانی وجاہت حصول مقصد کے لیے کام آتی ہے-حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)نے فرمایاکہ:
دید اربین دیدہ بود د یدہ بہ دل |
|
دید اردر دل خوش ببین ای رُو خجل |
’’دیدار کرنے والی آنکھ دل کی آنکھ ہی ہوتی ہے، اے شرمندہ رُو! اپنے دل کی آنکھ کھول اور جی بھر کے دیدار کر-اے باھُو ! تحقیق مَیں نے اُسے اپنے دل میں پایا ہے کہ اہل ِدل ہمیشہ اپنے دل سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں‘‘[4]-
(۴)حقیقی قبلہ تو دل ہی ہوتاہے-اس لیے ہرانسان پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ نورِ اسم اللہ ذات سے اِسے منور کرے-جب خلوت خانۂ دل میں اسم اللہ ذات کی شمع روشن ہوجائے تویہ خلیل اکبر کے لیے خاص ہوجاتا ہے-ایسا فقیر اللہ تعالیٰ کامحرم بن جاتاہے اوردُنیا کے لیے نامحرم-خاص خلوت وہی ہے کہ جہاں عاشق اور معشوق کے سوا تیسرا کوئی موجود نہ ہو-