دوام معاشرہ اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ

دوام معاشرہ اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ

دوام معاشرہ اور تعلیماتِ حضرت سلطان باھوؒ

مصنف: توقیر عامر ملک ستمبر 2017

معاشرہ افراد کے ایسے گروہ کو کہا جاتا ہےجس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ لازمی نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو-جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر عام طور پر اس کا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کر دیا جاتا ہے-

اسلام میں مشترکہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے اور فلاحِ معاشرہ کا قرآنی تصور ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مقابلے میں معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں چمک کھو دیتی ہیں-قرآن پاک میں اس تصور کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے کہ معاشرہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے؟

’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِااللہِ ‘‘[1]

 

’’تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہوحکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘- 

قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی جانب راہ کھلتی ہے کہ جہاں معاشرے کے بنیادی تصور کے مطابق عام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی اور ساتھ ہی ساتھ شعور کی سطح اتنی بُلند ہو کہ نیکی اور بدی کا فرق واضح ہو، شر سے روکنے یا خیر کا حکم لگانے کی اہلیت اور صلاحیت لوگوں میں موجود ہو-کسی بھی انسانی معاشرےکو اس وقت تک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد کو مساوی انسان نہ سمجھا جائے اور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں  جو ایک طاقتور کے پاس ہوں-خواہ یہ کمزوری طبعی ہو یا مالیاتی یا کسی اور قسم کی-فلاح یافتہ معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں اسلامی جوش و جذبہ سے ادا کرنے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے-فکری انقلاب کے بغیر معاشرہ کسی بھی طرح فلاح و بہتری کا اعلیٰ نمونہ نہیں بن سکتا-اسلامی جوش و جذبہ سے میری مراد اپنے فکر و عمل  کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نیکی، سچائی، امانتداری و دیانتداری ، ایثار اسلامی تعزیرات اور اسلامی انقلاب کے مطابق ڈھالنے سے ہے-

دین اسلام میں تقاضاءِ معاشرتی زندگی (Civic Sense  )کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جو کہ ایک فلاح یافتہ معاشرہ کے لیے از حد ضروری ہے-اس کے بغیر انسانی معاشرہ کبھی بھی فلاح یافتہ نہیں گردانا جا سکتا - جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ‘‘[2]

 

’’بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے‘‘- 

کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کی بقاء کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے افراد معاشرتی فرائض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں کیونکہ وہ اعمال اور ذمہ داریاں صرف انہی کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک وسیع دائرہ ہوتا ہے جس پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں-کسی قوم میں تعلیم و ہنر اور ظاہری عبادات کا اہتمام بدرجہ اتم موجود ہو لیکن ان کی شخصیت و کردار پست ہو تو وہ تعلیم و ہنر اور عبادت ہماری فلاح کا ضامن نہیں ہو سکتی-تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اگر ہمارا کردار اچھا نہ ہو تو ہم اس تعلیم کے باوجود بد تہذیب اور غیر متمدن کہلائیں گے جس قوم کے لوگوں میں جس قدر معاشرتی آداب موجود ہوتے ہیں وہ قوم اسی قدر مہذب اور ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہے-

بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے کی حالت بھی یہی ہے کہ بصیرت بآسانی ہم پر غیر متمدن ہونے کا فتویٰ صادر کر سکتی ہے-ہمارے ہاں نصاب تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسکولز،مدارس اور یونیورسٹیز قائم کر دی جاتی ہیں لیکن ان میں ہمارے نوجوانوں کے لیے تعمیر شخصیت و کردار کا خاص اہتمام نہیں ہوتا اور جب یہ نوجوان طلباء معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا رویہ سراسر خلافِ تہذیب ہوتا ہے-حالت اب یہ ہے کہ ہمارے شہریوں میں اس بات کا احساس ناپید ہوچکا ہے کہ انہیں معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے اور ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟نہ صرف عام تعلیمی اداروں کا یہ معاملہ ہے بلکہ ان اداروں، جہاں دین کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، کا حال بھی اس سے مختلف نہیں-چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان خواہ دین دار ہوں یا دنیا دار، وہ اپنے بھائیوں کے حقوق پامال کرتے ہیں-ہمارا دین بحیثیت مسلمان شہری ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟’’ Civic Sense‘‘دراصل اس علم کا نام ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے اور ذمہ دار شہری کو معاشرے سے کیا سلوک کرنا چاہیے اور اسے انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی میں کس طرح رہنا چاہیے اور ہمیں بحیثیت مسلمان شہری کس طرح رہنا چاہیے!

 

جدید علم شہریت (Civic Education)میں شہریوں کے حقوق اور ان کے فرائض کا ذکر کیا گیا ہے-نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ہمارا دین اس بارے میں ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟اسی طرح علم نفسیات کا مقبول نظریہ ’’Humanistic‘‘یعنی انسان شناسی پر مبنی ہے یعنی جب تک انسان کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تب تک وہ کسی کام کے لیے متحرک نہیں ہو سکتا-اگر جدید علم شہریت کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ معاشرہ کے جو اصول و ضوابط قرار دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر قرآن و سنت ہی سے ماخوذ ہیں-

اگر ہم انسا ن اور معاشرتی فرائض کی بات کرتے ہیں تو ان کو طبعی طور اس کے خالق نے مہذب اور شہری بنایا ہے اور اجتماعی صورت میں اپنانا اس کی فطری ضرورتوں میں سے ایک ہے-لیکن اجتماعی زندگی پر ایک فرد کو ایک بہتر زندگی کے لئے کچھ بنیادی مراعات اور دوسرے افراد سے کچھ خاص اصولوں پر مبنی رویہ درکار ہوتا ہے-جسے حقوق کہا جاتا ہے-یہ حقوق فرد کے جاہ و مال اہل و عیال،سیاست، معیشت اور معاشرتی معاملات سے متعلق ہوتے ہیں-مسلمانوں کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے-ماضی میں مسلمان سیاست و مدنیت(Civic)کو دین کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ ذمہ داریاں جسے موجودہ دور میں شہریوں کی ذمہ داریاں(Responsibilities of Citizen)کہا جاتا ہے-انہیں مسلمان اپنے دینی فرائض میں شمار کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں-نبی کریم (ﷺ)نے بھی صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)کو نہ صرف مذہبی احکامات دیئے بلکہ ایسے معاملات کو دین کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان کی تر بیت فرمائی جو انسان کے کردار سے متعلق ہیں-اس کی بدولت مسلمان ماضی میں ترقی  کی اس معراج پر پہنچ گئے کہ صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے-علم، جنگ، مہارت وہنر دعوت و تبلیغ غرض کہ زندگی کے ہر شعبے  میں وہ کارنامے سر انجام دیئے جس کی نظیر کوئی پیش نہ کر سکا-لیکن جب مسلمانوں پر سماجی و فکری زوال آیا اور ان میں ذمہ داری اور خدا کے حضور جواب دہی کا احساس بے جان ہو گیا تو انہوں نے بھی دیگر مذاہب کی طرح دین اسلام کو بھی صرف مذہبی رسومات کی ادائیگی تک محدود کر لیا اور دین کو اپنی شہری و مذہبی زندگی سے بے دخل  کر دیا-آج ہم مسجدوں تک جانےاور نمازِ پنجگانہ ادا کر لینے کے بعد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دین کی ذمہ داری پوری ہوگئی ہےاور ہم  اپنی روزمرہ کی زندگی میں آزاد اور خود مختار ہیں-ہمارے نزدیک اس بات سے ہماری دین داری میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہم معاشرے میں کس طرح رہتے ہیں-حالانکہ اسلام صرف چہروں میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر آنے کے بعد معاشرتی زندگی میں لاگو کرنے کا نام ہے-

ہمارے ہاں جو فقہہ کی کتابیں ہیں ان کا عبادات سے زیادہ حصہ معاملات سے متعلق ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں معاملات کی اہمیت کیا ہے-اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیئے-معبودِ واحد کی عبادت کا طریقہ بتلایا وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا گیاکہ ہم بحیثیت ایک شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے-بلکہ اس اعتبار سے اسلام نے ان معاملات کو حقوق اللہ سے بھی آگے قرار دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا حق معاف کر دیں گے لیکن اس نفسا نفسی کے عالم میں کوئی بھی کسی کو اپنا حق معاف نہیں کرے گا-اس اہمیت کے پیش نظر شریعت اسلامی میں معاشرہ میں لوگوں کے درمیان محبت و الفت قائم رکھنے کے لئے کچھ معاشرتی قوانین اور اخلاقی اصول مقرر کیے گئے ہیں جس کی پابندی مسلمان شہری پر واجب ہے-پڑوسی کے ساتھ،محلہ والوں اور شہر والوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیا ہونا چاہیے؟صریح احکامات دیئے ہیں-آج امت مسلمہ کی زبوں حالی کے پیش نظر یہ بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے-اخلاقی قدروں کو خدا پرستی کے تحت رواج دینا اور اس ضمن  میں لوگوں کی صحیح تربیت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے- ایک فلاحی انسانی معاشرہ کے وجود کو بھی برقرار رکھ سکتی ہے-آج کے جدید معاشروں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے احتجاجی مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں-حقوق دینے یعنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی-

تقریباً  1400سال قبل نبی کریم (ﷺ) نے جس نظریاتی و فلاحی معاشرہ کی بنیاد رکھی، صدیاں بیت جانے کے بعدبھی اس کے اثرات آج بھی معاشرہ انسانی میں موجود ہیں-اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کی بنیاد صرف مادیت پر مبنی نہ تھی-بلکہ اس میں روحانی قدریں بھی شامل تھیں جس نے معاشرہ کو دوام بخشا-

حضور رسالت مآب (ﷺ)کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)کے بعد سلف صالحین و اولیائے کا ملین (رحمتہ اللہ علیہ)نے معاشرہ کے دوام سے متعلقہ جو نظریات پیش کیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں-انہوں نے مادی و روحانی دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھا-

فرد معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے فرد کی بقاء میں معاشرہ کی بقاء مضمر ہے- علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

 

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ[3]

خصوصاً جب ہم حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرہٗ) کی تعلیمات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا نظریہ دوام انفرادیت کا حامل ہے- مثلاً آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ اگر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو  تو مرنے سے پہلے مر جاؤ ’’موتو قبل ان تموتو‘‘کا مصداق بن جاؤ اسی طرح اپنے پنجابی کلام میں مزید وضاحت فرماتے ہیں -


جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھو

 

سنیا سخن گیاں کھل اکھیاں اساں چت مولا ول لایا ھو
مرن تھیں اگے مر گئے باہو تاں مطلب نوں پایا ھو

اِس میں آپ نے خود احتسابی کو سانسوں کے احتساب سے جوڑا ہے کہ جو شخص سانسوں کا یعنی لمحوں کا حساب کرتا ہے کہ میرا کونسا لمحہ کیسا گزرا ؟ کیا وہ میرے پیدا کرنے والے کی منشا و مرضی کے مطابق گزرا یا نہیں ؟ یہ وہ سماجی شعور ہے جو ایک عام انسان کی زندگی میں انقلاب موجزن کر دیتا ہے-پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’سُخن سُنی تو آنکھیں کھل گئیں‘‘-مراد یہ کہ جب مرشدِ کامل نے تلقین کی اور حقائقِ کائنات کو ہم پہ آشکار کیا اور بتایا کہ ایک ایک فرد کا معاشرہ میں کیا مقام بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف لگالے یعنی ’’دل مولا کی طرف لگا لے‘‘-جب بندہ اُس کی محبت کے عوض اُس سے محبت کرتا ہے اور اپنے آپ کو اُسی کا بنا لیتا ہے تو پھر اپنی جان بلکہ اپنا جہان اُسی کے سپرد کر دیتا ہے اور اُس مالک کے نام پہ ’’بیع‘‘ ہو جاتا ہے یعنی بِک جاتا ہے یا یوں کہئے کہ وقف ہو جاتا ہے تو وہ اللہ پاک اپنے بندے پہ راضی ہو کر اسے حیاتِ جاودانی عطا کر دیتا ہے کیونکہ (بلا شک و شبہ) وہ اس امر پہ قادر ہے-مرنے سے پہلے مرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی خواہش کو اللہ تعالیٰ کی خواہش کے تابع کر دیا جائے-

اس طرح آپ قدس اللہ سرّہٗ اپنی تصنیفِ لطیف ’’عین الفقر ‘‘میں ارشادفرماتے ہیں:

’’جان لے کہ  فقر ایک سمندر ہے جس میں مہلک زہر بھرا ہوا ہے جو آدمی اس سمندر پر پہنچ کر زہر کا پیالہ پی لیتا ہے- وہ فرد شہید ہو جاتا ہے وہ مر تا نہیں بلکہ مقامِ ’’موتوقبل ان تموتو‘‘ پر پہنچ کر خود کو سپر دِ خدا کر دیتا ہے‘‘[4]-

جو شخص اپنا آپ اُس کی رضا کے تابع کرنے کے  اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے دائمی زندگی نصیب ہو جاتی ہے-جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللہِ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ‘‘[5]

 

’’اور میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کی نگہبانی کرنے والا ہے‘‘-

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ)کے نزدیک موت کی حقیقت سے مرنے والا ہی واقف ہوتا ہے-جب وہ قبر میں جاتا ہے تو وہاں مادی خوراک کےذرائع میسر نہیں ہوتے بلکہ صرف اعمال کام آتے ہیں-ایک تو وہ والدین اور بہن بھائیوں سے بچھڑ جاتا ہے اور دوسرا اسے عذاب قبرکا خطرہ ہوتا ہے- اس کے مقابلے میں وہ شخص خوش نصیب ہے جسے مرنے سے پہلے مرنے والی زندگی نصیب ہو جاتی ہے-وہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ رب العزت کے سپرد کر دیتا ہے جس سے اس کو بقاء نصیب ہو جاتی ہے-ایسے اشخاص جب کسی معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں تو اسے دوام حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ  اس کی بنیادوں  میں روحانیت شامل ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت سلطان باھوقدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں:

جیوندے کی جانن سار مویاں دی  سو جانے جو مردا ھو
اک وچھوڑا ما پیو بھائیاں دوجا عذاب قبر دا ھو

 

قبراں دے وچ ان ناں پانی اوتھے خرچ لوڑیندا گھر دا ھو
واہ نصیب انہاں دا باھو جیہڑا وچ حیاتی مر دا ھو

جب انسان’’موتو قبل ان تمو تو‘‘  کا مصداق بن جاتا ہے اسے جلوۂ حق نصیب ہو جاتا ہے جیسا کہ آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ:

’’جب کوئی زندگی ہارکے  جیتے جی مرجاتا ہے اسے دیدار الٰہی  کی تو فیق حاصل ہوتی ہے‘‘-[6]

ہر مقام و مرتبہ ظاہری علم سے حاصل ہوتا ہے نہ ظاہری  وردو ظائف سے بلکہ اس کے لئے عشق کی ضرورت ہے-عشق  کی چنگاری مرد خود آگاہ کی نگاہ کرم سے نصیب ہوتی ہے اس کے بعد انسان کو حیاتِ جاودانی نصیب ہوجاتی ہےجس سے وہ ہر وقت مشاہدۂ حق میں محو رہتا ہے-بقول حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ:

جتھے رتی عشق وکاوے اوتھے مناں ایمان دویوے ھو
باجھوں مرشد کجھ نہ حاصل توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ھو

 

کتب کتاباں ورد وطیفے اوتر چا کچیوے ھو
مریئے مرن تھیں اگے باھو تاں رب حاصل تھیوے ھو

ہمارا موجودہ معاشرہ جو کہ مادیت کے بکھیڑوں میں الجھ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے-اگر آپ قدس اللہ سرّہٗ کے اس نظریے کا اطلاق ممکن بنایا جائے تو یہ معاشرہ دوبارہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکتا ہے-

آخر میں ایک بار پھر آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ہمیں یہ فکر دیتے ہیں کہ ایک زندہ انسانوں کے زندہ معاشرہ کے لیے ہمیں ظاہری و معاشرتی اقدار کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی قدروں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے-ان دونوں پہلوؤں کو اپنانے سے معاشرۂ انسانی کا دوام ممکن ہے جس طرح پاکیزگی دل (تصفیۂ قلب) کے بغیر انسانیت کی معراج ممکن نہیں-بعین ہی حقیقی علم کے بغیر ادب نصیب نہیں ہوتا-لہٰذا ضروری ہے کہ ظاہری و باطنی عبادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں معاشرتی و سماجی معاملات کو باطریق احسن سرانجام دیا جائے کیونکہ  materialistic Norms اور Spiritual Normsسے ہی معاشرہ کو بقا مل سکتی ہے- اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا کی لیناں تسبی پھڑ کے ھو
چلے کٹے تے کجھ نہ کھٹیا کی لیناں چلیاں وڑ کے ھو

 

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھو
جاگ بناں دودھ جمدے ناہیں باھو بھانویں لال ہونون کڑھ کڑھ کے ھو

٭٭٭


[1](آلِ عمران:110)

[2](الرعد:11)

[3](ارمغانِ حجاز)

[4](عین الفقر، باب نہم)

[5](المومن:44)

[6](نور الہدیٰ کلاں، ص:513)

معاشرہ افراد کے ایسے گروہ کو کہا جاتا ہےجس کی بنیادی ضروریاتِ زندگی میں ایک دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ لازمی نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب سے ہو-جب کسی خاص قوم یا مذہب کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پھر عام طور پر اس کا نام معاشرے کے ساتھ اضافہ کر دیا جاتا ہے-

اسلام میں مشترکہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے اور فلاحِ معاشرہ کا قرآنی تصور ایک ایسا تصور ہے کہ جس کے مقابلے میں معاشرے کی تمام لغاتی تعریفیں چمک کھو دیتی ہیں-قرآن پاک میں اس تصور کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے کہ معاشرہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہیے؟

’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِااللہِ ‘‘[1]

 

’’تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہوحکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو‘‘-

قرآنی تصور سے ایک ایسا معاشرہ بنانے کی جانب راہ کھلتی ہے کہ جہاں معاشرے کے بنیادی تصور کے مطابق عام افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی اور ساتھ ہی ساتھ شعور کی سطح اتنی بُلند ہو کہ نیکی اور بدی کا فرق واضح ہو، شر سے روکنے یا خیر کا حکم لگانے کی اہلیت اور صلاحیت لوگوں میں موجود ہو-کسی بھی انسانی معاشرےکو اس وقت تک اچھا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب تک اس کے ہر فرد کو مساوی انسان نہ سمجھا جائے اور ایک کمزور کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہوں  جو ایک طاقتور کے پاس ہوں-خواہ یہ کمزوری طبعی ہو یا مالیاتی یا کسی اور قسم کی-فلاح یافتہ معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر شخص کو اپنی ذمہ داریاں اسلامی جوش و جذبہ سے ادا کرنے کا عہد کرنے کی ضرورت ہے-فکری انقلاب کے بغیر معاشرہ کسی بھی طرح فلاح و بہتری کا اعلیٰ نمونہ نہیں بن سکتا-اسلامی جوش و جذبہ سے میری مراد اپنے فکر و عمل  کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نیکی، سچائی، امانتداری و دیانتداری ، ایثار اسلامی تعزیرات اور اسلامی انقلاب کے مطابق ڈھالنے سے ہے-

دین اسلام میں تقاضاءِ معاشرتی زندگی (Civic Sense)کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جو کہ ایک فلاح یافتہ معاشرہ کے لیے از حد ضروری ہے-اس کے بغیر انسانی معاشرہ کبھی بھی فلاح یافتہ نہیں گردانا جا سکتا - جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ‘‘[2]

 

’’بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے‘‘-

کسی بھی قوم کی ترقی اور اس کی بقاء کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے افراد معاشرتی فرائض کی ادائیگی کس حد تک کرتے ہیں کیونکہ وہ اعمال اور ذمہ داریاں صرف انہی کی ذات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ ایک وسیع دائرہ ہوتا ہے جس پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں-کسی قوم میں تعلیم و ہنر اور ظاہری عبادات کا اہتمام بدرجہ اتم موجود ہو لیکن ان کی شخصیت و کردار پست ہو تو وہ تعلیم و ہنر اور عبادت ہماری فلاح کا ضامن نہیں ہو سکتی-تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اگر ہمارا کردار اچھا نہ ہو تو ہم اس تعلیم کے باوجود بد تہذیب اور غیر متمدن کہلائیں گے جس قوم کے لوگوں میں جس قدر معاشرتی آداب موجود ہوتے ہیں وہ قوم اسی قدر مہذب اور ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہے-

بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے کی حالت بھی یہی ہے کہ بصیرت بآسانی ہم پر غیر متمدن ہونے کا فتویٰ صادر کر سکتی ہے-ہمارے ہاں نصاب تعلیم کو تو اہمیت دی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے بڑے بڑے اسکولز،مدارس اور یونیورسٹیز قائم کر دی جاتی ہیں لیکن ان میں ہمارے نوجوانوں کے لیے تعمیر شخصیت و کردار کا خاص اہتمام نہیں ہوتا اور جب یہ نوجوان طلباء معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کا رویہ سراسر خلافِ تہذیب ہوتا ہے-حالت اب یہ ہے کہ ہمارے شہریوں میں اس بات کا احساس ناپید ہوچکا ہے کہ انہیں معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے اور ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟نہ صرف عام تعلیمی اداروں کا یہ معاملہ ہے بلکہ ان اداروں، جہاں دین کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، کا حال بھی اس سے مختلف نہیں-چنانچہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان خواہ دین دار ہوں یا دنیا دار، وہ اپنے بھائیوں کے حقوق پامال کرتے ہیں-ہمارا دین بحیثیت مسلمان شہری ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟’’ Civic Sense‘‘دراصل اس علم کا نام ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک اچھے اور ذمہ دار شہری کو معاشرے سے کیا سلوک کرنا چاہیے اور اسے انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی زندگی میں کس طرح رہنا چاہیے اور ہمیں بحیثیت مسلمان شہری کس طرح رہنا چاہیے!


جدید علم شہریت (Civic Education)میں شہریوں کے حقوق اور ان کے فرائض کا ذکر کیا گیا ہے-نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ہمارا دین اس بارے میں ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے؟اسی طرح علم نفسیات کا مقبول نظریہ ’’Humanistic‘‘یعنی انسان شناسی پر مبنی ہے یعنی جب تک انسان کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں تب تک وہ کسی کام کے لیے متحرک نہیں ہو سکتا-اگر جدید علم شہریت کا مطالعہ کیا جائے تو اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ معاشرہ کے جو اصول و ضوابط قرار دیے گئے ہیں وہ زیادہ تر قرآن و سنت ہی سے ماخوذ ہیں-

اگر ہم انسا ن اور معاشرتی فرائض کی بات کرتے ہیں تو ان کو طبعی طور اس کے خالق نے مہذب اور شہری بنایا ہے اور اجتماعی صورت میں اپنانا اس کی فطری ضرورتوں میں سے ایک ہے-لیکن اجتماعی زندگی پر ایک فرد کو ایک بہتر زندگی کے لئے کچھ بنیادی مراعات اور دوسرے افراد سے کچھ خاص اصولوں پر مبنی رویہ درکار ہوتا ہے-جسے حقوق کہا جاتا ہے-یہ حقوق فرد کے جاہ و مال اہل و عیال،سیاست، معیشت اور معاشرتی معاملات سے متعلق ہوتے ہیں-مسلمانوں کی تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے-ماضی میں مسلمان سیاست و مدنیت(Civic)کو دین کا حصہ سمجھتے تھے اور وہ ذمہ داریاں جسے موجودہ دور میں شہریوں کی ذمہ داریاں(Responsibilities of Citizen)کہا جاتا ہے-انہیں مسلمان اپنے دینی فرائض میں شمار کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں-نبی کریم (ﷺ)نے بھی صحابہ کرام (﷢)کو نہ صرف مذہبی احکامات دیئے بلکہ ایسے معاملات کو دین کا حصہ قرار دیتے ہوئے ان کی تر بیت فرمائی جو انسان کے کردار سے متعلق ہیں-اس کی بدولت مسلمان ماضی میں ترقی  کی اس معراج پر پہنچ گئے کہ صدیوں تک دنیا پر حکومت کرتے رہے-علم، جنگ، مہارت وہنر دعوت و تبلیغ غرض کہ زندگی کے ہر شعبے  میں وہ کارنامے سر انجام دیئے جس کی نظیر کوئی پیش نہ کر سکا-لیکن جب مسلمانوں پر سماجی و فکری زوال آیا اور ان میں ذمہ داری اور خدا کے حضور جواب دہی کا احساس بے جان ہو گیا تو انہوں نے بھی دیگر مذاہب کی طرح دین اسلام کو بھی صرف مذہبی رسومات کی ادائیگی تک محدود کر لیا اور دین کو اپنی شہری و مذہبی زندگی سے بے دخل  کر دیا-آج ہم مسجدوں تک جانےاور نمازِ پنجگانہ ادا کر لینے کے بعد یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دین کی ذمہ داری پوری ہوگئی ہےاور ہم  اپنی روزمرہ کی زندگی میں آزاد اور خود مختار ہیں-ہمارے نزدیک اس بات سے ہماری دین داری میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہم معاشرے میں کس طرح رہتے ہیں-حالانکہ اسلام صرف چہروں میں نہیں بلکہ مسجد سے باہر آنے کے بعد معاشرتی زندگی میں لاگو کرنے کا نام ہے-

ہمارے ہاں جو فقہہ کی کتابیں ہیں ان کا عبادات سے زیادہ حصہ معاملات سے متعلق ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں معاملات کی اہمیت کیا ہے-اسلام نے انسانوں کو جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے متعلق احکام دیئے-معبودِ واحد کی عبادت کا طریقہ بتلایا وہیں ہمیں اس بات سے بھی جاہل نہیں رکھا گیاکہ ہم بحیثیت ایک شہری معاشرے میں کس طرح رہنا چاہیے-بلکہ اس اعتبار سے اسلام نے ان معاملات کو حقوق اللہ سے بھی آگے قرار دیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا حق معاف کر دیں گے لیکن اس نفسا نفسی کے عالم میں کوئی بھی کسی کو اپنا حق معاف نہیں کرے گا-اس اہمیت کے پیش نظر شریعت اسلامی میں معاشرہ میں لوگوں کے درمیان محبت و الفت قائم رکھنے کے لئے کچھ معاشرتی قوانین اور اخلاقی اصول مقرر کیے گئے ہیں جس کی پابندی مسلمان شہری پر واجب ہے-پڑوسی کے ساتھ،محلہ والوں اور شہر والوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیا ہونا چاہیے؟صریح احکامات دیئے ہیں-آج امت مسلمہ کی زبوں حالی کے پیش نظر یہ بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے-اخلاقی قدروں کو خدا پرستی کے تحت رواج دینا اور اس ضمن  میں لوگوں کی صحیح تربیت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے- ایک فلاحی انسانی معاشرہ کے وجود کو بھی برقرار رکھ سکتی ہے-آج کے جدید معاشروں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے احتجاجی مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں-حقوق دینے یعنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جاتی-

تقریباً  1400سال قبل نبی کریم (ﷺ) نے جس نظریاتی و فلاحی معاشرہ کی بنیاد رکھی، صدیاں بیت جانے کے بعدبھی اس کے اثرات آج بھی معاشرہ انسانی میں موجود ہیں-اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کی بنیاد صرف مادیت پر مبنی نہ تھی-بلکہ اس میں روحانی قدریں بھی شامل تھیں جس نے معاشرہ کو دوام بخشا-

حضور رسالت مآب (ﷺ)کے صحابہ کرام (﷢)کے بعد سلف صالحین و اولیائے کا ملین (﷭)نے معاشرہ کے دوام سے متعلقہ جو نظریات پیش کیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں-انہوں نے مادی و روحانی دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھا-

فرد معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے فرد کی بقاء میں معاشرہ کی بقاء مضمر ہے- علامہ اقبال (﷫)فرماتے ہیں:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

 

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ[3]

خصوصاً جب ہم حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرہٗ) کی تعلیمات کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کا نظریہ دوام انفرادیت کا حامل ہے- مثلاً آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں کہ اگر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو  تو مرنے سے پہلے مر جاؤ ’’موتو قبل ان تموتو‘‘کا مصداق بن جاؤ اسی طرح اپنے پنجابی کلام میں مزید وضاحت فرماتے ہیں -


جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھو

 

سنیا سخن گیاں کھل اکھیاں اساں چت مولا ول لایا ھو
مرن تھیں اگے مر گئے باہو تاں مطلب نوں پایا ھو

اِس میں آپ نے خود احتسابی کو سانسوں کے احتساب سے جوڑا ہے کہ جو شخص سانسوں کا یعنی لمحوں کا حساب کرتا ہے کہ میرا کونسا لمحہ کیسا گزرا ؟ کیا وہ میرے پیدا کرنے والے کی منشا و مرضی کے مطابق گزرا یا نہیں ؟ یہ وہ سماجی شعور ہے جو ایک عام انسان کی زندگی میں انقلاب موجزن کر دیتا ہے-پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’سُخن سُنی تو آنکھیں کھل گئیں‘‘-مراد یہ کہ جب مرشدِ کامل نے تلقین کی اور حقائقِ کائنات کو ہم پہ آشکار کیا اور بتایا کہ ایک ایک فرد کا معاشرہ میں کیا مقام بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف لگالے یعنی ’’دل مولا کی طرف لگا لے‘‘-جب بندہ اُس کی محبت کے عوض اُس سے محبت کرتا ہے اور اپنے آپ کو اُسی کا بنا لیتا ہے تو پھر اپنی جان بلکہ اپنا جہان اُسی کے سپرد کر دیتا ہے اور اُس مالک کے نام پہ ’’بیع‘‘ ہو جاتا ہے یعنی بِک جاتا ہے یا یوں کہئے کہ وقف ہو جاتا ہے تو وہ اللہ پاک اپنے بندے پہ راضی ہو کر اسے حیاتِ جاودانی عطا کر دیتا ہے کیونکہ (بلا شک و شبہ) وہ اس امر پہ قادر ہے-مرنے سے پہلے مرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اپنی خواہش کو اللہ تعالیٰ کی خواہش کے تابع کر دیا جائے-

اس طرح آپ قدس اللہ سرّہٗ اپنی تصنیفِ لطیف ’’عین الفقر ‘‘میں ارشادفرماتے ہیں:

’’جان لے کہ  فقر ایک سمندر ہے جس میں مہلک زہر بھرا ہوا ہے جو آدمی اس سمندر پر پہنچ کر زہر کا پیالہ پی لیتا ہے- وہ فرد شہید ہو جاتا ہے وہ مر تا نہیں بلکہ مقامِ ’’موتوقبل ان تموتو‘‘ پر پہنچ کر خود کو سپر دِ خدا کر دیتا ہے‘‘[4]-

جو شخص اپنا آپ اُس کی رضا کے تابع کرنے کے  اس مقام پر پہنچ جاتا ہے اسے دائمی زندگی نصیب ہو جاتی ہے-جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

’’وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللہِ اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ‘‘[5]

 

’’اور میں نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے بے شک وہ اپنے بندوں کی نگہبانی کرنے والا ہے‘‘-

حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرہٗ)کے نزدیک موت کی حقیقت سے مرنے والا ہی واقف ہوتا ہے-جب وہ قبر میں جاتا ہے تو وہاں مادی خوراک کےذرائع میسر نہیں ہوتے بلکہ صرف اعمال کام آتے ہیں-ایک تو وہ والدین اور بہن بھائیوں سے بچھڑ جاتا ہے اور دوسرا اسے عذاب قبرکا خطرہ ہوتا ہے- اس کے مقابلے میں وہ شخص خوش نصیب ہے جسے مرنے سے پہلے مرنے والی زندگی نصیب ہو جاتی ہے-وہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی خواہشاتِ نفس کو اللہ رب العزت کے سپرد کر دیتا ہے جس سے اس کو بقاء نصیب ہو جاتی ہے-ایسے اشخاص جب کسی معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں تو اسے دوام حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ  اس کی بنیادوں  میں روحانیت شامل ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت سلطان باھوقدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں:

جیوندے کی جانن سار مویاں دی  سو جانے جو مردا ھو
اک وچھوڑا ما پیو بھائیاں دوجا عذاب قبر دا ھو

 

قبراں دے وچ ان ناں پانی اوتھے خرچ لوڑیندا گھر دا ھو
واہ نصیب انہاں دا باھو جیہڑا وچ حیاتی مر دا ھو

جب انسان’’موتو قبل ان تمو تو‘‘  کا مصداق بن جاتا ہے اسے جلوۂ حق نصیب ہو جاتا ہے جیسا کہ آپ قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں کہ:

’’جب کوئی زندگی ہارکے  جیتے جی مرجاتا ہے اسے دیدار الٰہی  کی تو فیق حاصل ہوتی ہے‘‘-[6]

ہر مقام و مرتبہ ظاہری علم سے حاصل ہوتا ہے نہ ظاہری  وردو ظائف سے بلکہ اس کے لئے عشق کی ضرورت ہے-عشق  کی چنگاری مرد خود آگاہ کی نگاہ کرم سے نصیب ہوتی ہے اس کے بعد انسان کو حیاتِ جاودانی نصیب ہوجاتی ہےجس سے وہ ہر وقت مشاہدۂ حق میں محو رہتا ہے-بقول حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ:

جتھے رتی عشق وکاوے اوتھے مناں ایمان دویوے ھو
باجھوں مرشد کجھ نہ حاصل توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ھو

 

کتب کتاباں ورد وطیفے اوتر چا کچیوے ھو
مریئے مرن تھیں اگے باھو تاں رب حاصل تھیوے ھو

ہمارا موجودہ معاشرہ جو کہ مادیت کے بکھیڑوں میں الجھ کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے-اگر آپ قدس اللہ سرّہٗ کے اس نظریے کا اطلاق ممکن بنایا جائے تو یہ معاشرہ دوبارہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو سکتا ہے-

آخر میں ایک بار پھر آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ہمیں یہ فکر دیتے ہیں کہ ایک زندہ انسانوں کے زندہ معاشرہ کے لیے ہمیں ظاہری و معاشرتی اقدار کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانی قدروں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے-ان دونوں پہلوؤں کو اپنانے سے معاشرۂ انسانی کا دوام ممکن ہے جس طرح پاکیزگی دل (تصفیۂ قلب) کے بغیر انسانیت کی معراج ممکن نہیں-بعین ہی حقیقی علم کے بغیر ادب نصیب نہیں ہوتا-لہٰذا ضروری ہے کہ ظاہری و باطنی عبادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں معاشرتی و سماجی معاملات کو باطریق احسن سرانجام دیا جائے کیونکہ  materialistic Norms اور Spiritual Normsسے ہی معاشرہ کو بقا مل سکتی ہے- اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا کی لیناں تسبی پھڑ کے ھو
چلے کٹے تے کجھ نہ کھٹیا کی لیناں چلیاں وڑ کے ھو

 

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھو
جاگ بناں دودھ جمدے ناہیں باھو بھانویں لال ہونون کڑھ کڑھ کے ھو

٭٭٭



[1](آلِ عمران:110)

[2](الرعد:11)

[3](ارمغانِ حجاز)

[4](عین الفقر، باب نہم)

[5](المومن:44)

[6](نور الہدیٰ کلاں، ص:513)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر