بیت: ’’جو اُسے دیکھ لیتا ہے وہ اُسے پہچان لیتاہے لہٰذا میرے لئے تو اُس کا دیدار ہی کافی ہے‘‘-
ثواب سراسر حجاب ہے اور حجاب سراسر ثواب ہے-
بیت: ’’حجت بازی کو چھوڑ اور دیدار کی طرف متوجہ ہو جا کہ دیدار کے بغیر مجھے جنت سے کیا کام؟‘‘
دوزخ اور بہشت دو (2)مقام ہیں جو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں مجھے اپنے اختیار سے کیا کام و کیا کلام؟ فقیر دونوں جہان پر امیر ہوتا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور دوسرا گروہ جہنم میں جائے گا‘‘- فقیر کی زبان علمِ تفسیر کا مطالعہ کرتی ہے، اُس کی نظر علمِ تاثیر کا مطالعہ کرتی ہے، اُس کا قلب مطالعۂ علمِ روشن ضمیر کرتا ہے ، اُس کی روح مطالعۂ علمِ لقاکرتی ہے اور ہمیشہ حاضر و ناظر رہتی ہے-اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس-فقیرِ کامل کو علمِ دعوت کے کل کلام سے دو عمل حاصل ہوتے ہیں جن سے وہ لا یحتاج و بے غم رہتا ہے-ایک تصورِ اسم اللہ ذات حضور اور دوسرا ملاقات ِ روحانیت ِ اہل قبور-اِس عمل سے تمام عالم کو فنا بھی کیا جا سکتا ہے اور اُسے بقا بھی بخشی جا سکتی ہے-
جان لے کہ ثواب عمل ِ نیک کا اجر ہے اور بے حجاب و بے حساب بخشش ِخدا شرف ِ لقا ہے-علم عمل کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے اور تصور ِاسم اللہ ذات تیغ ِقاتل ِنفس ِ یہود ہے -
ابیات: (1)’’بکثرت نماز و روزہ و طاعت سے دم بھر کا دیدار بہتر ہے‘‘-(2)’’ دلِ بیدار کو دیدار میں مشغول رکھ کہ دلِ مردہ ہر دم خطرات سے پُر رہتا ہے‘‘- (3) ’’ مَیں ہر علم کی چابی دیدار سے حاصل کرتا ہوں اور شریعت ِمصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جان فدا کرتا ہوں‘‘-
مراتب ِدیدار اور علمِ دیدار شریعت کی پیروی سے حاصل ہوتے ہیں-شریعت ہر علم کی روح و جان و زندگی ہے-بے شریعت زندگی بے حیائی و شرمندگی ہے-شریعت کی بنیاد قرآن و حدیث ہے-قرآن سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور نہ ہو گی- یاد رہے کہ طالب ِصادق کو قسم ہے اللہ کی، قسم ہے اللہ کے رسول (ﷺ) کی، قسم ہے اللہ کے قرآن کی اور قسم ہے کلمہ طیب ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کی کہ وہ مرشد سے حاضرات ِ اسم اللہ ذات کے ذریعے مراتب ِنعم البدلِ فیض و فضل اور جملہ تصرف و جملہ خزائن ِعلم و حکمت و جملہ احکام کی تلقین حاصل کرے اور مرشد کو بھی ہر طرح کی قسم ہے کہ وہ طالب اللہ کو قرب اللہ حضوری اور عمل ِدعوت ِاہل ِقبور روحانی سے ہر قسم کی جمعیت بخشے-
بیت: ’’کسی نامرد کو مرشد کانام مت دو بلکہ نامرد مرشد کو شیطان کہو ‘‘-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’اے اولاد ِآدم شیطان کی پیروی مت کرو ، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘- مرشد منتر باز سپیرے کی مثل ہوتا ہے اور طالب سانپ کی مثل ہوتا ہے جو تمام عمر مرشد کی قید میں رہ کر ادب و اعتبار کے ساتھ اُس کی کرم نوازی کی امید میں زندگی کے دن پورے کرتا رہتا ہے - طالب شہباز کے بچے کی مثل ہوتا ہے وہ چیل کا ہم نشین ہرگز نہیں ہوتا - وہ طلب ِ خدا میں سب سے جدا رہتا ہے - اگر طالب شیر کے بچے کی مثل ہو تو وہ معرفت ِوصال کی طلب میں رہتا ہے، اُسے گیدڑ کی ہم نشینی سے شرم آتی ہے -بیت-:
’’اگر طالب نام کا بھی سلطان ہو تو مرشد اُسے مرتبہ سلطانی بخش دیتا ہے‘‘-
اگر طالب سلطان اور مرشد پریشان ہو یا مرشد پشیمان اور طالب احمق حیوان ہو تو اُنھیں ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی-
ابیات: (1)’’اے باھُو ! مَیں اُس غنی مرشد کا طالب ہوں جو مجھے ہر دم مجلس ِ نبوی (ﷺ)میں حاضر رکھتا ہے‘‘-
(2)’’مجھے کسی خام طالب کی ضرورت نہیں ہے کہ میرا کام طالبوں کو صاحب ِنظر عارف بنانا ہے‘‘- (جاری ہے---)
بیت: ’’جو اُسے دیکھ لیتا ہے وہ اُسے پہچان لیتاہے لہٰذا میرے لئے تو اُس کا دیدار ہی کافی ہے‘‘-
ثواب سراسر حجاب ہے اور حجاب سراسر ثواب ہے-
بیت: ’’حجت بازی کو چھوڑ اور دیدار کی طرف متوجہ ہو جا کہ دیدار کے بغیر مجھے جنت سے کیا کام؟‘‘
دوزخ اور بہشت دو (2)مقام ہیں جو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں مجھے اپنے اختیار سے کیا کام و کیا کلام؟ فقیر دونوں جہان پر امیر ہوتا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’ ایک گروہ جنت میں جائے گا اور دوسرا گروہ جہنم میں جائے گا‘‘- فقیر کی زبان علمِ تفسیر کا مطالعہ کرتی ہے، اُس کی نظر علمِ تاثیر کا مطالعہ کرتی ہے، اُس کا قلب مطالعۂ علمِ روشن ضمیر کرتا ہے ، اُس کی روح مطالعۂ علمِ لقاکرتی ہے اور ہمیشہ حاضر و ناظر رہتی ہے-اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس-فقیرِ کامل کو علمِ دعوت کے کل کلام سے دو عمل حاصل ہوتے ہیں جن سے وہ لا یحتاج و بے غم رہتا ہے-ایک تصورِ اسم اللہ ذات حضور اور دوسرا ملاقات ِ روحانیت ِ اہل قبور-اِس عمل سے تمام عالم کو فنا بھی کیا جا سکتا ہے اور اُسے بقا بھی بخشی جا سکتی ہے-
جان لے کہ ثواب عمل ِ نیک کا اجر ہے اور بے حجاب و بے حساب بخشش ِخدا شرف ِ لقا ہے-علم عمل کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے اور تصور ِاسم اللہ ذات تیغ ِقاتل ِنفس ِ یہود ہے -
ابیات: (1)’’بکثرت نماز و روزہ و طاعت سے دم بھر کا دیدار بہتر ہے‘‘-(2)’’ دلِ بیدار کو دیدار میں مشغول رکھ کہ دلِ مردہ ہر دم خطرات سے پُر رہتا ہے‘‘- (3) ’’ مَیں ہر علم کی چابی دیدار سے حاصل کرتا ہوں اور شریعت ِمصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جان فدا کرتا ہوں‘‘-
مراتب ِدیدار اور علمِ دیدار شریعت کی پیروی سے حاصل ہوتے ہیں-شریعت ہر علم کی روح و جان و زندگی ہے-بے شریعت زندگی بے حیائی و شرمندگی ہے-شریعت کی بنیاد قرآن و حدیث ہے-قرآن سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور نہ ہو گی- یاد رہے کہ طالب ِصادق کو قسم ہے اللہ کی، قسم ہے اللہ کے رسول (ﷺ) کی، قسم ہے اللہ کے قرآن کی اور قسم ہے کلمہ طیب ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کی کہ وہ مرشد سے حاضرات ِ اسم اللہ ذات کے ذریعے مراتب ِنعم البدلِ فیض و فضل اور جملہ تصرف و جملہ خزائن ِعلم و حکمت و جملہ احکام کی تلقین حاصل کرے اور مرشد کو بھی ہر طرح کی قسم ہے کہ وہ طالب اللہ کو قرب اللہ حضوری اور عمل ِدعوت ِاہل ِقبور روحانی سے ہر قسم کی جمعیت بخشے-
بیت: ’’کسی نامرد کو مرشد کانام مت دو بلکہ نامرد مرشد کو شیطان کہو ‘‘-
فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’اے اولاد ِآدم شیطان کی پیروی مت کرو ، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘- مرشد منتر باز سپیرے کی مثل ہوتا ہے اور طالب سانپ کی مثل ہوتا ہے جو تمام عمر مرشد کی قید میں رہ کر ادب و اعتبار کے ساتھ اُس کی کرم نوازی کی امید میں زندگی کے دن پورے کرتا رہتا ہے - طالب شہباز کے بچے کی مثل ہوتا ہے وہ چیل کا ہم نشین ہرگز نہیں ہوتا - وہ طلب ِ خدا میں سب سے جدا رہتا ہے - اگر طالب شیر کے بچے کی مثل ہو تو وہ معرفت ِوصال کی طلب میں رہتا ہے، اُسے گیدڑ کی ہم نشینی سے شرم آتی ہے -بیت-:
’’اگر طالب نام کا بھی سلطان ہو تو مرشد اُسے مرتبہ سلطانی بخش دیتا ہے‘‘-
اگر طالب سلطان اور مرشد پریشان ہو یا مرشد پشیمان اور طالب احمق حیوان ہو تو اُنھیں ایک دوسرے کی مجلس راس نہیں آتی-
ابیات: (1)’’اے باھُو ! مَیں اُس غنی مرشد کا طالب ہوں جو مجھے ہر دم مجلس ِ نبوی (ﷺ)میں حاضر رکھتا ہے‘‘-
(2)’’مجھے کسی خام طالب کی ضرورت نہیں ہے کہ میرا کام طالبوں کو صاحب ِنظر عارف بنانا ہے‘‘- (جاری ہے---)