ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

In whose heart Ism-e-Allah shines Ishq also strikes there Hoo

The fragrance of musk cannot remain concealed even if you cover it with hundreds of layers Hoo

Sun cannot remain hidden behind fingers and rivers cannot remain dykes behind Hoo

We are within Him and He is within us Hazrat Bahoo ra friend is close to friend Hoo

 

Jis dil ism Allah da chamkay ishq bhi kar da hallay Hoo

Bhaar kastoori day chupday naahi’N bhanwai’N day rakhiye seh pallay Hoo

Ungli pichay dee’N naahi’N chupday darya nahi’N reh’Nday THallay Hoo

Ase’N osay wich oh asa’N wich Bahoo yaraa’N yaar sowallay Hoo 

تشریح:

حضرت سلطان العارفین (﷫) نے تصورِ اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر اورعشقِ حق تعالیٰ کاباہمی تعلق ونسبت بیان فرمائی ہے-حضرت عشق اُس دل میں تشریف آوری سے گریز کرتا ہے کہ جہاں حبِ الٰہی کے علاوہ دوسری محبتیں بھی موجود ہوں-لیکن جب طالب مرشد کامل کے ارشاد و تلقین سے اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر و تصور میں پختہ ہو جاتا ہے تو مرشد کامل کی نگاہِ کرم سے اسم اللہ ذات اُس کے دل میں ایسے چمکتا ہے کہ جیسے آسمان پہ سورج روشن ہوتا ہے-تصورِ اسم اللہ ذات کی تاثیر سے طالب کے قلب و رُوح غیر اللہ کی محبتوں سے خلاصی پاجاتے ہیں اور دل کی کھیتی پاک ہو کر عرفانِ ذات کی فصل کے لیے تیار ہوجاتی ہے اور تب عرفانِ ذات طالب کی دل کی سلطنت پہ حکومت کے لیے حضرت عشق کو مدعو کرتا ہے-حضرت عشق قربِ حق کا تاج سر پہ سجا کر دِل کے تخت پہ براجمان ہو جاتا ہے-

دیدہ بر دید ار دل با اشتغال

 

غرق فی التّوحید عارف دم وصال

’’اُس کی آنکھیں دیدار سے سرشار رہتی ہیں اور دل تصورِ اسم اللہ ذات میں مشغول رہتا ہے کہ وہ غرق فی التوحید عارفِ وصال ہوتا ہے-(امیرالکونین:۲۴۹)

با تصور اسم اللہ لا زوال است

 

گربہ بینم ہمہ اندر وصال است

’’تصورِ اسم اللہ ذات سے دیدارِ لازوال حاصل ہوتا ہے، اگر مَیں اسم اللہ ذات کو دیکھوں تو اُس کے اند وصال ہی وصال ہے‘‘-

مراتبِ عاشقان دیدار بین است

 

ز حق با حق رسد حق الیقین است

’’عاشقوں کو دیدار بینی کے مراتب حاصل ہوتے ہیں کہ وہ حق (حاضراتِ اسم اللہ ذات )سے حق رسیدہ ہو کر حق الیقین کے مراتب پر پہنچ جاتے ہیں‘‘-(امیر الکونین:۲۶۷)

(۲) جب عشق اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو عاشق کے رگ و پے سے اُس کا رنگ جھلکتا ہے اُسے اپنے اندر کے نُور کا اعلان کر کے لوگوں کو متوجہ نہیں کرنا پڑتا بلکہ بلکہ اندر کی بوٹی کے مُشک سے لوگ خود بخود ہی اُس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں – اگر وہ یہ چاہے کہ کسی طرح اپنے اندر کے فیضانِ نُور و عشق کو دُنیا کی نظروں سے چھپا لے تو بھی وہ نہیں چھپا سکتا ، یہاں حضرت سُلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ یہ مثال دیتے ہیں کہ کستوری کی خوشبو کو جتنے پردوں میں لپیٹ لیا جائے وہ چھپ نہیں سکتی عشق بھی کستوری کی مانند ہے جسے چھپانے سے چھپایا نہیں جا سکتا -

(۳) جس طرح کستوری کی خوشبو چھپانے سے نہیں چھپ سکتی اِسی طرح جب آفتاب اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہو تو انگلیوں کی اوٹ میں اس کی روشنی اور تمازت کو چھپایا نہیں جا سکتا ، گویا عشق ایک ایسا سورج ہے جب یہ عاشق کے دِل میں طلوع ہو جائے تو اہلِ دُنیا اپنی حسد و نفاق بھری انگلیوں سے جتنی مرضی اوٹ اُس کے سامنے بناتے رہیں اُس کی روشنی کو کم نہیں کر سکتے –پھر آپ قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں کہ دریا کی طغیانی کو ریت کے فانی بند باندھ کر روکا نہیں جا سکتا اس لئے جب طالبِ صادق اپنی جستجو کی تکمیل کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے تو دُنیا دار لوگ اُس کی راہ میں مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں لیکن وہ اُن رکاوٹوں سے روکا نہیں جا سکتا  ، علامہ اقبال نے بھی اِسی نظریۂ عشق کی تائید بھی کی اور اختیار بھی اِسی کو کیا:

تُند و سُبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو

 

عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام

یعنی عشق تو خود ایک طوفان ہے یہ بڑے بڑے طوفانوں کو خود اپنی ہی قوت سے تھام لیتا ہے  -

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر