ویسے تو اکثر صوفیاء کرام( رحمۃ اللہ علیہ) نے شریعت ، طریقت،حقیقت اور معرفت کے مدارجِ سلوک کی نشاندہی فرمائی ہے مگر سلطان العارفین حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہ )کے نزدیک یہ اس قدر اہم ہیں کہ انہوں نے اپنے رسائل و کتب میں نہایت بے تکلفی اور سادگی کے ساتھ ان کو بالتکرار بیان فرمایا ہے-ان چار مراتب کو اگر عنوان بنا کر الگ الگ اصطلاحات کے معنوں میں لیا جائے تو یہ موضوعات بہت جامع معانی و مطالب کے حامی ہیں-
اول: یہ دراصل درویشی اور فقیری کے چار تربیتی مدارج ہیں-
دوم: اپنی جگہ پر روحانی تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور تجلیہ روح و سرّ کے مقامات بھی ہیں-
آگے روحانی ارتقاء کے مراحلِ عروج میں ان کےساتھ کسی طالبِ حق کا تعلق ختم نہیں ہوجاتا ہے بلکہ وہ ان متنازل و مقامات پر یکساں طور پر موجود اور حاضر و ناظر رہتا ہے یا یوں کہیں کہ ان مراتب و مناصب کے کمالات کے سارے دائرے اس کے محیط کے اندر آجاتے ہیں اور خود اس کا وراء الورا کی جانب ارتقاء جاری رہتاہے-سلطان باہو (قدس اللہ سرّہ )فرماتے ہیں:
’’بدان کہ شریعت قال و طریقت افعال و حقیقت احوال و معرفت وصال است‘‘[1]
’’جان لے کہ شریعت قال ہے اور طریقت افعال ہے اور حقیقت احوال ہے اور معرفت وصال ہے‘‘-
شریعت:
درویشی اور فقیری کے ارتقاء کی سیڑھی کا پہلا زینہ شریعت ہے- یہ عام مسلمانوں اورمومنوں اورتمام درویشوں میں لازم اور مشترک ہے- مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والا ہر بچہ شریعت کےماحول میں آنکھ کھولتا ہے اور اُسی فضاء میں سانس لیتا ہے بلکہ پیدائش کے ساتھ ہی اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے تو یہ گویا شریعت کی جانب سے اس کےلئے پہلی پکار(’’قال ‘‘ یا پہلی کال) ہے-پڑھنے پڑھانے کے وسیلے سے سیکھنے کا عمل بہت بعد میں شروع ہوتا ہے –ابتدائی عمر میں شریعت کے سارے احکام اور اعمال ’’قال ‘‘سے سکھائے جاتے ہیں- اس لحاظ سے شریعت دراصل زبانی روایت (Oral Tradition) ہے –بچہ ہر قسم کی اچھی ،بری ،غلط، صحیح ، حرام اورحلال باتیں ’’قال ‘‘ سے (سن کر) سیکھتا ہے-
گھر اور مدرسے میں والدین، اساتذہ اور معاشرے کے بزرگوں کا ہر ’’قال ‘‘ بچوں کے لئے تربیتی احوال میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر آگے جاکر مستقل عادات(روحانی مدارج میں مقامات) میں ڈھل جاتا ہے-شریعت دنیاوی زندگی (ناسوت) میں انسان کےلئے پہلا روحانی شرف ہے-
سلطان باہو (قدس اللہ سرّہ )فرماتے ہیں:-
’’علم شریعت یک شرف است‘‘[2]
’’علم ِشریعت ایک شرف ہے‘‘-
یعنی اس شرف کا دائرہ اتنا وسیع ہےکہ زندگی کا ہر خیال و فعل و عمل اس کے اختیار میں آجاتا ہے اور مزید فرمایا کہ:
’’شریعت دارالسّلطنتِ شاہ است‘‘[3]
جیسے حکومت کا ہر فرمان دارالسلطنت سے جاری ہوتا ہے اسی طرح اللہ بادشاہ کا ہر حکم شریعت سے صادر ہوتا ہے اور قانون کا درجہ رکھتا ہے-حکومت الہٰیہ میں تمام مقامات شریعت سے کھُلتے ہیں اور تمام مقامات پر تصدیق و توضیح کےلئے شریعت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے-
’’ہر طریق و ہرمقام از شریعت یکشاید و ہر مقام باز در شریعت در آید‘‘[4]
’’ہر طریق اور ہر مقام شریعت سے کھلتا ہے اور ہر مقام پھر شریعت کے اندر آجاتا ہے‘‘-
آگے سلطان صاحب قدس اللہ سرّہ نے شرف کی بات بھی کھُل کر کَہ دی کہ:
’’شریعت را شرف از قرآن است‘‘[5]
’’شریعت کو شرف قرآن سے ملا ہے‘‘-
کیونکہ شریعت اگر’’قال ‘‘ہے تو یہ بولی جانے والی زبان میں نازل ہوا- شریعت کے سارے اسباق انسانوں نے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ’’قال‘‘ اور زبان سے سیکھے – چنانچہ اب ان سے کم یا زیادہ اقوال کی گنجائش نہیں ہے-جیسا کہ مزید فرمایا:
’’آنچہ شریعت ردّ کند، آں راہ کفر است‘‘[6]
’’جسے شریعت رد کر دے وہ کفر کی راہ ہے‘‘-
طریقت:
طریقت دراصل شریعت کی داخلی پرت ہے- شریعت تو شروع میں ہی ’’قال ‘‘سے متعلق ہوتی ہے یعنی جو سنا ہے بس وہی کرنا ہے مگر طریقت میں کرنے کے ساتھ عقل اور شعور کا عمل شروع ہوجاتا ہے-طریقت میں شریعت کے ہر عمل و فعل میں شعور کی حکمت و دانش شامل رہتی ہے اس لئے سلطان صاحب نے کسی موقع پر طریقت کا تعلق قلب سے ظاہر کیا ہے جو دانش اور فکر کا منبع ہے-چنانچہ طریقت میں اگر افعال کو اہمیت دی گئی ہے تو صرف اس خاطر کہ اس میں’’قال ‘‘کے ساتھ باطنی ذوق و شوق مؤید اور معاون ہوجاتے ہیں- طریقت میں اسی لئے ایک ایسی شخصیت کا رفاقت ضروری ہو جاتی ہے جو اپنے تجربے، مشاہدے اور وجدان کے ساتھ اپنے شاگرد یا مرید کے افعال کی تصدیق و تائید یا تردید کے لئے اس کے سامنے حاضر وناظر رہے-
اپنے الہامی رسالہ’’روحی شریف‘‘ میں آپ نے قادری طریق کے مرشد کامل کی تعریف میں فرمایا:-
’’بدان کہ عارفِ کاملِ قادری بھر قدرتے قادر و بھر مقام حاضر‘‘[7]
’’جان لے کہ عارفِ کاملِ قادری ہر قدرت پہ قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے‘‘-
اس کی مثالیں ہر طریق کےسلوک میں مل سکتی ہیں جیسے شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ کے مرشد خواجہ بہاؤ الدین نقشبندؒ ان سے بہت پہلے گزر چکے تھے مگر مجدد الف ثانی ؒ نے روحانی ارتقاء میں ان کو مستقل طور پر اپنا معاون و رفیق پایا-فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں نے ہر مقام پر حضرت خواجہ نقشبند (رحمۃ اللہ علیہ) کواپنے ہمراہ پایا‘‘-[8]
شریعت میں ’’قال ‘‘ کی اہمیت دینی روایت کے مصدر اور اس کے تسلسل کی بناء پر ہے اور طریقت میں افعال کی اہمیت فاعل کے شعور اور عقلِ خداداد کی قبولیت کی بناء پر ٹھہری-
حقیقت:
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو قدس اللہ سرّہ نے فرمایا کہ درویشی و فقیری میں روحانی ارتقاء کے تیسرے زینے پر احوالِ باطنی کی حقیقت کھلنے لگتی ہے-صوفیوں کی کتابوں میں اکثر حال اور مقام کا ایک ساتھ ذکر ہوتا ہے:
’’سالک کے دل پر حق تعالیٰ کی طرف سے جو واردات ہوتی ہیں اُس کو حال کہتے ہیں‘‘-[9]
عام طور پر یہ ایک دینی نفسیاتی یا جذباتی اور احساسی کیفیت ہوتی ہے جو ناگاہ وارد ہوتی ہے اور بدلتی رہتی ہے اگر یہ ہمارے کسی دینی عمل یا فعل کے زیرِ اثر وارد ہوتو پھر یہ اللہ کا فضل ہے اور سالک کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ :-
’’حال خداداد عطیہ ہے‘‘-[10]
حال کے ساتھ علم و تعلم کا تاثر ضرور شامل ہوتا ہے اس لحاظ سے یہ زندہ دلی اور روشن ضمیری کا ایک دربھی کھول دیتا ہے- قلب سلیم اس علم اور اس کے ہر اثر و احساس کو قبول کرتا ہے-حقیقت کے مرتبے پر حقائق کی اصلیت اور باطنی معنویت کھلنے لگتی ہے -اسی مقام پر اس دعا کہ :-
’’اَللّٰھُمَّ اَرِنِیْ حَقَائِقَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ‘‘
’’یا اللہ! مجھے چیزوں کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ ہیں‘‘-
کا ظہور و انکشاف ہوتا ہے -یہی وہ مقام ہے جہاں کشف و الہام ، مُوجب علم اورقابلِ عمل دونوں یکجاہوجاتے ہیں-اسے ایک ایسا نور کہا گیا ہےکہ:
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے خصوصی طور پر عطا فرمادے‘‘- [11]
یہ علم الیقین کا حال و مقام ہے جو اگلے درجے میں حق الیقین کی صورت حال ومقام کا منصب بن جاتا ہے- حقیقت کے مقام پر احوال اللہ کی دَین یوں ہیں :
’’جس طرح ہر قسم کے ملک کی تقسیم خالصتاً اللہ تبارک و تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے-اسی طرح سے روحانی حقیقتوں کے سمجھنے کا مادہ اور قابلیت عطا فرمانا بھی اللہ پاک کے ہاتھ میں ہی ہے-اسے وہ جس قدر تھوڑا یا زیادہ چاہیں، عطا فرمائیں، مالک و مختار ہیں‘‘-[12]
فقیری اور درویشی کے اس مرحلہ ارتقاء میں بھی مرشد کامل کی صحبت اور اُس کی قوتِ قدسیہ کی کار فرمائی سے فیض یاب ہونا اشد ضروری ہے کہ اس مقام پر اگر کسی نے مرشد کے بغیر چلنا چاہا تو وہ اوّل تو آگے جاہی نہ سکے گا، وگرنہ گمراہی میں پڑجانے کا خدشہ ہر آن بر قرار رہے گا-
معرفت:
معرفت کا درجہ حقیقت کے درجے کے ساتھ جڑا ہوا ہے-یوں سمجھ لیجیئے کہ جب حقیقت کے درجے میں حقائق کی اصلیت کھلتی ہے تو اس کا نتیجہ معرفت (عوالم ظاہر و باطن میں پہچان) تک رسائی ہوتا ہے-کامل حضرات دُنیاوی حقائق کی اصلیت کے کشف کی طرف دھیان نہیں دیتے- ان کا مقصد اس سے آگے کا ہوتا ہے :-
’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا ھُوْ‘‘
’’ان کا مقصود ذاتِ باری اور اس کے صفات اسماء کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا‘‘-
جہاں تک دُنیا کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت تو ان پر اس قدر عیاں رہتی ہے جیسے وہ ہتھیلی میں رکھے رائی کے دانے کو دیکھ رہے ہوں-
حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہو قدس اللہ سرّہ اتنے بڑے عارف تھے کہ فرمایا:
’’معرفت گشتہ است بر من انجمن‘‘[13]
’’میری معرفت انجمن بنی‘‘-
رسالہ ’’روحی ‘‘کی شرح میں اس جملے کا مطلب مَیں نے یوں لکھا تھا، اسے ہی دہرا دینا مناسب ہوگا:-
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ افکارِ معرفت کا ان پر ہجوم ہے اور معرفت کا یہ حال کہ تفصیلات و جزئیات ہیں ان کے سامنے مستخصر ہیں اور ان کی روح گویا معرفت کی محفل میں ڈھل گئی ہے جس کی بناء پر ان کو ’’سلطان العارفین‘‘کہا گیا ہے‘‘-
معرفت کا درجہ ایک لحاظ سے حق الیقین کا مقام ہے- اپنی کتاب ’’توفیق ہدایت‘‘ کے شروع میں ہی آپ نے ایک قول نقل فرمایا ہے:-
’’الیقین ھو اللہ‘‘
’’یقین راسخ ہوجائے تو پھر آگے اللہ ہی اللہ ہے‘‘-
جیسے فرمایا گیاہےکہ:
’’اِذَا اَتَمُّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللہ‘‘[14]
’’جب فقر کی تکمیل ہوجائے تو سمجھ لو کہ اللہ کا انتہائی قرب (وصال) حاصل ہوگیا‘‘-
راقم اس سے پہلے بھی اس موضوع پر ایک مضمون لکھ چکا ہے مگر یہاں کچھ دوسرے پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے چنانچہ کئی نادر حوالوں سے سلوک کے ان چار مرحلوں کی وضاحت کی گئی ہے-مثلاً تحقیق کرنے والے صوفیوں (متقدمین) نے شریعت کے ’’قال ‘‘کو چونکہ ورد و وظائف کا مرحلہ بیان کیا ہےکہ:-
’’ماہرین سلوک نے اپنے مریدوں کو سب سے پہلے ورد و وظائف کی تعلیم دیتے ہیں اور اسی کو علم السلوک میں ’’قال ‘‘کے نام ہے تعبیر کیا جاتا ہے ‘‘-
تو انہوں نے اذکار و اوراد کے الفاظ دہرانے کو ’’قال ‘‘کہا ہے- طریقت میں چونکہ وجدانی کیفیات ظاہر ہونے لگتی ہیں جن کا نتیجہ حال ہوتا ہے اسی لئے سلطان العارفین قدس اللہ سرّہ نے فرمایا کہ طریقت احوال ہے یہاں اب واردات و مشاہدات و خوارق عادات کے احوال کا اظہار ہو رہا ہے-آگے حقیقت اور معرفت کے جو دو مراتب آتے ہیں تو ان کو ولایت کے دائرے میں لاکر بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے-مزید روحانی ارتقاء میں ولایت کے دائرے کے اندر کتنے ہی مر حلے اور منازل ہیں جن سب میں سے بعض کو بیان کیا جاسکتا ہے اور بعض کو بیان کرنے سے انسانی زبان قاصر اور عاجز ہے-
’’پرتو شعاع حضرت کبریا بندہ را ذرہ وار در ابحارِ استغراق مستغرق ساخت‘‘[15]
’’حضرت کبریا کی شعاع کے عکس نے بندہ کو ذرہ کی طرح استغراق کے سمندر میں مستغرق کر دیا‘‘-
٭٭٭
[1](محک الفقر کلاں، ص:36)
[2](محک الفقر کلاں، ص:26)
[3] (ایضاً)
[4] (ایضاً)
[5] (ایضاً)
[6] (نور الہدیٰ، ص:206)
[7] (رسالہ وحی شریف، ص:26)
[8] (مکتوبات مجدد الف ثانی، جلد پنجم)
[9] (صوفیانہ اصطلاحات: ڈاکٹر سید امتیاز حسین کیف نیازی۔ ص:109)
[10](عوارف المعارف از حضرت سہروردی ترٓجمہ رشید احمد ارشد ص:536)
[11](فتح الباری 12: 315)
[12] (سلوک محمدی ازمحمد ظہور الدین احمد ص:102)
[13] (رسالہ روحی شریف، ص:27)
[14] (نور الہدیٰ، ص:238)
[15](رسالہ روحی شریف،ص:29)