In the house of hypocrite or infidel worldly wealth reflects Hoo
It will decorate itself colorfully like women puts makeup to attract Hoo
It sparkles like lightening and hovers over mindsets Hoo
Like bullion of Hazrat Issa (علیہ السلام) Bahoo it slaughters travelers in quests Hoo
Dunia ghar munafiq day ya ghar kafir dy sohndi Hoo
Naqsh nigar kary batheray zan Khoba’N sabh mohndi Hoo
Bijli wango’N kary lashkary sar day utho’N jhondi Hoo
Hazrat Issa di sulh wango’N Bahoo rah wendiya’N no’N kohndi Hoo
(۱)اصطلاحِ دُنیا کو صرف مال و دولت جمع کرنے تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہر وہ چیز،فکر یا جذبہ دُنیا ہے جو انسان کو راہِ حق سے دُور کرے یا اس راہ میں رکاوٹ ہوچونکہ مال و دولت کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لیے اِسے ہر حال میں برائی نہیں گردانا جاتا-لیکن دُنیا کی طمع ہر لحاظ سے برائی ہے-اس لیے حبِ دُنیا کوتمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ حبِ دُنیا،طمع اور ہوس میں مبتلاء انسان کافر نہیں تو منافق ہوگا-یہ حقیقت ہے کہ کفر اور نفاق ہی حبِ دنیا کی پرورش کرتے ہیں اورجس دل میں یہ پروان چڑھے گی وہ انسان کافر یا منافق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے-آپ قدس اللہ سرہ اصطلاحِ دنیا کی صراحت یوں فرماتے ہیں کہ:
آنچہ از حق باز دارد دنیائی زشت |
|
آنچہ بحق می برد فقر مزرعۂ بہشت[1] |
’’ جو چیز اللہ سے دور کرتی ہے وہ دنیائے زشت ہے اور جو چیز اللہ کے قریب کرتی ہے وہ فقر مزرعۂ بہشت ہے ‘‘-
(۲)آپ قدس اللہ سرہ نے دُنیا کو ایک مکار عورت کی مثال سے پیش کیا جو بناؤ سنگھار سے اپنی جانب لوگوں کو راغب کرتی ہے اور گمراہ کرتی ہے:
’’ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دنیا کو ایک بیوہ عورت کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ اُس کی کمر جھکی ہوئی تھی مگر سر پر رنگین چادر تھی، ایک ہاتھ پہ مہندی رچی تھی اور دوسرا ہاتھ خون سے تر تھا- آپؑ نے اُس سے پوچھا: ’’اے ملعون!تیری کمر کیوں جھکی ہوئی ہے؟‘‘اُس نے جواب دیا:’’اے روح اللہ! مَیں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا ہے، اُس کے غم میں کمر جھک گئی ہے‘‘-آپؑ نے پھر پوچھا: ’’ تُو نے سر پہ رنگین چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے؟‘‘اُس نے جواب دیا: ’’اِس سے نوجوانوں کے دل لبھاتی ہوں‘‘-آپؑ نے مزید پوچھا: ’’تیرے ہاتھ پہ خون کیوں لگا ہے؟کیا کیا ہے تو نے؟‘‘اُس نے جواب دیا: ’’ ابھی تھوڑی دیر پہلے مَیں نے اپنے خاوند کو قتل کیا ہے‘‘-آپؑ نے مزید پوچھا: ’’یہ دوسرے ہاتھ پہ مہندی کیوں رچا رکھی ہے؟‘‘اُس نے جواب دیا: ’’ اب نیا شوہر کیا ہے‘‘-عیسیٰ علیہ السلام متعجب ہوئے!وہ بولی: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام! اِس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ جب مَیں باپ کو قتل کرتی ہوں تو بیٹا میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب بیٹے کو قتل کرتی ہوں تو باپ میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب کسی کے بھائی کو قتل کرتی ہوں تو دوسرا بھائی میرا عاشق بن جاتاہے- اے روح اللہ! عجیب ترین بات یہ ہے کہ مَیں ہزار ہا شوہر مار چکی ہوں مگر اُن کی موت سے کسی نے عبرت حاصل نہیں کی اور کوئی مجھ سے تُرش رو نہیں ہوا، البتہ جو مرد ہے وہ مجھے نہیں چاہتا، جو مجھے چاہتا ہے مَیں اُسے نہیں چاہتی اور جو مجھے نہیں چاہتا مَیں اُسے چاہتی ہوں‘‘[2]-
(۳)دُنیا کی مثال آسمانی بجلی کی سی ہے جو صرف ایک لمحے کے لیے اندھیرا دور کرتی ہے-دنیاایک عارضی خوشی ہے جس کے بعددائمی دکھ سہنا پڑتا ہے-جیسے آسمانی برق سر پہ منڈلاتی ہے اورجس پہ گرجائے اُسے ہلاک کردیتی ہے اوربعینہٖ ہوس دنیا جس دل میں پنجے گاڑ لے اُس کے ایمان کوتباہ کردیتی ہے-
(۴)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کی مشہور حکایت کے مطابق تین مسافروں کو جنگل سے سونے کی ایک خشت ملی،دوران کوچ ایک سفری منزل پہ اُنہوں نے قیام کیا اور اپنے ایک ساتھ کو شہر کے جانب کھانا لانے کے لیے روانہ کیا-اِسی دوران اُن کے باہم سونے کی اینٹ کی وجہ سے لالچ پیدا ہوگیا-اوّل الذکر نے کھانے میں زہر ملادیا تاکہ وہ اکیلا ہی سونے کی اینٹ کا مالک بن سکے-دوسری جانب ثانی الذکرمسافروں نے بھی اُسے ہلاک کرنے کامنصوبہ بنایا،اُن دونوں نے کھانے لے کر واپس آنے والے کوہلاک کردیا اور بعد ازاں زہریلا کھانا کھانے سے وہ خود بھی مارے گئے - آپ قدس اللہ سرہ نے دُنیا کو سونے کی مذکورہ اینٹ قرار دیا جو راہِ حق پہ گامزن طالبوں کو ہلاک کرتی ہے-
(۱)اصطلاحِ دُنیا کو صرف مال و دولت جمع کرنے تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہر وہ چیز،فکر یا جذبہ دُنیا ہے جو انسان کو راہِ حق سے دُور کرے یا اس راہ میں رکاوٹ ہوچونکہ مال و دولت کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اس لیے اِسے ہر حال میں برائی نہیں گردانا جاتا-لیکن دُنیا کی طمع ہر لحاظ سے برائی ہے-اس لیے حبِ دُنیا کوتمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ نے فرمایا کہ حبِ دُنیا،طمع اور ہوس میں مبتلاء انسان کافر نہیں تو منافق ہوگا-یہ حقیقت ہے کہ کفر اور نفاق ہی حبِ دنیا کی پرورش کرتے ہیں اورجس دل میں یہ پروان چڑھے گی وہ انسان کافر یا منافق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے-آپ قدس اللہ سرہ اصطلاحِ دنیا کی صراحت یوں فرماتے ہیں کہ:
آنچہ از حق باز دارد دنیائی زشت |
|
آنچہ بحق می برد فقر مزرعۂ بہشت[1] |
’’ جو چیز اللہ سے دور کرتی ہے وہ دنیائے زشت ہے اور جو چیز اللہ کے قریب کرتی ہے وہ فقر مزرعۂ بہشت ہے ‘‘-
(۲)آپ قدس اللہ سرہ نے دُنیا کو ایک مکار عورت کی مثال سے پیش کیا جو بناؤ سنگھار سے اپنی جانب لوگوں کو راغب کرتی ہے اور گمراہ کرتی ہے:
’’ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دنیا کو ایک بیوہ عورت کی صورت میں اِس طرح دیکھا کہ اُس کی کمر جھکی ہوئی تھی مگر سر پر رنگین چادر تھی، ایک ہاتھ پہ مہندی رچی تھی اور دوسرا ہاتھ خون سے تر تھا- آپؑ نے اُس سے پوچھا: ’’اے ملعون!تیری کمر کیوں جھکی ہوئی ہے؟‘‘اُس نے جواب دیا:’’اے روح اللہ! مَیں نے اپنے بیٹے کو قتل کر دیا ہے، اُس کے غم میں کمر جھک گئی ہے‘‘-آپؑ نے پھر پوچھا: ’’ تُو نے سر پہ رنگین چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے؟‘‘اُس نے جواب دیا: ’’اِس سے نوجوانوں کے دل لبھاتی ہوں‘‘-آپؑ نے مزید پوچھا: ’’تیرے ہاتھ پہ خون کیوں لگا ہے؟کیا کیا ہے تو نے؟‘‘اُس نے جواب دیا: ’’ ابھی تھوڑی دیر پہلے مَیں نے اپنے خاوند کو قتل کیا ہے‘‘-آپؑ نے مزید پوچھا: ’’یہ دوسرے ہاتھ پہ مہندی کیوں رچا رکھی ہے؟‘‘اُس نے جواب دیا: ’’ اب نیا شوہر کیا ہے‘‘-عیسیٰ علیہ السلام متعجب ہوئے!وہ بولی: ’’اے عیسیٰ علیہ السلام! اِس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ جب مَیں باپ کو قتل کرتی ہوں تو بیٹا میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب بیٹے کو قتل کرتی ہوں تو باپ میرا عاشق بن جاتا ہے اور جب کسی کے بھائی کو قتل کرتی ہوں تو دوسرا بھائی میرا عاشق بن جاتاہے- اے روح اللہ! عجیب ترین بات یہ ہے کہ مَیں ہزار ہا شوہر مار چکی ہوں مگر اُن کی موت سے کسی نے عبرت حاصل نہیں کی اور کوئی مجھ سے تُرش رو نہیں ہوا، البتہ جو مرد ہے وہ مجھے نہیں چاہتا، جو مجھے چاہتا ہے مَیں اُسے نہیں چاہتی اور جو مجھے نہیں چاہتا مَیں اُسے چاہتی ہوں‘‘[2]-
(۳)دُنیا کی مثال آسمانی بجلی کی سی ہے جو صرف ایک لمحے کے لیے اندھیرا دور کرتی ہے-دنیاایک عارضی خوشی ہے جس کے بعددائمی دکھ سہنا پڑتا ہے-جیسے آسمانی برق سر پہ منڈلاتی ہے اورجس پہ گرجائے اُسے ہلاک کردیتی ہے اوربعینہٖ ہوس دنیا جس دل میں پنجے گاڑ لے اُس کے ایمان کوتباہ کردیتی ہے-
(۴)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کی مشہور حکایت کے مطابق تین مسافروں کو جنگل سے سونے کی ایک خشت ملی،دوران کوچ ایک سفری منزل پہ اُنہوں نے قیام کیا اور اپنے ایک ساتھ کو شہر کے جانب کھانا لانے کے لیے روانہ کیا-اِسی دوران اُن کے باہم سونے کی اینٹ کی وجہ سے لالچ پیدا ہوگیا-اوّل الذکر نے کھانے میں زہر ملادیا تاکہ وہ اکیلا ہی سونے کی اینٹ کا مالک بن سکے-دوسری جانب ثانی الذکرمسافروں نے بھی اُسے ہلاک کرنے کامنصوبہ بنایا،اُن دونوں نے کھانے لے کر واپس آنے والے کوہلاک کردیا اور بعد ازاں زہریلا کھانا کھانے سے وہ خود بھی مارے گئے - آپ قدس اللہ سرہ نے دُنیا کو سونے کی مذکورہ اینٹ قرار دیا جو راہِ حق پہ گامزن طالبوں کو ہلاک کرتی ہے-