ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

دنیا ڈھونڈن والے کتے در در پھرن حیرانی ھو
ہڈی اُتے ہوڑ تنہاں دی لڑدیاں عمر وہانی ھو
عقل دے کو تاہ سمجھ نہ جانن پیون دا لوڑن پانی  ھو
باجھوں ذکر ربے دے باھوؒ کوڑی رام کہانی ھو

Worldly materialistic dogs are wondering door to door in confused state Hoo

Over bone they persist in fighting all their life’s trait Hood

Fools don’t understand and their search for water never abate Hoo

Without dhikr of Allah Bahoo rest is feeble tales spate Hoo

Dunia Dhondan walay kuttay dar dar phiran Herani Hoo

HaDDi utay ho’R tinha di laRdia’N umar wihani Hoo

Aqal day kotah samajh nah janan pewan da loRan paani Hoo

Bajho’N Zikr rabay day Bahoo koRi ram kahani Hoo

تشریح:

(۱)دنیا ہوس وحرص کے سوا کیاہے ؟مال ودولت جمع کرنے کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی -مقتدر ہونے کی خواہش انسانی فطرت میں بگاڑ اور نفاق پیدا کردیتی ہے- نفس امارہ خصائل بد کی وجہ سے طرح طرح کے ناپسندیدہ حیوانات کی شکل اختیار کرلیتا ہے-دنیا دار بھی حیوانوں کی طرح دُنیا کے لیے در در مارے مارے پھرتے ہیں اورساری عمر ژولیدہ حال رہتے ہیں-حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا کیا چیز ہے ؟نفس بادشاہ ہے ،شیطان اُس کاوزیر ہے اوردُنیا اُن دونوں کی ماں ہے جواُن کی پرورش کرتی ہے‘‘-[1]

مزیدفرمایاکہ:-

’’اے عزیز! اگر تُو خدائے عزو جل سے ملنا چاہتا ہے تو کوہِ قاف سے زیادہ وزنی درمِ دنیا کی اِس بلا کو اپنے سر سے اُتار دے-لعنت کے اِس طوق کو اپنے گلے سے اتار دے اور شیطان کے اِس سلسلہ سے نکل جا-بندے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فقرِ محمدی (ﷺ) جیسی نعمت کو ٹھکرا دے اور کتے کی طرح ہڈی کا طالب بن جائے-اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ بندہ نہیں بلکہ کتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’دنیا مردار ہے اور اُس کے طالب کتے ہیں‘‘- مردار اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو گل سڑ کر بد بو دار ہو جائے اور اُسے جلاد بھی قبول نہ کرے اور وہ صرف کتوں کے کھانے کے قابل ہو‘‘-[2]

(۲)دُنیا طمع کے دودھ سے نفس امارہ کو پال پوس کر حریص کتے جیسے خبیث بنادیتی ہے کہ جیسے ہڈی کی حرص کتے میں کبھی ختم نہیں ہوتی بھلے وہ ہڈیوں کے ڈھیر پہ بیٹھا ہو-اس کے باوجود اگراُسے کسی دوسرے ہم جنس کے منہ میں ہڈی نظر آجائے تو وہ اُسی کے حصول کے لیے پاگل ہو جاتا ہے-ان حیوانوں کی زندگی ہڈی پہ لڑ لڑ کر ختم ہو جاتی ہے-یہ صورتحال ایک دُنیادار انسان کے حال کے مطابق ہوتی ہے جیسا کہ فرمایاگیا ہےکہ:-

گر زمین زر میشود سیری نگردد زرد رُو

 

زرد  رُو یا رُو سیاہ است رُو نیاند حق بسو [3]

’’اگر ساری زمین ہی سونا بن جائے تو پھر بھی زرد رُو اہل دُنیا کاجی نہیں بھرے گا اوروہ زرد رُو ہی رہے گا اورراہِ حق کی طرف ہرگز رجوع نہیں کرے گا‘‘-

یہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ دولت جمع کرنے کی حرص انسان کو عقل سلیم سے محروم کر دیتی ہے کیونکہ اُسے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ انسان کی بنیادی ضروریات کم سے کم وسائل میں بھی پوری ہو جاتی ہے اوردیگر ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی کسی قارون کے خزانے کی ضرورت نہیں ہے،سوال یہ ہے کہ پھر انسان اپنے گرد دولت کے انبارکیوں لگانا چاہتا ہے؟اس کاجواب طمع ہے انسان کی ضروریات نہیں ہیں-اگر انسان اپنے اردگرد دیکھے تو ہروقت بے شمار ایسی مثالیں اُسے دعوتِ فکر دیں گی جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ رزق کی فراہمی اللہ تعالیٰ کے ذِمہء کرم پہ ہے-انسان کے سوا اور کون سی مخلوق ہے جو رزق حاصل کرنے کے نام پہ دھڑا دھڑ مال و دولت جمع کررہی ہے یایہ کہ جن کے پاس بے شمار دولت نہیں وہ لازمی بھوکے مرتے ہیں؟اوریہ کہ مال دولت کاخوشی و راحت سے کیا کوئی براہِ راست تعلق ہے؟حالانکہ دیکھنے میں تویہ آیا ہے کہ روپے پیسے کی فروانی اپنے ساتھ ان گنت پریشانیاں لاتی ہے-دولت کی حرص وطمع کتے کی ہڈی کی مثل ہے اوردُنیا دار اس ہڈی کے لیے آپس میں ساری عمر لڑتے بھڑتے رہتے ہیں-دُنیا دار کی مثال ایسی عورت کی سی ہے جو گھی ومکھن کے حصول کے لیے دودھ کی بجائے پانی بلوہتی ہے ایسا کرنا لاحاصل مشقت ہے اوربے فیض ریاضت ہے-اسی لیے فرمایا گیاکہ:

نفس گر سلطان شود مسند نشین

 

سگ بگردِ آسیا گردد یقین[4]

      ’’نفس اگر تخت نشین ہو کر بادشاہ بھی بن جائے توخصائل کے لحاظ سے چکی چاٹنے والا کتا ہی بنا رہتا ہے‘‘-

ایسی زندگی نری باطل ہے جس میں اطاعت الٰہی نہ ہو،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو زندگی کے اُن لمحات کا شمار ہوگا جو ذکر اللہ میں گزرے اور وہاں تو عشق کے اُن جواہر کی قدرو قیمت ہوگی جو انسان اپنی زندگی میں اکٹھے کرتا ہے-اے انسان لاحاصل مشقت کوچھوڑ اور جلد از جلد عرفان ذات حاصل کرکہ یہ حتمی صداقت ہے-


[1](عین الفقر)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](ایضاً)

تشریح:

(۱)دنیا ہوس وحرص کے سوا کیاہے ؟مال ودولت جمع کرنے کی ہوس کبھی ختم نہیں ہوتی -مقتدر ہونے کی خواہش انسانی فطرت میں بگاڑ اور نفاق پیدا کردیتی ہے- نفس امارہ خصائل بد کی وجہ سے طرح طرح کے ناپسندیدہ حیوانات کی شکل اختیار کرلیتا ہے-دنیا دار بھی حیوانوں کی طرح دُنیا کے لیے در در مارے مارے پھرتے ہیں اورساری عمر ژولیدہ حال رہتے ہیں-حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

’’دنیا کیا چیز ہے ؟نفس بادشاہ ہے ،شیطان اُس کاوزیر ہے اوردُنیا اُن دونوں کی ماں ہے جواُن کی پرورش کرتی ہے‘‘-[1]

مزیدفرمایاکہ:-

’’اے عزیز! اگر تُو خدائے عزو جل سے ملنا چاہتا ہے تو کوہِ قاف سے زیادہ وزنی درمِ دنیا کی اِس بلا کو اپنے سر سے اُتار دے-لعنت کے اِس طوق کو اپنے گلے سے اتار دے اور شیطان کے اِس سلسلہ سے نکل جا-بندے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ فقرِ محمدی (ﷺ) جیسی نعمت کو ٹھکرا دے اور کتے کی طرح ہڈی کا طالب بن جائے-اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ بندہ نہیں بلکہ کتا ہے-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’دنیا مردار ہے اور اُس کے طالب کتے ہیں‘‘- مردار اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو گل سڑ کر بد بو دار ہو جائے اور اُسے جلاد بھی قبول نہ کرے اور وہ صرف کتوں کے کھانے کے قابل ہو‘‘-[2]

(۲)دُنیا طمع کے دودھ سے نفس امارہ کو پال پوس کر حریص کتے جیسے خبیث بنادیتی ہے کہ جیسے ہڈی کی حرص کتے میں کبھی ختم نہیں ہوتی بھلے وہ ہڈیوں کے ڈھیر پہ بیٹھا ہو-اس کے باوجود اگراُسے کسی دوسرے ہم جنس کے منہ میں ہڈی نظر آجائے تو وہ اُسی کے حصول کے لیے پاگل ہو جاتا ہے-ان حیوانوں کی زندگی ہڈی پہ لڑ لڑ کر ختم ہو جاتی ہے-یہ صورتحال ایک دُنیادار انسان کے حال کے مطابق ہوتی ہے جیسا کہ فرمایاگیا ہےکہ:-

گر زمین زر میشود سیری نگردد زرد رُو

 

زرد  رُو یا رُو سیاہ است رُو نیاند حق بسو
[3]

’’اگر ساری زمین ہی سونا بن جائے تو پھر بھی زرد رُو اہل دُنیا کاجی نہیں بھرے گا اوروہ زرد رُو ہی رہے گا اورراہِ حق کی طرف ہرگز رجوع نہیں کرے گا‘‘-

یہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ دولت جمع کرنے کی حرص انسان کو عقل سلیم سے محروم کر دیتی ہے کیونکہ اُسے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ انسان کی بنیادی ضروریات کم سے کم وسائل میں بھی پوری ہو جاتی ہے اوردیگر ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی کسی قارون کے خزانے کی ضرورت نہیں ہے،سوال یہ ہے کہ پھر انسان اپنے گرد دولت کے انبارکیوں لگانا چاہتا ہے؟اس کاجواب طمع ہے انسان کی ضروریات نہیں ہیں-اگر انسان اپنے اردگرد دیکھے تو ہروقت بے شمار ایسی مثالیں اُسے دعوتِ فکر دیں گی جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ رزق کی فراہمی اللہ تعالیٰ کے ذِمہء کرم پہ ہے-انسان کے سوا اور کون سی مخلوق ہے جو رزق حاصل کرنے کے نام پہ دھڑا دھڑ مال و دولت جمع کررہی ہے یایہ کہ جن کے پاس بے شمار دولت نہیں وہ لازمی بھوکے مرتے ہیں؟اوریہ کہ مال دولت کاخوشی و راحت سے کیا کوئی براہِ راست تعلق ہے؟حالانکہ دیکھنے میں تویہ آیا ہے کہ روپے پیسے کی فروانی اپنے ساتھ ان گنت پریشانیاں لاتی ہے-دولت کی حرص وطمع کتے کی ہڈی کی مثل ہے اوردُنیا دار اس ہڈی کے لیے آپس میں ساری عمر لڑتے بھڑتے رہتے ہیں-دُنیا دار کی مثال ایسی عورت کی سی ہے جو گھی ومکھن کے حصول کے لیے دودھ کی بجائے پانی بلوہتی ہے ایسا کرنا لاحاصل مشقت ہے اوربے فیض ریاضت ہے-اسی لیے فرمایا گیاکہ:

نفس گر سلطان شود مسند نشین

 

سگ بگردِ آسیا گردد یقین[4]

      ’’نفس اگر تخت نشین ہو کر بادشاہ بھی بن جائے توخصائل کے لحاظ سے چکی چاٹنے والا کتا ہی بنا رہتا ہے‘‘-

ایسی زندگی نری باطل ہے جس میں اطاعت الٰہی نہ ہو،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو زندگی کے اُن لمحات کا شمار ہوگا جو ذکر اللہ میں گزرے اور وہاں تو عشق کے اُن جواہر کی قدرو قیمت ہوگی جو انسان اپنی زندگی میں اکٹھے کرتا ہے-اے انسان لاحاصل مشقت کوچھوڑ اور جلد از جلد عرفان ذات حاصل کرکہ یہ حتمی صداقت ہے-



[1](عین الفقر)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر