جاں جاں ذات نہ تھیوے باھو تاں کم ذات سدیوے ھو
ذاتی نال صفاتی ناہیں تاں تاں حق لبھیوے ھو
اندر بھی ھو تے باہر بھی ھو باھو کتھے لبھیوے ھو
جیندے اندر حب دنیا باھو اوہ مول فقیر نہ تھیوے ھو
Until ones beings annihilates in Hoo’s Essence, he remains lowest Hoo
Within Divine essence is no nasooti form left then Lord you will attain dearest Hoo
Hoo is inner and Hoo is in outer from where Hoo could access by me Hoo
Within whose heart is worldly love ‘Bahoo’ Sufi he could never be Hoo
jaa’N jaa’N Zaat na theway taa’N kam Zaat sadeway Hoo
Zaati naal Sefati naahi’N taa’N taa’N Haq labhiway Hoo
andar bhi Hoo tay bahir bhi Hoo Bahoo kithay labhiway Hoo
Jainday andar Hubb dunya Bahoo oh mool faqeer na theway Hoo (Translated by: M.A.Khan)
تشریح:
(۱)انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادتِ کامل یعنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا-معرفتِ ذات حاصل کرنے کے لیے ایسی عبادت وریاضت اختیار کرنا پڑتی ہے کہ جس کامقصود بالذات صرف وِصالِ باری تعالیٰ ہو-اَیسی عبادت کرنے والا مرتبۂ اِخلاص پہ فائز ہوتاہے -جس کو خدا تعالیٰ کی بندگی میں مرتبۂ اِخلاص حاصل نہ ہو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے کم ذات کے لقب سے پکارا ہے-خدا کے مخلص بندوں پہ شیطان کاہر وار بے اثر رہتاہے جس کااعتراف اُس نے اللہ کے حضور بھی کیاکہ:-
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَoاِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ-
(شیطان نے کہا) الٰہی ! تیری عزّت کی قسم مَیں ضرور اِن سب کو گمراہ کروں گا سوائے تیرے مخلص بندوں کے ‘‘-(سورۃ:ص:آیت:۸۲-۸۳)
حضور غوث الاعظم سرکار اِسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :- اور بندہ اُس وقت تک مخلص نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ دائرۂ حقیقت میں نہیں پہنچ جاتا کیونکہ اِس میں صفاتِ بشریہ کی غیریت تجلی ٔ ذات کے بغیرفنا نہیں ہو سکتی اور نہ ہی معرفت ِذاتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے بغیر جہالت کا پردہ اُٹھتا ہے -(سرالاسرار:۶۱)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق جسے قربِ ذات نصیب نہیں وہ مخلص نہیں ہے جسے بیت میں کم ذات کہاگیا ہے -اِس کی وجہ یہ ہے کہ غیر مخلص شیطان کی دسترس میں رہتا ہے اوروہ اُسے کمزور پاکرکسی بھی وقت راہِ راست سے بھٹکاسکتاہے-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث قدسی بیان فرمائی جس سے مذکورہ امر کی مزید وضاحت ہوجائے گی فرماتے ہیں کہ:-پس جو بندہ علمِ ظاہر اور علمِ باطن دونوں علوم کو زیرِ عمل لاتا ہے وہ اُس عالَم (عالمِ لاہوت) میں پہنچ جاتا ہے چنانچہ حدیث ِقدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’اے میرے بندے! اگر تُو میرے حرم میں داخل ہونا چاہتا ہے تو عالمِ ملک، عالمِ ملکوت اور عالمِ جبروت کی طرف توجہّ نہ کر کہ عالمِ ملک عالم کے لئے شیطان ہے ،عالمِ ملکوت عارف کے لئے شیطان ہے اور عالمِ جبروت واقف ِذاتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لئے شیطان ہے ‘‘- جس نے اِن میں سے کسی مقام کو پسند کر لیا وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہو گیا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو گیا درجات سے محروم نہ ہوا- ایسے لوگ قربِ الٰہی کی طلب تو رکھتے ہیں لیکن پا نہیں سکتے کہ اُنہوں نے غیر کی طمع کی-(سرالاسرار:۶۳)
(۲)عالمِ ملک ،عالمِ ملکوت اورعالمِ جبروت کے مراتب تک پہنچنے والے کو صفاتِ الٰہی کے گوناگوں تصرفات حاصل ہوجاتے ہیں-لیکن طالبِ مولیٰ وہ ہے جو قرب الٰہی (عالمِ لاہوت)کی طلب اورلگن میں ان تصرفات کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا -مگر جو سالک ان صفاتی تصرفات میں پھنس جاتاہے وہ لقائے حق تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ سے محروم ہوجاتاہے-
(۳)حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی باطنی کیفیت بیان فرماتے ہیں ’’اسم ھُو‘‘کی تجلیات مجھے ہمہ وقت قربِ باری تعالیٰ سے سرشار رکھتیں ہیں اوراس وارَفتگی میں مجھے اپنی خبر بھی نہیں رہتی، آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ:-
گرشوم د رغرق د ید ارش د وام باھُو د رہُوْ گم شد ہ باھُو کد ام
’’اگر مَیں ہر وقت اُس کے دیدار میں غرق رہوں تو باھُو دیدارِ ھُوْ (دیدارِانور ِذاتِ حق)میں گم ہو کر باھُو کہاں رہتا ہے؟‘‘
باخبر باھُو بود یاہُوْ بہ خواند یاھُو باھُورا برد باھُو ہو نہ ماند
’’باخبر باھُو مطالعۂ یَاھُوْ میں گم رہتا ہے، ذکر ِ یَاھُوْ باھُو کو انوارِ یَاھُوْ میں گم کر دیتا ہے اور باھُو باقی نہیں رہتا‘‘-(امیرالکونین:۲۱۷)
آخری مصرعہ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے واشگاف الفاظ میں فرمایا کہ فقر اورحبِ دُنیا باہم ایک دِل میں اکٹھے نہیں ہوسکتے جس طالب کے دِل میں حبِ دُنیا موجود ہو وہ کبھی فقیر کہلاوانے کاحق دار نہیں ہوتا-