دودھ تے دہی ہر کوئی رڑکے عاشق بھا رڑکیندے ھُو
تن چٹورا من مندھانیط آہیں نال ھلیندے ھُو
دکھاں دا نیترا کڈھے لسکارے غماں دا پانیط پیندے ھُو
نام فقیر تنہاں دا باھُوؒ جیہڑے ہڈاں توں مکھنط کڈھیندے ھُو
Everyone churns milk and yogurt true lovers churn longing fire Hoo
They take body as churning pot and their spirit as churner and with sighs churning they acquire Hoo
The cord of longing pain glitter and they add essence of sorrow Hoo
Faqeer is your name Bahoo who extracts butter from bone marrow Hoo
Doodh tay dahi har koi riRkay aashiq bha riRkainday Hoo
Tan chaTora mann madhaani aaheN naal halainday Hoo
Dukha’N daa netra kaDhay laskaray Ghama’N da paani pendaiy Hoo
Naam faqeer tinha’N daa Bahoo jehRay haDDaa’N to makhan kaDhainday Hoo
تشریح:
(۱)عاشق کی رِیت سب سے نرالی ہوتی ہے، اُس کی ہر ادا عام لوگوں سے الگ و منفرد ہوتی ہے-وہ شوقِ الی اللہ میں ایسے ایسے اُمور سر انجام دیتا ہے کہ جن کو سوچ کر بھی عام لوگوں پہ مارے خوف کپکپی طاری ہو جاتی ہے- دُنیا دار مال و دولت اور اقتدار و حکومت و جاہ و حشمت کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن عاشق کے نزدیک یہ چیزیں نرّی بے وقعت ہوتی ہیں بلکہ وہ راہِ معرفت میں اِن کو اپنے لیے سب سے بڑی رکاوٹ خیال کرتا ہے-حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ گھی حاصل کرنے کے لیے عوام کتنی محنت کرتی ہے کہ پہلے دُودھ سے دہی بناتے ہیں پھر اس کو بلو کر مکھن نکالتے ہیں، روزانہ حاصل ہونے والے مکھن کو جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر جب مناسب مقدار میں مکھن جمع ہو جائے تو اِسے آگ کی تپش سے غیر ضروری اجزاء سے پاک کرکے گھی حاصل کرتے ہیں لیکن عاشق کو ان سے کوئی سروکار نہیں وہ تو ہر وقت سینے میں آتشِ عشق کو سانسوں سے "رڑکتے" اور بلوہتے ہیں تاکہ اس سے معرفتِ الٰہی کا مکھن و گھی حاصل ہو سکے-آپ کے فرامین سے اسم اللہ ذات کی تپش و حدت کا اندازہ ہوسکے گا کہ جس میں فقیر ہمہ وقت مصروف رہتا ہے:
بعد ازاں لائق شوی سِرّ راز راہ |
|
ہرد می جان وجگر سوزد آہ! آہ! |
’’آہ! تو اُس راہِ راز پر چلنے کے لائق تب ہوگا کہ جب تُو اپنی جان و جگر کو ہر وقت عشق ِ اِلٰہی کی آگ میں جلائے گا‘‘[1]-
’’تصور ِاسم اللہ ذات سے وجود میں وہ آگ پیدا ہوتی ہے کہ جس کے ایک ہی ذرے سے دوزخ کی آگ بھڑکائی گئی ہے-اگر وجود میں اسم اللہ ذات کی ایسی آگ رکھنے والا فنا فی اللہ فقیر قہرِ جلالیت کی ایک نظر سے دیکھ لے تو مشرق سے مغرب تک سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے لیکن آفرین ہے ایسے وجود پر جو اِتنی شدید آگ اپنے اندر نہاں رکھتا ہے لیکن خَلقِ خدا کو ستاتا نہیں‘‘-[2]
’’اسم اللہ ذات کے مشاہدے سے تجلیات ِنور کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جس سے طالب اللہ کا قلب و قالب سر سے لے کر قدم تک نور ہی نور بن جاتا ہے اور اسم اللہ ذات کی تپش اُسے دن رات جلائے رکھتی ہے جس طرح کہ آگ خشک لکڑیوں کو جلاتی ہے اور یہ آگ سرد نہیں ہوتی جب تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو کر دیدارِ اِلٰہی سے سیراب نہ ہو جائے‘‘-[3]
(۲)آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کے اندر مقام روحانیّت و معرفت اس طرح پوشیدہ ہیں جیسے دودھ میں مکھن و گھی پنہاں ہوتے ہیں- انسان کا جسم شریعت کے دودھ سے بھرا مٹکا ہے اور اس کا باطن طریقت کی مدھانی ہے اور سانس وہ رسّی ہے جس سے طریقت کی مدھانی گھومتی ہے- جب سانسوں کی یہ رسّی گردش کرتی ہے تو اسم اللہ ذات کی تپش سے نفس امّارہ کے خصائل بد اور انسان میں شیطانی اثرات کی میل اُس کے قلب سے الگ ہونا شروع ہوجاتی ہے اور خالص محبت الٰہی اُس کے دِل میں باقی رہ جاتی ہے-مرشد کامل کا فرض ہے کہ وہ اپنے طالب کو ان مراحل سے آسانی سے گزارے‘‘-
جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرہٗ ) فرماتے ہیں کہ:-
’’سن! آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے- دودھ میں لسی بھی ہوتی ہے، دہی اور مکھن بھی ہوتا ہے اور گھی بھی ہوتا ہے، اِسی طرح آدمی کے وجود میں نفس بھی ہوتا ہے ،قلب بھی ہوتا ہے ، روح بھی ہوتی ہے او ر سرّ بھی ہوتا ہے اور یہ چاروں ایک ہی جگہ جمع ہوتے ہیں-مرشد کو اُس عورت کی طرح ہونا چاہیے جو دودھ میں مناسب مقدار میں لسی ڈال کر رکھ دیتی ہے، ساری رات دہی جمتا رہتا ہے، صبح کو دہی بلوتی ہے تو مکھن نکل آتا ہے اور لسی الگ ہو جاتی ہے، پھر مکھن کو آگ پر چڑھاتی ہے تو مکھن سے کثافت دور ہو جاتی ہے اور گھی نکل آتا ہے- مرشد کو عورت سے کم تر نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے عورت دودھ کے کام کو انتہا تک پہنچاتی ہے اُسی طرح مرشد کا کام بھی یہ ہے کہ طالب کو اُس کے وجود میں مقامِ نفس ، مقامِ قلب ،مقامِ روح، مقامِ سرّ، مقامِ توفیق ِالٰہی،مقامِ علمِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت اور مقامِ خناس و خرطوم و شیطان و حرص و حسد و کبر علیحدہ علیحدہ کر کے دکھائے‘‘-[4]
’’دل، قلب، روح ،سرّ اور نفس و شیطان یہ سب طالب کے وجود میں باہم ملے ہوئے ہیں جس طرح کہ خون دم و جان کے ساتھ ملا ہوا ہے- پس معلوم ہوا کہ آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے جس میں دہی، لسی، مکھن اور گھی ملے ہوئے ہیں- مرشد ِکامل اِن میں سے ہر ایک کو اُس کے احوال کے مطابق حل کرتا ہے اور اُنہیں جدا کر کے اپنے اپنے مقام پر دکھاتا ہے اور وہ اپنی اپنی بولی بولنے لگتے ہیں- مطلب یہ ہے کہ وجود کے اندر نفس بادشاہ ہے اور شیطان اُس کا وزیر ہے- چاہیے کہ نفس و شیطان کے اندر ایسی جدائی ڈال دی جائے کہ پھر شیطان وجود کے اندر داخل نہ ہوے- جب نفس و شیطان جدا ہو جاتے ہیں تو طالب فوراً مراتب ِاولیا ٔ پر پہنچ کر معرفت ِخداوندی سے سرفراز ہو جاتاہے- مرشد ایسا صاحب ِنظر ہو کہ جب وہ توجّہ کرے تو طالب کو حضوری نصیب ہو جائے-[5]
(۳)فقیر کاہمہ وقت تصورِ اسم اللہ ذات میں رہنا اور سینے میں سانسوں کی گردش سے قلبی ذکر کرنا ایک دِقّت طلب کام ہے- جب قلبی ذکر کا یہ تسلسل اسم اللہ ذات کی شعاؤں سے چمکتا ہے تو فقیر کے قلب میں ناقابلِ برادشت حدت پیدا ہوتی ہے اور وہ اس حدت کو کم کرنے کے لیے اِس پہ غم کے پانی کا چھڑکاؤ کرتا ہے- عاشق کے یہ اُمور دُنیا داروں کے لیے ناقابلِ یقین ہوتے ہیں-
(۴)فقیر اپنے نفس کو ہمیشہ آتشِ عشق سے جلائے رکھتا ہے جس کی وجہ سے نفس کثافت یعنی نفسانی خواہشات سے پاک ہو کر رضائے الٰہی کی لطافت کا سزاوار ہو جاتا ہے-اسم اللہ ذات کا نور فقیرکے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے اور اس کے ساتوں اندام نورِ معرفت سے منور ہوجاتے ہیں-ہڈیوں سے مکھن نکالنے سے یہی مُراد ہے کہ فقیر کی نفسانی خواہشات یا کثافت رُوحانی لطافتوں میں بدل جاتی ہیں-عین الفقرمیں آپ قدس اللہ سرہ نے حضرت رابعہ بصریؒ کا جو واقعہ بیان فرمایا اُس سے اس امر کی صراحت ہوجاتی ہے-
’’نقل ہے کہ ایک دن حضرت رابعہ بصریؒ اپنے گھر میں اولیا ٔاللہ کی مجلس میں بیٹھی ہوئی تھیں، رات کا وقت تھا، گھر میں تاریکی چھائی ہوئی تھی مگر حالت یہ تھی کہ آپ کے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا کہ تیل خرید کر چراغ روشن کر لیتیں- تمام اہل ِمجلس ایک دوسرے کی زیارت سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہو رہے تھے کہ حضرت رابعہ بصری ؒ نے اپنی انگلیوں پر اسم اللہ پڑھ
(۱)عاشق کی رِیت سب سے نرالی ہوتی ہے، اُس کی ہر ادا عام لوگوں سے الگ و منفرد ہوتی ہے-وہ شوقِ الی اللہ میں ایسے ایسے اُمور سر انجام دیتا ہے کہ جن کو سوچ کر بھی عام لوگوں پہ مارے خوف کپکپی طاری ہو جاتی ہے- دُنیا دار مال و دولت اور اقتدار و حکومت و جاہ و حشمت کے لیے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن عاشق کے نزدیک یہ چیزیں نرّی بے وقعت ہوتی ہیں بلکہ وہ راہِ معرفت میں اِن کو اپنے لیے سب سے بڑی رکاوٹ خیال کرتا ہے-حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ گھی حاصل کرنے کے لیے عوام کتنی محنت کرتی ہے کہ پہلے دُودھ سے دہی بناتے ہیں پھر اس کو بلو کر مکھن نکالتے ہیں، روزانہ حاصل ہونے والے مکھن کو جمع کرتے رہتے ہیں اور پھر جب مناسب مقدار میں مکھن جمع ہو جائے تو اِسے آگ کی تپش سے غیر ضروری اجزاء سے پاک کرکے گھی حاصل کرتے ہیں لیکن عاشق کو ان سے کوئی سروکار نہیں وہ تو ہر وقت سینے میں آتشِ عشق کو سانسوں سے "رڑکتے" اور بلوہتے ہیں تاکہ اس سے معرفتِ الٰہی کا مکھن و گھی حاصل ہو سکے-آپ کے فرامین سے اسم اللہ ذات کی تپش و حدت کا اندازہ ہوسکے گا کہ جس میں فقیر ہمہ وقت مصروف رہتا ہے:
بعد ازاں لائق شوی سِرّ راز راہ |
|
ہرد می جان وجگر سوزد آہ! آہ! |
’’آہ! تو اُس راہِ راز پر چلنے کے لائق تب ہوگا کہ جب تُو اپنی جان و جگر کو ہر وقت عشق ِ اِلٰہی کی آگ میں جلائے گا‘‘[1]-
’’تصور ِاسم اللہ ذات سے وجود میں وہ آگ پیدا ہوتی ہے کہ جس کے ایک ہی ذرے سے دوزخ کی آگ بھڑکائی گئی ہے-اگر وجود میں اسم اللہ ذات کی ایسی آگ رکھنے والا فنا فی اللہ فقیر قہرِ جلالیت کی ایک نظر سے دیکھ لے تو مشرق سے مغرب تک سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے لیکن آفرین ہے ایسے وجود پر جو اِتنی شدید آگ اپنے اندر نہاں رکھتا ہے لیکن خَلقِ خدا کو ستاتا نہیں‘‘-[2]
’’اسم اللہ ذات کے مشاہدے سے تجلیات ِنور کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ جس سے طالب اللہ کا قلب و قالب سر سے لے کر قدم تک نور ہی نور بن جاتا ہے اور اسم اللہ ذات کی تپش اُسے دن رات جلائے رکھتی ہے جس طرح کہ آگ خشک لکڑیوں کو جلاتی ہے اور یہ آگ سرد نہیں ہوتی جب تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو کر دیدارِ اِلٰہی سے سیراب نہ ہو جائے‘‘-[3]
(۲)آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کے اندر مقام روحانیّت و معرفت اس طرح پوشیدہ ہیں جیسے دودھ میں مکھن و گھی پنہاں ہوتے ہیں- انسان کا جسم شریعت کے دودھ سے بھرا مٹکا ہے اور اس کا باطن طریقت کی مدھانی ہے اور سانس وہ رسّی ہے جس سے طریقت کی مدھانی گھومتی ہے- جب سانسوں کی یہ رسّی گردش کرتی ہے تو اسم اللہ ذات کی تپش سے نفس امّارہ کے خصائل بد اور انسان میں شیطانی اثرات کی میل اُس کے قلب سے الگ ہونا شروع ہوجاتی ہے اور خالص محبت الٰہی اُس کے دِل میں باقی رہ جاتی ہے-مرشد کامل کا فرض ہے کہ وہ اپنے طالب کو ان مراحل سے آسانی سے گزارے‘‘-
جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرہٗ ) فرماتے ہیں کہ:-
’’سن! آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے- دودھ میں لسی بھی ہوتی ہے، دہی اور مکھن بھی ہوتا ہے اور گھی بھی ہوتا ہے، اِسی طرح آدمی کے وجود میں نفس بھی ہوتا ہے ،قلب بھی ہوتا ہے ، روح بھی ہوتی ہے او ر سرّ بھی ہوتا ہے اور یہ چاروں ایک ہی جگہ جمع ہوتے ہیں-مرشد کو اُس عورت کی طرح ہونا چاہیے جو دودھ میں مناسب مقدار میں لسی ڈال کر رکھ دیتی ہے، ساری رات دہی جمتا رہتا ہے، صبح کو دہی بلوتی ہے تو مکھن نکل آتا ہے اور لسی الگ ہو جاتی ہے، پھر مکھن کو آگ پر چڑھاتی ہے تو مکھن سے کثافت دور ہو جاتی ہے اور گھی نکل آتا ہے- مرشد کو عورت سے کم تر نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے عورت دودھ کے کام کو انتہا تک پہنچاتی ہے اُسی طرح مرشد کا کام بھی یہ ہے کہ طالب کو اُس کے وجود میں مقامِ نفس ، مقامِ قلب ،مقامِ روح، مقامِ سرّ، مقامِ توفیق ِالٰہی،مقامِ علمِ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت اور مقامِ خناس و خرطوم و شیطان و حرص و حسد و کبر علیحدہ علیحدہ کر کے دکھائے‘‘-[4]
’’دل، قلب، روح ،سرّ اور نفس و شیطان یہ سب طالب کے وجود میں باہم ملے ہوئے ہیں جس طرح کہ خون دم و جان کے ساتھ ملا ہوا ہے- پس معلوم ہوا کہ آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے جس میں دہی، لسی، مکھن اور گھی ملے ہوئے ہیں- مرشد ِکامل اِن میں سے ہر ایک کو اُس کے احوال کے مطابق حل کرتا ہے اور اُنہیں جدا کر کے اپنے اپنے مقام پر دکھاتا ہے اور وہ اپنی اپنی بولی بولنے لگتے ہیں- مطلب یہ ہے کہ وجود کے اندر نفس بادشاہ ہے اور شیطان اُس کا وزیر ہے- چاہیے کہ نفس و شیطان کے اندر ایسی جدائی ڈال دی جائے کہ پھر شیطان وجود کے اندر داخل نہ ہوے- جب نفس و شیطان جدا ہو جاتے ہیں تو طالب فوراً مراتب ِاولیا ٔ پر پہنچ کر معرفت ِخداوندی سے سرفراز ہو جاتاہے- مرشد ایسا صاحب ِنظر ہو کہ جب وہ توجّہ کرے تو طالب کو حضوری نصیب ہو جائے-[5]
(۳)فقیر کاہمہ وقت تصورِ اسم اللہ ذات میں رہنا اور سینے میں سانسوں کی گردش سے قلبی ذکر کرنا ایک دِقّت طلب کام ہے- جب قلبی ذکر کا یہ تسلسل اسم اللہ ذات کی شعاؤں سے چمکتا ہے تو فقیر کے قلب میں ناقابلِ برادشت حدت پیدا ہوتی ہے اور وہ اس حدت کو کم کرنے کے لیے اِس پہ غم کے پانی کا چھڑکاؤ کرتا ہے- عاشق کے یہ اُمور دُنیا داروں کے لیے ناقابلِ یقین ہوتے ہیں-
(۴)فقیر اپنے نفس کو ہمیشہ آتشِ عشق سے جلائے رکھتا ہے جس کی وجہ سے نفس کثافت یعنی نفسانی خواہشات سے پاک ہو کر رضائے الٰہی کی لطافت کا سزاوار ہو جاتا ہے-اسم اللہ ذات کا نور فقیرکے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے اور اس کے ساتوں اندام نورِ معرفت سے منور ہوجاتے ہیں-ہڈیوں سے مکھن نکالنے سے یہی مُراد ہے کہ فقیر کی نفسانی خواہشات یا کثافت رُوحانی لطافتوں میں بدل جاتی ہیں-عین الفقرمیں آپ قدس اللہ سرہ نے حضرت رابعہ بصری ()کا جو واقعہ بیان فرمایا اُس سے اس امر کی صراحت ہوجاتی ہے-
’’نقل ہے کہ ایک دن حضرت رابعہ بصریؒ اپنے گھر میں اولیا ٔاللہ کی مجلس میں بیٹھی ہوئی تھیں، رات کا وقت تھا، گھر میں تاریکی چھائی ہوئی تھی مگر حالت یہ تھی کہ آپ کے پاس ایک پیسہ بھی نہ تھا کہ تیل خرید کر چراغ روشن کر لیتیں- تمام اہل ِمجلس ایک دوسرے کی زیارت سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہو رہے تھے کہ حضرت رابعہ بصری ؒ نے اپنی انگلیوں پر اسم اللہ پڑھ