بیت: ’’ہر عبادت و ہر ثواب کا مقصود لقائے حق ہے اِس لئے مَیں نے خدا سے علمِ لقا کا سبق پڑھاہ‘‘-
جان لے کہ بیس حصے علم ایک حصہ علم میں پوشیدہ ہے اور بیس حصے علم ایک حصہ حکمت ِعالم و حکیم عارف ِ قدیم میں پوشیدہ ہیں- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حکمت کی باتیں جاہل کے سامنے مت کیا کرو‘‘- جس کی زبان علم سے زندہ مگر دل مردہ رہا وہ معرفت ِالٰہی تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا، وہ دنیا سے افسردہ ہی جاتا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ہم نے تمہیں اِسی( مٹی) سے پیدا کیا پھر اِسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اِسی سے تمہیں نکالیں گے‘‘-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اے نبی (ﷺ)! دشمنوں کی طرف وہ مٹی آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی ہے‘‘-
دعوت پڑھنے کے لائق وہ آدمی ہو سکتا ہے جو غالب الارواح و غالب الاولیاء و غالب الجن و الانس و غالب الفرشتہ مؤکل و لا رجعت و لا زوال ہو، جس کا دل خزائن ِ ظاہر کے تصرف سے غنی ہو، باطن میں ہر وقت مجلس ِحضوری میں حاضر رہتا ہو اور لا یحتاج فقیر ہو-عامل کامل اہل ِدعوت درمِ دنیا کے لئے دعوت ہرگز نہیں پڑھتا کیونکہ جو آدمی حصولِ دنیا کے لئے دعوت پڑھتا ہے وہ درحقیقت علمِ دعوت پڑھنا ہی نہیں جانتا، وہ محتاج ہے اور استدراجِ جنونیت کے مرتبے پر ہے-
ابیات:
(1)’’ زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل بیل و گدھے کے خیال میں مستغرق ہوتو ایسی تسبیح کیا اثر دکھائے گی؟ ‘‘
(2)’’ دعوت کو اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے پڑھا جائے کیونکہ جو آدمی قرب اللہ حضوری کی دعوت پڑھتا ہے وہ رنج و غم سے آزاد ہو جاتا ہے‘‘-
(3)’’جو دعوت حضوریٔ حق کے لئے پڑھی جائے وہ دعوت خوان کو حضوری ٔ مصطفےٰ (ﷺ) میں لے جاتی ہے‘‘-
(4)’’جو دعوت مناصب و مراتب ِحضوری کی خاطر پڑھی جائے وہ نور ِذات میں غرق کر کے مجلس ِمصطفےٰ (ﷺ) کی حضوری کا وسیلہ بنتی ہے‘‘-
(5)’’دعوت کا منصب مراتب ِقرب ِخدا تک رسائی ہے، جو کوئی اِسے حصولِ دنیا کی خاطر پڑھتا ہے وہ بے حیا ہے‘‘-
(6) ’’دعوت کا ابتدائی سبق خزائن اللہ کا تصرف ہے جس کے پڑھنے سے ہر طبق دعوت خوان کے تصرف میں آ جاتا ہے‘‘-
(7)’’ ہر مؤکل غلام کی طرح فرمان بردار ہو جاتا ہے اور زیر و زبر کا ہر مقام منکشف ہو کر واضح ہو جاتا ہے‘‘-
(8)’’جو آدمی نعمائے دنیا کی دولت کا طالب بنتا ہے وہ شیطانِ ملعون کا مصاحب بن جاتا ہے‘‘-
(9) ’’جس کی طلب قرب اللہ حضوری ہو اُسے چاہیے کہ وہ دعوت ِتصور ِاسم اللہ ذات پڑھتے وقت راز ِ کن کو مدِّ نظر رکھے‘‘-
(10)’’جو راز ِ کن کو پا لیتا ہے اُس پر امرِ کن کھل جاتا ہے اور وہ خدا سے ہر قسم کے الہامات پاتا ہے‘‘-
(11)’’ میرا یہ بیان میرے حال کے عین مطابق ہے ، جو اِس قسم کی دعوت کا عامل نہیں وہ لافزن ہے‘‘-
(12)’’جو حق کو چھپاتا ہے وہ مطلق کافر ہے اور حق کہنے والے کے دشمن ہمیشہ حاسد ہوتے ہیں‘‘-
(13) ’’ مَیں علمِ اکسیر و علمِ تکسیر میں کامل ہوں، مجھے سوائے خدا کے کسی کی حاجت نہیں‘‘-
(14) ’’اے باھُو! کبھی کوئی لائق ِالتفات طالب میرے پاس نہیں آیا ورنہ مَیں اُسے توحید ِربانی میں غرق کر کے مجلس ِمصطفےٰ (ﷺ) میں پہنچا دیتا‘‘-
دعوت پڑھنے سے کامل کو خزائن اللہ گنج ملتے ہیں اور ناقص کو دورانِ دعوت تیغِ برہنہ کی مثل رنج ملتے ہیں- دعوت پڑھنا آسان کام نہیں ہے، کوئی مرد مذکر عارف کامل عامل باخبر ہوشیار اولیاءاللہ صاحب ِقرب ِپروردگار ہی دعوت پڑھنے کے لائق ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی احمق تیلی کا چشم بند بیل حیوان- دعوت پڑھنا مشکل، بہت ہی مشکل اور نہایت ہی سخت دشوار کام ہے- علمِ دعوت میں کامل ہونا ضروری ہے کہ علمِ دعوت سے کامل کو عطائے پروردگار سے بے حد و بے شمار خزائن اللہ کے اسرار ِعظیم حاصل ہوتے ہیں-
جس کامل عامل اہل ِدعوت پر اِن اسرار ِعظیم کا نظارہ کھل جائے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ قال و تحقیق و نماز ِاستخارہ سے حقائق ِحق تلاش کرتا پھرے کہ اِس قسم کا شغل وہ آدمی کرتا ہے جو ناقص اہل ِناسوت ہو اور ہر وقت نفس کی قید میں رہتا ہو-دعوت پڑھنے کے لائق وہ شخص ہو سکتا ہے جس کا روحی جثہ تصور ِاسم اللہ ذات کی تاثیر سے نور ہو جائے اور جب وہ دعوت پڑھے تو مع اللہ حضور ہو کرمجلس ِمحمدی (ﷺ)میں پہنچ جائے- دیگر مراتب ِدعوت یہ ہیں کہ کامل عامل ِدعوت طالب مرید کو دعوت کے آغاز ہی میں پانچ مراتب عطا کر دیتا ہے- وہ پانچ مراتب یہ ہیں: (1)حاضرات(2)ناظرات(3)تصورِاسم اللہ ذات(4)آگاہ از دلیل (5) نگاہ بہ قرب ِربّ ِجلیل-کامل عامل ِدعوت مرشد طالب مرید ِصادق کو یہ پانچ مراتب پانچ روز ہی میں عطا کر دیتا ہے- اگراہل ِدعوت اولیا ءاللہ کو باطن میں ہدایت ِقرب اللہ تحقیق کی ایسی توفیق حاصل نہ ہوتی تو تمام طالب مرید اور جملہ مخلوق ہلاک ہو جاتی- راہ ِ دعوت و معرفت میں ظاہری و باطنی جمعیت مشاہدۂ ربوبیت و رویت ِجمالِ وصال سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ گفت و شنود ِقیل و قال سے-
بیت: ’’عارفوں کی نظر رات دن دیدار ِحق پر رہتی ہے اِس لئے مَیں سونے چاندی کی طرف ہرگز نہیں دیکھتا‘‘-
وہ کتنے عجیب و احمق لوگ ہیں جو اپنے دل سے حُبّ ِمولیٰ کو نکال کر اُس میں حُبّ ِدنیا و حرص و حسد و کبر و عجب و ریا و ہوائے شیطانی کی فصل کاشت کرتے ہیں - ایسے لوگ مومن مسلمان فقیر درویش عالم فاضل ذاکر اہل ِمراقبہ اہل ِفکر اور اہل ِتقویٰ کس طرح ہو سکتے ہیں؟یہ تو جانوروں سے بد تر لوگ ہیں- فقیر یہ بات حسد سے نہیں بلکہ حساب سے کہتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حق بات کہنے سے چپ رہنے والا گونگا شیطان ہے‘‘-اپنے کانوں سے غفلت کا پنبہ نکال دے اور موت کو یاد کر کہ موت تیرے وجود میں ہے اور تیرا وجود موت کی غار ہے- مراتب ِموت اختیار کر کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے-
ابیات:
(1)’’قرب ِخدا کی خاطر نفس کی گردن مار دے تاکہ تُو مجلس ِمصطفےٰ(ﷺ)میں دائم حاضر رہ سکے‘‘-
(2)’’یہی عارفانِ اولیاء اللہ کے مراتب ہیں جو اِس راہ سے ناواقف ہے وہ ہوائے نفس کا قیدی ہے‘‘-
شرحِ دعوت ، عامل ِدعوت و دعوت ِکامل :
دعوت پڑھنا اُس طالب کے لئے مناسب ہے جو علمِ دعوت کو کلی طور پر جانتا ہو اور دو ہی دم میں اُسے تمامیت تک پہنچا سکتا ہو- جو آدمی ترتیب سے دعوت پڑھنا جانتا ہے اور تصور و تصرف ِ اسم اعظم و اسم اللہ ذات سے دعوت پڑھ لے تو قیامت تک وہ اور اُس کی آل اولاد بے غم و لایحتاج ہو جاتی ہے ایسے عامل کامل مکمل اکمل صاحب ِ دعوت دنیا میں کم ہوتے ہیں-
بیت: ’’دمِ ازل، دمِ ابد اور دمِ دنیا یہ سب’’ ایک دم‘‘ ہے، جو اِس ایک دم کو نہیں جانتا وہ مرد ِ خام ہے‘‘-
اہل ِدعوت مرشد ِکامل طالب ِصادق و مرید ِلا یرید کو وسیلۂ فیض فضل اللہ و فضیلت ِ دعوت کے چار مناصب دعوت کے شروع میں ہی عطا کر دیتا ہے - ایک تصور ِ اسم اللہ ذات، دوسرا تصرف ِاسمِ اعظم متبرکات ، تیسرا توجۂ کلمہ طیبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘اور چوتھا قرآن مجید کی ناسخ آیات- جو طالب اللہ اِن چاروں مناصب کی دعوت پڑھ لیتا ہے اُس سے ظاہر و باطن کے تمام غیبی لاریبی خزائن اللہ میں سے کوئی خزانہ مخفی و پوشیدہ نہیں رہتا- جو مرشد چار دن میں یہ چاروں مناصب طالب اللہ کو نصیب نہ کرے وہ طالب احمق ہے کہ ایسے ناقص مرشد کے حکم سے دعوت پڑھتا ہے - اہل ِبدعت بد کیش غلیظ طالب ِدنیا بد اندیش دعوت پڑھنے کے لائق نہیں ہوتا- دعوت وہ عیسیٰ صفت غنی درویش اہل ِمعرفت فقیر عارف باللہ پڑھ سکتا ہے جسےقرب اللہ کی حضوری حاصل ہو- جب ایسا فقیر’’قُمْ بِاِذْ نِ اللہِ‘‘ (اُٹھ اللہ کے حکم سے) کَہ کر کسی ولی اللہ کی قبر پر دعوت پڑھتا ہے تو اللہ کے حکم سے اہل ِقبر روحانی قبر سے نکل کر حاضر ہو جاتا ہے- اِس قسم کی دعوت ِنور حضور پڑھتے وقت فرشتہ اہل ِدعوت سے گریزاں ہو کر دُور ہٹ جاتا ہے کہ وہ اِن مراتب سے محروم و نامحرم ہوتا ہے-
ابیات: (1)’’حق پسند عارف ہر خوف و غم سے آزاد ہوتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد زیرِخاک زندہ ہوتے ہیں‘‘-
(2)’’عارفوں کو یہ قوت حاصل ہوتی ہے کہ وہ قبر کے اندر کے احوال کو دیکھ لیتے ہیں- یہ مراتب اُن عارفوں کو حاصل ہوتے ہیں جو عیسیٰ صفت و ثانی ٔخضر ہوتے ہیں‘‘-
(3)’’ایسے عارف اہل ِقبر روحانی اولیا ءاللہ کے ہم مجلس ہو کر اُن سے ہم کلام ہوتے ہیں کہ وہ قرب ِخدا میں غرق فی التوحید ہوتے ہیں‘‘-
(4)’’ تُو تصور ِاسم اللہ ذات سے نفس کو قتل کر دے تاکہ توقرب ِخدا میں واصل بخدا ہو سکے‘‘-
(جاری ہے)
بیت: ’’ہر عبادت و ہر ثواب کا مقصود لقائے حق ہے اِس لئے مَیں نے خدا سے علمِ لقا کا سبق پڑھا ہ‘‘-
جان لے کہ بیس حصے علم ایک حصہ علم میں پوشیدہ ہے اور بیس حصے علم ایک حصہ حکمت ِعالم و حکیم عارف ِ قدیم میں پوشیدہ ہیں- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حکمت کی باتیں جاہل کے سامنے مت کیا کرو‘‘- جس کی زبان علم سے زندہ مگر دل مردہ رہا وہ معرفت ِالٰہی تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا، وہ دنیا سے افسردہ ہی جاتا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’ہم نے تمہیں اِسی( مٹی) سے پیدا کیا پھر اِسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اِسی سے تمہیں نکالیں گے‘‘-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اے نبی (ﷺ)! دشمنوں کی طرف وہ مٹی آپ نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی ہے‘‘-
دعوت پڑھنے کے لائق وہ آدمی ہو سکتا ہے جو غالب الارواح و غالب الاولیاء و غالب الجن و الانس و غالب الفرشتہ مؤکل و لا رجعت و لا زوال ہو، جس کا دل خزائن ِ ظاہر کے تصرف سے غنی ہو، باطن میں ہر وقت مجلس ِحضوری میں حاضر رہتا ہو اور لا یحتاج فقیر ہو-عامل کامل اہل ِدعوت درمِ دنیا کے لئے دعوت ہرگز نہیں پڑھتا کیونکہ جو آدمی حصولِ دنیا کے لئے دعوت پڑھتا ہے وہ درحقیقت علمِ دعوت پڑھنا ہی نہیں جانتا، وہ محتاج ہے اور استدراجِ جنونیت کے مرتبے پر ہے-
ابیات: (1)’’ زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل بیل و گدھے کے خیال میں مستغرق ہوتو ایسی تسبیح کیا اثر دکھائے گی؟ ‘‘
(2)’’ دعوت کو اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے پڑھا جائے کیونکہ جو آدمی قرب اللہ حضوری کی دعوت پڑھتا ہے وہ رنج و غم سے آزاد ہو جاتا ہے‘‘-
(3)’’جو دعوت حضوریٔ حق کے لئے پڑھی جائے وہ دعوت خوان کو حضوری ٔ مصطفےٰ (ﷺ) میں لے جاتی ہے‘‘-
(4)’’جو دعوت مناصب و مراتب ِحضوری کی خاطر پڑھی جائے وہ نور ِذات میں غرق کر کے مجلس ِمصطفےٰ (ﷺ) کی حضوری کا وسیلہ بنتی ہے‘‘-
(5)’’دعوت کا منصب مراتب ِقرب ِخدا تک رسائی ہے، جو کوئی اِسے حصولِ دنیا کی خاطر پڑھتا ہے وہ بے حیا ہے‘‘-
(6) ’’دعوت کا ابتدائی سبق خزائن اللہ کا تصرف ہے جس کے پڑھنے سے ہر طبق دعوت خوان کے تصرف میں آ جاتا ہے‘‘-
(7)’’ ہر مؤکل غلام کی طرح فرمان بردار ہو جاتا ہے اور زیر و زبر کا ہر مقام منکشف ہو کر واضح ہو جاتا ہے‘‘-
(8)’’جو آدمی نعمائے دنیا کی دولت کا طالب بنتا ہے وہ شیطانِ ملعون کا مصاحب بن جاتا ہے‘‘-
(9) ’’جس کی طلب قرب اللہ حضوری ہو اُسے چاہیے کہ وہ دعوت ِتصور ِاسم اللہ ذات پڑھتے وقت راز ِ کن کو مدِّ نظر رکھے‘‘-
(10)’’جو راز ِ کن کو پا لیتا ہے اُس پر امرِ کن کھل جاتا ہے اور وہ خدا سے ہر قسم کے الہامات پاتا ہے‘‘-
(11)’’ میرا یہ بیان میرے حال کے عین مطابق ہے ، جو اِس قسم کی دعوت کا عامل نہیں وہ لافزن ہے‘‘-
(12)’’جو حق کو چھپاتا ہے وہ مطلق کافر ہے اور حق کہنے والے کے دشمن ہمیشہ حاسد ہوتے ہیں‘‘-
(13) ’’ مَیں علمِ اکسیر و علمِ تکسیر میں کامل ہوں، مجھے سوائے خدا کے کسی کی حاجت نہیں‘‘-
(14) ’’اے باھُو! کبھی کوئی لائق ِالتفات طالب میرے پاس نہیں آیا ورنہ مَیں اُسے توحید ِربانی میں غرق کر کے مجلس ِمصطفےٰ (ﷺ) میں پہنچا دیتا‘‘-
دعوت پڑھنے سے کامل کو خزائن اللہ گنج ملتے ہیں اور ناقص کو دورانِ دعوت تیغِ برہنہ کی مثل رنج ملتے ہیں- دعوت پڑھنا آسان کام نہیں ہے، کوئی مرد مذکر عارف کامل عامل باخبر ہوشیار اولیاءاللہ صاحب ِقرب ِپروردگار ہی دعوت پڑھنے کے لائق ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی احمق تیلی کا چشم بند بیل حیوان- دعوت پڑھنا مشکل، بہت ہی مشکل اور نہایت ہی سخت دشوار کام ہے- علمِ دعوت میں کامل ہونا ضروری ہے کہ علمِ دعوت سے کامل کو عطائے پروردگار سے بے حد و بے شمار خزائن اللہ کے اسرار ِعظیم حاصل ہوتے ہیں-
جس کامل عامل اہل ِدعوت پر اِن اسرار ِعظیم کا نظارہ کھل جائے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ قال و تحقیق و نماز ِاستخارہ سے حقائق ِحق تلاش کرتا پھرے کہ اِس قسم کا شغل وہ آدمی کرتا ہے جو ناقص اہل ِناسوت ہو اور ہر وقت نفس کی قید میں رہتا ہو-دعوت پڑھنے کے لائق وہ شخص ہو سکتا ہے جس کا روحی جثہ تصور ِاسم اللہ ذات کی تاثیر سے نور ہو جائے اور جب وہ دعوت پڑھے تو مع اللہ حضور ہو کرمجلس ِمحمدی (ﷺ)میں پہنچ جائے- دیگر مراتب ِدعوت یہ ہیں کہ کامل عامل ِدعوت طالب مرید کو دعوت کے آغاز ہی میں پانچ مراتب عطا کر دیتا ہے- وہ پانچ مراتب یہ ہیں: (1)حاضرات(2)ناظرات(3)تصورِاسم اللہ ذات(4)آگاہ از دلیل (5) نگاہ بہ قرب ِربّ ِجلیل-کامل عامل ِدعوت مرشد طالب مرید ِصادق کو یہ پانچ مراتب پانچ روز ہی میں عطا کر دیتا ہے- اگراہل ِدعوت اولیا ءاللہ کو باطن میں ہدایت ِقرب اللہ تحقیق کی ایسی توفیق حاصل نہ ہوتی تو تمام طالب مرید اور جملہ مخلوق ہلاک ہو جاتی- راہ ِ دعوت و معرفت میں ظاہری و باطنی جمعیت مشاہدۂ ربوبیت و رویت ِجمالِ وصال سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ گفت و شنود ِقیل و قال سے-
بیت: ’’عارفوں کی نظر رات دن دیدار ِحق پر رہتی ہے اِس لئے مَیں سونے چاندی کی طرف ہرگز نہیں دیکھتا‘‘-
وہ کتنے عجیب و احمق لوگ ہیں جو اپنے دل سے حُبّ ِمولیٰ کو نکال کر اُس میں حُبّ ِدنیا و حرص و حسد و کبر و عجب و ریا و ہوائے شیطانی کی فصل کاشت کرتے ہیں - ایسے لوگ مومن مسلمان فقیر درویش عالم فاضل ذاکر اہل ِمراقبہ اہل ِفکر اور اہل ِتقویٰ کس طرح ہو سکتے ہیں؟یہ تو جانوروں سے بد تر لوگ ہیں- فقیر یہ بات حسد سے نہیں بلکہ حساب سے کہتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حق بات کہنے سے چپ رہنے والا گونگا شیطان ہے‘‘-اپنے کانوں سے غفلت کا پنبہ نکال دے اور موت کو یاد کر کہ موت تیرے وجود میں ہے اور تیرا وجود موت کی غار ہے- مراتب ِموت اختیار کر کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے-
ابیات: (1)’’قرب ِخدا کی خاطر نفس کی گردن مار دے تاکہ تُو مجلس ِمصطفےٰ(ﷺ)میں دائم حاضر رہ سکے‘‘-
(2)’’یہی عارفانِ اولیاء اللہ کے مراتب ہیں جو اِس راہ سے ناواقف ہے وہ ہوائے نفس کا قیدی ہے‘‘-
شرحِ دعوت ، عامل ِدعوت و دعوت ِکامل :
دعوت پڑھنا اُس طالب کے لئے مناسب ہے جو علمِ دعوت کو کلی طور پر جانتا ہو اور دو ہی دم میں اُسے تمامیت تک پہنچا سکتا ہو- جو آدمی ترتیب سے دعوت پڑھنا جانتا ہے اور تصور و تصرف ِ اسم اعظم و اسم اللہ ذات سے دعوت پڑھ لے تو قیامت تک وہ اور اُس کی آل اولاد بے غم و لایحتاج ہو جاتی ہے ایسے عامل کامل مکمل اکمل صاحب ِ دعوت دنیا میں کم ہوتے ہیں-
بیت: ’’دمِ ازل، دمِ ابد اور دمِ دنیا یہ سب’’ ایک دم‘‘ ہے، جو اِس ایک دم کو نہیں جانتا وہ مرد ِ خام ہے‘‘-
اہل ِدعوت مرشد ِکامل طالب ِصادق و مرید ِلا یرید کو وسیلۂ فیض فضل اللہ و فضیلت ِ دعوت کے چار مناصب دعوت کے شروع میں ہی عطا کر دیتا ہے - ایک تصور ِ اسم اللہ ذات، دوسرا تصرف ِاسمِ اعظم متبرکات ، تیسرا توجۂ کلمہ طیبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘اور چوتھا قرآن مجید کی ناسخ آیات- جو طالب اللہ اِن چاروں مناصب کی دعوت پڑھ لیتا ہے اُس سے ظاہر و باطن کے تمام غیبی لاریبی خزائن اللہ میں سے کوئی خزانہ مخفی و پوشیدہ نہیں رہتا- جو مرشد چار دن میں یہ چاروں مناصب طالب اللہ کو نصیب نہ کرے وہ طالب احمق ہے کہ ایسے ناقص مرشد کے حکم سے دعوت پڑھتا ہے - اہل ِبدعت بد کیش غلیظ طالب ِدنیا بد اندیش دعوت پڑھنے کے لائق نہیں ہوتا- دعوت وہ عیسیٰ صفت غنی درویش اہل ِمعرفت فقیر عارف باللہ پڑھ سکتا ہے جسےقرب اللہ کی حضوری حاصل ہو- جب ایسا فقیر’’قُمْ بِاِذْ نِ اللہِ‘‘ (اُٹھ اللہ کے حکم سے) کَہ کر کسی ولی اللہ کی قبر پر دعوت پڑھتا ہے تو اللہ کے حکم سے اہل ِقبر روحانی قبر سے نکل کر حاضر ہو جاتا ہے- اِس قسم کی دعوت ِنور حضور پڑھتے وقت فرشتہ اہل ِدعوت سے گریزاں ہو کر دُور ہٹ جاتا ہے کہ وہ اِن مراتب سے محروم و نامحرم ہوتا ہے-
ابیات: (1)’’حق پسند عارف ہر خوف و غم سے آزاد ہوتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد زیرِخاک زندہ ہوتے ہیں‘‘-
(2)’’عارفوں کو یہ قوت حاصل ہوتی ہے کہ وہ قبر کے اندر کے احوال کو دیکھ لیتے ہیں- یہ مراتب اُن عارفوں کو حاصل ہوتے ہیں جو عیسیٰ صفت و ثانی ٔخضر ہوتے ہیں‘‘-
(3)’’ایسے عارف اہل ِقبر روحانی اولیا ءاللہ کے ہم مجلس ہو کر اُن سے ہم کلام ہوتے ہیں کہ وہ قرب ِخدا میں غرق فی التوحید ہوتے ہیں‘‘-
(4)’’ تُو تصور ِاسم اللہ ذات سے نفس کو قتل کر دے تاکہ توقرب ِخدا میں واصل بخدا ہو سکے‘‘-
(جاری ہے)