دردمنداں دیاں آہیں کولوں پہاڑ پتھر دے جھڑ دے ھو
دردمنداں دیاں آہیں کولوں بھج نانگ زمین وچ وڑ دے ھو
دردمنداں دیاں آہیں کولوں آسمانوں تارے جھڑ دے ھو
دردمنداں دیاں آہیں کولوں باھوؒ عاشق مول نہ ڈر دے ھو
With the sigh of compassionates, mountains have rockslide Hoo
With the sigh of compassionates serpents go underground to hide Hoo
With the sigh of compassionates from sky stars fall Hoo
With the sigh of compassionates Bahoo aashiqs not frightened at all Hoo
Dard mandaa’N diya’N Aahee’N koloo’N pahaa’R pathar day jha’R day Hoo
Dard mandaa’N diya’N Aahee’N koloo’N bhaj nang zameen wich wa’R day Hoo
Dard mandaa’N diya’N Aahee’N koloo’N Asmano taray jha’R day Hoo
Dard mandaa’N diya’N Aahee’N koloo’N Bahoo aashiq mool na Dar day Hoo
تشریح:
درج بالا بیت میں درد مندوں کے حال کی تاثیر کا بہترین شاعرانہ اسلوب سے زوردار بیان کیا گیا ہے- بیت کے پہلے تین مصرعوں میں دردمندوں کی آہوں کے معنوی تنائج بتائے گئے جب کہ آخری مصرعے میں عُشاق کی دردمندوں پہ برتری بیان کی گئی- بادیُ النظر میں پہلے تین مصرعوں سے برپا ہونے والی تاثیر چوتھے مصرع سے منقطع ہوتی محسوس ہو سکتی ہے لیکن اگر دقتِ نظر اور گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو چوتھا مصرع بیت کی مجموعی تاثیر کو دوچند کرتا نظر آئے گا- دردمند کون ہیں؟ دردمندوں کی نشانی کیا ہے؟ اور دردمندوں کی آہوں میں اتنی تاثیر کیوں ہے؟ بیت کی تفہیم کے لیے اِن سوالوں کا جواب ضروری ہے- فقیر جب طلبِ الٰہی کی شرائط اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو مرشدِ کامل کی اتباع و اطاعت میں ڈھال لیتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات اور دُنیَوی اغراض سے محض رضائے الٰہی کے لیے دست بردار و کنارہ کش ہوجاتا ہے تو مرشد کی نگاہِ کرم سے اسم اللہ ذات اور اسم محمدؐ اس کے دل میں پختہ و راسخ ہو جاتے ہیں- اِنہی اِسماء مبارک کی بدولت اُسے محبتِ الٰہی اور عرفانِ ذات نصیب ہوتاہے اور محبتِ الٰہی کے سبب سے اسم اللہ ذات کے حروف سے لقائے حق کی تجلیات پھوٹتی ہیں اور ایسے فقراء اپنے من کی مُراد پا لیتے ہیں- اِن فقراء میں سے بعض کاملین کی زندگی میں یہ کیفیت ہمیشہ جاری رہتی ہے یعنی یہ کیفیت اُن کی زندگی کے ہر لمحے، ہر سانس، ہردن اور ماہ وسال پہ محیط ہوجاتی ہے مذکورہ بیت کے چوتھے مصرع میں اِنہی عُشاق کا تذکرہ ہے لیکن بعض فقراء پہ یہ تجلیٔ دید کی مذکورہ کیفیت وقتی اور عارضی ہوتی ہے، گزری ہوئی کیفیت کے دوبارہ حصول کے لیے وہ اپنا تعلق اسم اللہ ذات اور مرشد کامل سے مستحکم رکھتے ہیں کیونکہ وہ اِس امر سے خوب باخبر ہوتے ہیں کہ ہجر و فراق کے درد کا معالج مرشد کامل ہے اور دوا اسم اللہ ذات ہے- جیسا کہ حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:
ذکر یک درد است باشد لا دوا |
|
شد شفا از درد و ذکرش بالقا |
’’ذکر ایک لادوا درد ہے جس کی شفا بھی ذکر ہے، وہ ذکر جو اُسے لقائے الٰہی سے مشرف کردے‘‘-[1]
بیت کے پہلے تین مصروں میں ثانی الذّکر فقراء کا حال بیان فرمایا گیا کہ اسم اللہ ذات کے تصور اور قلبی ذکر میں مشغول ہو کر جب وہ لقائے باری تعالیٰ کے لیے فریاد و اِلتجا کرتے ہیں تو اُن کے سینوں سے آہیں نکلتی ہیں اور اُن کی آہوں میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ پہاڑ اور پتھر بھی بارگاہِ خداوندی میں دُعاگو رہتے ہیں کہ باری تعالیٰ اِن کی فریاد کو مراتبِ قبولیت عطا فرما نہیں تو اِن کی آہوں کی تاثیر سے ہم یونہی کانپتے رہیں گے-جیسے آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:
’’ اُس کا قلب رات دن درد ِ شوق، صفائے باطن اور نورِ روشن ضمیری کی پیاس میں شفیع ِاُمت، صاحب ِشفقت و شفا حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی مجلس میں حضوری کی طلب میں مبتلا رہتا ہے اور اُس کی روح رات دن شرفِ لقائے الٰہی طلب کرتی رہتی ہے جو محض جذب ِخدا اور رحمت ِلطف و عطائے خدا سے ممکن ہے‘‘- [2]
تصورِ اسم اللہ ذات میں مستغرق ہوکر یہ دردمند ہمہ وقت لقائے الٰہی کی طلب و لگن اور تڑپ میں بے قرار رہتے ہیں اِسی لیے فرمایا گیا کہ:-
’’فقیری ایک پُردرد کشالہ ہے نہ کہ اماں و خالہ کے گھر کا حلوہ و چرب نوالہ، بلکہ رات دن سوزِ عشق میں جلنا ہے‘‘-[3]
’’اُن کے دل میں وہ آتش ِعشق بھڑک رہی ہے جو عاشق درویشو ں کے د ل کے علاوہ کہیں اور قرار نہیں پکڑ سکتی- اگر خدانخواستہ اُن میں سے کوئی صاحب ِ درد غلبات ِشوق سے مجبور ہو کر اپنے سینے سے ایک آہ بھی نکال دے تو مشرق سے مغرب تک تمام عالم جل اُٹھے اور کچھ بھی باقی نہ بچے‘‘-[4]
سوزِ عشق اور آتشِ شوقِ لقائے الٰہی میں ہمہ وقت پگھلنے والے یہ دردمند حقیقی مظلوم ہوتے ہیں اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’مظلوم کی دُعا آسمان کو چیر دیتی ہے‘‘- ان درمندوں کی جاں فرسا و جاں سوز اور جاں گُسِل آہوں سے کائنات کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے- جیسے فرمایا گیا کہ دردمندوں کی آہیں پہاڑوں کو چیر دیتی ہیں اور پتھر وں پہ بھی لرزہ طاری کر دیتی ہیں، سانپ اور دیگر حیوانات خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور دردمندوں کی آہیں آسمان کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہیں- دردمندوں کی آہوں سے وہ عشاق ہرگز خوف زدہ نہیں ہوتے کہ جن کا ہر سانس نورِ لقائے الٰہی سے معمور ہے کیونکہ وہ مُنتہی فقیر ہیں سادہ الفاظ میں یوں کَہ لیں کہ مُبتَدی فقراء کی آہوں سے مُنتہی فقیر متاثر نہیں ہوتے کیونکہ وہ اُن کیفیات سے گزر چکے ہوتے ہیں-
تشریح:
درج بالا بیت میں درد مندوں کے حال کی تاثیر کا بہترین شاعرانہ اسلوب سے زوردار بیان کیا گیا ہے- بیت کے پہلے تین مصرعوں میں دردمندوں کی آہوں کے معنوی تنائج بتائے گئے جب کہ آخری مصرعے میں عُشاق کی دردمندوں پہ برتری بیان کی گئی- بادیُ النظر میں پہلے تین مصرعوں سے برپا ہونے والی تاثیر چوتھے مصرع سے منقطع ہوتی محسوس ہو سکتی ہے لیکن اگر دقتِ نظر اور گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو چوتھا مصرع بیت کی مجموعی تاثیر کو دوچند کرتا نظر آئے گا- دردمند کون ہیں؟ دردمندوں کی نشانی کیا ہے؟ اور دردمندوں کی آہوں میں اتنی تاثیر کیوں ہے؟ بیت کی تفہیم کے لیے اِن سوالوں کا جواب ضروری ہے- فقیر جب طلبِ الٰہی کی شرائط اور روایات کی پاسداری کرتے ہوئے خود کو مرشدِ کامل کی اتباع و اطاعت میں ڈھال لیتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات اور دُنیَوی اغراض سے محض رضائے الٰہی کے لیے دست بردار و کنارہ کش ہوجاتا ہے تو مرشد کی نگاہِ کرم سے اسم اللہ ذات اور اسم محمدؐ اس کے دل میں پختہ و راسخ ہو جاتے ہیں- اِنہی اِسماء مبارک کی بدولت اُسے محبتِ الٰہی اور عرفانِ ذات نصیب ہوتاہے اور محبتِ الٰہی کے سبب سے اسم اللہ ذات کے حروف سے لقائے حق کی تجلیات پھوٹتی ہیں اور ایسے فقراء اپنے من کی مُراد پا لیتے ہیں- اِن فقراء میں سے بعض کاملین کی زندگی میں یہ کیفیت ہمیشہ جاری رہتی ہے یعنی یہ کیفیت اُن کی زندگی کے ہر لمحے، ہر سانس، ہردن اور ماہ وسال پہ محیط ہوجاتی ہے مذکورہ بیت کے چوتھے مصرع میں اِنہی عُشاق کا تذکرہ ہے لیکن بعض فقراء پہ یہ تجلیٔ دید کی مذکورہ کیفیت وقتی اور عارضی ہوتی ہے، گزری ہوئی کیفیت کے دوبارہ حصول کے لیے وہ اپنا تعلق اسم اللہ ذات اور مرشد کامل سے مستحکم رکھتے ہیں کیونکہ وہ اِس امر سے خوب باخبر ہوتے ہیں کہ ہجر و فراق کے درد کا معالج مرشد کامل ہے اور دوا اسم اللہ ذات ہے- جیسا کہ حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:
ذکر یک درد است باشد لا دوا |
|
شد شفا از درد و ذکرش بالقا |
’’ذکر ایک لادوا درد ہے جس کی شفا بھی ذکر ہے، وہ ذکر جو اُسے لقائے الٰہی سے مشرف کردے‘‘-[1]
بیت کے پہلے تین مصروں میں ثانی الذّکر فقراء کا حال بیان فرمایا گیا کہ اسم اللہ ذات کے تصور اور قلبی ذکر میں مشغول ہو کر جب وہ لقائے باری تعالیٰ کے لیے فریاد و اِلتجا کرتے ہیں تو اُن کے سینوں سے آہیں نکلتی ہیں اور اُن کی آہوں میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ پہاڑ اور پتھر بھی بارگاہِ خداوندی میں دُعاگو رہتے ہیں کہ باری تعالیٰ اِن کی فریاد کو مراتبِ قبولیت عطا فرما نہیں تو اِن کی آہوں کی تاثیر سے ہم یونہی کانپتے رہیں گے-جیسے آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:
’’ اُس کا قلب رات دن درد ِ شوق، صفائے باطن اور نورِ روشن ضمیری کی پیاس میں شفیع ِاُمت، صاحب ِشفقت و شفا حضرت محمد مصطفےٰ(ﷺ) کی مجلس میں حضوری کی طلب میں مبتلا رہتا ہے اور اُس کی روح رات دن شرفِ لقائے الٰہی طلب کرتی رہتی ہے جو محض جذب ِخدا اور رحمت ِلطف و عطائے خدا سے ممکن ہے‘‘- [2]
تصورِ اسم اللہ ذات میں مستغرق ہوکر یہ دردمند ہمہ وقت لقائے الٰہی کی طلب و لگن اور تڑپ میں بے قرار رہتے ہیں اِسی لیے فرمایا گیا کہ:-
’’فقیری ایک پُردرد کشالہ ہے نہ کہ اماں و خالہ کے گھر کا حلوہ و چرب نوالہ، بلکہ رات دن سوزِ عشق میں جلنا ہے‘‘-[3]
’’اُن کے دل میں وہ آتش ِعشق بھڑک رہی ہے جو عاشق درویشو ں کے د ل کے علاوہ کہیں اور قرار نہیں پکڑ سکتی- اگر خدانخواستہ اُن میں سے کوئی صاحب ِ درد غلبات ِشوق سے مجبور ہو کر اپنے سینے سے ایک آہ بھی نکال دے تو مشرق سے مغرب تک تمام عالم جل اُٹھے اور کچھ بھی باقی نہ بچے‘‘-[4]
سوزِ عشق اور آتشِ شوقِ لقائے الٰہی میں ہمہ وقت پگھلنے والے یہ دردمند حقیقی مظلوم ہوتے ہیں اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ ’’مظلوم کی دُعا آسمان کو چیر دیتی ہے‘‘- ان درمندوں کی جاں فرسا و جاں سوز اور جاں گُسِل آہوں سے کائنات کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے- جیسے فرمایا گیا کہ دردمندوں کی آہیں پہاڑوں کو چیر دیتی ہیں اور پتھر وں پہ بھی لرزہ طاری کر دیتی ہیں، سانپ اور دیگر حیوانات خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور دردمندوں کی آہیں آسمان کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہیں- دردمندوں کی آہوں سے وہ عشاق ہرگز خوف زدہ نہیں ہوتے کہ جن کا ہر سانس نورِ لقائے الٰہی سے معمور ہے کیونکہ وہ مُنتہی فقیر ہیں سادہ الفاظ میں یوں کَہ لیں کہ مُبتَدی فقراء کی آہوں سے مُنتہی فقیر متاثر نہیں ہوتے کیونکہ وہ اُن کیفیات سے گزر چکے ہوتے ہیں-