حضرت سلطان باھوؒ کے نظریہِ ِعلم میں علمائےسوءکامُحاسبہ

حضرت سلطان باھوؒ کے نظریہِ ِعلم میں علمائےسوءکامُحاسبہ

حضرت سلطان باھوؒ کے نظریہِ ِعلم میں علمائےسوءکامُحاسبہ

مصنف: لئیق احمد جولائی 2018

علم کی اپنی تاریخ میں ’’نظریۂ علم‘‘ جسے انگریزی میں (Epistemology) کہتے ہیں کی بڑی اہمیّت رہی ہے-تاریخِ انسانی کی تقریباً تمام بڑی اور قابلِ ذکر تہذیبوں (مصر، ہندوستان، چائنا، یونان، ایران، روما اور عرب) میں یہ نظریہ بُنیادی اہمیّت کا حامل رہا ہے-اِس وقت موجود یا معلوم تقریباً تمام مذاہب میں نظریہ علم ایک الگ شاخِ علم کے طور پہ بیان کیا گیا ہے-تاریخِ انسانی کی تقریباً ہر بڑی شخصیّت نے اِس پہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے - فلسفہ کے جو چند ایک بُنیادی موضوعات سمجھے جاتے ہیں اپسٹمالوجی اُن میں سے ایک ہے -

اس کا مقصد خود علم کے اپنے بارے میں جاننا ہے کہ علم فی نفسہٖ کیا ہے؟ علم کے مقاصد کیا ہیں یا کیا ہونے چاہئیں؟ ایک آدمی علم سے کیا حاصل کر سکتا ہے؟ اور علم سے کیا حاصل کیا جانا چاہیے؟ علم کی حقیقی بنیاد کیا ہے؟ علم کے حصول کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں؟ علم کا صحیح یا غلط مصرف و استعمال کیا ہے؟ یہ اِس شاخِ علم کے متعلق محض چند ایک بنیادی سے سوالات ہیں -

دینِ اسلام میں بھی علم کو بہت اہمیت حاصل ہے، قرآن اور حدیث دونوں میں علم کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اور دونوں میں علم کے متعلق مختلف نظریات کو بیان کیا گیا ہے-جہاں تک علم کی بُنیادی ضرورت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اس بات سےبخوبی ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا وہ اقراء ہے یعنی پڑھیے گویا پڑھنا علم کا عنوان اور اس کی کنجی ہے-علم کے کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و آگاہی کی روشنی میں لاتا ہے- اِسلامی نُقطۂ نگاہ سے علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (ﷺ) کو علم کے اضافہ میں دعا کی تعلیم دی ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا‘‘[1]

’’اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے‘‘-

اسی علم کے سبب علمائے کرام وارث ِ انبیاء (علیھم السلام)ہیں کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی ذاتِ پاک پر تونبوت کا دروازہ بند ہوگیا لیکن دین تو قیامت تک رہنا ہے اسی لئے شریعتِ محمدی (ﷺ) کی تعلیم اور حفاظت کی ذمہ داری علمائے کرام کو تفویض کی گئی ہے جیسا کہ حدیث ِ نبوی (ﷺ) ہے:

’’علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے جس شخص نے اس سے(علم) حاصل کیا اس نے اس سے بڑا حصہ لے لیا‘‘-[2]

زیرِنظر نسبتاً مختصر مضمون میں ہم برِّ صغیر کی قادری صُوفی روایت کی عظیم شخصیّت سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ کے وسیع تصورِ علم سے صِرف ایک گوشے کا جائزہ لیں گے جس میں کہ آپ اپنے نظریۂ علم کی روشنی میں علمائے سُوء پہ تنقید کرتے ہیں اور اُن کا مُحاسبہ کرتے ہیں-مگر اُس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ایک بات کو ذہن نشین کر لیں کہ کسی بھی تہذیب، تحریک، مذہب یا شخصیّت کے کسی بھی نظریہ کو اُسی وقت صحیح معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے جب اُن کا عہد، اُن کے گرد و پیش کا ماحول خاص کر وہ ماحول جس میں انہوں نے پرورش پائی، اُن کے اپنے طبعی و فکری میلانات، اُن کی ترجیحات اور سب سے اہم (غالباً) اُن کی آڈیئنس کو مدِّ نظر رکھا جائے - اِس اعتبار سے حضرت سُلطان باھُو کے نظریۂ علم سے علمائے سُوء پہ کی گئی تنقید کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ درج بالا عوامل کو حضرت سُلطان باھُو کے تناظر میں سمجھ لیا جائے وگرنہ تشنگیٔ تفہیم ضرور رِہ جاتی ہے- اِس ضِمن میں نہایت اِختصار سے ایک خاکہ پیشِ خِدمت ہے :

حضرت سُلطان باھُو کا عہد تاریخی اعتبار سے بہت ہی دلچسپ ہے-علم و ادب اور فنون و علوم کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرنے والے مسلمان خاندانِ مُغلیّہ کی آخری مستحکم حکومت ہے جس کے بعد انتشار ہوا، پھر انگریز کا قبضہ ہوا-1947ءمیں مفاد پرست علما کے فرقہ وارانہ رویوں کی وجہ سے اُبھرنے والا شراکتِ اَدیان کا اکبری فتنہ ایک صُوفی تحریک کے نتیجے میں دَم توڑ چکا تھا- جہاں تک آپ کے گرد و پیش کے ماحول کا تعلق ہے تو پہلی چیز اسلامی ہند کا مجموعی ماحول تھا جو مغلوں کے عہد میں تقریباً تقریباً صوفیانہ روش پہ قائم تھا، موسیٰ پاک شہید ، حضرت مجدد الف ثانی، شاہ عبد الحق محدث دہلوی، حضرت میانمیر اور اِس قبیل کے کئی صُوفیا متصل زمانوں میں گزر رہے تھے، عوام کا مزاج بھی عارفانہ تھا اور صوفیانہ نکات کو بخوبی سمجھتے تھے نیز یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاک و ہند کی مسلمان عوام ہمیشہ فرقہ پرست ملاؤں سے دُور اور اہل اللہ صُوفیا کے قریب رہی ہے-

دوسری چیز والدہ ماجدہ (بی بی راستی علیہ الرحمہ) کا ذاتی اثر تھا جس نے آنکھ کھولنے سے قبل ہی تربیّتِ رُوحانی کا آغاز کروا دیا تھا - طبعی و فکری میلانات کی اگر بات کریں تو واضح ہے کہ ایک ایسے جنگجو، عالم فاضل قلعہ دار کا بیٹا جس نے آبائی وطن سے روحانی تجربات کی بنا پہ ہجرت کر کے شور کوٹ میں بغرضِ عبادت سکونت اختیار کی اِس چیز نے آپ قدس اللہ سرہٗ کی طبیعت پہ گہرا اثر مرتب کیا اور طالبانِ دُنیا و علمائے سُوء سے بے نیازی اختیار کروائی- اگر حضرت سُلطان باھُو کی ترجیحات کو سمجھنا ہو تو کوئی مشکل ہی نہیں ہے، آپ کی کسی بھی تصنیف کو کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر دیں آپ کی ترجیحات پتہ چل جائیں گی - شاید ترجیحات لفظ بہت موزوں نہ ہو کیونکہ اِس میں جمع کا رُجحان ہے جب حضرت سُلطان باھُو کی بات کریں گے تو جمع کی بجائے واحد کا صیغہ زیادہ مُناسب ہوگا کہ اُن کی ترجیحات نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی ترجیح ہے اور وہ ہے ’’اللہ‘‘-

آپ قدس اللہ سرہٗ نے اِس جُملہ ’’اللہ بس ما سوی اللہ ہوس‘‘ کو اتنی کثرت سے اپنی تصانیف میں استعمال فرمایا ہے کہ آپ کی تصانیف کا قاری اِس کی لذّت و سعادت سے اپنے آپ کو آزاد کر ہی نہیں سکتا- آڈیئنس کو اگر دیکھا جائے تو آپ قدس اللہ سرہٗ کی تصانیف کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آپ کی آڈیئنس حق تعالیٰ کے ایسے صادق طالب ہیں جو کرامت و مقامت حتیٰ کہ ہر درجے و مقام سے بے نیاز ہو چکے ہیں اُن کی طلب فقط اور فقط اللہ پاک کی خوشنودی و رضا اور اُسی ذاتِ پاک کا قُرب و وصال ہے-آپ بعض مقامات پہ دیگر لوگوں کو بھی مُخاطب فرماتے ہیں مگر اُنہیں جنہیں بھلے ادنیٰ درجے کا سہی، شوقِ لقائے الٰہی موجود ہو-

البتّہ ایک اور چیز جسے یہاں پہ ذکر کرنا ضروری ہے وہ آپ قدس اللہ سرہٗ کی تعلیمات کا دو الگ الگ زبانوں میں ہونا ہے ، جب ہم آپ کی فارسی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو اُن کے بارے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اِسی درج بالا معیار کی آڈیئنس کیلئے وہ لکھی گئی ہیں، لیکن جب ہم پنجابی/سرائیکی کلام کی بات کریں گے تو اُس میں عوامی تعلیم بھی شامل ہے کہ آپ نے عامۃ الناس کی زبان اور اُن کے لہجے میں بات کی ہے- اس لئے یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ آپ کی آڈیئنس میں عامۃ الناس بھی شامل ہیں-

اَب آپ کے نظریۂ علم کو سمجھنے کی مُبتدیانہ و طالب علمانہ سی کوشش کرتے ہیں -

 حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی بیشتر تصانیف میں علم اور اہلِ علم کی اہمیت کوبیان فرمایا ہے بلکہ بعض کتب میں تو آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے باقاعدہ علم اور اہلِ علم کی فضیلت پر باب باندھے ہیں-

1.       ’’عالم وہ ہے جو انبیاء اور آثارِ محمدی (ﷺ) کا وارث اور امینِ خدا ہو‘‘-[3]

2.       ’’جو علم کی راہ سے آتا ہے وہ فقرِ کامل سے آگاہ ہو جاتا ہے‘‘-[4]

3.       ’’علم کا مقصود اللہ تعالیٰ کی موافقت اور شیطان کی مخالفت ہے- ایسا علم اورایسا عالم اللہ کا دوست ہے‘‘-[5]

ایک جگہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

علم باہجھ جو فقر کماوے کافر مرے دیوانہ ھو

یعنی علمِ معرفت کےبغیر راہِ فقر اختیار کرنا سراسر غلطی ہے-گویا جہالت کے ساتھ فقر کے حصول کی کوشش غفلت کے گڑھے میں گرنے کے مترادف ہے-

ان فرمودات سے یہ واضح ہو جاتا ہےکہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی نظر میں علم اور اہلِ علم کی کیا اہمیت ہے لیکن جب ہم سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) کے پنجابی کلام کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بڑی تعداد میں ایسے ابیات نظرآتے ہیں کہ جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) علم اور علماء کی فضیلت کے قائل نہیں ہیں-حالانکہ اگر تمام ابیات کو سلطان العارفین کی کتب سے ملا کر پڑھا جائے تو یہ ابہام دور ہو جاتا ہے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) علم یا علماء کی فضیلت کو رد کرتے ہیں- ابیات میں قطعاً نہ نفی علم ہے اور نہ نفی شریعت بلکہ ان علمائےسو کی نفی ہے جو اپنے مفاد اور جھوٹی اَنا کے تحت امت کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں- جنہوں نے تکبر و عناد، حسد اور بغض اور دنیا پرستی کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے اور اس قدر تصنع اور بناوٹ میں مبتلا ہیں کہ بزرگانِ دین کے مقابلے میں اپنی علمی فوقیت کا اظہار کرتے ہیں-چونکہ وہ دین کے چوکیدار بننے کی بجائے ٹھیکیدار بن کر لوگوں کو دین سے دور کرنے والے ہیں تو اسی لئے ان علمائے سو کے شر سے عوام الناس کو محفوظ کرنے کے لیے سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنے کلام سے ان کا ردِّ بلیغ فرمایا ہے-جس کی تفصیل درج ذیل ہے-

v    امراء کی قربت کی خواہش:

علمائے حق ہمیشہ حکمرانوں کے سامنے اعلائے کلمتہ الحق کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین کرتے ہیں جبکہ علمائے سو کے حصولِ علم کی نیت اہلِ حکومت اور اہلِ ثروت کی ہم نشینی ہوتی ہے تاکہ قاضی کا مرتبہ قضا مل جائے یا کوئی اہم عہدہ- اسی بات کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ علم ملوک رجھاون کیا ہویا اس پڑھیا ھو

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اس بیت مبارک میں فرما رہے ہیں کیا فائدہ اس پڑھنے کا جس کا مقصود اللہ کی رضا اور اس کا قرب نہ ہو-ایسے علم سے جہالت تو پھیل سکتی ہے مگر دین کی دعوت نہیں- جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے فارسی ابیات میں فرماتے ہیں:

علم نہ علم است کہ برا رباب جاہ
جادہ است آن از پی تسخیر شاہ[6]

’’وہ علم، علم نہیں جو عزت و مرتبہ چاہنے والے بادشاہ کو تسخیر کرنے کیلئے ہو‘‘-

آپ یہاں ان اہل ِعلم کارد کررہے ہیں جو دین کی آڑ میں ظالم حکمرانوں کاساتھ دیتے ہیں- مختلف حیلے بہانے تراش کر ان کا دفاع کرتے ہیں اور حکمرانوں کی خوشامد جن کاوطیرہ ہے-

v    ریاکاری :

دین کے معاملات میں ریا کاری کرنا اتناقبیح عمل ہے کہ اسے احادیث مبارکہ میں شرکِ خفی سے تعبیر کیا گیا ہے-جیسا کہ حدیث ِ مبارکہ ہے کہ :

’’ابو سعید(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہے؟ صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ)! کیوں نہیں؟ ضرور بتلائے-آپ (ﷺ) نے فرمایا: وہ ہے شرکِ خفی کہ کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کوفقط اس لئے سنوار کے پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے‘‘-[7]

اس لئے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے ان علمائے سو کا سختی سے رد فرمایا ہے جو لوگوں کو دکھانے کیلئے عبادت کرتے ہیں- جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے ابیات میں فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ علم مشائخ سداون کرن عبادت دوہری ھُوؒ
اندر جھگی پئی لٹیوے تن من خبر ناں موری ھُوؒ

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرمارہے ہیں کہ جب یہ علمائے سوء ظاہری علم کے عالم ہو جاتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ انہیں لوگ عالم تو مانتے ہی ہیں کیوں نہ اس کے ساتھ ساتھ شیخ کے لفظ کا بھی اضافہ ہو جائے اس لئے وہ لوگوں کو مرید بنانا بھی شروع کردیتے ہیں اور خود کو صاحب ِ تقویٰ ولی ثابت کرنے کے لئے عبادات میں ریاکاری سے کام لیتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہےکہ ان کی شہرت میں اضافہ ہو لیکن آپ ان کی حقیقت کو بیان فرما رہے ہیں کہ وہ لوگوں کی نظر میں تو صاحب ِفیض ہوتے ہیں لیکن ان کے ایمان کا خزانہ شیطان اور نفس اندر سے لُوٹ چکے ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوتی-

بلکہ ایک دوسرے بیت مبارک میں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) ان کی ریاکاری کا مقصود بیان فرماتے ہیں کہ:

دُنیاں کارن عالم فاضل گوشے بہہ بہہ روون ھُو

یہاں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) واضح الفاظ میں بیان فرما رہے ہیں کہ ان کی ریاکاری کا مقصود فقط اور فقط دنیا ہے اور جس وجود میں دنیا کی محبت ہو وہ وجودکبھی بھی دین سے مخلص نہیں ہو سکتا-

v    تکبر و مغروری :

علم کے ساتھ اگر فضلِ الٰہی شامل نہ ہو تو علم انسان کے وجود میں تکبر و مغروری کو پیدا کر دیتا ہے- جیسے شیطان بہت بڑا عالم تھا اور اس نے خود اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے براہ ِراست علم حاصل کیا تھا اور فرشتوں کا استاد بھی تھا لیکن ان تمام فضیلتوں کے باوجود علم پر غرور کرنے کے باعث گمراہ ہوگیا- اس لئے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) تکبر کرنے والے علماء کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں-

پڑھ پڑھ علم کرہن تکبر شیطان جہئے اوتھے مسدے ھو

یہاں آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرما رہے ہیں کہ کئی عالم فاضل اپنے علم و فضل پر بھروسہ کرکے متکبر ہوگئے اور شیطان کی طرح قربِ الٰہی سے محروم ہو کر گمراہ ہوگئے-جیسا کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:

’’ جو شخص علم حاصل کرتا ہے اور بدعت میں جا پڑتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ خبیث جن ہے، اُس پر اعتبار نہ کیا جائے کہ شیطان نے 50 ہزار سال تک علم حاصل کیا اور پھر 50ہزار سال تک فرشتوں کو علم سکھاتا رہا لیکن فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اُس نے تکبر کیا اور کافر ہو گیا ‘‘-[8]

یعنی وہ عالم تکبر کا شکار ہوکر گمراہی میں جا پڑتا ہے جو عشقِ الٰہی کی رمز سے واقف نہیں ہوتا جو عقل کا غلام ہوتا ہے- جیسا کہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں عالم ہوئے بھارے ھو
ایک حرف عشق دا پڑھن نہ جانن بھلے پھرن بے چارے ھو

اسی نقطے کو حضرت علامہ اقبالؒ اپنے مختلف اشعار میں یوں بیان فرماتے ہیں کہ:

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر عمل کی بنیاد رکھ[9]
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلمان بھی ہے کافر و زندیق[10]
 صبح ازل یہ مجھ سے یہ کہا جبرائیل نے

جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول[11]

v    تفرقہ پرستی :

اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن، سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارے کا ضامن ہے- اس میں فرقہ پرستی کی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘[12]

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘-

اسلام اختلاف کی اجازت دیتا ہے بلکہ اختلاف کو امت کیلئے رحمت قرار دیا گیا ہے-لیکن جو لوگ امت میں تفرقہ ڈالتے ہیں وہ کبھی بھی دین کی حفاظت کرنے والے یا دین سے مخلص نہیں ہو سکتے- جیسا کہ حضور سلطان العارفین قدس اللہ سرّہٗ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

ناں میں سُنّی ناں میں شیعا میرا دوہاں توں دل سڑیا ھو
مک گئے سبھ خشکی پینڈے جدوں دریا رحمت وچ وڑیا ھو

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اس بیت مبارک میں ان لوگوں سے بیزاری کا اعلان فرمارہے ہیں جو امت میں تفرقہ پرستی کو فروغ دیتے ہیں کیونکہ فرقہ پرستی خشکی کا لاحاصل سفر ہے جس سے محض دل کی جلن بڑھتی ہے اس لئے آپ ملتِ اسلامیہ کے لیے ایک مسلک اور ایک شعار کے حامی ہیں اور وہ مسلک اور شعار اسلام ہے-

v    مال و زر کی ہوس:

مال و زر ایک لا علاج مرض ہے جو بھی اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے یہ مرض اسے قبر تک جا پہنچاتا ہے جیسا کہ حضرت کعب بن مالک (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا :

’’دو بھوکے بھیڑئیے جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے اتنا نقصان نہیں پہنچائیں گے جتنا آدمی کی مال و جاہ کی حرص اس کے دین کو پہنچاتی ہے‘‘-[13]

ایک عام شخص اگر مال و زر کی محبت رکھے تو اس کے دین کو نقصان پہنچتا ہے تو جو دین کا نمائندہ ہو وہ اگر مال و زر کی ہوس میں مبتلا ہو جائے تو اس سے دین کو جو نقصان ہو سکتا ہے اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا- ایسے علمائے سوء کے متعلق آپ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں بھی طالب ہویوں زر دا ھو
سٔے ہزار کتاباں پڑھیا پر ظالم نفس نہ مردا ھو

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) یہاں فرما رہے ہیں کہ تو جس قدر بھی علم حاصل کرے لیکن اگر تیرے دل میں محبت مال و زر ہی کی ہے تو اس علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے- علم کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن علم سے نفس نہیں مرتا اور جب تک نفس کو قابو میں نہ کیا جائے یہ عالم کو کسی بھی وقت بہکا سکتا ہے-اسی لئے عالمِ حق وہی ہے جو ہر معاملے میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کو مقدم رکھتا ہے نہ کہ مال و زر کی ہوس میں رہتا ہے- جیسا کہ حضور سلطان العارفین قدس اللہ سرّہٗ اپنی مایہ ناز تصنیفِ لطیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’جان لے اگر تو حصولِ سیم و زر کی خاطر بادشاہ و امراء و قاضی کا مصاحب بن کر قاضی گیری کرتا ہے تو تُو گدھا ہے- جس کی پیٹھ پر علم کا بوجھ لدھا ہوا ہے‘‘-

v    دین کو فروشی:

حضور نبی کریم (ﷺ) کی بکثرت احادیث مبارکہ ہیں جس میں حضور نبی کریم (ﷺ)نے علمائے سوء  کا ذکر کیا ہے کہ کیسے وہ خود کو دین کے تابع کرنے کے بجائے دین کے احکامات کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کریں گے- جیسا کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’میری امت میں ایسے امام ہونگے جو میری راہ پر نہیں چلیں گے اور نہ ہی میری سنتوں پر چلیں گے- بلکہ وہ ایسے لوگ ہونگے جن کے جسم ضرور انسانوں کے ہونگے لیکن ان کے دل شیاطین کے ہونگے‘‘[14]-

ایسے علمائے سو ءکا ذکر قرآن مجید میں اس طرح بیان ہواہے:

’’فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً‘‘[15]

’’ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الہٰی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو‘‘-

ایسے علمائے سو کے متعلق حضور سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ عالم کرن تکبر حافظ کرن وڈیائی ھُوؒ
گلیاں دے وچ پھرن نمانی وتن کتاباں چائی ھُوؒ
جتھے ویکھن چنگا چوکھا اوتھے پڑھن کلام سوائی ھُوؒ
دوہیں جہانیں سوئی مٹھے باھُوؒ جنہاں کھادھی ویچ کمائی ھُوؒ

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اس بیت مبارک میں فرما رہے ہیں کہ بعض لوگ علم سے عالم باعمل اور صاحب ِ تقویٰ ہونے کے بجائے تکبر اور خود پسندی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہ تکبر ان کو نہ صرف ریاکاری کی طرف لے جاتا ہے بلکہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کے اسیر ہو کر اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ دین کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے-اس لئےدونوں جہان میں ان لوگوں کیلئے خسارہ ہے جنہوں نے دنیا کیلئے دین کو بیچ دیا-

جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے فرمایا :

’’آخری زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو دین کے ذریعے سے دنیا کماۓ پھریں گے- لوگوں کو اپنی ترقی دکھانے کیلئے دنبے کی کھالیں پہنیں گے- ان کی زبانیں قند سے زیادہ شیریں ہونگی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں سے ہونگے‘‘- [16]

ان تمام دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضور سلطان العارفین قدس اللہ سرّہٗ نے اپنے ابیاتِ مبارکہ میں نہ نفی علم و علماء کی ہے نہ نفی شریعت کی ہے بلکہ آپ کا کلام اس ’’Religious Status Quo ‘‘کے خلاف ہے جس کی وجہ سے امت تفریق کا شکار ہے-بقول علامہ محمد اقبالؒ :

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوۓ کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق![17]

اِس مُختصر جائزے کا اِختتام حضرت سُلطان باھُو کے اپنے اَلفاظ پہ کرتے ہیں جو آپ نے اپنے نظریۂ علم کو ’’عین الفقر‘‘ کےپہلے باب میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمائے ہیں :

علم را آموز اوّل، بعد ازاں ایں جا بیا
جاہلاں را پیشِ حضرت حق تعالیٰ نیست جا

’’پہلے علم حاصل کر، پھر میدانِ معرفت میں قدم رکھ کیونکہ حضورِ حق میں جاہلوں کی کوئی گنجائش نہیں ‘‘ -

’’من تزہد بغیر علمٍ فھُوَ جنّ فی اٰخرِ عمرہٖ او مات کافراً‘‘

 ’’جو شخص بغیر علم کے زُہد و رِیاضت اِختیار کرتا ہے وہ آخر کار پاگل ہو کر مرتا ہے یا کُفر کی موت مرتا ہے ‘‘-

علمِ حق نُور است روشن، مثلِ اُو اَنوار نیست
علم باید باعمل علمش کہ بر خر بار نیست

’’علمِ حق روشن نور ہے ، اُس کی مثل کوئی نُور نہیں علم ہو تو با عمل ہو ورنہ بے عمل علم کی ضرورت نہیں جو محض گدھے پر لدے ہوئے بوجھ کی مثل ہے‘‘-

علمِ باطن ہمچو مسکہ علمِ ظاہر ہمچو شِیر
کے بَود بے شیر مسکہ کے بود بے پیر پیر

’’علم باطن مکھن کی مثل ہے اور علمِ ظاہر دُودھ کی مثل ہے ، بھلا دودھ کے بغیر مکھن کہاں سے آئے گا اور بغیر مُرشد کے بزرگی کیسے نصیب ہو سکتی ہے ‘‘-

علم وہ جو معلوم (یعنی ذاتِ حق تعالیٰ) تک پہنچا کر با خبر کر دے ورنہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے فرمان کے مطابق’’العلم حجاب الاکبر‘‘علم ہی سب سے بڑا حجاب ہے - بیت:

علمے کہ راہ بدوست بُرَد در کتاب نیست
اینہا کہ خواندہ ایم ہمہ در حساب نیست

’’یار سے ملانے والا علم کتابوں سے نہیں مِلتا کیونکہ راہِ وصل میں یہ درسی علم کسی کام نہیں آتا ‘‘ - محض قیل و قال والے عالموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمارکھا ہے ’’كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا‘‘،’’اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جِس پر بوجھ لدا ہوا ہے ‘‘ - بیت:

زِ اہلِ مدرسہ اَسرارِ معرفت مطلب
کہ نُکتہ دان نشوَدْ کِرم، گر کتاب خورَدْ

’’اَسرارِ معرفت (بے عمل ) اہلِ مدرسہ سے مت پوچھ ! کیونکہ کیڑا اگر کتاب کھا لے تو نُکتہ دان نہیں بن جاتا‘‘ -

٭٭٭


[1](طہ:114)

[2](سنن الترمذی ، کتاب العلم)

[3](عین الفقر)

[4](ایضاً)

[5](نور الہدیٰ)

[6](محک الفقر کلاں)

[7](سنن ابنِ ماجہ، الزھد باب الربا والمعتہ)

[8](عین الفقر)

[9](بانگ درا)

[10](بالِ جبریل)

[11](ضرب کلیم)

[12](آل عمران:103)

[13](سنن الترمذی، کتاب الزہد)

[14](صحیح مسلم، کتاب الامارا)

[15](المائدہ:44)

[16](سنن الترمذی، کتاب الزہد)

[17](ضرب کلیم)

علم کی اپنی تاریخ میں ’’نظریۂ علم‘‘ جسے انگریزی میں (Epistemology) کہتے ہیں کی بڑی اہمیّت رہی ہے-تاریخِ انسانی کی تقریباً تمام بڑی اور قابلِ ذکر تہذیبوں (مصر، ہندوستان، چائنا، یونان، ایران، روما اور عرب) میں یہ نظریہ بُنیادی اہمیّت کا حامل رہا ہے-اِس وقت موجود یا معلوم تقریباً تمام مذاہب میں نظریہ علم ایک الگ شاخِ علم کے طور پہ بیان کیا گیا ہے-تاریخِ انسانی کی تقریباً ہر بڑی شخصیّت نے اِس پہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے - فلسفہ کے جو چند ایک بُنیادی موضوعات سمجھے جاتے ہیں اپسٹمالوجی اُن میں سے ایک ہے -

اس کا مقصد خود علم کے اپنے بارے میں جاننا ہے کہ علم فی نفسہٖ کیا ہے؟ علم کے مقاصد کیا ہیں یا کیا ہونے چاہئیں؟ ایک آدمی علم سے کیا حاصل کر سکتا ہے؟ اور علم سے کیا حاصل کیا جانا چاہیے؟ علم کی حقیقی بنیاد کیا ہے؟ علم کے حصول کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں؟ علم کا صحیح یا غلط مصرف و استعمال کیا ہے؟ یہ اِس شاخِ علم کے متعلق محض چند ایک بنیادی سے سوالات ہیں -

دینِ اسلام میں بھی علم کو بہت اہمیت حاصل ہے، قرآن اور حدیث دونوں میں علم کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اور دونوں میں علم کے متعلق مختلف نظریات کو بیان کیا گیا ہے-جہاں تک علم کی بُنیادی ضرورت کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ اس بات سےبخوبی ہوجاتا ہے کہ سب سے پہلا لفظ جو پروردگار عالم نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا وہ اقراء ہے یعنی پڑھیے گویا پڑھنا علم کا عنوان اور اس کی کنجی ہے-علم کے کمالات میں سے ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو جہالت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و آگاہی کی روشنی میں لاتا ہے- اِسلامی نُقطۂ نگاہ سے علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (ﷺ) کو علم کے اضافہ میں دعا کی تعلیم دی ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا‘‘[1]

’’اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے‘‘-

اسی علم کے سبب علمائے کرام وارث ِ انبیاء (﷩)ہیں کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی ذاتِ پاک پر تونبوت کا دروازہ بند ہوگیا لیکن دین تو قیامت تک رہنا ہے اسی لئے شریعتِ محمدی (ﷺ) کی تعلیم اور حفاظت کی ذمہ داری علمائے کرام کو تفویض کی گئی ہے جیسا کہ حدیث ِ نبوی (ﷺ) ہے:

’’علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء دینار اور درہم کا ورثہ نہیں چھوڑتے بلکہ انہوں نے علم کا ورثہ چھوڑا ہے جس شخص نے اس سے(علم) حاصل کیا اس نے اس سے بڑا حصہ لے لیا‘‘-[2]

زیرِنظر نسبتاً مختصر مضمون میں ہم برِّ صغیر کی قادری صُوفی روایت کی عظیم شخصیّت سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ کے وسیع تصورِ علم سے صِرف ایک گوشے کا جائزہ لیں گے جس میں کہ آپ اپنے نظریۂ علم کی روشنی میں علمائے سُوء پہ تنقید کرتے ہیں اور اُن کا مُحاسبہ کرتے ہیں-مگر اُس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ایک بات کو ذہن نشین کر لیں کہ کسی بھی تہذیب، تحریک، مذہب یا شخصیّت کے کسی بھی نظریہ کو اُسی وقت صحیح معنوں میں سمجھا جا سکتا ہے جب اُن کا عہد، اُن کے گرد و پیش کا ماحول خاص کر وہ ماحول جس میں انہوں نے پرورش پائی، اُن کے اپنے طبعی و فکری میلانات، اُن کی ترجیحات اور سب سے اہم (غالباً) اُن کی آڈیئنس کو مدِّ نظر رکھا جائے - اِس اعتبار سے حضرت سُلطان باھُو کے نظریۂ علم سے علمائے سُوء پہ کی گئی تنقید کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ درج بالا عوامل کو حضرت سُلطان باھُو کے تناظر میں سمجھ لیا جائے وگرنہ تشنگیٔ تفہیم ضرور رِہ جاتی ہے- اِس ضِمن میں نہایت اِختصار سے ایک خاکہ پیشِ خِدمت ہے :

حضرت سُلطان باھُو کا عہد تاریخی اعتبار سے بہت ہی دلچسپ ہے-علم و ادب اور فنون و علوم کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کرنے والے مسلمان خاندانِ مُغلیّہ کی آخری مستحکم حکومت ہے جس کے بعد انتشار ہوا، پھر انگریز کا قبضہ ہوا-1947ءمیں مفاد پرست علما کے فرقہ وارانہ رویوں کی وجہ سے اُبھرنے والا شراکتِ اَدیان کا اکبری فتنہ ایک صُوفی تحریک کے نتیجے میں دَم توڑ چکا تھا- جہاں تک آپ کے گرد و پیش کے ماحول کا تعلق ہے تو پہلی چیز اسلامی ہند کا مجموعی ماحول تھا جو مغلوں کے عہد میں تقریباً تقریباً صوفیانہ روش پہ قائم تھا، موسیٰ پاک شہید ، حضرت مجدد الف ثانی، شاہ عبد الحق محدث دہلوی، حضرت میانمیر اور اِس قبیل کے کئی صُوفیا متصل زمانوں میں گزر رہے تھے، عوام کا مزاج بھی عارفانہ تھا اور صوفیانہ نکات کو بخوبی سمجھتے تھے نیز یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاک و ہند کی مسلمان عوام ہمیشہ فرقہ پرست ملاؤں سے دُور اور اہل اللہ صُوفیا کے قریب رہی ہے-

دوسری چیز والدہ ماجدہ (بی بی راستی علیہ الرحمہ) کا ذاتی اثر تھا جس نے آنکھ کھولنے سے قبل ہی تربیّتِ رُوحانی کا آغاز کروا دیا تھا - طبعی و فکری میلانات کی اگر بات کریں تو واضح ہے کہ ایک ایسے جنگجو، عالم فاضل قلعہ دار کا بیٹا جس نے آبائی وطن سے روحانی تجربات کی بنا پہ ہجرت کر کے شور کوٹ میں بغرضِ عبادت سکونت اختیار کی اِس چیز نے آپ قدس اللہ سرہٗ کی طبیعت پہ گہرا اثر مرتب کیا اور طالبانِ دُنیا و علمائے سُوء سے بے نیازی اختیار کروائی- اگر حضرت سُلطان باھُو کی ترجیحات کو سمجھنا ہو تو کوئی مشکل ہی نہیں ہے، آپ کی کسی بھی تصنیف کو کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر دیں آپ کی ترجیحات پتہ چل جائیں گی - شاید ترجیحات لفظ بہت موزوں نہ ہو کیونکہ اِس میں جمع کا رُجحان ہے جب حضرت سُلطان باھُو کی بات کریں گے تو جمع کی بجائے واحد کا صیغہ زیادہ مُناسب ہوگا کہ اُن کی ترجیحات نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی ترجیح ہے اور وہ ہے ’’اللہ‘‘-

آپ قدس اللہ سرہٗ نے اِس جُملہ ’’اللہ بس ما سوی اللہ ہوس‘‘ کو اتنی کثرت سے اپنی تصانیف میں استعمال فرمایا ہے کہ آپ کی تصانیف کا قاری اِس کی لذّت و سعادت سے اپنے آپ کو آزاد کر ہی نہیں سکتا- آڈیئنس کو اگر دیکھا جائے تو آپ قدس اللہ سرہٗ کی تصانیف کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آپ کی آڈیئنس حق تعالیٰ کے ایسے صادق طالب ہیں جو کرامت و مقامت حتیٰ کہ ہر درجے و مقام سے بے نیاز ہو چکے ہیں اُن کی طلب فقط اور فقط اللہ پاک کی خوشنودی و رضا اور اُسی ذاتِ پاک کا قُرب و وصال ہے-آپ بعض مقامات پہ دیگر لوگوں کو بھی مُخاطب فرماتے ہیں مگر اُنہیں جنہیں بھلے ادنیٰ درجے کا سہی، شوقِ لقائے الٰہی موجود ہو-

البتّہ ایک اور چیز جسے یہاں پہ ذکر کرنا ضروری ہے وہ آپ قدس اللہ سرہٗ کی تعلیمات کا دو الگ الگ زبانوں میں ہونا ہے ، جب ہم آپ کی فارسی تعلیمات کو دیکھتے ہیں تو اُن کے بارے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اِسی درج بالا معیار کی آڈیئنس کیلئے وہ لکھی گئی ہیں، لیکن جب ہم پنجابی/سرائیکی کلام کی بات کریں گے تو اُس میں عوامی تعلیم بھی شامل ہے کہ آپ نے عامۃ الناس کی زبان اور اُن کے لہجے میں بات کی ہے- اس لئے یہ کہنا بھی بجا ہو گا کہ آپ کی آڈیئنس میں عامۃ الناس بھی شامل ہیں-

اَب آپ کے نظریۂ علم کو سمجھنے کی مُبتدیانہ و طالب علمانہ سی کوشش کرتے ہیں -

 حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی بیشتر تصانیف میں علم اور اہلِ علم کی اہمیت کوبیان فرمایا ہے بلکہ بعض کتب میں تو آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے باقاعدہ علم اور اہلِ علم کی فضیلت پر باب باندھے ہیں-

1.       ’’عالم وہ ہے جو انبیاء اور آثارِ محمدی (ﷺ) کا وارث اور امینِ خدا ہو‘‘-[3]

2.       ’’جو علم کی راہ سے آتا ہے وہ فقرِ کامل سے آگاہ ہو جاتا ہے‘‘-[4]

3.       ’’علم کا مقصود اللہ تعالیٰ کی موافقت اور شیطان کی مخالفت ہے- ایسا علم اورایسا عالم اللہ کا دوست ہے‘‘-[5]

ایک جگہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

علم باہجھ جو فقر کماوے کافر مرے دیوانہ ھو

یعنی علمِ معرفت کےبغیر راہِ فقر اختیار کرنا سراسر غلطی ہے-گویا جہالت کے ساتھ فقر کے حصول کی کوشش غفلت کے گڑھے میں گرنے کے مترادف ہے-

ان فرمودات سے یہ واضح ہو جاتا ہےکہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی نظر میں علم اور اہلِ علم کی کیا اہمیت ہے لیکن جب ہم سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) کے پنجابی کلام کامطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بڑی تعداد میں ایسے ابیات نظرآتے ہیں کہ جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے آپ(قدس اللہ سرّہٗ) علم اور علماء کی فضیلت کے قائل نہیں ہیں-حالانکہ اگر تمام ابیات کو سلطان العارفین کی کتب سے ملا کر پڑھا جائے تو یہ ابہام دور ہو جاتا ہے کہ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) علم یا علماء کی فضیلت کو رد کرتے ہیں- ابیات میں قطعاً نہ نفی علم ہے اور نہ نفی شریعت بلکہ ان علمائےسو کی نفی ہے جو اپنے مفاد اور جھوٹی اَنا کے تحت امت کو تقسیم در تقسیم کرتے ہیں- جنہوں نے تکبر و عناد، حسد اور بغض اور دنیا پرستی کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے اور اس قدر تصنع اور بناوٹ میں مبتلا ہیں کہ بزرگانِ دین کے مقابلے میں اپنی علمی فوقیت کا اظہار کرتے ہیں-چونکہ وہ دین کے چوکیدار بننے کی بجائے ٹھیکیدار بن کر لوگوں کو دین سے دور کرنے والے ہیں تو اسی لئے ان علمائے سو کے شر سے عوام الناس کو محفوظ کرنے کے لیے سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنے کلام سے ان کا ردِّ بلیغ فرمایا ہے-جس کی تفصیل درج ذیل ہے-

v    امراء کی قربت کی خواہش:

علمائے حق ہمیشہ حکمرانوں کے سامنے اعلائے کلمتہ الحق کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین کرتے ہیں جبکہ علمائے سو کے حصولِ علم کی نیت اہلِ حکومت اور اہلِ ثروت کی ہم نشینی ہوتی ہے تاکہ قاضی کا مرتبہ قضا مل جائے یا کوئی اہم عہدہ- اسی بات کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ اپنے کلام میں فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ علم ملوک رجھاون کیا ہویا اس پڑھیا ھو

آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اس بیت مبارک میں فرما رہے ہیں کیا فائدہ اس پڑھنے کا جس کا مقصود اللہ کی رضا اور اس کا قرب نہ ہو-ایسے علم سے جہالت تو پھیل سکتی ہے مگر دین کی دعوت نہیں- جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے فارسی ابیات میں فرماتے ہیں:

علم نہ علم است کہ برا رباب جاہ
جادہ است آن

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں