دعوت پڑھتے وقت توفیق ِالٰہی کی ایک صورت ِتحقیق پیدا ہو کر اہل ِدعوت کی رفیق بن جاتی ہے جو اُسے قدرت ِخدااور رویت ِنور کی کشش سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ِحضور رکھتی ہے-اِس قسم کی دعوتِ قرب ِربانی کو تقویت ِانبیا ٔو اولیا ٔاللہ روحانی کہتے ہیں- گنجِ معرفت و علمِ ہدایت و ہر عمل ِقرب ِجمعیت کی اساس شوق ہے جو راہ ِ خدا فنا فی اللہ میں قرب ِ اِلٰہ کی راہنمائی کرتا ہے- اگر راہ ِقرب اللہ کی حضوری میں شوق کسی کا دامن گیر ہو جائے تو دونوں جہان کی راہ اُس کی نظر میں نصف قدم بھی نہیں رہتی، وہ یہ راہ طے کر کے فقیرِ روشن ضمیر بر نفس امیر بن جاتا ہے-
بیت :’’ فرشتہ اگرچہ قرب ِ ربانی رکھتا ہے مگر وہ مقامِ لِیْ مَعَ اللّٰہِ تک تو نہیں پہنچ سکتا ‘‘-
کیونکہ فرشتے کی قوت و توفیق مقامات و طبقات ِزمین آسمان تک محدود ہے جن کا تعلق ہو اسے ہے اور انسان کی قوت و توفیق معرفت ِتوحید ِفنا فی اللہ ذات تک لامحدود ہے جس کا تعلق قرب اللہ ذات حضوری سے ہے-
ابیات: (1)’’اے نیک نام طالب!میری اِس بات کو خوب یاد کر لے کہ دعوتِ’’یک دم‘‘ تمام جہان کو فنا کر سکتی ہے‘‘-(2)’’تیری ایک دم کی دعوت قرب ِ اِلٰہ کا ’’یک دم‘‘ہے جس کے دو راہ اور دو گواہ ہیں‘‘-(3)’’دمِ ازل و دمِ ابد و دمِ دنیا جب دعوت ِیک دم میں آتے ہیں تو اہل ِدعوت مرد ِخدا بن جاتا ہے‘‘-(4)’’جب کوئی عارف اہل ِدعوت دمِ معرفت کا ’’یک دم‘‘لیتا ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح مردے کو زندہ کر دیتا ہے‘‘-(5)’’جب کوئی اہل ِدعوت کسی روحانی اہل ِقبور کی قبر پر ایک دم کی دعوت پڑھتا ہے تو روحانی اہل ِدعوت کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے‘‘-
دعوت پڑھنے کے چار طریق ہیں کیونکہ انسانی وجود کی ترکیب بھی خاک و ہوا و پانی و آگ کے چار عناصر سے ہے جنھیں اہل ِدعوت ایک ہی نظر کی توفیق سے جلا کر راکھ کر دیتا ہے- ایسی دعوت وہ اِس لئے پڑھتا ہے کہ فرمایا گیا ہے : ’’ موذیوں کو اُن کی ایذا رسانی سے پہلے ہی قتل کر دیا کرو‘‘- اِس طرح دعوت پڑھنے سے اِن چاروں میں سے کوئی موذی زندہ نہیں رہتا اور سارا فتنہ و فساد ختم ہو جاتا ہے- دعوت ِ یک دم پڑھنا اہل ِیک دم کا کام ہے چنانچہ مرد ِحقانی حضرت خاقانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’پس تیس (30)سال کی تحقیق کے بعد خاقانی پر یہ راز کھلا کہ ایک دم کے لئے بہ خدا ہونا ملک ِسلیمانی کے تصرف سے بہتر ہے‘‘-
مرتبۂ یک دم مرتبۂ فنا فی الشیخ ہے ، مرتبۂ دوام حضوری مرتبۂ فنا فی الرّسول ہے جس میں دم کی خبر ہی نہیں ہوتی اور مرتبۂ فنا فی اللہ مرتبۂ نور فی النور ہے کہ جس میں دم کی خبر ہے نہ حضوری کی ، بس عین بعین دیدار ہے -یہ مرتبۂ فنا فی التوحید نور ہے-
ابیات:(1)’’ بحرِ فنا فی اللہ میں اِس طرح غرق ہو جا کہ تیری ہستی ہی کالعدم ہو جائے - اِستغراق کے اِس مقام پر دم بھی غیر محرم ہے کہ یہ راز ِ ربانی کی جلوہ گاہ ہے‘‘-[1](2)’’یہاں دم ہے نہ دل ہے ، جسد ہے نہ جان ہے ، یہاں تو بس عین ہی عین ہے کہ یہ لامکان ہے‘‘- (3)’’ جو کوئی فنا کے اِن مراتب پر پہنچتا ہے وہ حق ہی حق دیکھتا ہے کہ یہاں حق ہی حق کا ہم نشین ہے‘‘- (4)’’ جب تُو ایک خدا کی بجائے تین خداؤں کو پکارے تو حق کہاں رہا؟ تُو حق کو حق کے ساتھ تب دیکھے گا جب تُو نامِ حق(تصور ِ اسم اللہ ذات) کو دائم رفیق بنائے گا‘‘-
جو لوگ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ (اور تین خدا مت کہو) کی تنبیہ کے باوجود تین خداؤں کے عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور اِنَّمَا اللہُ اِ لٰہٌ وَّاحِدٌ (بے شک اللہ تو ایک ہی خدا ہے)کے برحق عقیدے کو ردّ کرتے ہیں وہ مؤمن مسلمان کس طرح ہو سکتے ہیں؟وہ تو حیوانوں سے بد تر ہیں -فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا کہ جس نے خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے‘‘-
(جاری ہے)
[1](حدیث ِقدسی میں آیاہے: اَ لْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَ نَا سِرُّہٗ یعنی انسان میرا راز ہے اور مَیں انسان کا راز ہوں)
دعوت پڑھتے وقت توفیق ِالٰہی کی ایک صورت ِتحقیق پیدا ہو کر اہل ِدعوت کی رفیق بن جاتی ہے جو اُسے قدرت ِخدااور رویت ِنور کی کشش سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ِحضور رکھتی ہے-اِس قسم کی دعوتِ قرب ِربانی کو تقویت ِانبیا ٔو اولیا ٔاللہ روحانی کہتے ہیں- گنجِ معرفت و علمِ ہدایت و ہر عمل ِقرب ِجمعیت کی اساس شوق ہے جو راہ ِ خدا فنا فی اللہ میں قرب ِ اِلٰہ کی راہنمائی کرتا ہے- اگر راہ ِقرب اللہ کی حضوری میں شوق کسی کا دامن گیر ہو جائے تو دونوں جہان کی راہ اُس کی نظر میں نصف قدم بھی نہیں رہتی، وہ یہ راہ طے کر کے فقیرِ روشن ضمیر بر نفس امیر بن جاتا ہے-
بیت :’’ فرشتہ اگرچہ قرب ِ ربانی رکھتا ہے مگر وہ مقامِ لِیْ مَعَ اللّٰہِ تک تو نہیں پہنچ سکتا ‘‘-
کیونکہ فرشتے کی قوت و توفیق مقامات و طبقات ِزمین آسمان تک محدود ہے جن کا تعلق ہو اسے ہے اور انسان کی قوت و توفیق معرفت ِتوحید ِفنا فی اللہ ذات تک لامحدود ہے جس کا تعلق قرب اللہ ذات حضوری سے ہے-
ابیات: (1)’’اے نیک نام طالب!میری اِس بات کو خوب یاد کر لے کہ دعوتِ’’یک دم‘‘ تمام جہان کو فنا کر سکتی ہے‘‘-(2)’’تیری ایک دم کی دعوت قرب ِ اِلٰہ کا ’’یک دم‘‘ہے جس کے دو راہ اور دو گواہ ہیں‘‘-(3)’’دمِ ازل و دمِ ابد و دمِ دنیا جب دعوت ِیک دم میں آتے ہیں تو اہل ِدعوت مرد ِخدا بن جاتا ہے‘‘-(4)’’جب کوئی عارف اہل ِدعوت دمِ معرفت کا ’’یک دم‘‘لیتا ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح مردے کو زندہ کر دیتا ہے‘‘-(5)’’جب کوئی اہل ِدعوت کسی روحانی اہل ِقبور کی قبر پر ایک دم کی دعوت پڑھتا ہے تو روحانی اہل ِدعوت کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے‘‘-
دعوت پڑھنے کے چار طریق ہیں کیونکہ انسانی وجود کی ترکیب بھی خاک و ہوا و پانی و آگ کے چار عناصر سے ہے جنھیں اہل ِدعوت ایک ہی نظر کی توفیق سے جلا کر راکھ کر دیتا ہے- ایسی دعوت وہ اِس لئے پڑھتا ہے کہ فرمایا گیا ہے : ’’ موذیوں کو اُن کی ایذا رسانی سے پہلے ہی قتل کر دیا کرو‘‘- اِس طرح دعوت پڑھنے سے اِن چاروں میں سے کوئی موذی زندہ نہیں رہتا اور سارا فتنہ و فساد ختم ہو جاتا ہے- دعوت ِ یک دم پڑھنا اہل ِیک دم کا کام ہے چنانچہ مرد ِحقانی حضرت خاقانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’پس تیس (30)سال کی تحقیق کے بعد خاقانی پر یہ راز کھلا کہ ایک دم کے لئے بہ خدا ہونا ملک ِسلیمانی کے تصرف سے بہتر ہے‘‘-
مرتبۂ یک دم مرتبۂ فنا فی الشیخ ہے ، مرتبۂ دوام حضوری مرتبۂ فنا فی الرّسول ہے جس میں دم کی خبر ہی نہیں ہوتی اور مرتبۂ فنا فی اللہ مرتبۂ نور فی النور ہے کہ جس میں دم کی خبر ہے نہ حضوری کی ، بس عین بعین دیدار ہے -یہ مرتبۂ فنا فی التوحید نور ہے-
ابیات:(1)’’ بحرِ فنا فی اللہ میں اِس طرح غرق ہو جا کہ تیری ہستی ہی کالعدم ہو جائے - اِستغراق کے اِس مقام پر دم بھی غیر محرم ہے کہ یہ راز ِ ربانی کی جلوہ گاہ ہے‘‘-[1](2)’’یہاں دم ہے نہ دل ہے ، جسد ہے نہ جان ہے ، یہاں تو بس عین ہی عین ہے کہ یہ لامکان ہے‘‘- (3)’’ جو کوئی فنا کے اِن مراتب پر پہنچتا ہے وہ حق ہی حق دیکھتا ہے کہ یہاں حق ہی حق کا ہم نشین ہے‘‘- (4)’’ جب تُو ایک خدا کی بجائے تین خداؤں کو پکارے تو حق کہاں رہا؟ تُو حق کو حق کے ساتھ تب دیکھے گا جب تُو نامِ حق(تصور ِ اسم اللہ ذات) کو دائم رفیق بنائے گا‘‘-
جو لوگ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ (اور تین خدا مت کہو) کی تنبیہ کے باوجود تین خداؤں کے عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور اِنَّمَا اللہُ اِ لٰہٌ وَّاحِدٌ (بے شک اللہ تو ایک ہی خدا ہے)کے برحق عقیدے کو ردّ کرتے ہیں وہ مؤمن مسلمان کس طرح ہو سکتے ہیں؟وہ تو حیوانوں سے بد تر ہیں -فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’ کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا کہ جس نے خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے‘‘-
(جاری ہے)
[1](حدیث ِقدسی میں آیاہے: اَ لْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَ نَا سِرُّہٗ یعنی انسان میرا راز ہے اور مَیں انسان کا راز ہوں)