ذاتی نال نہ ذاتی رلیا سو کم ذات سڈیوے ھو
نفس کتے نوں بنھ کراہاں فہماً فہم کچیوے ھو
ذات صفاتوں مہناں آوے جداں ذاتی شوق نپیوے ھو
نام فقیر تنہاں دا باھوؒ قبر جنہاں دی جیوے ھو
Until you do not united with Divine essence you will be seen lowest Hoo
Tie up nafs the dog and make mince of it Hoo
Will be ashamed from essence and attributes if personal desires survive Hoo
His name is faqeer ‘Bahoo’ whose grave is alive Hoo
Zaati naal nah zaati ralya so kam zaat sa’Deeway Hoo
Nafs kuttay no’N banh karaha’N fahman fahm kacheeway Hoo
Zaat sifato’N mehna’H Aaway jada’N zaati shoq napeeway Hoo
Naam faqeer tinha’N da Bahoo qabr jinha’N di jeeway Hoo
تشریح :
(۱)مرتبۂ ذات کیا ہے اور مرتبۂ صفات کیا ہے؟ مرتبۂ ذات پہ پہنچ کر فقیر کو مراتب اخلاص نصیب ہوجاتے ہیں اور وہ دِین میں مخلص ہو جاتا ہے- دِین میں انسان تب مخلص ہوتا ہے کہ جب انسان نفسِ امّارہ وابلیس کی دسترس سے محفوظ ہوجائے- نفس و ابلیس کی دسترس تخلیقات حق کے دائرے میں ہر کہیں ہوتی ہے البتہ دائرہ غیر مخلوق میں اُن کی پہنچ نہیں ہوتی اسی لیے فرمایا گیا کہ جب انسان کامل عالم جبروت سے گزر کر عالم لاھوت میں پہنچ جاتا ہے تو وہ مخلص ہوجاتا ہے عالم لاھوت میں پہنچنے والے فقیر کو مرتبۂ ذات نصیب ہو جاتا ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:-
’’حقیقت و معرفت کے درمیان سترہزار صفاتی حجاباتِ اکبر ہیں، جب تک انسان حجاباتِ صفات سے نکل کردریائے معرفت ِلاھُوت میں غرق نہیں ہو جاتا مقامِ معرفت میں داخل نہیں ہو سکتا-مقامِ معرفت اور مقامِ نور اللہ غرق کے درمیان ستر ہزار حجاباتِ اکبر ہیں- جب تک عارف معرفت کے لباسِ عارفیت سے جان نہیں چھڑا لیتا ہرگز مقامِ غرق نور ِاللہ میں نہیں پہنچ سکتا-مقامِ غرق نورِ اللہ اور مقامِ حیُّ قیوم بقا باللہ کے درمیان ستر ہزار حجاباتِ اکبر ہیں ، جب تک ا ِنسان اپنے جسم کو اسمِ اللہ کے تصور و تصرف میں غرق نہیں کر لیتا ہرگز بقاباللہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی حیاتِ دو جہان سے سرفراز ہو سکتا ہے کہ اِس مقام کو نعمت ِ اِلٰہیہ کا مقام کہا گیا ہے ‘‘-[1]
عالمِ لاھوت کے نیچے جتنے مقامات و مراتب ہیں وہ مقاماتِ صفات ہیں ان پہ قدم رکھنے والا مرتبۂ صفات کا حامل ہوتاہے مرتبۂ صفات پہ رجوعاتِ خلق، نفسانی خواہشات اور ابلیس کے تارِ عنکبوت کے خطرات جابجا بکھرے ہوتے ہیں- آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ :-
’’اہل ِ صفا ت کے لئے لازوا ل ذات اللہ ہی ہے- اہل ِ ذات کی نظر جب صفات پر پڑتی ہے وہ تماشائے ناسوت کو دیکھتا ہے اور جب اُ س کی نظر ذا ت پر پڑتی ہے تو تماشائے لاہوت کو دیکھتا ہے اور لاہوت کے بھی دو در جے ہیں، ایک لانہایت ہے اور دوسرا لامکان ہے- اہل ِ ذ ات کی اِس حقیقت کو بھلا خطرات سے پُر اہل ِ نا سوت پر یشان کیا جانے؟جہا ں ذات ہے وہاں خطرات کو قدرت نہیں- ہر چیز کے مغز و پو ست میں بس ایک ہی ذات جلو ہ گر ہے ‘‘-[2]
اِس لیے نگاہِ فقر میں جب تک فقیر خود کو عالم لاھوت میں اسم اللہ ذات کی تجلیات میں غرق نہیں کردیتا وہ کم ذات ہے کیونکہ اُسے ہر وقت نفسانی و شیطانی خطرات نے گھیر رکھا ہوتاہے آپ قدس اللہ فرماتے ہیں کہ:-
ذات حاصل میشود از ذکر ذات |
|
از صفاتی می بر آید شد نجات |
’’ذاتِ اِلٰہی تک رسائی صرف تصور ِاسم اللہ ذات ہی سے ہوتی ہے، تصورِ اسم اللہ ذات سے بندہ مقاماتِ صفات سے نکل آتا ہے اور نورِ ذات میں داخل ہو کر نجات پا جاتا ہے‘‘ -
وصفِ اوّل را بہ خوان از گناہ |
|
تا ترا حاصل شود وحدت اِلٰہ[3] |
’’ جب تُو وصف ِ اوّل (مقاماتِ صفات) کی طلب کو گناہ سمجھے گا تو تجھے وحدتِ اِلٰہی کی معرفت نصیب ہو گی‘‘-
(۲)آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ فقیر طالب کو چاہیے کہ وہ پہلی فرصت میں نفسِ امّارہ، نفس لوامہ اورنفس ملہمہ کے مقاصد وخواہشات سے جان چھڑواے تاکہ اُس کاقلب اِ ن کے خصائل بد سے محفوظ رہ سکے اور اس کے بعد لقائے حق اور وصالِ الٰہی کے لیے عالم لاھوت کی جانب پرواز کے لیے فہم وفراست حاصل کرنے کی تگ ودو کرے-
(۳)جب فقیر مراتب صفات میں رجوعاتِ خلق، کشف و کرامات اور صفاتی تصرفات سے کنارہ کش ہوکر اپنے قلب و رُوح کو توحیدِ ذات کے لیے مخصوص کرلے تو اُس وقت اُس کے من میں شوق الی اللہ جاگزین ہو جاتا ہے- یہ شوق اُسے ہر دو جہاں سے بے نیاز کردیتا ہے اور وہ تصورِ اسم اللہ ذات اور مرشد کی نگاہِ کرم سے مرتبہ صفات سے نکل کر مرتبۂ ذات میں جا پہنچتا ہے- جیسا کہ فرمایا:
’’پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی مرشد ِکامل مکمل کسی طالب اللہ کو اسم اللہ کا نقش عطا کرتا ہے تو اُسے پل بھر میں عین توحید ِ ذات میں غرق کر دیتا ہے- وہ اُسے صفات میں ہرگز نہیں چھوڑتا کیونکہ توحید برد کئے بغیر محض مقامات ِصفات تک پہنچانا سراسر شرک ہے‘‘-[4]
’’پس خطرات کا علاج یہ ہے کہ نظر اسم اﷲ ذات پر جمی رہے کیونکہ خطرات کی مجال نہیں کہ اہل ِذات پر غالب آ سکیں-اہل ِصفات کو البتہ ہزار ہا قسم کے حجابات پیش آسکتے ہیں کیونکہ وہ ثواب کے آرزو مند ہوتے ہیں اور اِس وجہ سے وہ اِلہاماتِ معرفت ِ اِلٰہی اور جواب باصواب سے محروم رہتے ہیں[5]-
’’یہ تفکر حضوریٔ ذات و مشاہدۂ تجلی ٔ انوار کا تفکر ہے جس سے طالب غرق فنا فی اللہ ذات ہو کر مشرف ِدیدار رہتا ہے- یہ تفکر ِ صفات نہیں کہ جس سے طبقات و درجاتِ زمین و آسمان کی طیر سیر حاصل ہوتی ہے‘‘-[6]
(۴)مرتبۂ ذات پہ پہنچنے والا فقیر عالَم لاھوت کا گلِ مقدس ہوتا ہے کہ جس سے عالم ناسوت میں طالبانِ مولیٰ کے دِلوں میں بھی عالمِ لاھوت کی لافانی خوشبو پھیل جاتی ہے اور بعد از وفات یہی خوشبو اُس فقیرِ کامل کی قبر مبارک سے پھوٹتی ہے جسے سادہ الفاظ میں زندہ قبر کہتے ہیں- فقیر کامل وہ ہوتا ہے کہ جس کی قبر پہ جب کوئی مردہ دل آئے لیکن قلبِ بیدار کی نعمت سے سرفراز ہوکر جائے -آتا ہے تو تشنہ کام مگرجاتاہے تو ساقی کے لبریز پیمانوں سے سیر ہوکر- فقیر کی قبر محض مزار نہیں ہوتی بلکہ ایک شہنشاہ کا محل ہوتا ہے-
[1](محک الفقرکلاں)
[2](ایضاً)
[3](کلید التوحیدکلاں)
[4](عین الفقر)
[5](کلید التوحید کلاں)
[6](عقل بیدار)