ایک وہ ہے کہ دعویٰ کرتا ہے مرتبۂ فنا فی الشیخ کا مگر ہوتا ہے وہ مرتبۂ فنافی الشیطان پر، دعویٰ کرتا ہے مرتبۂ فنا فی الرّسول محمود کا مگر ہوتا ہے وہ مرتبۂ مردُود پر ، دعویٰ کرتا ہے مرتبۂ فنا فی اللہ باخدا کا مگر ہوتا ہے وہ مرتبۂ نفس و ہوا پر-جس شخص کو مراتب ِفنا فی الشیخ حاصل ہو جائیں وہ نجات پا جاتا ہے معصیت ِشیطانی کے جملہ شر سے، نجات پا جاتا ہے فضیحت ِنفس کے جملہ فتنوں سے، نجات پا جاتا ہے حوادثِ دنیا کے جملہ فسادات و خطرات سے جو پوشیدہ ہیں عرش سے تحت الثریٰ کے ہر مقام کی طیر سیر میں اور نجات پا جاتا ہے جملہ باطل سے جس کے نتیجے میں اُسے حق ہی حق نظر آتا ہے - یہ ہیں مراتب ِفنا فی الشیخ-
جو آدمی مراتب ِ فنا فی الرّسول پر پہنچ جاتا ہے وہ ظاہر و باطن میں دم بھر کے لئے بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ) سے جدا نہیں ہوتا اورجو آدمی مراتب ِفنا فی اللہ پر پہنچ جاتا ہے اُس کا ہر عمل اللہ کی خاطر ہوتا ہے یعنی اُس کا نفس فنا اور قلب و روح بقا ہوتی ہے اور وہ ہر وقت مشاہدۂ نور حضور ِذات میں غرق مشرفِ لقا رہتا ہے - جو اِن تین مراتب کو نہیں جانتا وہ احمق و خود نما ہے کہ دعوت پڑھتا ہے - بعض مرشد وہ ہیں جو خود دُور رہتے ہیں اور اپنے طالبوں کو توجہ دے کر مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری میں پہنچادیتے ہیں -بعض مرشد وہ ہیں جو خود تو ہر وقت حضوری میں رہتے ہیں مگر اپنے طالبوں کو حضوری میں منظور نہیں کرا سکتے - بعض مرشد وہ ہیں کہ جن کے طالب صاحب ِحضور ہوتے ہیں لیکن نگاہِ خَلق میں حضوری سے بعید و دُور ہوتے ہیں - جو آدمی باطن کے یہ تین مراتب نہیں جانتا وہ احمق ہے کہ دعوت پڑھتا ہے کیونکہ اہل ِدعوت جب دعوت پڑھتا ہے اور کلامِ ربانی کا وِرد شروع کرتا ہے تو روحانی سے ہم کلام ہو کر اُس سے سوال جواب کرتا ہے - جو آدمی اِس طرح دعوت پڑھنا نہیں جانتا دعوت اُسے خراب کرتی ہے -
شرحِ دعوتِ عظیم
وہ دعوت بہت عظیم ہے جو اِن چار مراتب کو جمع کر کے پڑھی جائے :
1. قرآن مجید 2. قرب الحق |
3. انبیا ٔو اولیا ٔاللہ مثل ِدرویش غوث قطب و شہیدکی قبرِ تیغِ برہنہ 4. مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی حضوری کی قوت- |
تیغِ برہنہ قبر پر اسمِ اعظم یا قرآن مجید پڑھنے کی سخت ترین چار طبقاتی دعوتِ قہر وغضب وہ شخص پڑھ سکتا ہے کہ جس کے پڑھنے سے حضرت مدینہ و حضرت خانہ کعبہ و عرشِ اکبر و ماہ تاماہی ہر چیز جنبش میں آ جائے اور جملہ انبیا و اصفیا و نبی مرسل و زندہ و مردہ تمام اولیا ٔاللہ فقیر ولی اللہ درویش عارف باللہ غوث قطب ابدال اوتاد کی جملہ ارواح اور اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات حیرت میں لرزہ بر اندام ہو جائیں، فرشتے عبرت پکڑیں، جملہ مخلوقات بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعا کھڑی رہیں اور جب تک اِس دعوت کے پڑھنے والے کا کام پورا نہ ہو تمام انبیا ٔو اصفیا و مرسل و اصحاب و مجتہد علمائے باللہ اولیا ٔاللہ مؤمن مسلمانوں کی ارواح اہل ِدعوت کی قید سے ہرگز خلاصی نہیں پا سکتیں-اِس دعوت سے سخت و غالب ترمنصب والی دعوت اور کوئی نہیں ہو سکتی-اِس قسم کی دعوت اگر فولاد سے سخت تر پہاڑ پر پڑھی جائے تو وہ موم ہو جاتا ہے ، اگر یہ دعوت ہوا سے بلند تر لوہے یا پتھر کے اُس مضبوط قلعہ پر پڑھی جائے کہ جس کے کنگروں تک پرندے بھی نہ پہنچ سکیں تو اِس دعوت کے پڑھنے سے اہل ِقلعہ کے دل ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور وہ غلامی قبول کر کے فرمانبردار بن جاتے ہیں اور اہل ِقلعہ کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہتا یا اِس دعوت کے مؤکل اہل ِقلعہ کو پکڑ کر قلعہ سے دُور پھینک دیتے ہیں اور قلعہ کو فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے -جو آدمی اِس دعوت کو پڑھنا جانتا ہے اُس کے لئے مشرق و مغرب کے ہر ملک و ولایت کو ایک ہی ہفتہ میں اپنے قبضے و تصرف میں لے آنا مشکل و دشوار نہیں ہوتا - اِس دعوت کو پڑھنے کے لائق عامل کامل خواہ حیواناتِ جلالی و جمالی کھاتا پھرے اُس کا وجود تصور ِاسم اللہ ذات کی آگ میں جل کر پختہ ہو جاتا ہے -اُسے روحانی و مؤکل فرشتوں اور جنونیت سے کوئی خوف و خطرہ نہیں رہتا کہ تصور ِاسم اللہ ذات میں غرق کامل صاحب ِحضور ہوتا ہے اور اُس کے عمل ِدعوت میں روحانیت ِقبور کا تصرف ہوتا ہے –
(جاری ہے)
ایک وہ ہے کہ دعویٰ کرتا ہے مرتبۂ فنا فی الشیخ کا مگر ہوتا ہے وہ مرتبۂ فنافی الشیطان پر، دعویٰ کرتا ہے مرتبۂ فنا فی الرّسول محمود کا مگر ہوتا ہے وہ مرتبۂ مردُود پر ، دعویٰ کرتا ہے مرتبۂ فنا فی اللہ باخدا کا مگر ہوتا ہے وہ مرتبۂ نفس و ہوا پر-جس شخص کو مراتب ِفنا فی الشیخ حاصل ہو جائیں وہ نجات پا جاتا ہے معصیت ِشیطانی کے جملہ شر سے، نجات پا جاتا ہے فضیحت ِنفس کے جملہ فتنوں سے، نجات پا جاتا ہے حوادثِ دنیا کے جملہ فسادات و خطرات سے جو پوشیدہ ہیں عرش سے تحت الثریٰ کے ہر مقام کی طیر سیر میں اور نجات پا جاتا ہے جملہ باطل سے جس کے نتیجے میں اُسے حق ہی حق نظر آتا ہے - یہ ہیں مراتب ِفنا فی الشیخ-
جو آدمی مراتب ِ فنا فی الرّسول پر پہنچ جاتا ہے وہ ظاہر و باطن میں دم بھر کے لئے بھی مجلس ِمحمدی (ﷺ) سے جدا نہیں ہوتا اورجو آدمی مراتب ِفنا فی اللہ پر پہنچ جاتا ہے اُس کا ہر عمل اللہ کی خاطر ہوتا ہے یعنی اُس کا نفس فنا اور قلب و روح بقا ہوتی ہے اور وہ ہر وقت مشاہدۂ نور حضور ِذات میں غرق مشرفِ لقا رہتا ہے - جو اِن تین مراتب کو نہیں جانتا وہ احمق و خود نما ہے کہ دعوت پڑھتا ہے - بعض مرشد وہ ہیں جو خود دُور رہتے ہیں اور اپنے طالبوں کو توجہ دے کر مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری میں پہنچادیتے ہیں -بعض مرشد وہ ہیں جو خود تو ہر وقت حضوری میں رہتے ہیں مگر اپنے طالبوں کو حضوری میں منظور نہیں کرا سکتے - بعض مرشد وہ ہیں کہ جن کے طالب صاحب ِحضور ہوتے ہیں لیکن نگاہِ خَلق میں حضوری سے بعید و دُور ہوتے ہیں - جو آدمی باطن کے یہ تین مراتب نہیں جانتا وہ احمق ہے کہ دعوت پڑھتا ہے کیونکہ اہل ِدعوت جب دعوت پڑھتا ہے اور کلامِ ربانی کا وِرد شروع کرتا ہے تو روحانی سے ہم کلام ہو کر اُس سے سوال جواب کرتا ہے - جو آدمی اِس طرح دعوت پڑھنا نہیں جانتا دعوت اُسے خراب کرتی ہے -
شرحِ دعوتِ عظیم
وہ دعوت بہت عظیم ہے جو اِن چار مراتب کو جمع کر کے پڑھی جائے :
1. قرآن مجید 2. قرب الحق |
3. انبیا ٔو اولیا ٔاللہ مثل ِدرویش غوث قطب و شہیدکی قبرِ تیغِ برہنہ 4. مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی حضوری کی قوت- |
تیغِ برہنہ قبر پر اسمِ اعظم یا قرآن مجید پڑھنے کی سخت ترین چار طبقاتی دعوتِ قہر وغضب وہ شخص پڑھ سکتا ہے کہ جس کے پڑھنے سے حضرت مدینہ و حضرت خانہ کعبہ و عرشِ اکبر و ماہ تاماہی ہر چیز جنبش میں آ جائے اور جملہ انبیا و اصفیا و نبی مرسل و زندہ و مردہ تمام اولیا ٔاللہ فقیر ولی اللہ درویش عارف باللہ غوث قطب ابدال اوتاد کی جملہ ارواح اور اٹھارہ ہزار عالم کی کل مخلوقات حیرت میں لرزہ بر اندام ہو جائیں، فرشتے عبرت پکڑیں، جملہ مخلوقات بارگاہِ الٰہی میں دست بہ دعا کھڑی رہیں اور جب تک اِس دعوت کے پڑھنے والے کا کام پورا نہ ہو تمام انبیا ٔو اصفیا و مرسل و اصحاب و مجتہد علمائے باللہ اولیا ٔاللہ مؤمن مسلمانوں کی ارواح اہل ِدعوت کی قید سے ہرگز خلاصی نہیں پا سکتیں-اِس دعوت سے سخت و غالب ترمنصب والی دعوت اور کوئی نہیں ہو سکتی-اِس قسم کی دعوت اگر فولاد سے سخت تر پہاڑ پر پڑھی جائے تو وہ موم ہو جاتا ہے ، اگر یہ دعوت ہوا سے بلند تر لوہے یا پتھر کے اُس مضبوط قلعہ پر پڑھی جائے کہ جس کے کنگروں تک پرندے بھی نہ پہنچ سکیں تو اِس دعوت کے پڑھنے سے اہل ِقلعہ کے دل ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور وہ غلامی قبول کر کے فرمانبردار بن جاتے ہیں اور اہل ِقلعہ کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہتا یا اِس دعوت کے مؤکل اہل ِقلعہ کو پکڑ کر قلعہ سے دُور پھینک دیتے ہیں اور قلعہ کو فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے -جو آدمی اِس دعوت کو پڑھنا جانتا ہے اُس کے لئے مشرق و مغرب کے ہر ملک و ولایت کو ایک ہی ہفتہ میں اپنے قبضے و تصرف میں لے آنا مشکل و دشوار نہیں ہوتا - اِس دعوت کو پڑھنے کے لائق عامل کامل خواہ حیواناتِ جلالی و جمالی کھاتا پھرے اُس کا وجود تصور ِاسم اللہ ذات کی آگ میں جل کر پختہ ہو جاتا ہے -اُسے روحانی و مؤکل فرشتوں اور جنونیت سے کوئی خوف و خطرہ نہیں رہتا کہ تصور ِاسم اللہ ذات میں غرق کامل صاحب ِحضور ہوتا ہے اور اُس کے عمل ِدعوت میں روحانیت ِقبور کا تصرف ہوتا ہے –
(جاری ہے)