حضرت سلطان باھُو(قدس اللہ سرہٗ) کے حالاتِ زندگی پر لکھی گئی سب سے معتبر تصنیف ’’مناقبِ سلطانی‘‘ اور دیگر سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق آپ (قدس اللہ سرہٗ) نے نورِ ہدایت عامۃ الناس میں مروج فرمانے کیلئے کم و بیش 140کتب تصنیف فرمائیں- آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی جملہ تصانیف طالبانِ مولیٰ کے لیے مرشد کا درجہ رکھتی ہیں کیونکہ آپؒ کے جملہ افکار کا سر چشمہ آیاتِ قرآنی و احادیثِ نبوی (ﷺ) ہیں-آپؒ نے مروجہ ظاہری علم حاصل نہیں کیا تھا لیکن چونکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) مادرِ ذات ولی تھے اور اسی سبب سے آپؒ کوعلمِ لدنی حاصل تھا-اوائلِ عمری میں ہی آپ (قدس اللہ سرّہٗ) وارداتِ غیبی اور فتوحاتِ لاریبی میں مستغرق رہے جس کی وجہ سے آپؒ کو ظاہری علوم کی تحصیل کی فرصت نہیں ملی- جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
گرچہ نیست مارا علمِ ظاہر
ز علم باطنی جاں گشتہ طاہر[1]
’’اگرچہ ظاہری علم میں نے حاصل نہیں کیا، تاہم علمِ باطن حاصل کرکے میں پاک و طاہر ہوگیا ہوں اس لیے جملہ علوم بذریعہ انعکاس میرے دل میں سما گئے ہیں‘‘-
اسی علمِ باطنی کی برکت سے آپؒ حافظِ قرآن، کامل و عاملِ سُنّت، علمِ تصوف و شریعت، فقہ و قانون اور حکمت و فلسفہ پر حاوی تھے- ان جملہ علوم کا ثبوت آپؒ کی بلند پایہ تصانیف ہیں- آپؒ کی تصانیف کی تمام تعلیم قرآن و احادیث کی تعلیم ہے کیونکہ آپؒ نے جو بھی لکھا ہے اللہ اور حضور نبی کریم(ﷺ) کے اذن سے لکھا ہے- جیسا کہ آپؒ اپنے فارسی اشعار میں فرماتے ہیں:
ہیچ تالیفی نہ در تصنیف ما
ہر سخن تصنیف ما را از خدا
علم از قرآن گرفتم و ز حدیث
ہر کہ منکر می شود اہل از خبیث[2]
’’ہماری تصانیف میں کوئی تالیف نہیں ہے- ہماری تصانیف کا ہر سخن الہامِ خداوندی ہے- میں نے ہر علم قرآن و حدیث سے پایا ہے-لہٰذا میری تحریر کا انکار کرنے والا قرآن و حدیث کا منکر ہے- اس لیے وہ پکا خبیث ہے‘‘-
محک الفقر کلاں کی عظمت و اہمیت:
محک الفقر(کلاں)آپ(قدس اللہ سرّہٗ) کی مایہ ناز فارسی تصنیف ہے- جو فقر و تصوف کے بہت ہی انقلابی تصورات پر مبنی ہے- یہ تصنیف فنِ تصوف اور درسِ معرفت میں ایک نایاب موتی کی حیثیت رکھتی ہےجس سے ہر عہد میں طالبانِ مولیٰ مستفیذ ہوتے رہے اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتے رہیں گے- آپؒ کی یہ تصنیف دیگر تصانیف سے اس لیے بھی ممتاز ہے کہ آپؒ کی دیگرتصانیف پڑھتے ہوئے جو ذہنوں میں سوالات وارد ہوتے ہیں آپؒ کی یہ تصنیف ان تمام سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے- جیسا کہ آپؒ خود اپنی اس تصنیف کے بارے میں فرماتے ہیں:
ہر کتابی را جوابی می دہد
ہر ولی را ہم خطابی می دہد
اولیاء را می نماید ہر مقام
میکند تحقیق ہرکہ یک پختہ خام[3]
’’یہ کتاب (محک الفقر کلاں) دیگر ہر کتاب کا جواب دیتی ہے اور ہر ولی اللہ سے مخاطب ہوتی ہے- یہ کتاب اولیاء اللہ کو ہر مقام کامشاہدہ کرواتی ہے اور پختہ و خام طالب و مرشد کی تحقیق بخشتی ہے‘‘-
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے اس تصنیف میں تصوف کے مسائل کو علمی رنگ میں پیش کیا ہے لیکن ہر دعوے کیلئے قرآن مجید اور احادیثِ نبوی (ﷺ) سے دلیل پیش کی ہے-جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1. صفحات کی تعداد: آپؒ کے فارسی متن کے صفحات کی تعداد 378 ہے-
2. آیات کی تعداد: محک الفقر کلاں کے 378صفحات کے فارسی متن میں آیات کی تعداد 378 ہے-
3. احادیثِ نبوی (ﷺ) و اقوال کی تعداد: احادیثِ نبوی (ﷺ)و اقوال کی تعداد 279ہے-
4. احادیثِ قدسیہ کی تعداد: احادیثِ قدسیہ کی تعداد 16 ہے-
5. ابیات کی تعداد: ابیات کی تعداد 570ہے-
6. اشعار کی تعداد: 10رباعیات، 2 قطعات، 2 غزلیں، 1 مخمس اور 1 نظم شامل ہے-
(نوٹ: یہ اَعداد و شُمار اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے سرپرستِ اعلیٰ اور مُسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی حضرت سُلطان مُحمد علی صاحب کے تین روزہ بین الاقوامی حضرت سُلطان باھُو کانفرنس (اسلام آباد و لاہور) کے اختتامی سیشن کے خُطبۂ صدارت سے اخذ کئے گئے ہیں)
محک الفقر کلاں میں موجود فقہی مباحث:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے تقریباً تمام تصانیف میں علمِ فقہ کی اہمیت و عظمت پر گفتگو فرمائی ہے- اگر آپؒ کی تمام کتب میں موجود فقہ سے متعلق فرمودات کو اکھٹا کرلیا جاۓ تو اس موضوع پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے-جو علمی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ ہوگا- دیگر تصانیف کی بانسبت محک الفقر کلاں میں آپؒ نے زیادہ علمِ فقہ پر کلام فرمایا ہے- آپؒ نے اس تصنیفِ لطیف میں زیادہ تر فقر و تصوف کے مباحث کو ہی زیرِ بحث لایا ہے- لیکن جب اس تصنیفِ لطیف کا عمیق مطالعہ کیا جاۓ تو کئی مقامات ایسے نظر آتے ہیں جہاں علمِ فقہ سے متعلق فرمودات موجود ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
علمِ فقہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی:
1. فقہ کے لغوی معنی:
فقہ کا مادہ ’’ف ق ہ‘‘ بابِ سَمِعَ یَسْمَعُ سے آتا ہے جس کے معنی ادراک اور علم کے ہیں- یعنی کسی شے کا جاننا اور اس کی معرفت و فہم حاصل کرنا-
ابن منظور افریقی لسان العرب میں یوں تعریف کرتے ہیں:-
’’فقہ سے مراد کسی چیز کا علم اور اس کا فہم ہے‘‘-[4]
علامہ المبارک بن محمد الئیراالجزری لکھتے ہیں :
’’فقہ کا اصل معنی ہے فہم- یہ لفظ شق کرنے اور (فتح) کھولنے سے ماخوذ ہے‘‘-[5]
2. فقہ کے اصطلاحی معنی:
امام ابو حنیفہؒ فقہ کی تعریف بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
’’فقہ نفس کے حقوق اور فرائض و واجبات جاننے کا نام ہے‘‘-[6]
بالعموم فقہاء کرام فقہ کی اصطلاحی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’احکامِ فرعیہ، شرعیہ، عملیہ کو تفصیلی دلائل سے جاننے کا نام فقہ ہے‘‘-[7]
3. محک الفقر کلاں میں فقہ کی تعریف:
حضور سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) فقہ کی تعریف اپنے مخصوص انداز میں اس طرح فرماتے ہیں کہ:
علمِ فقہ کے تین حروف ہیں ’’ف ق ہ‘‘حرف ’’ف‘‘سے عالمِ فقہ نفس کو فنا کرتا ہے، نفس کی قید میں ہرگز نہیں آتا اور نہ اس کے تابع ہوتا ہے سواۓ عبادت کے کہ عبادت سرمایۂ ایمان و سعادت ہے اور بالیقین تقوی بارادت ہے-
حرف ’’ق‘‘سے عالمِ فقہ دین میں قوی ہوتا ہے- اگر دنیا بھر کی بادشاہی بھی دے دی جاۓ تو دین کے بدلے قبول نہیں کرتا-
حرف ’’ہ‘‘عالمِ فقہ رہنماۓ خلق ہوتا ہےجو مسائل اور وعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے‘‘-[8]
مزید ایک جگہ پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ارشاد فرماتے ہیں:
’’پس علمِ فقہ اور فقر چھ حروف کا مجموعہ ہے- جس آدمی نے بناۓ اسلام فقہ اور فقر دونوں کو جمع کرلیا چھ سمتوں کی ہر چیز اس کے قدموں میں آگئی-علمِ فقہ و علمِ ذکر فکر وہ علم ہے جو انسان کو ہواۓ نفس سے باز رکھتا ہے‘‘-[9]
ایک اور مقام پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ)ارشاد فرماتے ہیں:
’’جان لے کہ علم کے معنی ہیں جاننا، مسائلِ فقہ و فرض و واجب و سنت و مستحب کے علم کو جاننا-علم کے معنی ہیں جاننا حلال و حرام و مشتبہ و مکروہات کو جاننا‘‘-[10]
فقیہ کے معنی:
1. بالعموم فقہاء کرام کی نظر میں فقیہ کی تعریف:
’’فقیہ وہ عاقل بالغ مسلمان ہے جو اپنی صلاحیت کا حامل ہو جس کے ذریعے وہ استنباطِ احکام کی قدرت رکھتا ہو‘‘-[11]
2. محک الفقر کلاں میں فقیہ کی تعریف:
حضور سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) فقیہ کی تعریف بیان کرتے ہوۓ امام ابو حنیفہؒ کا قول نقل فرماتے ہیں کہ:
’’امام ابو حنیفہ کوفیؒ سے پوچھا گیا کہ فقیہ کسے کہتے ہیں؟ آپؒ نے جواب دیا کہ فقیہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرے اللہ کا خوف کھاۓ اور اللہ کے ہاں مقبول ہو- فرمانِ حق تعالی ہے:
’’جو اللہ سے ڈریں اور پرہیزگاری اختیار کریں تو وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘-[12]
پھر آپ (قدس اللہ سرّہٗ) خود فقیہ کی تعریف بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
’’فقیہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کی ممنوعہ چیزوں سے پرہیز کرے کیونکہ جب وہ اللہ سے نہیں ڈرے گا تو قرآن و حدیث کی تاویلات میں الجھ جاۓ گا اور حرام و مشتبہ چیزوں سے پرہیز نہیں کرے گا اور کاروبارِ دنیا میں غرق ہو کر معصیت و گناہ کے دلدل میں دھنستا چلا جاۓ گا‘‘-[13]
فقہ و تصوف کا تعلق
آئمہ اربعہ کی علمِ تصوف کے متعلق راۓ
1-امام ابو حنیفہؒ نے علمِ تصوف امام جعفر صادق ؒ سے حاصل کیا- جس کے متعلق آپؒ فرماتے ہیں:
’’لولاالنستان لھلک النعمان ‘‘[14]
’’اگر میرے دو سال تحصیلِ کمالاتِ باطنیہ میں صرف نہ ہوتے تو نعمان بن ثابت ہلاک ہو جاتا‘‘-
2-امام مالکؒ فقہ و تصوف کا تعلق بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
’’جس نے علم حاصل کیا اور تصوف سے بہرہ رہا- پس وہ فاسق ہوا اور جس نے تصوف کو اپنایا مگر فقہ کو نظر انداز کردیا وہ زندیق ہوا- جس نے دونوں کو جمع کیا پس اس نے حق کو پالیا‘‘[15]
3-امام شافعیؒ نے علمِ تصوف ہیبرہ بصری سے حاصل کیا علامہ علجونی نے کشف الخفاء میں ذکر کیا ہے کہ امام شافعیؒ نے فرمایا:
’’مجھے تمہاری دنیا کی تین چیزیں پسند ہیں ترکِ تکلف، مخلوق کے ساتھ لطف کے ساتھ زندگی گزارنا اور اہلِ تصوف کے طریقہ کی پیروی کرنا‘‘-[16]
4-حضرت امام احمد بن حنبلؒ بغداد کے صوفی حضرت بشر حافی کے عقیدت مند اور صحبت یافتہ تھے- یہاں تک کہ جب آپ سے کوئی شریعت کے مسائل دریافت کرتا تو خود بتاتے تھے لیکن طریقت کے مسائل دریافت کرنے کیلئے آپ لوگوں کو حضرت بشرحافیؒ کی خدمت میں بھیج دیتے یہ کَہ کر کہ مجھے خدا کے احکام کاعلم ہے لیکن بشر حافی کو خدا تعالیٰ کا علم حاصل ہے- [17]
ائمہ تصوف کی علم فقہ کے متعلق راۓ
مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب اہلِ تصوف کے نزدیک فقہ کی تعریف کو بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ:
’’صوفیوں کے نزدیک رب تعالیٰ کی ذات و صفات، نبی پاک (ﷺ) کے کمالات اپنے نفس قلب و روح کی کیفیات کا جاننا فقہ ہے‘‘-[18]
علامہ ابنِ عابدین شامی اہلِ تصوف کے نزدیک فقہ کی تعریف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اہلِ حقیقت کے نزدیک علم اور عمل کو جمع کرنا فقہ ہے‘‘-[19]
محک الفقر کلاں میں فقہ و تصوف کے تعلق پر فرمودات
1. ’’علم تصوف دراصل علم توحید ہے جس کا تعلق علم فقہ سے ہے اور علم فقہ کا تعلق علم حیا سے ہے- علم حیا کا تعلق دل میں درد و داغِ محبتِ مولیٰ سے ہے‘‘- [20]
2. ’’علم فقہ یا علم فقر فضل الٰہی ہے- یہ دونوں علوم راہنما ہیں جو حق کی گواہی دے کر باطل کی تکذیب کرتے ہیں‘‘-[21]
3. ’’جان لے کہ مومن مسلمان فقیر درویش عارف باللہ کو چاہیے کہ وہ ہر وقت شریعت و قرآن و احادیث کو پیشِ نظر رکھے اور علماۓ علم فقہ اسے جب بھی شریعت کا حکم سنائیں اور اس کی فرمانبرداری کرے اور جس چیز سے شریعت منع کرے اس سے رک جاۓ اور نفسانی حلیہ و حجت سے گریز کرے‘‘-[22]
4. ’’فقیر فرض و واجب و سنت و مستحب کی ادائیگی میں ہوشیار رہتا ہے اور اس کا دل قربِ ربانی کی خاطر ہر وقت نمازِ دائمی میں مشغول رہتا ہے‘‘-[23]
5. ’’فقیہ عالم بیس ہزار جاہل عابدوں سے افضل ہے‘‘-[24]
حضرت سلطان باھوؒ کا فقہی مذہب:
حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) حنفی المذہب تھے- جس کا اظہار آپؒ نے اپنی متعدد تصانیف میں فرمایا ہے- آپؒ جہاں اپنی تصانیف میں امام ابو حنیفہؒ کی عظمت کا ذکر فرماتے ہیں، وہیں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبلؒ کا ذکر بھی محبت سے فرماتےہیں- جیسا کہ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں ذکر ہے کہ:
’’علم میں چار اجتہادی مذاہب کے مجتہد اماموں کو مرتبہ اجتہاد پر سواۓ ان چار اماموں کے اور کوئی نہیں پہنچ سکتا اور یہ کہ چاروں اجتہادی مذاہب برحق ہیں- میں امام اعظم حضرت نعمان کوفی ؒ کے مذہب پر قائم ہوں- حضرت امام اعظمؒ شرک و کفر و بدعت و سرود سے پاک باطن صفا صوفی تھے‘‘-[25]
امام ابو حنیفہؒ نہ صرف فقہ کے بڑے امام ہیں بلکہ آپؒ اپنی تصنیف لطیف ’’محک الفقر ‘‘میں فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ اصحاب پاک(رضی اللہ عنہم) کے بعد فقر کی دولت دو حضرات نے پائی ایک غوث صمدانی محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی اور دوسرے حضرت امام ابو حنیفہ کوفیؒ جو ایک تارکِ دنیا صوفی تھے- آپ نے 70سال تک کوئی نماز قضاکی نہ روزہ کیونکہ ان اعمال کی قضا بندے کو اہلِ دنیا کا ہم نشین بناتی ہے-جس سے وجود میں ہواۓ نفس پیدا ہوتی ہے-انہوں نے ہواۓ نفس کو پاؤں تلے کچلا اور رضاۓ خداوندی اختیار کی‘‘-[26]
لائق ارشاد مرشد فقہ کا جاننے والا ہوتا ہے:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی جملہ تصانیف میں راہِ سلوک میں چلنے والوں کو علمِ فقہ پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں- اسی لئے آپ ؒ اپنی تصنیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں ایک لائق ارشاد مرشد ہونے کیلئے یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ اسے عالم فقہ بھی ہونا چاہیے جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’لائق ارشاد مرشد وہ ہے جس کے پیش نظر تفسیر مصحف و قرآن و احادیثِ نبوی (ﷺ) و قدسی رہے- صاحبِ عمل عالم فاضل ہو اور تحصیلِ علم کرکے فقیہ کامل بن چکا ہو- اس کے دائیں ہاتھ پر علمِ فقہ، کتبِ فقہ اور مسائلِ فقہ ہوں،بائیں ہاتھ پر حفاظ کلام ربانی، عارفانِ باللہ سبحانی مردِ مذکر فقرائے باطن صفا صاحبِ استغراق مشغول فی اللہ ہو اور اس کی پشت اہلِ دنیا و طالبِ دنیا ہوں‘‘-[27]
اس کے ساتھ آپؒ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مرشد فقہ اسلامی کی کھلم کھلا حکم عدولی کرتا ہے تو جان لو کہ وہ مرشد نہیں بلکہ شیطان ہے- جیسا کہ آپؒ کا فرمان مبارک ہے:
’’جب تو کسی مرشد کو دیکھے کہ اس کی دائیں جانب نغمہ و سرور میں مشغول گلوکار ہیں- بائیں جانب اُم الخبائث شراب یا مجلس اہل دنیا ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے روبرو حسن پرستی میں مشغول ہیں اور ان کے پسِ پشت فقراء ہیں تو ایسا مرشد شیطان ہے-جو بھی اس سے ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ ایک ساحر و کاہن و کاذب کا استدراج ہے‘‘-[28]
اسی طرح آپ(قدس اللہ سرّہٗ) یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ قرب الٰہی بغیر مرشد کامل کے حاصل نہیں ہوتا ، جس طرح آپ کے گزشتہ فرمودات علمِ ظاہر کی تاکیدِ شدید پہ مبنی ہیں اِسی طرح آپ فقط ظاہر پرستی کی بھی نفی کرتے ہیں کہ فقط ظاہری علم سلک و سلوک کی منازل طے کرنے اور حصولِ معرفتِ الٰہی کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کے لئے مرشدِ کامل کی صحبت و رفاقت ضروری ہے-آپ منکرینِ علمِ باطن کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اکثر علماء کَہ دیتے ہیں کہ اس زمانے میں صاحبِ ولایت و ہدایت اہلِ اللہ ولی اللہ فقیر روۓ زمین پر موجود نہیں رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو صرف مسائل فقہ کو ہی وسیلہ بنا لیتا ہے وہ باطن سے بے خبر ہو کر ظاہر میں مرشد ولی اللہ سے محروم رہتا ہے‘‘-[29]
فرض کا بیان
اصطلاحِ فقہ میں فرض کی تعریف:
’’فرض سے مراد وہ کام ہے جس کا کرنا ضروری ہو اس کا ترک کرنا لازماً منع ہو اور اس کا ثبوت بھی قطعی ہو اس کا انکار کفراور اس کا انکار کرنے والا عذاب کا مستحق ہو- خواہ دائماً ترک کیا جاۓ یا احیاناً‘‘- [30](کبھی کبھی)
محک الفقر شریف میں فرض سے متعلق فرمودات
1. تمام فرائض میں پہلا فرض ذکر اللہ یعنی کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘کا ذکر ہے- سب سے پہلا فرض ذکر اللہ ہے- چنانچہ پہلے تکبیر تحریمہ اللہ اکبر نماز میں فرض ہے- جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:-
’’ اور اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی‘‘-
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے’’افضل ترین ذکر کلمہ طیب کا ذکر ہے‘‘-[31]
2. کلمہ طیب کا تعلق چار چیزوں سے ہے جو فرضِ عین ہیں- پہلی چیز کلمہ طیب کا پڑھنا فرض ہے- دوسری چیز اگر کلمہ پڑھنے کو کہا جائے تو انکار نہ کرے بلکہ فورا کلمہ پڑھے- ایسی صورت میں کلمہ پڑھنا فرضِ عین ہے-تیسری چیز کلمہ طیب کے معنی جاننا فرض ہے- چوتھی چیز کلمہ طیب کو دائم پڑھنا فرض ہے- [32]
3. آدمی کے لیے پارسائی اور علم کی کثرت فرض نہیں ہے- لیکن علم پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا فرضِ عین ہے-[33]
4. ایک فرضِ ظاہر ہے اور ایک فرض باطن ہے- جب یہ دونوں جمع ہو جائیں تو مراتب قبولیت کو پہنچ جاتے ہیں- ایک فرضِ عمر ہے، ایک فرض ماہی (ماہانہ) ہے- ایک فرض سالی ہےاور ایک فرض فصلی ہے- یاد رہے کہ فرض عمر دو قسم کا ہے- ایک فرض عمر یہ ہے کہ بالغ ہونے پر اگر ایک بار کلمہ شہادت اورکلمہ طیب کا اقرار کرلیا جاۓ اوران کلمات میں موجود نامِ محمد (ﷺ) کو یاد کر لیا جاۓ تو یہ فرض گردن سے ساقط ہو جاتا ہے اوردوسرا فرض عمر یہ ہے کہ بلوغت کے بعد اگر ایک بار حج بیت اللہ ادا کرلیا جاۓ تو یہ فرض بھی گردن سے ساقط ہو جاتا ہے- فرض وقتی نماز ادا کرنا ہے- فرض ماہی رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے- فرض فصلی ہر فصل سے عشر ادا کرنا ہے- فرض سالی ہر سال کے اختتام پر مال کی زکوۃ دینا ہے اور وہ فرض جس کا تعلق ظاہر و باطن دونوں سے ہے اس کے متعلق تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ فرض دائمی ہے اور وہ باطن میں ذکرِ خفیہ ہے اور ذکرِ خفیہ اس ذکر کو کہتے ہیں جو چھوڑا نہیں جا سکتا ہر وقت کثرت سے کیا جاتا ہے اور خواب و بیداری کی کسی بھی حالت میں چھوڑا نہیں جا سکتا- [34]
ارکانِ اسلام:
اسلام کے پانچ ارکان ہیں انہیں ارکان الدین بھی کہا جاتا ہے-دینِ اسلام میں یہ ارکان بنیادی اصول ہیں- انہیں فرائض بھی کہا جاتا ہے-ان کا ذکر حدیثِ جبرائیل میں واضح طور پر کیا گیا ہے-اسلام کے مذکورہ ارکان میں سے کسی ایک رکن کی فرضیت کا انکار کرتے ہوۓ اسے ترک کرنے والا کافر ہو جاۓ گاالبتہ سستی اور کاہلی سے چھوڑنے والا سخت کبیرہ گناہ کا مرتکب اور فاسق ہوگا- ارکانِ اسلام پانچ ہیں:
1. کلمہ طیب کا اقرار 2. نماز
3۔ روزہ 4۔ زکوۃ
5۔ حج
محک الفقر کلاں میں ارکانِ اسلام کا بیان:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) جب بھی ارکانِ اسلام پر گفتگو فرماتے ہیں تو ارکانِ اسلام کے ظاہرکو ساتھ ان ارکان کے باطنی فیوض و برکات پر بھی گفتگو فرماتے ہیں کہ:
1. ’’جان لے کہ آدمی پانچ بناۓ اسلام سے مسلمان ہوتا ہےجو دس طریق پہ ہیں- پانچ کا تعلق ظاہر سے ہے اور پانچ کا تعلق باطن سے ہے- پہلے بناۓ اسلام کلمہ طیب لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے-جس کا ظاہر زبانی اقرار اور باطن تصدیقِ قلب ہے-دوسرا بناۓ اسلام نماز ہے-جس کا ظاہر نمازِ وقتی (نمازِ پنجگانہ) ہے اور باطن نمازِ دائمی ہے جو سراسر رازِ الٰہی ہے- تیسرا بناۓ اسلام روزہ ہے جس کا ظاہر ماہِ رمضان کے روزے ہیں اور باطن رضاۓ الٰہی ہے یعنی ہر مصیبت پر صبر کرنا - چوتھا بناۓ اسلام زکوۃ ہے جس کا ظاہر مال کی زکوۃ ہےاور باطن قربِ الٰہی میں جان کی زکوۃ ہے- پانچواں بناۓ اسلام حج ہے جس کا ظاہر حجِ ثواب ہے اور باطن حجِ بے حجاب‘‘-[35]
2. ’’جان لے کہ فرض دو قسم کا ہے- ایک فرضِ وقتی اور دوسرا فرضِ دائمی- فرضِ وقتی نماز و روزہ و حج و زکوۃ ہے اور فرضِ دائمی ذکر اللہ و مشاہدہ و معرفتِ الٰہی ہے- فرضِ دائمی کو غالب رکھ اور فرضِ وقتی کی نگہبانی کر اور اس کی ادائیگی کے لیے ایک وقت سے دوسرے وقت تک انتظار کر‘‘-[36]
لقمہ حلال و حرام:
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے- جو زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے- چاہے اس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہو یا چاہے اس کا تعلق انسان کی اجتماعی زندگی سے ہو- انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق اسلام کے ان احکامات کا اگر تجربہ کیا جاۓ تو ان کا خلاصہ حلال و حرام کے دو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے- اس لحاظ سے حلال و حرام کے موضوع میں اتنی وسعت ہے کہ زندگی کے تمام شعبے اس کے دائرے میں آ سکتے ہیں- اسی طرح رزق کے متعلق بھی اسلام ہمیں حلال کو اختیار کرنے اور حرام سے بچنے کا سختی سے حکم کرتا ہے- جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’یٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ‘‘[37]
’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘-
محک الفقر کلاں میں لقمہ
حلال و حرام پر فرمودات:
کھانے میں حلال حرام کی تمیز اور ناجائز چیزوں کو جائز چیزوں کے ساتھ خلط ملط نہ کرنے اور ہمیشہ رزق حلال کو اختیار کرنے پر سلطان العارفین(قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی تصانیف میں بہت زور دیا-اس حوالے سے بھی تصنیفِ لطیف محک الفقرکلاں میں جو گفتگو فرمائی ہے اس کے منتخب اقتباسات درج ذیل ہیں :
1. جان لے کہ علم معرفت اور عبادت کی جڑ لقمہ رزق ہے اور لقمہ بھی دو قسم کا ہے- ایک لقمہ حرام و مشتبہ ہےجو آتشِ دوزخ کی مثل ہے- اسی کے کھانے سے وجود میں حرص و حسد، غیبت و بغض، عناد و نفاق اور ریا و بے جمعیتی پیدا ہوتی ہے اور نفس و شیطان سے اختلاط بڑھ جاتا ہے- یہ ساری تاثیر حرام لقمے کی ہے- دوسرا لقمہ حلال ہے جو آبِ بہشت کی مثل ہے- جب رزقِ حلال کا لقمہ آدمی کے وجود میں داخل ہوتا ہے تو حرص کی آتشِ دوزخ سرد ہو کر نیست و نابود ہو جاتی ہے اور آدمی توبہ کر لیتا ہے-[38]
2. عقل کے مطابق رزقِ حرام کھانے والا پاگل کتے کی طرح خدا سے بیگانہ ہوتا ہے- چنانچہ مولانا رومؒ فرماتے ہیں:-
’’اہلِ دنیا پاگل کتے کی طرح دیوانے ہیں ان سے دور رہو کہ وہ اپنے پراۓ سے بیگانے ہیں‘‘-[39]
3. ’’حرام خور کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور رزق حرام اسے اللہ سے دور رکھتا ہے‘‘-[40]
4. جب آدمی حرام کھاتا ہے، غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے تو ان ناشائستہ افعال کی تاثیر اس کے تمام اعضاء میں دوڑ جاتی ہے اور اس کے ہر رونگٹے میں بد خوئی سما جاتی ہے اور رزقِ حرام سے اس کی ہر رگ اور گوشت پوست میں حرام خون جمع ہو جاتا ہے جس سے دل پر سیاہی اور فریبی چھا جاتی ہے- پھر معصیت شیطانی اور لذت نفس امارہ و نفسانیت سے اس کے دل کو راحت محسوس ہوتی ہے اور دل روح سے جدائی و بیگانگی اختیار کرکے مردہ و سیاہ و گمراہ ہو جاتا ہے-[41]
محک الفقر کلاں میں فقہی مسائل کا بیان:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصانیف میں عموماً فقہی مسائل پر گفتگو نہیں فرماتے لیکن اگر کسی جگہ پر آپ(قدس اللہ سرّہٗ) فقہی مسائل کو زیرِ بحث لاۓ بھی تو اکثر آپؒ اس کا تعلق علمِ تصوف سے جوڑتے ہیں اور اس کے باطنی اسرار پر گفتگو فرماتے ہیں لیکن بعض مقامات پر نہ صرف آپؒ فقہی مسائل کو زیرِ بحث لاۓ ہیں بلکہ اپنی راۓ کا اظہار بھی فرماتے ہیں لیکن یہ مباحث آپؒ کی تصانیف میں الگ الگ مقام پر موجود ہیں جنہیں یکجا کرنے کی ضرورت ہے ہم یہاں صرف محک الفقر میں موجود آپؒ کے چند فرمودات کو پیش کریں گے-
1. کلمہ شہادت کے وقت انگلی اٹھانا:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ)نے اس شرعی مسئلے پر نہ صرف اپنی راۓ کا اظہار فرمایا بلکہ علماء اس مسئلے پر کیا کیا آراء رکھتے ہیں اس کا بھی ذکر کیا ہے، جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’کلمہ شہادت پڑھتے وقت اور گواہی دیتے وقت شہادت کی انگلی اٹھانا مستحب ہے اور دورانِ نماز التحیات پڑھتے ہوۓ بوقتِ شہادت بھی انگلی اٹھانا مستحب ہے- بعض علماء کے نزدیک سنت اور بعض اسےبدعت قرار دیتے ہیں‘‘-[42]
2. ناسخ و منسوخ کا بیان:
قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے اور علم الاحکام سے متعلق آیات کو سمجھنے کے لیے فقیہ کو جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے ان میں سے ایک علم ناسخ و منسوخ کا ہے جس کے متعلق آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:
’’علماء انبیاء کے وارث ہیں کہ وہ انبیاء کے ہر علوم کو پڑھتے اور سمجھتے ہیں اور علم کا عمل ختمِ قرآن ہے اور قرآن نے پہلے کے تمام انبیاء کے علم کو منسوخ کردیا ہے- قرآن میں آیات ناسخ و منسوخ موجود ہیں- جو کوئی قرآن و احادیث قدسی واحادیثِ نبوی (ﷺ) و اقوالِ اصحاب و مناسخ و راسخِ دین کے خلاف کرتا ہے اسے وارثِ انبیاء عالم نہیں کہا جا سکتا‘‘-[43]
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’یہ کتاب قرآن و احادیث کی روشنی میں اسم اللہ ذات کی پرتاثیر تفسیر ہے- جو اسے پڑھے گا عارف باللہ ہو جاۓ گا- جو اس کے معنی سمجھے گا وہ روشن ضمیر فنافی اللہ فقیر ہو جاۓگا اور علم میں علماۓ عامل اور معرفت میں فقیرِکامل ہو جاۓ گااور آیات ناسخ کی تحقیق میں دائم مستغرق رہنے والا محققین کے دقیق نکات و حقائق کو سمجھ لے گا‘‘-[44]
3. کنویں سے متعلق شرعی مسئلہ:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف ’’محک الفقر‘‘ میں کنویں سے متعلق ایک شرعی مسئلہ بیان کرتے ہیں اور پھر اسی مثال کو زیرِ بحث لاتے ہوۓ علمِ تصوف کا ایک نکتہ سمجھاتے ہیں کہ:
’’جان لے کہ آدمی کا وجود کنویں کی مثل ہے- دل پانی کی مثل ہے اور خطرات و غفلت و ذکر اللہ سے اجتناب اس میں مردہ چوہے کی مثل ہے- اس لیے لازم ہے کہ پہلے غفلت کے مردہ چوہے کو نکالا جاۓ- پھر حکمِ شرعی کے مطابق بیس تیس ڈول پانی نکالا جاۓ- یہاں ڈول سے مراد غیر ماسویٰ اللہ کی دلیل ہے- اس کے بعد کنویں کا پانی پاک ہوگا اور اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہوگی‘‘-[45]
4. بچے کی سپردگی کا شرعی مسئلہ:
والدین میں جدائی ہو جاۓ اور بچے کی سپردگی کا تنازع کھڑا ہوجاۓ تو بچے کو کس کے سپرد کرنا چاہیے- اس شرعی مسئلے پرگفتگو فرماتے ہوۓ آپ(قدس اللہ سرّہٗ) لکھتے ہیں:
’’شرحِ محمدی (ﷺ) کا فتویٰ ہے کہ اگر والدین میں جدائی ہو جاۓ اوربچے کی سپردگی کا تنازع کھڑا ہو جاۓ تو بچے کو ماں کے سپرد کردیا جاۓ- یہ واجب ہے اور جب بچہ حدِ شرعی کو پہنچے تو بچے کو والد کے سپرد کردیا جاۓ- تاکہ حلولِ مدتِ تربیت کے واسطہ سے بچے کا حق اصلی زائل نہ ہو‘‘-[46]
5. زنا سے متعلق شرعی مسئلہ:
آپ(قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف محک الفقر میں زنا کے ممنوع اور مردود ہونے پر قرآن و سنت اورعقلی دلائل کو پیش کرتے ہوۓ رقم فرماتے ہیں کہ:
’’زنا بالطبع ممنوع اور مردود ہے- کلام مجیدِ ربانی میں اسی پر اقامت حد کا حکم وارد ہے- چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
’’ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ‘‘[47]
’’بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جب کہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے)‘‘-
دریائے نبوت (ﷺ) کی احادیث میں پوری صحت کے ساتھ زنا کو کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے-اس کے علاوہ عقلی دلائل سے بھی واضح ہے کہ انتظامِ امورِ عالم کا سارا دار و مدار غیرت و محبت پر ہےاورعدم غیرت آدمی کوحیوان سے بدتر بنا دیتی ہے کہ عدم غیرت فقدانِ عقل کا نتیجہ ہے‘‘-[48]
حرفِ آخر :
زیرِ نظر مضمون میں سلطان العارفینؒ کی مایہ ناز تصنیفِ لطیف محک الفقر کلاں سے چند فرموداتِ علمِ فقہ پیش کئے گئے ہیں- لیکن یہ مباحث آپؒ کی دیگر تصانیف میں بھی موجود ہیں- اگر آپؒ کی تمام کتب میں موجود فقہ سے متعلق فرمودات کو اکٹھا کیا جاۓ اور اس پر تحقیقی کام کیا جاۓ تو علمی دنیا میں یہ ایک خوبصورت اضافہ ہوگا- اب یہ اہلِ علم پر فرض بنتا ہے کہ وہ آپؒ کی تصانیف پر تحقیق کریں اوران گوشوں کو منصۂ شہود پر لائیں جن سے علمی دنیا بے خبر ہے-
٭٭٭
[1](حضرت سلطان باھوؒ، ’’محک الفقر کلاں‘‘، العارفین پبلیکیشنز، لاہور، جنوری 2015، ص:17)
[2](سیّد امیر خان نیازی، ’’تفہیم الکلام‘‘ العارفین پبلیکیشنز، لاہور، مارچ 2012 ء، ص:5)
[3](محک الفقر ،ص: 25)
[4](لسان العرب، ج:13، ص:522)
[5](النہایہ، ج:3، ص:417، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت ١٤١٨ھ)
[6](الزرکشی،المنثور، ج:1، ص:68)
[7](فواتح الدحموت بشرح مسلم الثبوت ، ج:1، ص:13)
[8](محک الفقر،ص:193)
[9](محک الفقر،ص:41)
[10](محک الفقر،ص:185)
[11](التقریربا حوالہ وکی پیڈیا)
[12](محک الفقر،ص:255)
[13](محک الفقر،ص:457)
[14](الحٓاوی والحدیقہ وردالمختار، ج:1، ص:45)