ذکر کنوں کر فکر ہمیشاں ایہہ لفظ تِکھا تلواروں ھو
کڈھن آہیں تے جان جلا ون فکر کرن اسراروں ھو
ذاکر سوئی جہڑے فکر کماون ہک پلک ناں فارغ یاروں ھو
فکر دا پھٹیا کوئی نہ جیوے پٹے مڈھ چا پاڑوں ھو
حق دا کلمہ آکھیں باھوؒ رب رکھے فکر دی ماروں ھو
Always engage in reflection instead of dhikr this word is sharper then sword Hoo
With sigh, they burn their soul and they reflect from secrets abode Hoo
Zakirs are those who earn reflection and for a blink from beloved never in disassociation Hoo
It will uproots no one survives strike of reflection, Hoo
Speak of truth Hazrat Bahoo ra Rabb secures us from reflections affliction Hoo
Zikr kano’N kar fikr hamesha’N aeh lafz tikha talwaro’N Hoo
Ka’Dhan Aahe’N tay jan jalawan fikr karan asraro’N Hoo
Zakir soi jeh”ray fikr kamawan hik palak na’N faragh yaro’N Hoo
Fikr da pa’Tya koi na jeway pa’Tay mu’Dh cha pa’Ro’N Hoo
Haq da kalma Aakhi’N Bahoo rab rakhy fikr di maro’N Hoo
تجرد تفکر بکس زادِ راہ |
|
بدین توشہ ہمت شود عین شاہ[1] |
’’اگرکسی کو تجرد تفکر کا زادِ راہ میسر آجائے تواس توشہہ ہمت سے وہ بادشاہ بن جاتا ہے‘‘-
فکر وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنے اعمال کو پرکھتاہے اور محاسبہِ نفس کرتا ہے،فکر کی بدولت انسا ن خیر و شر میں تمیز کرتا ہے او ریہ تمام سائنسی معجزات غور و فکر کا ہی نتیجہ ہیں، لیکن یہاں پر آپ (قدس اللہ سرّہٗ) جس فکر کوذکر پر ترجیح دے رہے ہیں وہ انسان کا اپنے باطن میں فکر ہے،جیساکہ اللہ پاک نے ارشادفرمایا :
’’اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ‘‘[2] ’’کیا انہوں نے اپنے اندر فکر نہیں کیا‘‘
اسی فکر کی وضاحت کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
’’تمام عابدوں کی عبادت گھڑی کےتفکرسےکامل ہوجاتی ہے -جیساکہ نبی پاک (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’تَفَکَّرُ السَّاعَۃِ خَیْرٌمِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ‘‘[3] ’’گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہانوں کی عبادت سے بہتر ہے‘‘-
یہاں فکرسے مراد اپنے خالق ِ حقیقی کے قرب و وصال کی جستجوہے جو سالک اپنے من کی دنیا میں کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی رضاکےموتی تلاش کرتا ہے -
2-صاحبانِ عشق کے ہاں جو فکر ہوتی ہے، اس میں ان کا خون ِ جگر شامل ہوتا ہے،اس میں اغیار حتی کہ اپنی جان کا مفاد بھی پیش ِ نظر نہیں ہوتا بلکہ صرف اورصرف اللہ پاک کی رضا مقصود ہوتی ہے اور جو لوگ صحیح معنوں میں فکر کرتے ہیں توا للہ پاک ان پر اپنی ذات اقد س کی معرفت کے دروازے وا فرماتا ہے-حضورسلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں کہ:
’’پانی پیاسا پیتاہے،کھانابھوکا کھاتاہے،سر کو فدا عاشق کرتا ہے اورطلب مولیٰ کا بھوکا اپنے جگر کاخون پیتاہے ‘‘-[4]
’’جو شخص ہمیشہ خونِ جگر پیتاہے وہ عاشق فقیر ہوجاتاہے‘‘-[5]
3- اہل اللہ کے نزدیک حقیقی ذاکر وہی ہوتے ہیں جن کا لمحہ لمحہ معبودِ حقیقی کی یاد و تصور میں گزرتا ہے اور وہ اپنی سانسوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتے بلکہ وہ ہر لمحہ جو یادِ الہٰی کے علاوہ بسر ہو اس کو اپنی زندگی کا حصہ ہی تصور نہیں کرتے- جیسا کہ حضور سلطان العارفین صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں:
’’یاد رکھیے کہ بندے کو ایک دم کے لئے بھی ذکر خدا سے غافل نہیں رہنا چاہیے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ :’’ سانس گنتی کے ہیں اور جو دم اللہ عزوجل کی یاد کے بغیر جاتاہے وہ مردہ ہے‘‘-[6]
4-اہل اللہ جب فکر کے مراحل سے گزرتے ہیں تو وہ خلوص اورللہیت کی بنا پر اس راز تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بارے میں حدیث ِ قدسی میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے : ’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا رازہوں ‘‘[7]اوراسی راز کے بارے میں حضور شہنشاہ بغداد (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ:
’’یہ وہ بھید ہے کہ جسے معراج کی رات نبی پاک(ﷺ)کے قلب مبارک کے 30ہزار بطون میں سے سب سے گہرے بطن میں ودیعت کیا گیا اورحضور پا ک (ﷺ) نے اسے عوام میں سے کسی پرظاہر نہیں فرمایا سوائے اصحابِ مقربین اوراصحابِ صفہ کے-پس اسی بھید کی برکت سے شریعت قیامت تک قائم رہے گی اوراس بھید تک صرف علمِ باطن ہی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے،باقی تمام علوم ومعارف اس بھید کی حفاظت کے لیے چھال یا چھلکا (کی حیثیت رکھتے) ہیں‘‘-[8]
اس راز تک رسائی کے لیے بقول اقبالؒ ’’چیتے کا جگر چاہیے،شاہین کا تجسّس‘‘جیسا کہ حضورپاک (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:
’’مردان خد ا کی ہمت پہاڑوں کو بنیاد سے اکھیڑدیتی ہے‘‘-[9]
5-جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو ذکر و فکر کی دولت سے بہرہ مند فرماتاہے،تو وہ حق و صداقت کا علمبردار بن جاتاہے،ہمارے اکابرین نے بھی حق کوجان و دل سے اپنانے کا حکم دیا ہے کیونکہ:
ازاں کشتِ خرابے حاصلے نیست |
|
کہ آب از خونِ شبیر ندارد[10] |
’’ایسی ویران کھیتی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جس کی آبیاری سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے خون (مقدس) سے نہ کی گئی ہو‘‘-
نواسہ ٔرسول (ﷺ)،جگرگوشۂ بتول کی پوری زندگی مبارک حق سچ سے عبارت ہے آپ (رضی اللہ عنہ) نے پوری زندگی حق بات کہی،حق کاساتھ دیا یہاں تک حق کی خاطر اپنی جان،مال الغرض سب کچھ قربان فرماکر اپنے معبودِ حقیقی کی رضاکوحاصل کیااورآج بھی اللہ پاک کی رضاکا یہی معیارہے کہ حق بات کہی جائے،حق کا ساتھ دیاجائے اورہروقت حق کے خاطرجان،مال اوراہل وعیال کی قربانی کےلیے تیار رہاجائے -اسی کی تلقین حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ :آپ ہمیشہ حق بات کہیں،حق سچ کا ساتھ دیں کیونکہ حق تعالیٰ کی بارگا ہ میں ’’حق،سچ‘‘ کے علاوہ کچھ قبو ل نہیں ہوتا-
[1](محک الفقر کلاں)
[2](الروم:8)
[3](نور الہدی)
[4](امیر الکونین)
[5](نور الہدی)
[6](شمس العارفین)
[7](عقل بیدار)
[8](سرالاسرارمایحتاج الیہ الابرار)
[9](ایضاً)
[10](ارمغانِ حجاز)