ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

راتیں نین رت ہنجوں روون تے ڈیہاں غمزہ غم دا ھو
پڑھ توحید وڑیا
تن اندر سکھ آرام ناں سمدا ھو
سرسولی تے چاٹنگیونے ایہو راز پرم دا ھو
سدھا ہو کوہیوئیے باھوؒ قطرہ رہے ناں غم دا ھو

Eyes cry blood at night and in daytime sorrow of grief Hoo

By reciting monotheism entered in being cannot sleep a moments brief Hoo

Placed the head upon crucifixion this is the secret of love’s belief Hoo

Get slaughtered straight away ‘Bahoo’ will leave drop of grief Hoo

Rati’N nain hanjo rowan tay Deeha’N ghamza gham da Hoo

PaRh Tawheed waRya tan andar sukhh aaram na’N samda Hoo

Sarr soli tay cha tangyonay eho raz param da Hoo

Siddha ho kohiwiye ‘Bahoo’ qatra rahy na’N gham da Hoo

دل بگریاں جان بریان جگر خون

 

بر زبان ہرگز نیابد حرفِ چون[1]

’’(جب دل وحدت آشناہوتاہے تو ) دل گریہ زاری کرتا رہتا ہے جان جلتی رہتی ہے اورجگر خون ریز رہتا ہے لیکن زبان پر اُف تک نہیں آتی ‘‘-

جن خوش نصیب لوگوں کو اللہ پاک دولت ِفقرسے نوازتاہے ان کے شب و روز  اللہ تعالیٰ کی یاد میں بسر ہوتے ہیں اور ہمیشہ اللہ پاک کی یاد میں جلتے رہتے ہیں اور وہ دنیاوی راحت وسکون کوپسند نہیں کرتے جیساکہ حضورنبی رحمت (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے :

’’اَلسَّکُوْنُ حَرَامٌ عَلَی قُلُوْبِ الْاَوْلِیَاِء‘‘[2]

 

’’اولیاء اللہ کے دلوں پہ سکون حرام ہے ‘‘-

سوچنے کی بات یہ ہے جہاں  ہرکوئی راحت وآرام کامتلاشی ہے وہاں عاشق ا ضطراب و بے چینی کو ترجیح دیتاہے - اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتےہیں:

دل فقر در نظر اللہ پاک ذات

 

دل کہ باشد نظرِ اللہ چاک چاک

’’دولت ِ فقر سے معمور دل ہمیشہ اللہ پاک کی نظرمیں رہتاہے اور اللہ پاک کی نظر میں آیا ہوا دل ہمیشہ چاک چاک رہتا ہے ‘‘-

2-جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت انسان کے دل میں راسخ ہوجاتی ہے  تو اس وقت  اس کو وقتی آرام وسکون اچھے نہیں لگتے ،بلکہ وہ ’’سراپاسوختن اندرطلب‘‘  کے مصداق بن جاتے ہیں اور ان کی زندگی اللہ پاک کے اس فرمان کے مطابق گزرتی ہے :

’’قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ اللہِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ‘‘[3]

 

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اﷲ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘-

3-پیار ومحبت کے راستے کا راز یہ ہے کہ جان جوکھوں میں ڈال کرسر کو محبوب کے قدموں میں قربان کر دیا جائے  جیساکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فرماتے ہیں :

’’ جس طرح جانور کو اَللہُ اَکْبَرُ  کَہ کر چھری سے ذبح نہ کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا- اِسی طرح اگرنفس کو  اَللہُ اَکْبَرُ  کی تکبیر سے ذبح نہ کیا جائے معرفت ِوصالِ حق تک ہرگز نہیں پہنچا جا سکتا -جو آدمی موت سے ڈرتا ہے وہ عاشق نہیں، ابھی خام ہے- جو طلب ِدیدار کا دعویٰ کرتا ہے مگر خود کو مارتا نہیں وہ اہل ِدنیائے مردار ہے - مجاہدہ بامشاہدہ، ریاضت با راز اور دائمی نماز کی عبادت کہ جس سے اسرارِ پروردگار کے تمام حجابات اُٹھتے ہیں‘‘-[4]

4-عشق قربانی مانگتا ہے تو جب قربانی کے بغیر انسان کو منزل نہیں ملتی تو انسان کو بغیر کسی لیت ولعل کے قربانی دینی چاہیے -جیساکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کو جب اللہ پاک کی راہ میں اپنے فرزندارجمند کی قربانی کا حکم ہوتا ہے، تو آپ (علیہ السلام ) جب بیٹے کواللہ تعالیٰ کا حکم سناتے ہیں ،تو آپ (علیہ السلام )کے لختِ جگر عرض کرتے ہیں :

’’قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘[5]

 

(اسما عیل علیہ السلام نے) کہا ابّاجان! وہ کام (فوراً) کرڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے-اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے‘‘-

مرشد  طالب کی تربیت بھی اس نہج پہ کرتا ہے کہ(وہ) طالب راہِ حق میں جان قربان  کر کے خوشی محسوس کرے،جس طرح دنیا کے سب سے بڑے مرشد ہادی اکمل (ﷺ)نے اپنے  غلاموں کو تسلیم و رضا کا اس قدر پیکر بنایا کہ  صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی تمام خواہشات ختم ہوگئیں اورایک صرف تمنا وحسرت باقی رہی ’’یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ‘‘ [6]اوراس تمنا کو پورا کر نے کے لیے جان قربان کرنا ان کے لیے ایک اعزاز کی بات بن گئی،بلکہ ان کی دل کی حسرت کو اگر ایک شعر میں یوں بیان کیاجائے تو بے جانہ ہوگا :

جان دی دی ہوئی اسی کی تھی

 

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

مرشد کامل کی طالب سے جہاں شریعت، طریقت کے حوالے کئی مطالبات ہوتے ہیں وہاں سب سے بڑایہ مطالبہ بھی ہوتاہے ؛ بقول حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ):

’’مرشد طالب سے کیا چاہتاہے؟ جانِ عزیز کی نقدی-جو طالب راہِ مولیٰ ٰمیں سر قربان نہیں کرسکتا وہ نامرد ہے اور معرفت ِ لامکان سے محروم رہتاہے-مرد طالب وہ ہے جو راہِ مولیٰ میں جان تو دے دے مگر دم نہ مارے - ایسا ہی طالب روشن ضمیر،باشعور اور لائق ِحضور ہوتاہے‘‘-[7]


[1](کلید التوحید کلاں)

[2](نور الہدی)

[3](الانعام:162)

[4](عقل بیدار)

[5](الصافات:102)

[6](الانعام:52)

[7](نور الہدی)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر