جتھے رتی عشق وکاوے اوتھے مناط ں ایمان دویوے ھو
کتب کتاباں ورد وظیفے اوتر چا کچیوے ھو
باجھوں مرشد کجھ نہ حاصل توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ھو
مرئیے مرن تھیں اگے باھوؒ تاں رب حاصل تھیوے ھو
Jithey ratti ishq wikawey othey man'aN eman diviwey Hoo
Kutub kitaba'N wird wazifey otar cha kacheewey Hoo
BajhooN Murshid kujh na hasil toR'ey rateeN jaag paR'heewey Hoo
Marye maran theeN agey "Bahoo" taaN Rabb hasil theewey Hoo
Where love sold in rati then sell many kilos of Iman (faith) there Hoo
Books and rituals initiated for additional over exchanged where Hoo
Without mentor, nothing achieved even if night vigils observed mere Hoo
Die before the death "Bahoo" then God achieved anywhere Hoo
تشریح :
عشق اورایمان ایک دوسرے کے حریف ہیں نہ ہی ان میں کوئی مسابقت ہے -دونوں ایک ہی منزل (اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ )کی جانب رہنمائی کرتے ہیں -مگر ان دونوں کے درجات اور فضیلت میںفرق موجود ہے اورایمان پہ عشق کوفوقیت حاصل ہے -خدا برحق پہ یقین کی ابتدائی حالت ایمان ہے جب کہ اُس کے اَنوار تک رسائی حاصل کرنے کی کاوش میں کامیابی کو عشق ہیں -عشق میں وصال الٰہی کاجذبہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ عاشق کو اپنی خبر بھی نہیں رہتی ،اُس کی زندگی کا ہرسانس ،ہر پل اورہر عمل عین رضائے الٰہی کے مطابق ہوتا ہے یوں عشق کی تکمیل دیدِ حق تعالیٰ کی نعمت عظمٰی سے ہوتی ہے -ایمان : اقرار اورتصدیق کاپہلا مرحلہ ہے یہاں پہ دُنیَوی اوراُخروی حیات کے بے پناہ رنگ بکھرے ہوتے ہیں اوران میں سے خداکا رنگ (صبغۃ اللہ ) تلاش کرنا ایک دِقّت طلب کام ہے-اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر عاشق ایماندار ہوتا ہے لیکن ہر ایماندار عاشق نہیں ہوتا-حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ نے عشق اورایمان کے مراتب کو وزن کی پیمائش کے رائج پیمانوں کے استعارات سے عام فہم بنایا-وزن کی قلیل مقدار رتّی کہلاتی ہے اوربھاری بھرکم بوجھ کو من کہتے ہیں -’’رتّی عشق ‘‘سے مراد ہر دوجہاں سے بے نیاز ہوکر وصالِ الٰہی کی طلب میں مگن ہونا اور’’منا ں ایمان‘‘خدا کی ذات کے بارے میں علم الیقین تک محدود ہو، کیونکہ اگر رہنمائی ٹھیک مل جائے تو معقولات بھی ایمان کو تقویت دینے کا راستہ ہیں اِس لئے علمی مباحثہ تک محدود چیز کو آپ رحمۃ اللہ علیہ عشق کی بجائے ایمان میں تصور کرتے ہیں اور جو چیز بحث سے نکل کر مشاہدہ میں داخل ہو جائے اُسے آپ عشق سے تعبیر فرماتے ہیں -آپ رحمۃ اللہ علیہ مبتدی سالک کونصیحت فرماتے ہیں کہ جہاں سے عشق الٰہی کی جھلک نصیب ہو وہاں پہ ڈٹ جائو بھلے تمہیں دستارِ فضیلت سے بھی دستبرار ہونا پڑا تو بھی خسارے کاسودا نہیں کیونکہ ایک لمحہ کاعشق بھی ذات مقدسہ کے انوار وتجلیات تک رسائی عطا کرسکتاہے-ایسے اعمال میں خود کوغارت نہ کروجن کاحاصل اللہ تعالیٰ کے سوا ہو،جو محض دُنیَوی نمود ونمائش کے لئے اختیار کیے جائیں -علامہ اقبال بھی اسی طریق کے مدعی ہیں:ماسوااللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تیری تومسلمان ہوتو تقدیر تدبیر تری عشق الٰہی کے لئے ایسا صاحب ارشاد مرشد تلاش کرو جو معرفت حق تعالیٰ کاداعی ہو اورصاحبِ تصور اسم اللہ ذات ہو-مرشد کامل کے بغیر عشق الٰہی کا گوہر ہاتھ نہیں آتا بھلے ساری عمر اطاعت وپرہیزگاری میں گزار دو-مرشد کامل حیاتِ عشق عطاکرتا ہے اور ایسی تربیت سے گزارتا ہے کہ زندگی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں عاشق فقیر کے قلب سے ہر وہ خواہش مٹا دیتا ہے جو راہِ الی اللہ میں رکاوٹ ہو ،یہی ’’وفات سے پہلے مرنا ہے ‘‘ زندگی میں ہی ایسی موت طاری کرنے سے معرفت الٰہی کی حیاتِ جاوداں حاصل ہوتی ہے-