رات اندھیری کالی دے وِچ عِشق چَراغ جلانْدا ھو
جَیندی سِک توں دل چا نیوے توڑے نہیں آواز سنانْدا ھو
اوجھڑ جھل تے مارُو بیلے اِتھے دم دم خوف شیہاں دا ھو
تھَل جَل جنگل گئے جھَگیندے باھوؒ کامل نِینْہہ جِنْہانْدا ھو
In the darkness of night, ishq kindles light Hoo
In whose love your heart breaks there is no sounds signs or sight Hoo
Receded river turned into jungle all the while remains the fear of lions might Hoo
They will cross jungle, deserts and river Bahoo those who have ishq perfectly upright Hoo
Raat andheri kaali de wich ishq chiragh jalaanda Hoo
Jaindi sik to’N dil cha niway to’Ray nahi awaz sunaanda Hoo
Ojha’R jhal tay maro baylay ethay dam dam khauf shihaa’N da Hoo
Thal jhal jangal gaye jhagainday Bahoo kamil neenh jinhaanda Hoo
تشریح:
واصلان را بس بود نامِ خدا |
|
روز و شب بعشقِ وحدتِ کبریا[1] |
’’واصلانِ حق کے لئے اللہ کا نام ہی کافی ہے کہ وہ اُنہیں ہر وقت وحدتِ کبریا کے عشق میں غرق رکھتا ہے‘‘ -
یہ دنیا اندھیری رات ہے نفسانیت،شیطانیت،کفر،نفاق اور دیگر مادی قوتیں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں،بظاہر سالک کا اس میں رہتے ہوئے اس سے متاثر ہوئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنے لیے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے عشق کا چراغ جلا کر اپنے دل کوروشن کرلے-
2: عاشق چونکہ اپنے معبودِ حقیقی کے وصال کے علاوہ کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتا اور اسی کی طلب و جستجو میں اس کےشب و روز بسر ہوتے ہیں اور اس سفر میں محبوب ِ حقیقی کا عشق ہی اس کا متاع ِ کل ہوتا ہے- کیونکہ عشق ایک ایسا جذبہ و کیفیت ہے جس کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے دیکھا یا سُنا نہیں جاسکتا اور ایسی صورتِ حال میں محب اپنے محبو ب سے زبانی کلام سے ماورٰی ہوتا ہے،جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :
بی سری بینم خدا را بی زبانم ہم سخن |
|
معرفت توحید اینست ہم راز ہم آوازِ کُن[2] |
’’ مَیں بے سر ہو کر خدا کو دیکھتا ہوں اور بے زبان ہو کراُس سے ہم کلام ہوتا ہوں ، یہی معرفت ِتوحید ہے کہ بندہ اُس کا ہم راز و ہم آواز بن جائے‘‘-
ایک اورمقام پہ آپؒ فرماتے ہیں :
’’علمِ باطن کا عالم اُسے کہتے ہیں جو بے سر و بے زبان و بے چشم و بے دست و بے کان و بے قدم و بے دل ہو کیونکہ شاگردِ ازلی اُستادِ باطن سے فیض و فضل اور علمِ معرفت ِتوحید یعنی اسم اللہ ذات کا سبق بے زبان پڑھتا ہے،بے کان سنتاہے، بے آنکھ دیکھتا ہے ، بے قدم چلتا ہے اوربے دست پکڑتا ہے-اِس قسم کا زندہ دل عارف دنیا و آخرت دونوں جہان میں زندہ رہتا ہے اور ہر گز نہیں مرتا-ایسے عارفوں کا جسم نور ہوتا ہے‘‘- [3]
3: جس طرح ایک تنگ و تاریک رات میں سفر کرنے والے مسافرکو مختلف جانوروں کا خو ف ہر دم کھائے رہتا ہے،ایسے ہی طالب کو مختلف قسم کے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے،انہی آزمائشوں اور رکاوٹوں کو بیان کر کے ا ن کا حل بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
’’دنیا کی جڑ جہالت ہے، غیریت و شرک و کفر ہے کہ دنیا کافروں کا ورثہ ہے،اُن کا فخر ہے اور اُن کی عزت ہے-اَلغرض!دنیا، شیطان اور نفس ِاَمّارہ تینوں مردود ہیں اور اولاد ِ آدم ؑکو گمراہ کرنے کے لئے اِن تینوں نے پورے اخلاص کے ساتھ آپس میں اِتحاد کر رکھا ہے- دنیا اپنے نازک بدن کو زیب و زینت سے سجا کر اور خوب صورت چہرے کوحسن سےآراستہ کرکے لوگوں کے سامنے آتی ہے اور اکثر لوگوں کے دل موہ کر اُنہیں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے- جو شخص دنیا کی قید میں آجاتاہے اُس کے وجود میں خطرات ِشیطانی ، وسوسہ و وہمات ِ نفسانی اور حرص و حسد و طمع و کبرو ہوا جڑ پکڑ لیتے ہیں اور وہ اَنا پرستی کا شکا ر ہوکر راہ ِراستی سے ہٹ جاتاہے اور ہمیشہ اِس بات کے لئے علمی حیلے اور شیطانی حجت تلاش کرتا رہتاہے کہ ہدایت کے لئے وسیلۂ مرشد کی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ فرمانِ اِلٰہی ہے: ’’اے اِیمان والو! اﷲسے ڈرو اور اُ س کی طرف وسیلہ تلاش کرو ‘‘-[4]
4:اس آخر ی بند میں آپؒ طالب ِ صادق کی حوصلہ افزائی فرمارہے ہیں کہ اگرچہ راہِ فقر مشکلات سے بھر پور ہے ایک طرف جہاں انسا ن کو نادید ہ مخالف قوتوں (نفس وشیطان ) سے برسرِ پیکار ہونا پڑتا ہے وہاں دیدہ مخالف قوتوں(دنیا اوراہل ِ دنیا) سے بھی طالب کو پنجہ آزمائی کرنا پڑتی ہے اس کے باوجود اللہ پاک جن کو خلوص وللہیت کی دولت عطا فرماتاہے وہ ان مشکلات کو عبور کرلیتے ہیں بلکہ ان کو خاطر میں بھی نہیں لاتے-جیساکہ آپؒ ایک اورمقام پہ ارشادفرماتے ہیں :
’’یاد رکھ! کہ ہدایت ِ الٰہی کے بغیر علم اِنسان کو خود پسندی اور کبر و ہوا میں مبتلا کر دیتا ہے چنانچہ علم نے بلعم باعور اور ابلیس کو اللہ تعالیٰ کے قربِ حضوری سے محروم کر دیا لیکن ہدایت ِالٰہی ، اخلاص و محبت اورحُبّ ِمولیٰ نے اصحابِ کہف اور اُن کے کتے کو بُعد و دوری سے نکال کر قربِ حضوری میں پہنچا دیا‘‘-[5]