(گزشتہ سے پیوستہ)
مشائخ کی ایک جماعت نے شیخ ابو مدین شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’آپ نے ایک دن مغرب (مشرق کے مد مقابل علاقہ) میں اپنے ہمراہوں کے درمیان اپنی گردن کو جھکا دیا اور فرمایا اور میں بھی ان میں سے ہوں، اے اللہ میں تجھے اور تیرے ملائکہ کو گواہ بناتا ہوں کہ بے شک میں نے سُن لیا اور اطاعت کی-‘‘
آپ کے ہمراہوں نے آپ سے اس کے بارے عرض کی تو آپ نے فرمایا:-
’’شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابھی ابھی بغداد میں یہ فرمایا ہے کہ {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ}(یعنی میرا یہ قدم تمام اَولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے)‘‘ -
مشائخ نے شیخ عبد الرحیم المغربی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ
’’انہوں نے اپنی گردن کو جھکاتے ہوئے فرمایا {صَدَقَ الصَّادِقُ} سچ بولنے والے نے سچ کہا-‘‘
عرض کیا گیا کہ وہ کون ہیں؟تو فرمایا:-
’’شیخ عبد القادر رضی اللہ عنہ نے ابھی ابھی بغداد میںفرمایا ہے {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} (یعنی میرا یہ قدم تمام اَولیاء اللہ کی گردنوں پر ہے) اور مشرق و مغرب کے تمام مردانِ وِلایت نے اس پر سرِ تسلیم خم کر لیا ہے-ہم نے اس کی تاریخ لکھ لی- پھر ہم پر واضح ہوگیا کہ امرِ واقعہ یوں ہی ہے-‘‘
اس مفہوم کی روایات کثیر ہیں- فقہاء اور مشائخ نے شیخ ابو نجیب السہروردی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’وہ شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوئے - آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} تو شیخ ابو نجیب سہروردی نے سر کو اتنا جھکا لیا حتی کہ قریب تھا کہ زمین کو جا لگے - انہوں نے تین مرتبہ فرمایا {عَلٰی رَاْسِیْ، عَلٰی رَاْسِیْ، عَلٰی رَاْسِیْ} (آپ کا قدم مبارک) میرے سر پر، میرے سر پر ، میرے سر پر- ‘‘
شیخ عثمان بن مرزوق اور شیخ ابو الکرم رحمۃ اللہ علیھما سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’شیخ عثما ن بن مرزوق اور شیخ ابو الکرم ہمارے مشائخ کی زیارت کے لیے مصر سے بغداد تشریف لائے- وہ دونوں شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر ہوئے - اس دن اس مجلس میں عراق کے بزرگ ترین مشائخ موجود تھے-شیخ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ } تمام حاضرینِ مجلس نے اپنی گردنیں جھکا لیں- شیخ عثمان بن مرزوق نے بھی اپنا سر جھکا لیا اور شیخ ابو الکرم نے بھی ایسا ہی کیا- جب سب چلے گئے تو شیخ ابو الکرم نے فرمایا کہ زمین کے ہر ولی اللہ نے ایسا ہی کیا جیسے حاضرینِ مجلس نے کیا مگر اصفہان کے ایک آدمی نے ایسا نہ کیا تو اس سے اس کی (باطنی) حالت سلب کر لی گئی- ‘‘
مشائخ کی ایک جماعت نے خبر دی جن میں سے آخری شیخ ابو القاسم البطایحی الحدادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں- انہوں نے فرمایا کہ:-
’’ مَیں لبنان کے علاقہ جبل کی طرف آیا تاکہ یہاں کے صالحین کی زیارت کروں- ایک دن اصفہان کے ایک آدمی کو دیکھا جسے جبلِ لبنان میں لمبے عرصے سے رہنے کی وجہ سے الشیخ عبد اللہ الجبلی کہا جاتا تھا- مَیں اس کے قریب آکر بیٹھا اور پوچھا کہ جناب عالی! آپ کو یہاں رہتے ہوئے کتنا عرصہ ہوگیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ساٹھ (۶۰) سال ہوگئے ہیں- میں نے عرض کی کہ یہاں عجائب میں سے کونسی اصل چیز ہے؟
انہوں نے فرمایا: -
ایک مرتبہ مَیں یہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک ٹھنڈی رات مَیں نے جبل کے رہنے والوں کو دیکھا کہ وہ اکٹھے ہو رہے ہیں اور عراق کی طرف گروہ در گروہ ہوا میں اُڑ اُڑ کر جا رہے ہیں- مَیں نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں حضرت خضر علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ ہم بغداد آئیں اور وقت کے قطب کے پاس جمع ہو جائیں- ‘‘ میں نے پوچھا کہ وہ کون ہیں؟اس نے بتایا کہ الشیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ-میں نے اس سے ساتھ چلنے کی اجازت مانگی تو اس نے کہا کہ ٹھیک ہے (تم بھی ساتھ چلو)
ہم ہوا میں چلے اور تھوڑا سا ہی چلے تھے کہ بغداد پہنچ گئے - پس وہ سب شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کے سامنے صفیں بنائے کھڑے تھے اور ان میں سے بزرگ شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کو {یا سیّدنا} اے ہمارے سردار کہہ رہے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ انہیں کوئی خاص حکم دے رہے تھے اور وہ اس کی فرمانبرداری میں بڑی جلدی کر رہے تھے- پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں واپسی کا حکم دیا اور وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے سے پچھلے قدموں پر لوٹے یہاں تک کہ سب کے سب ہوا میں بلند ہو گئے اور میں بھی ان میں شامل تھا- مَیں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اس رات کے ادب کی طرح ادب نہیں دیکھا اور اس طرح ان کے حکم کی فرمانبرداری میں جلدی بھی نہیں دیکھی(تو اس کی کیا وجہ ہے؟)
اس نے بتایا کہ ایسا کیوں نہ ہوتا ، یہ وہ ہستی مبارک ہیں جنہوں نے فرمایا ہے کہ {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} ’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘اور ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے-‘‘
مشائخ نے خبر دی ہے جن میں سے آخری ابو الثناء محمود بن احمد الکردی رضی اللہ عنہ ہیں- انہوں نے فرمایاکہ:-
’’شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کے اس قول {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} کے بعد جب اولیاء، ابدال، اوتاد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضری دیتے تو ان کا سلام یہ ہوتا تھا کہ
{السلام علیک یا ملک الزمان و یا امام المکان ، یا قائما بامر اللّٰہ و یا وارث کتاب اللّٰہ و یا نائب رسول اللّٰہ و یامن السماء والارض مائدتہ و اھل وقتہ کلھم عائلتہ یامن ینزل القطر بدعوتہ و یدر الضرع ببرکتہ رضی اللّٰہ عنہ}
’’اے زمانے کے مالک آپ پر سلام ہو، اے امام المکان، اے اللہ کے حکم کو نافذ کرنے والے، اے اللہ کی کتاب کے وارث، اے رسول اللہ ﷺ کے نائب، اے وہ مبارک ذات کہ زمین و آسمان جس کا دستر خوان ہے، سب کے سب اہلِ وقت جس کی اولاد ہیں، جس کی دعا سے بارش نازل ہوتی ہے، جس کی برکت سے دودھ میں اضافہ ہوتا ہے- اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا -‘‘
مشائخ نے حضرت قضیب البان الموصلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبردی- ’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں ان کے بارے جو منقول ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی حالت نہایت ہی عجیب و غریب تھی- صاحبِ بہجۃ الاسرار رضی اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا مقرب ولی ہے -
’’انہی حضرت قضیب البان الموصلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کوئی دیکھا ہے؟
انہوں نے فرمایا کہ نہیں-(کیونکہ آپ کی شان یہ ہے کہ) اس {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ}کے فرمان کے بعد اولیاء ، ابدال اور غیبی آپ کے پاس اس حالت میں حاضری دیتے کہ آپ کی ہیبت سے ان کے سرجھکے ہوتے تھے-‘‘
مشائخ نے شیخ العالم الربانی ابو نجیب عبد القاہر السہروردی سے روایت کی- انہوں نے فرمایا:-
’’مَیں بغداد میں شیخ حماد دَباس کے پاس تھا اور شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے پاس موجود تھے- شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ نے کوئی بہت بڑی بات فرما دی- شیخ حماد نے کہااے عبد القادر ! آپ نے بڑی عجیب بات کہہ دی ہے- کیا آپ کو اس بات کا خوف نہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قول کو ردکر دے - پس شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا دستِ مبارک شیخ حماد کے سینہ پر رکھا اور فرمایا کہ اپنے دل کی آنکھ سے دیکھ کہ میرے ہاتھ میں کیا لکھا ہے ؟ شیخ حماد پست نگاہ سے متوجہ ہوئے- پھر شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ مبارک شیخ حماد کے سینے سے اُٹھا لیا- شیخ حماد نے فرمایا کہ میں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ مبارک پر پڑھا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے ستر وعدے لیے ہیں کہ وہ آپ کے قول کو رد نہیں فرمائے گا- راوی نے بتایا کہ شیخ حماد نے فرمایا کہ اس کے بعد کوئی حرج نہیں ، اس کے بعد کوئی حرج نہیں- یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور جسے وہ چاہتا ہے یہ فضل عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ عظیم فضل والا ہے- ‘‘
مشائخ نے شیخ عدی بن مسافر اور شیخ احمد بن الرفاعی رحمۃ اللہ علیھما سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’شیخ احمد بن الرفاعی شیخ عدی بن مسافر کی خدمت میں شاگرد بن کر حاضر ہوئے - شیخ عدی بن مسافر نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ بغداد سے ہوں اور شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصحاب میں سے ہوں- انہوں نے فرمایا: کہ واہ واہ یہ وہ زمین کے قطب ہیں جن کے لیے تین سو اولیاء اللہ نے اور سات سو غیبیوں نے جو زمین پر بھی بیٹھے تھے اور فضا میں بھی تھے، انہوں نے اس آنِ واحد میں اپنی گردنیں جھکا دیں جس وقت آپ نے فرمایا {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} ‘‘-
’’راوی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی- پھر کچھ عرصے بعد میںام عبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ شیخ احمد بن الرفاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کروں- پھر میں نے وہ بات آپ سے ذکر کی جو میں نے شیخ عدی سے اس بارے سنی تھی تو شیخ احمد بن الرفاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ شیخ عدی نے سچ فرمایا ہے-‘‘
مشائخ کے ایک مجمع نے شیخ ماجد الکردی اور شیخ مطر البارد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھما سے روایت کی ہے کہ:-
’’جب (بہت سے بزرگ) شیخ ماجد کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ ہماری عزت افزائی ہوئی اور ہم ان کے پاس چند دن ٹھہرے رہے- جب ہم نے ان سے سفر کی اجازت مانگی تو انہوں نے فرمایا کہ مَیں تمہیں ایک قول کا زادِ راہ دیتا ہوں جو تم مجھ سے منقول کرو گے- (وہ یہ ہے کہ)جب شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ}تو اس وقت زمین میں کوئی اللہ تعالیٰ کا ولی ایسا نہیں تھا جس نے شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ بارگاہ میں عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی جگہ پر ٹھہرتے ہوئے گردن نہ جھکائی ہو اور اس وقت صالحین جنات کی کوئی مجلس نہ تھی جس میں اس کا تذکرہ نہ ہو- تمام آفاق سے صالحین جنات کے قافلوں نے شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں سلام پیش کرنے اور آپ کے دستِ اقدس پر توبہ کرنے کا ارادہ کیا اور آپ کے در پر جمع ہوگئے-‘‘
’’بزرگوں نے بتایا کہ ہم شیخ ماجد الکردی کو الوداع کہا اور جلدی سے شیخ مطر البارد کی زیارت کے لیے آئے-جو کچھ ہم نے شیخ ماجد سے سنا تھا وہ ہمارے اندرچھپا ہوا تھا- جب ہم شیخ مطر کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ہمیں مرحباکہا اور فرمایا کہ میرے بھائی شیخ ماجد نے شیخ عبد القادر الجیلانی کے بارے جو تمہیں خبر دی ہے وہ سچ فرمایا ہے- ‘‘
مشائخ نے شیخ حیات بن قیس الحرانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ:-
’’ان کے پاس ایک شخص آیا اور عہدِ بیعت کی عرض کی- آپ نے فرمایا کہ تجھ پر میرے علاوہ کسی اور کی مہر ہے-اس نے کہا کہ میں شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب رہا ہوں لیکن میں نے ان کا خرقہ (خلافت) کسی سے حاصل نہیں کیاہے- اس نے کہا کہ ہم شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زیرِ سایہ کافی عرصہ تک رہتے رہے ہیں-آپ کی معرفت کی گھاٹ سے بابرکت پیالہ پیا ہے- آپ صادق النفس تھے ان کے وجود سے صدق ظاہر ہوتا تھا، آپ کے نور کی شعائیں آفاق میں پھیل جاتی تھیں- صاحبانِ حال اپنے مراتب کے مطابق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راز حاصل کرتے - اور جب آپ کو یہ فرمانے کا حکم ملا {قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلیٍّ لِّلّٰہِ} تو اللہ تعالیٰ نے اولیاء کے سر جھکانے کی برکت کے سبب ان کے قلوب میں نور کا اضافہ کر دیا، ان کے علوم میں برکت بڑھا دی اور ان کے احوال کی بلندی کو اور زیادہ کردیا-‘‘
مشائخ کا غوث الاعظم سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطلق احترام کا ذکر:
شیخ ابو محمد الشنبکی رضی اللہ تعالیٰ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:-
’’ہمارے شیخ ابو بکر بن ہرار البطایحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا کرتے تھے کہ یہ وہ ہستی ہیں جو عنقریب عراق میں پانچویں صدی کے وسط میں ظاہر ہوں گی- ان کے فضیلت کو بلند کیا گیا ہے-ان کے بارے میرے علم نے میری سماعتوں سے تجاوز نہیں کیا تھا پھر مجھ پر اولیاء کے مقامات کا کشف ہوا شیخ محی الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے سردار ہیں، اور مجھ پر قطبوں کے مقامات کا کشف ہوا ان کے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدر ہیںاور پھر مقربین کے مقامات کا کشف ہوا ، ان سے بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلند ہیں، پھر مکاشفین کے اطوار کا کشف ہوا، آپ رضی اللہ تعالیٰ ان سے بھی بزرگ تر ہیں- آپ رضی اللہ تعالیٰ وہ ذات ہیں جن کے افعال اور اقوال کی پیروی کی جاتی ہے- عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے غلاموں کے درجات بلند فرمائے گا- آپ ہی ان ہستیوں میں سے ہیں جن پراللہ تعالیٰ قیامت کے روز باقی امتوں پر فخر فرمائے گا- ‘‘
فضیلت کی روایات میں سے ایک روایت شیخ عزار البطایحی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سن ۴۸۷ ھ سے منقول ہے- وہ فرماتے ہیں کہ:-
’’ایک بزرگی و شرف والا عجمی نوجوان بغداد میں داخل ہوا ہے جس کا نام عبد القادر ہے- عنقریب ان کی ہیبت سے مقامات ظاہر ہوں گے اور ان کی جلال میں کرامات ظاہر ہوں گی- ان کی عزت کے سبب حال کی کثرت ہوگی، ان کی بلندی کے سبب محبت بلند ہوگی، کائنات اور اس میں جو بھی فاضل و مفضول ہے وہ مدتوں تک ان کے سامنے سر خم تسلیم کرے گی- ان کا حالتِ تمکین میں ایک مضبوط قدم ہے جس سبب قِدم پیش قدمی کرے گااور حقائق میں ان کا ایک یدِ بیضاء ہے جس کی وجہ سے مقامِ ازل ممتاز ہوگا- حضرت قدس میں اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت کے درمیان وہ زبان (کی تلوار) ہیں اور وہ ایسے مراتب کے مالک ہوں گے جو بہت سے اولیاء اللہ کے نصیب میں نہیں ہوئے- رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘‘
فضیلت کی روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے جو شیخ منصور البطایحی سے منقول ہے کہ:-
’’ ان کے ہاں شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کیا گیاجب کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی جوان تھے-ایک دن فرمایا کہ عنقریب زمانہ ان کا محتاج بن کر ان کے پاس حاضر ہوگااور عارفین کے درمیان اس کی منزلت بلند ہوگی - وہ اس حال میں اس دنیا سے پردہ فرمائیں گے کہ اس وقت میں وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک تمام اہلِ زمین سے زیادہ محبوب ہوں گے-تم میں سے جو اس وقت کو پائے تو وہ ان کے حرمت کو پہچانے اور ان کے حکم کی تعظیم کرے- رضی اللہ تعالیٰ عنہ-‘‘
فضیلت کا ایک قول شیخ حماد الدباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ:-
’’ان کے سامنے ایک نوجوان کا ذکر ہواکہ اس کے سرمبارک پر ولایت کے دو جھنڈے بلندہیں-‘‘
ایک روایت شیخ عقیل المنیجی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ :-
’’انہوں نے فرمایا کہ جب ان کے سامنے یہ کہا گیا کہ بغداد میں ایک عجمی شرف و بزرگی والے نوجوان نے کافی شہرت حاصل کر لی ہے جن کا نام عبد القادر ہے تو شیخ نے فرمایاکہ ان کا حکم آسمانوں میں زمین سے بھی زیادہ مشہور ہے- یہ وہ بلند مرتبے والا نوجوان ہے کہ جسے عالم ملکوت میں {الباز الاشہب}شہباز پکارا جاتا ہے- عنقریب یہ اپنے وقت میں منفرد ہوگا-حکم اسی کی طرف لوٹے گا اور اسی کی طرف سے جاری ہوگا-‘‘
ایک روایت شیخ ابی یعز المغربی سے منقول ہے کہ:-
’’ان کا کوئی ساتھی ان سے بغداد کی طرف سفر کرنے کی اجازت لینے کے لیے آیا- آپ نے اسے فرمایا کہ جب تم بغداد پہنچو تو ایک عجمی شریف نوجوان کی زیارت سے محروم نہ رہنا جس کا نام عبد القادر ہے- جب تم ان کی زیارت کرو تو میری طرف سے انہیں سلام بھیجنااور میرے لیے دعا کی عرض کرنا اور ان سے عرض کرنا کہ ابو یعز کو اپنے دل سے نہ بھلا دینا- اللہ کی قسم عجم میں ان جیسا کوئی پیدا نہیں کیا گیااور نہ ہی عراق میں ان جیسا کوئی دکھائی دیتا ہے-ان کی وجہ سے پورے کا پورا مشرق مغرب پر فضیلت لے جائے گا- ان کا علم و نسب تمام اولیاء سے واضح طور پر ممتاز ہوگا- ‘‘
ایک روایت شیخ عدی بن مسافر سے منقول ہے کہ:-
’’جب شیخ ابو القاسم عمر البزاز رحمۃ اللہ علیہ شیخ غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے شیخ عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے تو شیخ عدی بن مسافر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اے عمر ! تم گہرے سمندر کو چھوڑ کر ایک ندی کے پاس آگئے ہو- اے عمر شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام اَولیاء کی گردنوں کے مالک ہیں اور اس زمانے میں محبت کے تمام گھڑ سواروں کے سردار ہیں-‘‘
چار صفحات کم سے کم کہے گئے تھے اگر زیادہ ہوں تو زیادہ بہتر ہے جبکہ یہ تو سوا تین بھی پورے نہیں - مفتی شمشاد صاحب سے گزارش کریں کہ یہ ایسا کام نہیں جس پہ اپنی نفسانی خواہشات کو مقدّم رکھّا جائے ، حضور پاک کی بارگاہ سے خساروں سے چھٹکارے کیلئے لگائی گئی ڈیوٹی دل لگا کر کریں وگرنہ کئی مترجم آئے اور مر کھپ گئے ان کے آثار تک کی کسی کو خبر نہیں -
علمے دا ناں مانڑ کریں ، تے ناں آکھیں میں پڑھیا
او جبّار قھّار اکھاوے متاں روڑھ چھڈی دودھ کڑھیا