جو پاکی بن پاک ماہی دے سو پاکی جان پلیتی ھو
ہک بتخانیں جا واصل ہوئے ہک خالی رہے مسیتی ھو
عشق دی بازی انہاں لئی جنہاں سر دتیاں ڈھل ناں کیتی ھو
ہرگز دوست نہ ملدا باھوؔؒ جنہاں ترٹی چوڑ نہ کیتی ھو
Jo paki bin pak mahi dey so paki jan paliti Hoo
Hik botkhaneiN ja wasil hoye hik khali rahey masiti Hoo
Ishq di bazi unhaa'N lae jinhaa'N sar dityaa'N dhill na kiti Hoo
Hargiz dost na milda "Bahoo" jinhaa'N taratti choR na kitit Hoo
Purity without pious beloved, consider such purity as impurity Hoo
Some have attained union in temple and yet some has remained (without union) in mosque Hoo
Those who won the game of love whom have not delayed sacrificing their head Hoo
Beloved will never be accessed 'Bahoo' until livelihood not relinquished Hoo
تشریح:
درج بالا بیت میں ’’پاک ماہی ‘‘سے مراد رضائے الٰہی یعنی معرفت وقربِ حق تعالیٰ ہے -واقعات ازل اس امر پہ شاہد ہیں کہ انسانی اَرواح روزِ الست کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے قرب ووِصال سے سرشار رہی تھیں بعدازاں انسانی اَرواح کے وعدۂ بندگی اوردعویٰ محبت الٰہی کی بناپہ اللہ تعالیٰ نے انسانی اَرواح کوبشری لباس میں قید کرکے دُنیاکے کمرۂ امتحان میں بھیجاتاکہ انسان کو محبتِ الٰہی میں استحکام اورابدیت نصیب رہے -اِسی لئے اہل اللہ فقراء اپنے اعمال کی پاکیزگی کو عرفانِ ذاتِ حق تعالیٰ کے درجات سے جانچتے ہیں یعنی اعمال کی قبولیت کو معرفتِ حق تعالیٰ کے حصول سے منسوب کرتے ہیں -انسان فطرتِ سلیم پہ پیدا کیاگیااورفطرتِ سلیم نورِ عرفان ذات کے سوا کوئی دوسرا تقاضہ نہیں کرتی -انسانی رُوح جب ظاہری جسم کے لبادے میں آنکھ کھولتی ہے تو اِس کے قلب میں، عالم لاہوت اور قربِ الٰہی کی یادکے اثرات باقی ہوتے ہیں -اس لیے بچپن کے ابتدائی دور میں ‘انسان دُنیامیں رہ کر بھی ،دُنیا کی محبت میں گرفتارنہیں ہوتا ‘اور اپنی فطرتِ سلیم قائم رکھتا ہے لیکن رفتہ رفتہ انسان اپنے اردگرد حیاتی ماحول میں لوازماتِ زندگی اوردنیَوی رشتوں کی اہمیت محسوس کرتاہے -ضروریاتِ زندگی کی اہمیت کے پیش ِنظر آنکھ سے دکھائی دینے والی چیزوںاوردیگر انسانی رشتوں کوپہچاننے لگتاہے تو اِن کا عکس انسان کے قلب ورُوح پہ پڑتاہے اورجیسے ہی انسان دنیَوی تعلقات کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو ان اشیاء وغیرہ کاعکس ‘انسان کے دل میں ایک بت کی مانند ساکن ہوجاتاہے-انسان کے قلب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے مخصوص فرمایاتھا مگر دنیَوی محبتیں قلب کے کعبۂ اعظم کو بت خانے میں تبدیل کردیتی ہیں - ایک دوسری جگہ فرمایا:غفلت کنوں نہ کھلیس پردے دل جاہل بتخانہ ھو‘‘ ایسے میں اگر دینِ حنیف کے رفیقِ راہ یعنی مرشد کامل کی رفاقت نصیب ہوتو مرشد تصورِاسم اللہ ذات کے ذریعے مذکورہ محبتوں کے بتوں کو پاش پاش کرنے میں انسان کی معاونت کرتاہے -جس کی وجہ سے انسان کواپنے دل ہی سے معرفتِ الٰہی نصیب ہوجاتی ہے - حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’خدائے عزّوجل کی معرفت وپہچان دل کے نور سے ہوتی ہے نہ کہ دل کی ظلمت سے -(عین الفقر:۱۵۳) دل کو ماسوٰی اللہ کی محبتوں سے پاک کیے بغیر قرب الٰہی کے درجات حاصل نہیں ہوتے- معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کیلئے مرشد کامل، انسان کو عشقِ الٰہی میں جان کی بازی لگانے کی ترغیب دیتاہے اورراہِ الی اللہ میں ہر چیز قربان کرنے کاحوصلہ عطا کرتاہے-