۱- عین الفقر کا مطالعہ:-
راہِ شریعت پر گامزن ہو کر ہی توحید میں حق الیقین کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے:-
ابیات-:
پیکرِ من از توحید ش شد توحید ش د ر توحید
عین زاں توحید مطلق لاسویٰ د یگر ند ید
(1) ’’ میرا وجود توحید ِحق تعالیٰ میں غرق ہو کر عین توحید ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھے توحید ِ مطلق کے سوا کچھ نظر نہیں آتا-‘‘
بُرد بالا عرش و کرسی با شر یعت شاہراہ
ہرمقامش خوش بد ید م سِرِّ وحد ت از اِ لٰہ
(2) ’’ راہِ شریعت پر گامزن ہو کر مَیں عرش و کرسی سے بالا تر مقامات پر جا پہنچا اور سرِّ وحدت کے ہر مقام کا خوب مشاہدہ کیا-‘‘
ز ہر حرف توحید بینی ہر سطر توحید بین
باش د ائم د ر مطالعہ تا شوی حق الیقین
(3) ’’اے طالب ! ہر حرف اور ہر سطر میں توحید کا مطالعہ کر اور ہمیشہ اِس مطالعہ کو جاری رکھ حتیٰ کہ تجھے حق الیقین کا مرتبہ حاصل ہو جائے-‘‘
(۱) توحید کے انوار سالک کے چہرے اور دل پر ظاہر ہوتے ہیں:-
’’جب کوئی فقیر فنا فی اللہ ہو کر مقامِ اَناَ میں پہنچ جاتا ہے تو اس پر حالت ِسکر وارد ہو جاتی ہے اور اس کے وجود سے تین طرح کے انوارِ توحید جلوہ گر ہوتے ہیں، اس کی پیشانی نورِ توحید سے جگمگا اٹھتی ہے، اس کی آنکھیں انوارِ توحید سے منوّر ہو جاتی ہیں اور اس کا دل انوارِ توحید سے روشن ہو جاتا ہے-‘‘
(۲) امتِ محمدیہ کے فقیر ظاہر و باطن کے ساتھ نورِ توحید میں غرق ہوتے ہیں:-
’’دانائی سے کام لے اور یاد رکھ کہ یہ’’ فقر‘‘ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فخر ہے اور ا ِس کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ نے یہ انعام عطا فرمایا ہے-: ’’ تم بہترین امت ہو تمام امتوں میں سے-‘‘ قُمْ بِاِذْ نِ اللّٰہِ عیسیٰ علیہ السلام کا مرتبہ ہے اور قُمْ بِاِذْ نِیْ حضرت محمد رسول اللہ صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کا مرتبہ ہے ]اِشارہ ہے حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی معروف کرامات کی طرف، جن کا اِعتراف اپنوں بیگانوں سبھی نے کیا(مرتّبہ عفی عنہ) [ - ‘‘
(۳) از اِنتہا تا ابتدا:-
’’جب عارف باللہ واصل فنا فی اللہ فقیر اسم اللہ کا نقش تصور سے اپنے دل پر لکھ لیتا ہے تو وہ دیکھتاہے کہ اس کا جسم اسمِ اللہ میں غرق ہو کر غائب ہو گیا ہے اور جسم کے بجائے اسمِ اللہ ظاہر ہو گیا ہے تو وہ ظاہرو باطن کا ہر مشاہدہ اسمِ اللہ ہی سے کرتا ہے- پھر اس کے وجود میں ذکر اذکار کی لذت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی سوزشِ اسمِ اللہ کی وجہ سے ذکر اذکار میں اُس کا دل لگتا ہے- وہ جس طرف بھی دیکھتا ہے اسے اسمِ اللہ ہی نظر آتا ہے خواہ وہ اسمِ اللہ کی طرف نہ بھی دیکھے- اسے اللہ کے سوا کوئی چیز پسند نہیں آتی - اسے ہر چیز کے مغز و پوست میں (اسمِ )اللہ ہی (اسمِ )اللہ نظر آتا ہے اور وہ کامل صاحب ِغنایت ہو جاتا ہے- اس کا نفس قلب بن جاتا ہے، قلب روح کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، روح سرّ بن جاتی ہے، سرّ خفی بن جاتا ہے، خفی اَنا میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اَنا مخفی میں ڈھل جاتی ہے- اِسے (منازلِ سلوک میں ) توحید ِمطلق (کا مقامِ مُشاہدہ) کہتے ہیں- یہاں پر پہنچ کر ابتدا انتہا بن جاتی ہے کہ ابتدا نور ِتوحید ہے جس سے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوا- نورِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روح پیدا ہوئی اور روح سے نورِ روشنائی، اسم، جسم ، قلب، نفس، قالب، مطلب، مطالب اور وجودِ اربعہ عناصر پیدا ہوئے - ‘‘
(۴) توحیدِ کامل میں مستغرق سالک کو حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تنبیہ:-
’’پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی مرشد ِکامل مکمل کسی طالب اللہ کو اسمِ اللہ کا نقش عطا کرتا ہے تو اسے پل بھر میں عین توحید ِ ذات (کے اَنوار و تجلّیات) میں غرق کر دیتا ہے- وہ اسے صفات میں ہرگز نہیں چھوڑتا کیونکہ توحید بُرد کئے بغیر محض مقامات ِصفات تک پہنچانا (اور یہاں چھوڑ کر آگے کی راہنمائی نہ کرنا راہِ سلوک میں) سراسر شرک ہے-
بیت-:
فرشتہ گرچہ دارد قربِِ درگاہ
نگنجد در مقامِ ’’ لِیْ مَعَ اللّٰہِ‘‘
’’اگرچہ فرشتے کو بارگاہ ِ الٰہی میں قرب حاصل ہے مگر مقامِ{ لِیْ مَعَ اللّٰہِ } تک تو اُس کی رسائی نہیں ہے- ‘‘
اگر تجھے توحید ِکامل کا اِستغراق نصیب ہو جائے تو خبردار ! کوئی عمل خلافِ شرع اور خلاف ِ سنت ہرگز نہ کرنا-‘‘(۵)
ابیات-:
حقیقتِ ابتدا از من چہ پُرسی
نبودی کن قلم نہ عرش و کرسی
’’ تو مجھ سے حقیقت ِ ابتدا کیا پوچھتا ہے؟ ابتدا میں کُن تھا نہ قلم، عرش تھا نہ کرسی-‘‘
نہ بودہ ہیچ کس آں جا خدا بود
کجا بودی من ، اینان ، تو ، بمقصود
’’صرف ذاتِ خدا تھی- مَیں کہاں تھا؟ لوگ کہاں تھے؟ اور تم کہاں تھے؟ ‘‘
خدا بودی بہ من و من با خدائی
توحید مطلق است مقامِ کبریائی
’’مَیں توحید ِمطلق (کے انوار میں ) میں غرق ہو کر خدا کے ساتھ تھا اور خدا میرے ساتھ تھا، یہی مقامِ کبریا ہے کہ توحید ِمطلق ہی مقامِ کبریا ہے-‘‘
نبودی شش جہات و زیر و بالا
بہ قدرتِ خویش بودی حق تعالیٰ
’’اس وقت شش جہات تھیں اور نہ پست و بالا، فقط ذاتِ حق تعالیٰ تھی جو اپنی قدرت سے موجود تھی-‘‘
باھُوا! مکانِ حق بود در لامکانی
کہ سِرِّ عاشقاں سِرِّ نہانی
’’اے باھو ! مکانِ حق تعالیٰ لامکان میں ہے- یہ ایک مخفی راز ہے جو صرف عاشقوں پر کھولا جاتا ہے-‘‘
توحید (کے اَنوار) کا مُشاہدہ لاہوتی ہے:-
’’مشاہدہ پندرہ قسم کا ہے، چودہ قسم کا مشاہدہ ناسوت (مقامِ دنیا) کے چودہ طبقات کا مشاہد ہے اور پندرہویں قسم کا مشاہدہ دونوں جہان سے بالا تر لاھوت لامکان کا مشاہدہ ہے- لاھوت عین ذات(کے اَنوار) کا مقام ہے جہاں فقط توحید ِباری تعالیٰ ہے- ہر ایک مقام کی شرح الگ الگ ہے- چنانچہ تسبیح ِزبان و نفس و قلب و روح و چاند و سورج و جن و فرشتے و شیطان و آگ و ہوا و پانی و مٹی و صورتِ شیخ کے مشاہدہ کی یہ چودہ اقسام ناسوتی ہیں جبکہ پندرھویں قسم کا مشاہدہ مقامِ فنا فی اللہ بقا باللہ ذات کا مشاہدہ ہے جو سراسر توحید ہے- یہاں پر فقر کی تکمیل ہو جاتی ہے اور فرمایا گیا ہے -: ’’ جب فقر کامل ہو تا ہے تو اللہ ہی اللہ ہوتا ہے‘‘ (یعنی ہر طرف انوارِ الٰہی ہوتے ہیں ) -جب طالب اللہ مقامِ توحید (کے اَنوار) میں غرق ہو جاتا ہے تو ناسوت کے جملہ چودہ مقامات سے الگ ہو جاتا ہے-‘‘(۷)
توحید فنا فی اللّٰہ کو صرف اللّٰہ کی خبر ہوتی ہے:-
’’اہل ِفنا فی اللہ کا نفس نہیں ہوتا جیسا کہ ’’ لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ‘‘ و الی حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ظاہر ہے-
چنانچہ رابعہ بصری سے پوچھا گیا-:
’’نفس و شیطان و دنیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ آپ نے جواب دیا-:
’’ مَیں توحید ِفنا فی اللہ میں اِس قدر غرق ہوں کہ مجھے نفس کی خبر ہی نہیں اور نہ ہی مجھے شیطان و دنیا کی خبر ہے-‘‘(۸)
اہل اللّٰہ غرقِ توحید ہوتے ہیں:-
’’اگر خلوت و گوشہ نشینی اور ریاضت سے کسی کو حضوری ٔ حق حاصل ہوتی تو مرغیوں کو ہوتی- جسے بھی حضوریٔ حق نصیب ہوئی صحبت ِ اہل اللہ سے حاصل ہوئی کہ وہ غرقِ توحید ہوتے ہیں-‘‘(۹)
لبّیک عبدی :-
’’اگر مَیں ایک مرتبہ کہوں’’ یَا اللہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ بیس مرتبہ بذریعہ الہام جواب دیتا ہے ’’ لَبَّیْکَ عَبْدِیْ ‘‘-ا لہام کا یہ مرتبہ بھی آسان ہے- مرد کو چاہیے کہ وہ غرقِ توحید ِفنا فی اللہ ہو-‘‘(۱۰)
ابیات-:
ہیچ ہمہ در ہیچ بودند آں وقتش باخدا
خلوتی خوش یافتم اندر مقامِ کبریا
’’اُس وقت کچھ بھی نہ تھا، ہر شے نابود تھی لیکن مَیں تھا خدا کے ساتھ مقامِ کبریا میں خلوت نشین-‘‘(۱۱)
اللّٰہ تعالیٰ کی رضا:-
’’اگر تو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی رہے تو شغل ِتوحید ِمعر فت (تصورِاسم اللہ ذات) سے پورے اخلاص کے ساتھ معیت ِالٰہی اختیار کر-‘‘(۱۲)
محبتِ الٰہی کے بغیر توحید میں استغراق ممکن نہیں:-
’’اگر خشخاش کے دانے جتنی بھی محبت ِالٰہی نصیب ہو جائے تو یہ (محبتِ الٰہی کے حاصل کئے بغیرزبانی کلامی) مسائل ِفقہ کی فضیلت اور سترّسال کی پارسائی و عبادت سے بہتر ہے کہ محبت سے آدمی محرمِ اسرارِ الٰہی ہو کر غرقِ توحید ِ ربوبیت ہو جاتا ہے اور(اگر محبتِ الٰہی حاصل نہ ہو تو ) علمِ عبادت سے آدمی میں کبر و غرور پیدا ہوتا ہے اور وہ اسرارِ الٰہی اور توحید ِ ربوبیت سے محروم ہو جاتا ہے-‘‘(۱۳)
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے:-
بیتِ باھُو -:
گر توحیدش گشت توحیدِ خدا
خود نماند درمیان وحدت صفا
’’جو آدمی (اَنوارِ) توحید میں غرق ہو جاتا ہے اس کی اپنی ہستی مٹ جاتی ہے - ‘‘(۱۴)
فنافی اللّٰہ فقیر کیسے بنتا ھے :-
’’اہل ِ مراقبہ کی انتہا دریائے ژرف کا اِستغراق ہے- دریائے ژرف کیا ہے؟ دریائے ژرف دریائے توحید ہے جو ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے موجزن رہتا ہے- جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم سے اس میں غوطہ لگاتا ہے وہ تارکِ دنیا فنا فی اللہ فقیر ہو جاتا ہے-‘‘(۱۵)
توحید فنا در فنا ہونا ہے:-
’’جب تک تو فنا در فنا نہیں ہو جاتا خدا تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا- جس طرح چینی یا شکر میں پانی ملا کر آگ پر پکا لیں تو اس کا نام حلوہ ہو جاتا ہے، پھر اس کا نام چینی و شکر یا پانی نہیں رہتا، اِسی طرح چینی یا شکر توحید کی مثل ہے، پانی بندے کی مثل ہے اور حلوہ معرفت و صاحب ِ وصال غرق فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر کی مثل ہے-‘‘(۱۶)
توحید انتہائے فقر ہے:-
’’ابتدائے فقر ترک ہے، متوسط ِفقر فرق (دوئی) ہے اور انتہائے فقر (اَنوار ) توحید (میں ) غرق ہے-‘‘(۱۷)
محبتِ الٰہی کے ذریعے معاشرتی نفرتیں مٹائی جاسکتی ہیں:-
’’نقل ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری سے خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا-:
’’اے رابعہ! کیا تو مجھ سے محبت رکھتی ہے؟ ‘‘
حضرت رابعہ نے عرض کی-:
’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ بھی ممکن ہے کہ مَیں آپ سے محبت نہ کروں؟
ہاں البتہ میرا دل محبت الٰہی میں اِس قدر محو ہے اور مَیں توحید ِفنا فی اللہ میں اِس قدر غرق ہوں کہ مجھے دوستی و دشمنی کی خبر تک نہیں رہی-‘‘(۱۸)
اَنوارِ توحید میں مستغرق کو دائمی حیات نصیب ہوتی ہے:-
’’اگر بارہ ہزار صاحب ِدعوت و صاحب ِورد وظائف و تسبیح خوان جمع ہو جائیں تو ایک ذاکر کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے- اگر بارہ ہزار ذاکر جمع ہو جائیں تو ایک صاحب ِمذکور الہام کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے، اگر بارہ ہزار صاحب ِ مذکور الہام جمع ہو جائیں تو ایک صاحب ِاستغراقِ مراقبہ کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے، اگر بارہ ہزار صاحب ِاستغراقِ مراقبہ جمع ہو جائیں تو ایک فنا فی اللہ فقیر کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے کہ غرق فی التوحید مؤحِّد کو دونوں جہان میں دائمی حیات نصیب ہوتی ہے اور ...... - اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس- ‘‘(۱۹)