علم تین قسم اور تین طریق کا ہے:
علم تین قسم اور تین طریق کا ہے- ایک اعرابی شعرأ کا علم ، دوسرا علما ٔکا علم اور تیسرا اہل ِ تصوف فقرأ اؤلیا ٔکا معرفت ِتوحید کا علم - شعرأ کا علم بلاغت و فصاحت اور دانش و شعور کا علم ہے ، علمائے اہل ِفقہ مفسرین و محدثین کا علم مطالعہ و مناظرہ و مذاکرہ و ذکر مذکور کا علم ہے اور فقرائے اہل ِتصوف عارف اؤلیائے اَللّٰہُ کا علم قرب اللہ حیُّ قیوم کی حضوری کا علم ہے-جہاں علمِ حضور ہے وہاں سے رسمی رواجی علم علوم، مطالعۂ کتب ، رقم مرقوم اور شعر و شعور کاعلم بے خبر و بہت دور ہے -(۱)
لفظِ تصوف کی شرح:
تصوف کے چار حروف ہیں ’’ت ص و ف‘‘ - حرف ’’ ت‘‘ سے تصرف کرتا ہے اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں اور اُس کا ایصالِ ثواب کر تا ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی روح مبارک کو ، حرف’’ ص ‘‘ سے صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے ، حرف ’’و‘‘سے وعدہ خلافی نہیں کرتا اور حرف ’’ ف ‘‘ سے فتح القلوب و فنائے نفس -جو آدمی اِن صفات سے متصف نہیں اُسے صاحب ِتصوف نہیں کہا جا سکتا - علمِ تصوف اسمِ اَللّٰہُ سے حاصل ہوتا ہے جس کے صرف حرفِ ’’ا ‘‘ ہی سے ہزار ہا علوم منکشف ہوتے ہیں -(۲)
تصوف کا معنی توحید ہے:
کشف کی صحیح حقیقت علمِ تصوف سے معلوم کر - جو آدمی علمِ تصوف نہیں پڑھتا وہ خراب ہوتا ہے - تصوف کے کیا معنی ہیں ؟ تصوف کے معنی ہیں توحید - توحید کے کیا معنی ہیں ؟ توحید کے معنی ہیں اللہ ہی اللہ - جو آدمی اِس مرتبے پر پہنچ جائے کہ اُس کی نگاہ میں اللہ ہی اللہ سمایا رہے تو وہ ماسویٰ اللہ سے لا تعلق ہو جاتا ہے اور اُس کے وجود میں بجز ذکر ِ کلمہ طیبلَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور کوئی ذکرقرار نہیں پکڑتا - (۳)
علمِ تصوف کا پڑھنا فرضِ عین او ر سنت ِا نبیا ٔعلیہم السلام ہے:
جان لے کہ نفس مسائل ِعلمِ فقہ پڑھنے، علمِ عربی پڑھنے اور طاعت ِخداوندی میں ریاضت ِظاہری کرنے سے بے حد موٹا ہوتا ہے، خَلقِ خدا میں نیک نامی و شہرت سے بہت خوش ہوتا ہے اور ہوائے خود پسندی میں مبتلا ہو کر خود کو لوگوں کی نظروں میں آراستہ و پیراستہ کیے رکھتا ہے لیکن علمِ تصوف یعنی علمِ وحدانیت ِتوحید اور علمِ معرفت ِاِلٰہی پڑھ کر شرمندہ ہوتا ہے اورذکر ِخفیہ میں مشغول ہو کر اپنی جان کا گوشت کھاتا ہے اور خوفِ خدا میں رو رو کر اِتنی آہ و زاری کرتا ہے کہ ہڈیوں سے مغز نکل آتا ہے- اِس پوشیدہ و بے ریا ریاضت سے خونِ جگر پیتا ہے اور لاغر ہو کر ہویٰ سے فارغ ہو جاتا ہے اور نیست و نابود ہو کر غرق فنا فی اللہ ہو جاتا ہے- یہ ہے وہ علمِ تصوف کہ جس کا پڑھنا فرضِ عین او ر سنت ِا نبیا ٔعلیہم السلام ہے-(۴)
علمِ تصوف کی فضیلت و ضرورت:
علمِ تصوف دیگر ہر علم سے برتر ہے کیونکہ علمِ تصوف توحید پر نہایت قوی اِیمان کو کہتے ہیں جو آدمی علمِ تصوف کے دائم مطالعہ میں نہیں رہتا وہ ہر وقت حرص و ہویٰ سے پریشان رہتا ہے - علمِ تصوف علمِ رحمن ہے جس سے جمعیت حاصل ہوتی ہے اور علمِ دنیا علمِ شیطان ہے جس سے پریشانی لا حق ہوتی ہے - مَیںاِس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں- یہ سلک سلوک معرفت ِمولیٰ کی راہ ہے - جو آدمی طالبِ مولیٰ نہیں بنتا اور علمِ تصوف و معرفت ِمولیٰ کا علم نہیں پڑھتا وہ طالب ِ دنیا ہو کر گمراہ ہو جاتا ہے -(۵)
علمِ تصوف کا تعلق علمِ فقہ سے ہے:
ہر علم کی جڑ علمِ تصوف ہے جو خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلام ہے جو ہر علم کا ماخذ و ہر علم کی حیات ہے- علمِ تصوف سے اللہ حیُّ قیوم کے کل و جز تمام علوم کی حقیقت ِحق و باطل معلوم ہوتی ہے- جو آدمی علمِ تصوف حاصل نہیں کرتا اُس کا دل سیاہ ہو جا تا ہے او ر وہ جہالت و نفاق میں گھرا رہتا ہے-علمِ تصوف کا تعلق علمِ فقہ سے ہے جو فیض ِفضل اللہ ہے- علمِ تصوف سلک سلوک ِفقر ہے اور فقر صفا ٔ القلب تصدیق ِبا توفیق بحق رفیق اور فیض ِفضل اللہ تحقیق ہے- علمِ تصوف سے عارف رحمت ِ الٰہی کی پناہ میں رہتا ہے - جو کوئی علمِ تصوف پڑھنے سے منع کرتاہے وہ زندیق ہے-(۶)
تصوف دل سے ماسویٰ اللّٰہ کا زنگ اُتارنے کی راہ ہے:
اِس مصنف (یعنی حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ) کا یہ کلام علمِ تصوف کی تصنیف ہے اور تصوف دل سے ماسویٰ اللہ کا زنگ اُتارنے کی راہ ہے جس میں تصورِ ربّانی سے حضوری کا شرف ِ لطیف روحانیت قبور کا تصرف ، توجۂ قرب اللہ کی توفیق ، تفکر ِفنا فی اللہ کی تحقیق اور جامع الجمعیّت رفاقت ِحق پائی جاتی ہے- یہ آفات ِ راہ سے پاک سلک سلوک ہے جس کی ابتدا ہی معرفت ِ لاھُوت اور اللہ تعالیٰ سے اِلہامی ہم کلامی ہے - (۷)
حصُولِ علمِ تصوُّف کے فوائد:
جو عالم اپنے علم کو لذّات ِنفس کی حصول یابی کے لئے استعمال کرتا ہے وہ سانپ ہے اور جو آدمی علم کو قلب و روح کے تصفیہ و تزکیہ کے لئے استعمال کرتا ہے وہ باعمل و ہوشیار عالم لائق ِدیدار ہے - ایسا ہی عالم باللہ ، عالم فی اللہ و عالم ولی اللہ مراتب ِعلم سے آگے بڑھ کر فقیر اؤلیائے اَللّٰہُ کا خطاب پاتا ہے اورتصورِ اسم اَللّٰہُ سے غرقِ توحید ہو کر حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے - جو اسم اَللّٰہُ اور اسم مُحَمَّدٌ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا انکار کرتا ہے وہ ثانی ٔابو جہل یا فرعون ہے -تُو خود کو اِن میں سے کیا سمجھتا ہے ؟ جس طرح کافر کلمہ طیب ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘پڑھنے سے کتراتا ہے اُسی طرح مردہ دل آدمی علمِ تصوف سے کتراتا ہے کیونکہ تصوف سے نفس شرمندہ، قلب زندہ اور روح بینندہ (صاحب ِمشاہدہ) ہوتی ہے کہ علمِ تصوف بندے کو خدا کی طرف کھینچتا ہے اور لذت ِہوائے نفس سے بیزار کرتا ہے - (۸)
علمِ تصوف کا عالم صاحبِ تقویٰ ہوتا ہے:
علمِ تصوف کا عالم صاحب ِتقویٰ ہوتا ہے اور علمِ تقویٰ کے دو گواہ ہیں : اہل ِ تقویٰ کا کھانا نور اور خواب مشرفِ معرفت ِلقائے حضور ہوتا ہے - یہ دونوں عالمِ تقویٰ کے بال و پر ہوتے ہیں جن سے وہ جملہ مقاماتِ ذات و صفات کو پل بھر میں تحقیق کر کے ہر مردے کو زندہ کر سکتا ہے -متقی اہل ِتقویٰ وہ ہے جو اگر کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ِکو مقامِ کنۂ کن سے پڑھ لے تو مملکت ِخداوندی کی کوئی چیزاُس سے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی - فرمانِ حق تعالیٰ ہے -: ’’ جو لوگ ذکر اللہ میں محو رہتے ہیں وہی لوگ انشا ء اللہ اہل ِتقوی و اہل ِمغفرت ہیں‘‘- علمِ تقویٰ علمِ تصور و تصرف کی طرح معرفت ِمشاہدۂ دیدار کی چابی ہے -تقویٰ مجاہدہ نہیں بلکہ حضورِ حق میں مشاہدۂ وصالِ لازوال ہے -(۹)
تصوف کا بنیادی مقصد رجُوعاتِ خَلق سے چھُٹکارا اور رضائے الٰہی کا حصول ہے::
مجھے تعجب ہوتا ہے اُن لوگوں پر جو ہر کام خَلقِ خدا کی خوشنودی اور دنیوی شان و شوکت اور روضہ و خانقاہ کی خاطر کرتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی اور اِستغراقِ معرفت کی طرف ہر گز دھیان نہیں دیتے-ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ کامل مکمل فقیر کے نزدیک طیر سیرِ طبقات، مراتب ِغوث و قطب اور عرش سے بالا تر ستر ہزار درجات و مقامات کو اپنے قبضے و تصرف میں لانا خام و ناقص لوگوں کا کام ہے اور علمِ کیمیا حاصل کرنا، خَلقِ خدا میں ناموری اور شہرت حاصل کرنا،جنوں ،اِنسانوں اور درندوں پرندوں پر تصرف حاصل کرنا، کشف و کرامات پر قادر ہونااور امورِ دنیوی میں ترقی و درجات حاصل کرنا ناقص و ادھورے لوگوں کا کام ہے- علمِ کیمیا، علمِ اکسیر اور علمِ دعوتِ تکسیر حاصل کرنا،بیس بیس دائروں والے نقش پُر کرنا، دائرۂ جفر کے نقش بنانا اور بادشاہ و اُمرأ کو مسخر کرکے اپنے تابع کرنا نادان لوگوں کا کام ہے اور خود کو فنا کرکے معرفت ِ اِلَّااللّٰہُ میں غرق کرنا اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دائمی حضوری حاصل کرنا مردانِ کامل کا کام ہے-
ہر کہ باشد پسندِ خالق پاک
ور نباشد پسند خلق چہ باک
بیت -:’’ جو آدمی خالق کو پسند آجائے اگر خلق اُسے نا پسند بھی کرے تو کیا مضائقہ؟ ‘‘(۱۰)
علمِ تصوف کا پہلا طریق شریعت ہے:
علمِ تصوف کے چار طریقے ہیں ، چار گواہ ہیں ، چار مقام ہیں اور چار راستے ہیں - تصوف کا پہلا خاص الخاص طریق شریعت ہے ، دوسرا طریقت ہے جو بال سے بھی زیادہ بار یک ہے، تیسرا حقیقت ہے جس سے ذات ِحق کے مشکل و دقیق ترین نکات کی گرہ کشائی ہوتی ہے اور چوتھا معرفت ہے جس میں معرفت ِ الٰہی کا بے پایاں وعمیق دریائے توحید موجزن ہے - علمِ تصوف در اصل علمِ توحید ہے جس کا تعلق علمِ فقہ سے ہے اور علمِ فقہ کا تعلق علمِ حیا سے ہے - علمِ حیا کا تعلق دل میں درد و داغِ محبت ِ مولیٰ سے ہے - (۱۱)
راہِ تصوف سے بے خبر علماء اور صاحبِ تصوف فقراء کا موازنہ:
علما ٔکا مرتبہ بلند و بالا ہے لیکن فقیر ِ باھُو کہتا ہے کہ بے شک علما ٔ کا مرتبہ بلند و بالاہے مگر راہِ تصوف سے بے خبر ہے- عالم کی نظر لذّت ِدنیا پر لگی رہتی ہے اور فقیر کی نظر خوفِ روز ِقیامت پر ہوتی ہے- عالم کہتا ہے کہ عقبیٰ کتنی اچھی اور خوبصورت جائے بہشت ہے اور فقیر کہتا ہے کہ بجز دیدارِ الٰہی سب کچھ خوا ر و زشت ہے- عالم کہتا ہے فقیر کتنا احمق و مجنون و دیوانہ ہے اور فقیر کہتا ہے کہ عالم خدائے تعالیٰ سے بیگانہ ہے-عالم کہتا ہے کہ علم پڑھنا ٰخوب ہے منطق و معانی اور فقیر کہتا ہے کہ بجز یادِ حق محض تحصیل ِعلم عمر کی بربادی ہے اور نادانی-(۱۲)
علم فقہ اور علمِ فقر دونوں کی اجتماعیت سے ہی کامیابی ہے:
جان لے کہ فقہ کا علم آدمی کے جسم و جان اور زبان کو تو پاک کر دیتا ہے لیکن اِس کے پڑھ لینے سے آدمی کے دل سے نفاق ، حرص اور حسد نہیں جاتا - فقہ کا عالم دل کی پاکیزگی سے بے خبر رہتا ہے -یہ فقط ذکر ِ اَللّٰہُ معرفت ِالٰہی ،علمِ تصوف اور اشتغالِ توحید ہی ہیںکہ جن سے بندہ روشن ضمیر و صاحب ِتاثیر ہوتا ہے لیکن علمِ فقہ کے بغیر فقیری محض فضیحت و فساد اور کفر و شرک ہے کہ فقہ شرحِ بنائے اسلام ہے اورفقر شرحِ بنائے اسمِ اللہ ذات ہے جس سے معرفت ِالٰہی مکشوف ہوتی ہے - پس علمِ فقہ اور علمِ فقر چھ حروف کا مجموعہ ہے- جس آدمی نے بنائے اسلام فقہ اور فقر دونوں کو جمع کر لیا چھ سمتوں کی ہر چیز اُس کے قدموں میں آ گئی -(۱۳)
لائقِ ارشاد پیرو مرشد کے اوصاف:
یاد رہے کہ پیر و مرشد کی مجلس کی شرح یہ ہے کہ اُس کی مجلس میں اُس کے پیش ِنظر صاحب ِقال علما ٔ و مفسر صاحب ِتفسیر با تاثیر بیٹھتے ہیںجو اپنے نفس پر غالب و امیر ہوتے ہیں- اُس کے دائیں جانب فقیہ علما ٔ بیٹھتے ہیںجن کے نفس فنا ہو چکے ہوتے ہیں اور اُن کے وجود میں ہوا ہوتی ہے نہ ہوس- وہ اللہ کی رضا پر قناعت اختیار کر کے کہتے ہیں حَسْبِیَ اللّٰہُ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ(میرے لئے بس میرا اللہ ہی کافی ہے)اور اُن کا نعرہ ہوتا ہے اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس-اُن کی بائیں جانب اہل ِتصوف صاف دل روشن ضمیر فنا فی اللہ فقیر بیٹھتے ہیں اور اُن کے پیچھے اہل ِدنیا بیٹھتے ہیںکہ اہل ِاخلاص دنیا و اہل ِ دنیا کا منہ نہیں دیکھتے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے-: ’’ ظالموں سے میل جول مت رکھو کہ اُن کے ظلم کی آگ تمہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی-‘‘پیر و مرشد اگر اِن صفات سے متصف ہے تو لائق ِارشاد ہے ورنہ طالبوں کے لئے راہزن اور مایۂ فساد ہے-(۱۴)
اہلِ تصوف کا مقام اور اُن سے بُغض و عناد کا انجام:
تصوف دل کو صاف کرنے والی چیز کو کہتے ہیں-جس شخص کا دل صاف ہو جائے وہ معرفت ِ دیدار و لقائے اِلٰہی کے قابل ہو جاتا ہے اور منظورِ اِلٰہی ہو کر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں حاضر رہتا ہے اور غوثی و قطبی کے مراتب کو چھوڑ دیتا ہے کہ اُن کا تعلق طیر سیرِ طبقات و ہوائے نفس سے ہے- فقیر باطن صفا و عالمِ تصوف ہوتا ہے-جو شخص کسی اہل ِتصوف فقیر کے سامنے دم مارے وہ ہر دو جہان میں خراب ہوتا ہے کیونکہ فقیر درگاہ ِر استی کا برگزیدہ و ہر حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے-جو شخص کسی فقیر کے سامنے دم مارے وہ بیماری و رجعت کا شکار ہو جاتا ہے، فقیر کے سامنے وہ شخص دم مارتا ہے جو بے پیر و سنگ دل ہو یا بے مرشد و بے شرم و فقرأ کا دشمن اور شفاعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے محروم و بے نصیب ہو- (۱۵)
علمِ تصوف سے بے خبری حیاتِ النبی کے بارے تشکیک پیدا کرتی ہے:
تمام اُ مت کی حیات و زندگی اور تمام محبت جو ہر ایک اُمتی کے مغز و پوست میں جاری و ساری ہے اُس کا دارو مدار حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے عقیدے پر ہے-جو کوئی حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا قائل نہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مردہ سمجھتا ہے اُس کے منہ میں مٹی، دنیا و آخرت میں اُس کا منہ کالا، وہ شفاعت ِمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے محروم ہے-وہ منافق و کاذب ہے - وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی نہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے-: ’’کاذب آدمی میرا اُمتی نہیں-‘‘وہ بد بخت علمِ تصوف و طریق ِتصرف سے بے خبر زندیق ہے کہ انبیا ٔو اؤلیائے اَللّٰہ ُکی موت اُن کا مرتبۂ معراج اور مشاہدۂ حضوری ہے کیونکہ موت کے بعد انبیا ٔو اؤلیائے اَللّٰہُ کو سیرِدرجات میں ترقی اور دائمی زندگی حاصل ہوتی ہے جس سے وہ ہمیشہ زندہ ہی زندہ رہتے ہیںاور بندے اور ربّ کے درمیان دونوں جانب تعلق قائم رکھتے ہیں-(۱۶)
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو:
واضح رہے کہ مکھن سے بڑھ کر نرم و ملائم چیز اور کوئی نہیں اور اِس کی دلیل یہ ہے کہ مکھن کو ا گر تھوڑی سے گرمی پہنچے تو وہ مزید نرم ہو کر پگھل جاتا ہے- اِسی طرح مومن فقیروں اور درویشوں کے دل ایک اور تپش سے پگھلتے ہیں یعنی کسی دوسرے مومن بھائی کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کے دل درد سے بھر آتے ہیں-(۱۷)
علمِ تصوف کی اساس تصور اسم اللّٰہ ذات ہے:
ایمان و عزت و شرف کا سرمایہ نص و حدیث و فقہ و تصوف کا علم ہے -علمِ فقہ قرآن ہے اور اِساسِ فقر علمِ فقہ ہے،اِساس فقہ توحید و معرفت ِ اِلٰہی ہے اور اِساسِ تصوف و فقہ ذکر اللہ یعنی تصور ِاسم اللہ ذات ہے- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :- ’’ اہل اللہ کو پل بھر کے لیے بھی کوئی چیز ذکر اللہ سے غافل نہیں کرسکتی- ‘‘ (۱۸)
تصوف محض تھیوری نہیں پریکٹس کا نام ہے:
علمِ تصوف کے مصنف کو چاہیے کہ پہلے وہ ہر علم کو اپنے عمل اور قبضہ و تصرف میں لا کر اُس کا معائنہ و تجربہ اور امتحان وآزمائش کرے تاکہ رجعت و پریشانی کا شکار نہ ہو اور اُس کے بعد ضبط ِتحریر میں لا کر کتاب تصنیف کرے- چنانچہ فقیرِ باھُو نے پہلے تصورِ اسمِ اللہ ذات کی قوتِ توفیق اور باطنی تحقیق سے بارگاہِ حق اور بارگاہِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علمِ باطن حاصل کیا،اُس کے بعد اُس کا مقابلہ و تکرار و ذکر جملہ انبیا ٔ و اؤلیا ٔ اللہ، جملہ اصحابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور جملہ مجتہدین سے کیا اور ہر ایک کی نظر اور حضوری میں منظور کروا کے اور ہر ایک سے حکم واجاز ت لے کر اُس کو کتاب کی صورت دے کر مشتہر کیا ہے-(۱۹)
عملی تصوف کے لیے مرشد کی رفاقت ضروری ہے:
ظاہر میں طریق ِ شریعت کے دوگواہ ہیں،ایک دیکھنا اور دوسرے سننا، باطن کے بھی دوگواہ ہیں، ایک علمِ تصوف کا مطالعہ یعنی ایک دوسرے سے مسائلِ تصوف سننا اور دوسرے باعیان مشاہدہ کرنا، اِس کے لئے مرشد ِکامل کی رفاقت ضروری ہے -(۲۰)
مرشد کی ڈیوٹی:
یاد رکھیے! طالب اللہ پر فرضِ عین ہے کہ تلقین حاصل کرنے سے پہلے مرشد سے علمِ ظاہری میں تبادلۂ خیال کرے اور معرفت و تصوف ومنطق و معانی و زبانی قیل و قال کے دقیق و مشکل مسائل کو سمجھے، اِس کے بعد علمِ باطنی کے مسائل ِتوحید اور معرفت ووصال کے مسائل زیرِبحث لائے- اِس طرح جب مرشد طالب اللہ کو اُس کے سوالوں کے جوابات سے مطمئن کردے تو تب اُسے تلقین کرے- طالب اِس طرح عالم فاضل اور صاحب ِشعور ہو ورنہ ہزاروں جاہلوں کو مجنون و دیوانہ بنا دینا کون سا مشکل کا م ہے؟(۲۱)
کیا علمِ ظاھر سے بے خبر کو فقیر کہا جا سکتا ہے؟
جو شخص نہ تو علمِ تصوفِ عیان سے واقف ہے اور نہ ہی علمِ ظاہر فرض ، واجب،سنت،مستحب اور فقہ کے مسائل ِ بیان سے باخبر ہے تو اُسے فقیر نہیں کہاجاسکتا کہ وہ تو محض حیوان اور بندۂ نفس و شیطان ہے-(۲۲)