ججاں تائیں خودی کریں خود نفسوں تاں تائیں رب نہ پانْویں ھو
شرط فنانوں جانیں ناہیں تے نام فقیر رکھاویں ھو
موئے باہجھ نہ سوہندی الفی اینویں گل وچ پانْویں ھو
نام فقیر تد سوہندا باھو(رح) جد جیوندیاں مر جاویں ھو
Until your nafs ostentatious, faqr not gained Hoo
You are unaware of the condition of fana and yet Sufi you maintained Hoo
Shroud would not suite without death by merely round the neck retained Hoo
Sufi only suits Bahoo when death within life gained Hoo
JaN taai'N khudi karaain khud nafso'N, taa'N taai'N rab na paanwe'N Hoo
Shart fana no'N janai'N nahi'N tay naam faqeer rakhaweN Hoo
Moay bahjh nah sohndi alfi ewai'N gal wich paanwe'N Hoo
Naam faqeer tad sohnda jad jeyondia'N mar jawe'N Hoo
﴿۱﴾حضرت سلطان العارفین رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث قدسی نقل فرمائی ہے کہ جس میںکائنات کی تخلیق کامقصد بتایا گیا :-کُنْتُ کَنْزًامَخْفِیًا فَاَحْبَبْتَ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ-ترجمہ:-مَیں ایک مخفی خزانہ تھا ، مَیں نے چاہا کہ میری پہچان ہو، پس مَیں نے اپنی پہچان کے لئے مخلوق کو پیدا کیا -﴿عین الفقر:۵۵﴾اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کاراز اورسازوسامان انسان کے باطن میں مخفی کردیا تاکہ طالب مولیٰ عشقِ الٰہی کے ذوق وشوق میں اپنے باطن کی طرف متوجہ ہوں- آپ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ معرفتِ الٰہی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی خود پسندی اورنفس پرستی ہے -جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد سے ظاہر ہے کہ:-
تُو نمید انی ز تُو نزد یک تر د رمیان خود پرد ہ ای بی بصر
کیا تجھے نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ تیرے بہت قریب ہے ؟اے عقل کے اندھے تیری اپنی خودی ہی تیرے اور اللہ کے درمیان حجاب بنی ہوئی ہے -'
پرد ہ را برد ار د ل بید ا ر باش راہ ِعرفان این نبود ہشیار باش
ہوشمندی سے کام لے اور اپنی خودی کے پردے کو ہٹا کر دل کو بیدار کر لے کہ یہی اہل ِ معرفت کی راہ ہے -﴿محک الفقر:۷۲۱﴾
﴿۲﴾نفس امّارہ کونفس مطمئنہ میں تبدیل کرنا جان جوکھوں کاکام ہے -نفس مطمئنہ تک رسائی کی شرطِ اوّل ہے کہ نفس امّارہ کے خصائل رذیلہ کومکمل طورپہ فنا کیاجائے-لیکن ایساہونا مرشد کامل کی تربیت کے بغیر ممکن نہیں -یہ نہیں ہوسکتا کہ طالب نفس امّارہ کی پیروی بھی کرے اورفقیر ہونے کادعویٰ بھی-فقراورنفس پرستی ایک دوسرے کی ضدہیں -یہ ایک جگہ پہ اکٹھے نہیں ہوسکتے جیساکہ پانی اورآگ کا ایک برتن میں جمع ہونا ممکن نہیں ہے-جہاں فقر ہوگا وہاں پہ خود پسندی وانّانیتِ نفس کاہونا محال ہے-پھر بھی کچھ لوگ نفس امّارہ کی شرطِ فنا کو پورا نہیں کرتے اس کے باوصف خود کو فقیر پکارتے ہیں -
باھُوا فقر چیست ؟یعنی خود فنا از علم خود می شود کبر و ریا
اے باھُو! فقر کیا چیز ہے؟ فقر وہ چیز ہے کہ جس سے خودی ﴿اناے ٔ نفس ﴾ فنا ہوتی ہے اور علم وہ چیز ہے کہ جس سے خودی میں کبر و ریا پیدا ہوتا ہے-﴿عین الفقر:۹۰۴﴾
﴿۳﴾آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی تعلیمات میں اس امر کااکثر اظہار فرماتے ہیں کہ فقیری کسی مخصوص رُوپ ،ڈھنگ یالبادہ اختیاکرنے سے اورنہ ہی رسمی ورواجی زہد و پار سائی واندھی تقلید سے نصیب ہوتی ہے- فقر لاریبی وغیبی واردات اوررُوحانی فتوحات کانام ہے -سالک کے باطن میں نفس امّارہ بادشاہ بنارہے اورابلیس اُس کی وزارت کرتارہے تو گلے میں کفن نما کپڑا پہن کر نفس امّارہ کی موت کااعلان کرتے پھرنا صریحاً فریب،دروغ گوئی اورگمراہی ہے-جیسا کہ فرمایا گیا کہ:’’طالب ِ اہل ِتقلید کو ہمیشہ خطراتِ دنیا کی بیماری لاحق رہتی ہے اور جب تک وہ دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو کر فنا فی اللہ بقا باللہ نہیں ہوجاتا اُس کا یہ مرض لادوا ہی رہتا ہے ‘‘ - ﴿ نور الہدیٰ : ۳۰۲ ﴾
﴿۴﴾یہ حقیقت ہے کہ قربِ خدواندی کی تجلی کے بغیر نفسِ امّارہ ونفسِ لوامہ اورنفسِ ملہمہ مغلوب ہوتے ہیں اورنہ ہی طالب کو اپنی زندگی میں مرنے کاشرف ملتاہے-لقائے الٰہی کی بدولت فقیر اپنی حیات میں ہی معنوی لحاظ سے موت کاذائقہ چکھ لیتا ہے اوراپنی قبر میں زندگی کالطف دوبالاکرتاہے-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ:- ’’جب مرشد طالب اللہ کو اسمِ اَللّٰہ ُکے تصور و ذکر و فکر کاتفکر بخشتا ہے اور طالب اپنی خودی سے دست بردار ہو کر بے خود ہو جاتا ہے اور جب خواب نما تفکر کے اُس مراقبہ میں دنیا و عقبیٰ اور کونین کی زیب و زینت اُس کے سامنے لائی جاتی ہے تو وہ اِشتغال اللہ میں پیش آنے والے اسمِ ’’ اَللّٰہُ ‘‘کے انوار کو دونوں جہان سے بہتر سمجھتاہے اور اُس کے مقابلہ میں دونوں جہان کو کمتر سمجھتا ہے - یہاں پر اسمِ اَللّٰہُ کا غیر مخلوق نور مخلوق اِنسان کو اپنی طرف اِس شان سے کھینچتا ہے کہ اُسے غیر ماسویٰ اللہ کی طرف جانے ہی نہیں دیتا ،اُس کا سارا اختیار چھین کر حق الحق مختار کے تابع کر دیتا ہے - اٰمَنَّاوَصَدَ قْنَا یعنی ہم نے مانا اور اُس کی تصدیق کی ‘‘ - ﴿محک الفقر:۵۴۲﴾