اللہ رب العزت نے اولادِ آدم ؑپر احسان فرمایا اور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے صحائف وکتب وانبیاء اور صالحین کو بھیجاتاکہ انسانیت کاربط ضبط اپنے مالک حقیقی سے استوار رہے اور کسی قسم کاخلاپیدانہ ہو- آقا علیہ الصلوٰۃوالسلام اللہ پاک کے آخری نبی ہیں ،نبوت کادروازہ اور سماویٰ کا نزول تو بند ہو گیا لیکن اللہ پاک نے اس عظیم فریضہ کو سرانجام دینے کے لئے اپنے حبیب پاک ﷺکی اُمت سے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جن کا سینہ توحیدِ الٰہی ومحبت رسول ﷺسے آباداور مخلوق خدا کا درد ، محبت،خیر خواہی ان کو ودیعت فرمائی اور ان کو وہ بصیرت ، نبض شناسی عطا فرمائی جو بھی مریض ، درد مند ، شوریدہ حال ان کی خدمتِ عالیہ میں آیا وہ فیض یاب ہو گیا اور ہر آنے والے کے دامن کو گوہر مراد سے آباد کیا اور اتناآسان اور سہل انداز سے کہ بڑے بڑے مفکر اور ادیب ، محدث اور محقق زمانہ حیرت زدہ رہ گئے- وہ بظاہر تو انتہائی سادہ اور عام سی بات ہوتی مگر اسکے اندر ایسے ایسے اسرارو رموزپنہاں نظر آئے کہ ہر ذی فہم چونک پڑتا کہ اتنے کم الفاظ ، اتنے سادہ جملے اور ان کے اندر اتنی بڑی حقیقت کو عیاں کردیا چونکہ یہ لوگ ہیں جن کو اللہ رب العزت نے ہدایت کے لئے منتخب فرمایا اور ان کے سینہ کو خزانۂ ولایت اور علم قرآن سے منور فرمایا یہ لوگ بھی بعین اِس طرح جس طرح میرے آقاکریمﷺ نے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی رہنمائی فرمائی اور قرآن نے بھی رہنمائی کی اسی طرح یہ لوگ بھی ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی رہنمائی فرماتے ہیں- انہی خاصانِ خدامیں ایک شاہکارہستی میدانِ تصوف میں فقر محمدی ﷺ کے امین ،سلطان العارفین برہان الواصلین قدوۃالسالکین حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے انسانیت کی راہنمائی کیلئے فارسی کتب اور عارفانہ کلام لکھا جس سے انسانیت ہدایت یافتہ ہو رہی ہے- ہر زمانہ میں شقی وسعید موجود رہے ہیں، کم فہم بے سمجھ باطن کور بھی آئے ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو سمجھنے کے ،ان لوگوں کے کلام کو پڑھنے ،غورو فکر کرنے اور ان کے کلام میںموجود ازلی و ابدی حقائق تک پہنچنے کی بجائے یکسرغلط کہہ کر ایک طرف ہو گئے ہیں اور وہ حقیقت جو الفاظ کے اندر ہے اس تک نہ پہنچ پائے اورغیر منصفانہ رویہ اختیا کیا - جبکہ ان کے کلام میں اصل دین کی روح موجود ہے اور حقیقتاً قرآن و سنت کو آسان اور عام فہم کرکے ان لوگوں نے خلقِ خدا تک پہنچایا ہے اور ان کا کلام قرآن وسنت کہ تفسیر وتشریح ہے - اور بالخصوص سلطان العارفین حضرت سلطان باھُونے اپنی کتب میں ایک حرف بھی قرآن و سنت سے باہر نہیں لکھا بلکہ ہر حرف اور سطر میں توحیدِ الٰہی، محبت ِرسول ﷺاور قرآن وسنت ہے جیسا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا عارفانہ کلام ہے - اگر بنظر غائر اس کامطالعہ کیا جائے اور اللہ پاک سمجھ بھی عطاکرے توکلامِ باھُو قرآنِ مقدس کی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی تشریح ہے اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ایک بیت میں درجنوں آیات اور کثیراحادیث مبارکہ کے مفہوم کو آسان کرکے پیش کیا ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے عارفانہ کلام میں فرماتے ہیں :
دُنیا ڈھونڈن والے کتے در در پھرن حیرانی ھُو
ہڈی اُتے ہوڑ تنہاں دی لڑدیاں عمر وہانی ھُو
عقل دے کوتاہ سمجھ نہ جانن پیون لوڑن پانی ھُو
باجھوں ذکر ربے دے باھُوؔ کوڑی رام کہانی ھُو
اس بیت میں سلطان العارفین برہان الواصلین حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ نے دُنیا و دُنیاداروں کی وضاحت اس انداز میں فرمائی جوکثیر احادیث مبارکہ ومتعددآیات کریمہ میں مختلف انداز میں طالبِ مولیٰ اور مومن کو اس سے منع کیا گیا ہے اور اسکی حقیقت کوعیا ں کر کے طالب کے دل میں جودنیا کی محبت ہے اسکو نکالنے کی رغبت دلائی گئی ہے تاکہ ذرہ بھر بھی دُنیا کی رمق دل میں نہ رہے- مختصر الفاظ میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھُورحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کو بند کیا ہے- قرآنِ مقدس میں اورحدیث مبارکہ میں مختلف مقامات پر اس راہزن کی حقیقت کو ظاہرکیا گیا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے -
{وماالحیوۃالدنیاالامتاع الغرر} (۱)
’’نہیں ہے یہ دُنیا وی زندگی مگر سازو سامان دھوکہ میں ڈالنے والا -‘‘
{المتاع مایتمتع وینتفع بہ}(۲)
’’متاع کہتے ہیں جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے اور نفع حاصل کرتا ہے- ‘‘
{ولغرور امامصدر من غرہ یغرہ غر و غرورا فھومغروروغرہ ای خدعہ واطمعہ بالباطل اوجمع غارٍ شبہ الدنیا بالمتاع الذی یدلس بہ البایع علی المستام ویغرہ حتی یشتریہ یعنی متاع نظرا الی الظاہر ولا حقیقۃ لھا}
غرور یا تو مصدر ہے غرہ یغر ہ سے منستق ہے یعنی اسے دھوکہ دیا اور باطل چیز کا دلایا یا ر غار کی جمع ہے دنیا کو ا س سامان کے ساتھ تشبیہ دی جس میں بایئع مشتری ہر کوئی چیزچھپانا ہے اور اسے دھوکہ دیتا ہے یہاتک کہ مشتری اسے خرید لیتا ہے یعنی ظاہر میں تو رہ سامان ہے لیکن اسکی کوئی حقیقت نہیں
{قال قتادہ ھی متاع متروکۃ یوشک ان تفضبحل باھلھا}(۳)
’’قتادہ نے کیا یہ چھوڑا ہو سامان ہے ہومکتہ ہے اس کے مالکوں کی طرح یہ بھی فنا ہو جوئے -‘‘
تفسیر روح ا لمعانی میں ہے لذتیں ،شہوتیں زینتیں دنیا ہیں اور ان چیزوں کے سامان متاع دنیا ہیں ،تفسیر کبیر میں ہے دنیا اس تجارتی سامان کی طرح ہے جسے ملمع کرکے رات کے اندھیرے میں کسی ناواقف کے ہاتھ فروخت کردیا جائے جو دیکھنے میں بڑاخوبصورت ہے مگر دن نکلنے اورواقف کے بتانے پر اسکی اصلیت کھل جائے جس سے خریدار کو سخت صدمہ ہو، انسان خریدار ہے شیطان بیوپاری دنیاملمع کیا ہوا سامان جو بظاہر دل فریب ہے مگر بتانے سے اسکی اصلیت کھل جاتی ہے -حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں :
’’دنیا اس خوش نماسانپ کی طرح ہے جو دیکھنے میں حسین و جمیل ،چھونے میں نرم و ملائم ، مگر اسکا زہر قاتل ہے بظاہر اس میں سرور مگر باطن میں شرور ہے یعنی بظاہر خوشی ہے مگر بباطن اس میں شراور فساد ہے -‘‘(۴)
قرآن مجید میں دوسرے مقام پر اس کی حقیقت کو اس طرح بیان فرمایا :
{وماالحیوۃ الدنیا الالعب ولھوا}(۵)
’’اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں-‘‘
لعب ایسے فعل کو کہتے ہیں جسکی کوئی صحیح عرض نہیں ہوتی اور نہ ہی اس پر کوئی منفعت مرتب ہوتی ہے، لھو ایسا عمل ہو تا ہے جوبامقصد کاموں سے انسان کو غافل کردے یعنی ایسے اعمال کا مقصود دُنیاوی زندگی اور اس کی ذات ہوتی ہے ان کامقصود اللہ کی رضا نہیں ہوتی وہ سب باطل ہیں وہ قابلِ قدر نفع نہیں کرتے کیونکہ ان کا نفع جلد زائل ہو جاتا ہے گویا انکے اندر مطلق نفع نہیں ہوتا-( ۶)
اللہ تعالیٰ نے آگے اسکی حقیقت کو آسان الفاظ میں بیان کیا :
{قل متاع الدنیا قلیل }
’’اے حبیب فرمادیجئے دنیا کا سامان بہت قلیل ہے -‘‘
دنیا کی منفعت اور اس سے لطف اندوزہونا تھوڑے عرصہ کے لئے ہے جبکہ آخرت کا معاملہ اسکے برعکس ہے ساتھ یہ جلد ختم ہونے والی ہے پھر اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی امت پر اس بے بخت کی حقیقت کو بایں الفاظ منکشف فرمایا:
{ان الذین لا یرجون لقاء ناورضوا بالحیاۃالدنیا والطمانوابھا والذین ھم عن ایاتنا غفلون}(۷)
’’بے شک وہ لوگ جو اُمید نہیں رکھتے ہم سے ملنے کی خوش وخرم ہیں دُنیاوی زندگی سے اور مطمئن ہو گئے ہیں اس سے اور وہ لوگ جوہماری آیات سے غفلت برتتے ہیں-‘‘
سب سے بڑا ثواب اور سب سے بڑی نیکی اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہے اسکے انوار وتجلیات کا مُشاہدہ کرنا ہے انہوں نے ظاہری دنیا کو آخرت پر ترجیح دی دنیا کی آرائش وزیبائش پر مطمئن ہو گئے صرف اورصرف زیب وزینت آرام و آرائش پر اکتفاء کیا جس کی وجہ سے اس عظیم نعمت سے محروم ہوگئے مزید ارشاد فرمایا:
{یاایھالناس انما بغیکم علیٰ انفسکم متاع الحیوۃالدنیا}(۸)
’’اے لوگوں تمھاری سرکشی کا وبال تمہیں پر پڑے گالطف اٹھالو دنیاوی زندگی سے-‘‘
بظاہر دنیا کا سازو سامان نفع پہنچانے کیلئے مگر ہمیشہ رہنے کے لئے نہیںپھر اس دنیا کی بایں الفاظ ذکر کیا-
{انمامثل الحیوۃالدنیاکماء انزلناہ ------}(۹)
’’بس حیات ِدُنیاوی کے عروج وزوال کی مثال ایسے ہے جیسے ہم نے پانی اتارا آسمان سے - سوگھنی ہو کر اُگی پانی کے باعث سر سبزی زمین کی - جس سے انسان بھی کھاتے ہیں اور حیوان بھی - یہا ں تک کہ جب لیا زمین سے اپناسنگار اور وہ خوب آراستہ ہوگئی اور یقین کر لیا ان کے مالکوں نے کہ اب انہوں نے قابو پالیا ہے اس پر - تو اچا نک آپڑااس پر ہمارا حکم( عذاب )رات یا دن کے وقت پس ہم نے کاٹ کر رکھ دیااسے ، گویا کل وہ یہاں تھی ہی نہیں - یونہی ہم وضاحت سے بیان کرتے ہیں اپنی قدرت کو ، اس قوم کے لئے جو غور وفکر کرتی ہے-‘‘
حضرت قتادہ فرماتے ہیں دنیا کے سازو سامان سے مشغول پر اللہ کا عذاب آپہنچتاہے جس سے وہ بالکل بے خبر ہوتا ہے -اس آیت کریمہ میں بڑی تفصیل کیساتھ دنیا کی حقیقت کو بیان کیا گیا کہ اسکی حقیقت کیا ہے ؟
احادیث مبارکہ میں بھی آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسکی حقیقت کو اپنی اُمت پر قیامت تک آنے والے مومن مسلمان راہ ِحق کے متلاشی پر واضح فرمادیا تاکہ وہ کہیں کسی مقام پر اس کی زیب وزینت پرفریفتہ ہوکر اپنی منزل کو کھونہ بیٹھے تو فرمایا:
(۱){ وعن المُسْتَوْرَدْ بن شَدَّاد قال سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول واللّٰہ ماالدنیا فی الاخرۃ الامثل مایجعل احدکم اصبئہ فی الیم فلینظربما یرجع}(۱۰)
حضرت المُسْتَوْرَدْ بن شَدَّاد بیان کرتے ہیں کہ یہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناخدا کی قسم جیسے تم میں سے کوئی آدمی سمندر میں ڈوبے پھر دیکھے کہ انگلی کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے -یعنی سوائے تری یا ایک قطرہ کے کچھ نہیں آتا دنیااسطرح آخرت کے مقابلے میں ہے یہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ محدود غیر محدود کے مقابلہ میں ایک قطرہ بھی نہیں - قطرہ دریا کے سامنے ذرہ سی حقیقت ہے مگر دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں یہ حیثیت بھی نہیں ہے-‘‘
(۲){عن جابر ان رسول اللّٰہﷺ مر بجدی اسکٍ میتٍ فقال ایکم یحب ان ھذا لہ بدرھم فقالوا ما نحب انہ لنا ھذا بشیٔی؛ قال فواللّٰہ الدنیا اھون من ھذا علیکم} (۱۱)
’’رسول اللہ ﷺ بھیڑ کے مردہ بچے کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ وہ اسے ایک درہم کے عوض خرید لے عرض کیا ہم نہیں چاہتے کہ کہ بغیر عوض بھی اسے لیں - اللہ کی قسم دنیا اللہ کے یہاں اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جیسے یہ تمہارے نزدیک-‘‘
(۳){عن ابی ھریرہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ الدنیا سجن المومن و جنۃ الکافر} (۱۲)
’’ آقا پاک ﷺ نے فرمایا: کہ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت-‘‘
کیونکہ کافر اس کی لذتوں اور شہوات میں اس طرح مشغول رہتا ہے؛
(۴){عن ابی ھریرہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ تعس عبدالدینار وعبدالدرھم وعبدالخمیصۃ ان اعطی رضی وان لم یعط سخط}(۱۳)
’’آقا پاک نے فرمایا ہلاک ہوجائے دنیا کا غلام ، پیسے کا غلام ، اعلیٰ کپڑوں کا غلام اگر اسے دیا جائے تو خوش رہے ، نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائے-‘‘
خمیصہ اس گدڑی کو کہا جاتا ہے جس کے چاروں اطراف میں دھاری ہو یعنی وہ شخص مال کے ساتھ محبت رکھتا ہو لیکن اس کے حقوق کی ادائیگی میں بخل سے کام لیتا ہو، اسے لباس پسند ہو، زیب و زینت بطور تکبر کرتاہو - لفظ عبد کے ساتھ تعبیر میں حکمت یہ ہے کہ متاعِ دنیا کی محبت میں گرفتار ہو نا مذموم ہے اس کی غلامی کی علامت بیان کی،مِل جائے تو خوش ورنہ نا خوش، ہر وقت دنیا کی حرص اور مال جمع کرنے والا ہو-
(۵){عن ابی سعیدخدری ان رسول اللّٰہﷺ قال ان ممااخاف علیکم من بعدی ما یفتح علیکم من زھرۃ الدنیاوزینتھا}
رسول اللہ ﷺ نے فرمایامیں اپنے بعد تم پر جن چیزوں کا خوف کرتا ہوں وہ دنیا کی تازگی ہے اوراسکی زینت ہے جوتم پرکھول دی جائے گی- (۱۴)
حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا ایک اور مصرعہ عین بہ عین اِس درج ذیل حدیث پاک کا پنجابی/ سرائیکی میں شاندار ترجمہ ہے :
؎ادھی لعنت دُنیا تائیں تے ساری دُنیا داراں ھُو
اَب حدیث پاک کے الفاظ و ترجمہ مُلاحظہ فرمائیں :
(۶){وعنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال الا ان الدنیاملعونۃ وّملعون مافیھاالا ذکراللّٰہ وما ولاہ وعالم او متعلّم}(۱۵)
’’آقاپاک ﷺ نے فرمایادنیاملعون ہے اوردنیا میں جوکچھ ہے وہ معلون ہے سوائے اللہ کے ذکرکے اورجواس کے قریب کردے -‘‘
(۷){وعن سھل بن سعید قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لو کانت الدنیا تعدل عنداللّٰہ جناح بعوضۃ ماسقیٰ کافرا منھا شربۃً}(۱۶)
’’نبی پاک ﷺ نے فرمایااگراللہ کے ہاں دنیا کی قدروقیمت مچھرکے پَرکے برابرہوتی توکافر کودنیامیں ایک گھونٹ نصیب نہ ہوتا-‘‘
اب حضرت سُلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اور مصرعہ دیکھیں اور اس سے نیچے والی حدیث پاک مُلاحظہ ہو :
جنہاں ترک دُنیا دی کیتی باھُوؔ او ہ لیسن باغ بہاراں ھُو
(۸){عن ابی موسیٰ قال قال رسول اللّٰہ ﷺمن احب دنیاہ الضر بآخرتہ ومن احب اخرتہ اضربدنیاہ فاثر ما یبقیٰ علی ما یفنیٰ} (۱۷)
’’آقا پاک ﷺ نے فرمایا جو دنیا کو محبوب بنالیتا ہے اس کی آخرت میں نقصان ہوگیاجو آخرت کومحبوب بنالیتا ہے اس کی دنیاگئی بس تم باقی رہنے والی کو فانی پر ترجیح دو-‘‘
جب کسی کو دُنیا کے ساتھ پیارہو گیااکثر دُنیاکے ذکرکے معمول میں ہی مشغول رہے گااسے آخرت کے معاملات کے لئے فراغت نہیں ملے گی-
(۹){عن سھل بن سعید قا ل جآ ء رجل فقال یارسول اللّٰہ ﷺ دُ لّنی علی عمل اذا اناعملتہ احبّی اللّٰہ واحبنی الناس قال ازھد فی الدنیایحبک اللہ
وازھد فیما عندالناس یحبک الناس} (۱۸)
’’ایک شخص آقا پاک ﷺ کی خدمت میں آیا عرض کی یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے اورتمام لوگ بھی - فرمایادنیاسے بے رغبت ہوجااللہ تجھ سے محبت کرے گا - جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبت ہوجالوگ تجھ سے ،محبت کریں گے-‘‘
(۱۰){عن کعب بن عیاض ؓ قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول انّ لکل امۃ فتنۃ وفتنہ امتی المال}(۱۹)
’’حضرت کعب بن عیاض ؓ کا بیان ہے کہ میں نے سرور دوعالم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر امت کے لئے فتنہ ہے میری امت کا فتنہ مال ہے -‘‘
(۱۱){قال قال رسول اللّٰہ ﷺ مازھد عبد فی الدنیا الا انبت اللّٰہ الحکمۃ فی قلبہ }(۲۰)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجب بندہ دنیاسے بے رغبتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کردیتا ہے -‘‘
(۱۲){عن انس ؓ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ ھل من احد یمشی علی المآء الا ابتلت قدماہ قالوا لایارسول اللّٰہ قال کذالک صاحب الدنیا لا یسلم من الذنوب}(۲۱)
’’حضرت انسؓ سے مروی ہے نبی پاکﷺ نے فرمایاکوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے جوپانی پر چلے مگر اس کے قدم تر نہ ہوں فرمایادنیادارگناہوں سے نہیں بچ سکتا-‘‘
(۱۳){عن ابن عمرانّ النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال اتقوالحرام فی البنیان فانّہ اساس الخرب }(۲۲)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاعمارت پر حرام مال خرچ نہ کرو یہ خرابی کی بنیاد ہے -‘‘
(۱۴){عن عائشۃ عن رسول اللّٰہ ﷺ قال الدنیادار من دار لہ ومال من لا مال لہ ولھا یجمع من لاعقل لہ}(۲۳)
’’حضرت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایادنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھرنہیں اورمال اس کاہے جس کا کوئی مال نہیں اسے وہ جمع کرتا ہے جو عقل نہیں رکھتا-‘‘
(۱۵){عن حذیفۃ قال سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول فی خطبۃ الخمرجماع الاثم والنسآء حبآئل الشیطان وحب الدنیارائس کل خطیئۃ } (۲۴)
’’حضرت حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کودوران خطبہ یہ فرماتے ہوئے سنا شراب پیناگناہوں کوجمع کرنا ہے عورتیں شیطان کاجال ہیں اوردنیاکی محبت تمام گناہوں کی سردار ہے -‘‘
{حب الدنیارائس کل خطئیہ} (۲۵)
{الدنیا جیفۃ وطالبھا کلاب }(۲۶)
’’جب اللہ پاک نے دنیا پیدا فرمائی تو اسے فرمایا اے دنیا! جو میری خدمت کرے تو اس کی خادم رہنا جوتیری خدمت کرے اُسے خادم بنانا-‘‘(۲۷)
حضرت دائود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہوتودنیاکی محبت دل سے نکال دو اس لئے دنیا اورمیری محبت یک جا جمع نہیں ہوسکتیں-
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایامُردوں کے پاس نہ بیٹھا کرو ان کی نحوست سے تمہارے دل بھی مردہ ہوجائیں گے انہوں نے عرض کی مردہ کون ہے ؟ فرمایادنیاسے محبت کرنے والے اور اس کی رغبت میں سرمست رہنے والے- (۲۸)
اورتمام صوفیاء نے دنیا کی حقیقت کوبیان کیا -
حضرت علی پاک ؓ سے کسی نے بلڈنگ خریدی اورعرض کی بیع نامہ لکھ دیں آپ ؓ نے فرمایاایک فریب خوردہ دوسرے فریب خوردہ سے بلڈنگ خرید کر غافلین کے کوچہ میں داخل ہوگیا اوریہ ایک ہی بلڈنگ ہے جس کے مالک کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے اس لیے اس کا ایک کنارہ موت سے ملاہواہے اوردوسراقبرسے تیسراحشرسے چوتھاجنت یاجہنم سے -جب آپؓ کا لکھا ہوابیع نامہ بلڈنگ کے خریدارکے سامنے پڑھاگیاتواس پر اتنا اثرہواکہ وہ بلڈنگ خریدنے سے بازآگیااورتمام سرمایہ راہِ خدامیں صَرف کردیا-(۲۹)
حضرت ابوعبداللہ القرشی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں بعض لوگ ایک نیک بخت سے شکایت کرنے لگے جناب ہم عبادت کرتے ہیں لیکن اس کی لذت دل میں محسوس نہیں ہوتی انہوں نے فرمایا قلب میں حلاوت کیسے نصیب ہو جب تیرے دل میں شیطان کی بیٹی سکونت پذیر ہے یعنی حُبِ دنیاشیطان کی بیٹی ہے تو پھر باپ کو بیٹی کی ملاقات کے لئے آناہوگااوراس کی بیٹی کاگھرتیراقلب ہے جب وہ داخل ہوتا ہے تو لازماً تیرے دل پر ظلمت چھاجاتی ہے - (۳۰)
ترا دنیاہمی گویہ شب وروز
کہ ہاں از صحبتم پرہیز وپرہیز
مدہ خودرافریب ازرنگ وبویم
کہ ہست ایں خندہ من گریہ امیز
’’تجھے دنیاشب وروز یہی کہتی ہے خبردار میری صحبت سے دور رہو،میری رنگ وبو سے دھوکا نہ کھامیری ہنسی گریہ سے ملی ہوئی ہے -‘‘(۳۱)
حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
’’دنیا کے علاوہ کسی دوسری سرا میں مکان بنا اس لئے کہ دنیاکی اساس مضبوط نہیں زمانہ خون خوار سے امید وفاتلاش نہ کر کیونکہ سانپ کے منہ سے شہدکا ہونامحال ہے -‘‘(۳۲)
سلطان العارفین سلطان باھُو رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :
محی الدین دنیا را دادہ سہ طلاق
واتفاق یگانگ بہ خداشود
شیخ محی الدین عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے دنیاکوتین طلاقیں دیں اور اللہ سے یگانگت پیداکی - (۳۳)
عین الفقر میں حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں :
حضرت عیسیٰ نے دنیا کوایک بیوہ عورت کی صورت میں دیکھا کہ اس کی کمر جھکی ہوئی مگر سر پر رنگین چادرتھی ،ایک ہاتھ پہ مہندی رچی تھی اوردوسرے ہاتھ خون سے تر تھا ،آپ نے اس سے پوچھا اے ملعون تیری کمر کیوں جھکی ہوئی ہے (؟) اُس نے جواب دیا اے روح اللہ ! مَیں اپنے بیٹے کو مار بیٹھی ہوں اُس کے غم میں کمرجھک گئی ہے - پھر آپ نے فرمایا سرپررنگین چادر کیوں اوڑھ رکھی ہے (؟) اس نے جواب دیا اس سے نوجوانوں کے دل لبھاتی ہوں - آپ نے مزید پوچھاتیرے ہاتھ پر خون کیوں لگاہواہے (؟) تو اس نے جواب دیا ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنے خاوند کوقتل کیاہے - آپ نے مزید پوچھا تونے دوسرے ہاتھ پہ مہندی کیوں رچارکھی ہے (؟) اُس نے جواب دیا اب نیا شوہر کیا ہے - حضرت عیسیٰ ؑ متعجب ہوئے ، وہ بولی اے روح اللہ !اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ جب میں باپ کوقتل کرتی ہوں تو بیٹا میرا عاشق بن جاتا ہے جب بیٹے کو قتل کرتی ہوں توباپ میراعاشق بن جاتاہے جب کسی کے بھائی کو قتل کرتی ہوں تو دوسرا بھائی میرا عاشق بن جاتا ہے -اے روح اللہ ! عجیب ترین بات یہ ہے مَیں ہزار شوہرمارچکی ہوں مگر ان کی موت سے کسی نے عبرت حاصل نہیں کی اور کوئی بھی مجھ سے ترش رو نہیں ہوا-(۳۴)
مزید آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
باھو سہ طلاقش داد دنیارا رسول
ہرکہ دنیا را نگہدارآن ناقبول
’’اے باھُوؔ (رحمۃ اللہ علیہ) رسالت مآب ﷺ نے دنیا کو تین طلاقیں دے دیں جس نے دنیا کا خیال رکھا وہ قبول نہ ہوا- ‘‘
ان تمام آیات و احادیث مبارکہ و بزرگانِ دین کے تجربات اور مجرب اقوال کی روشنی میں اس سے پہلے کہ ہم خود کوئی نتیجہ اخذ کریں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کا دنیا کی حقیقت کے متعلق ایک اور بیت ملاحظہ فرمائیں اور کسی گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر توفیقِ الٰہی سے اس بیت پر بار بار غور فرمائیں کہ حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ مادہ پرستی اور عیاشی سے بھرپور اس دور میں ہمیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے-
ایہہ دنیاں رن حیض پلیتی ہرگز پاک نہ تھیوے ھُو
جیں فقر گھر دنیاں ہووے لعنت اس دے جیوے ھُو
حب دنیاں دی رب تھیں موڑے ویلے فکر کچیوے ھُو
سہ طلاق دنیاں نوں دئییے جے باھُوؔؒ سچ پچھیوے ھُو
حوالہ جات:
(۱)(اٰل عمران :۱۸۵)
(۲)(تفسیر المظہری للقاضی ثنا اللّٰہ )
(۳)(تفسیر مظہری للقاضی ثنا اللّٰہ جلد دوم ۱۹۰)
(۴)(تفسیر نعیمی للنعیمی، جلد ۴، صفحہ۳۹۵)
(۵)(الانعام :۳۲)
( ۶)(تفسیرمظہری للقاضی ثنا اللّٰہ جلد سوم صفحہ ۲۵۲)
(۷)(یونس :۷ ) (۸)(یونس :۲۳) (۹)(یونس:۲۴)
(۱۰)(السنن للابن ماجہ حدیث نمبر ۴۱۰۸،المصنف للابن شیبہ ۳۴۳۰۶، السنن للترمذی ۲۳۲۳، المسند للاحمد ۱۸۰۱۴، الصیحح للابن حبان ۴۳۳۰)
(۱۱)(مشکوٰۃ المصابیح لل ۵۱۵۷، شعب الایمان للبیھقی ۱۰۴۶۷ سنن الکبریٰ لل ۶۰۷۷)
(۱۲)(اشعۃ للمعات للشیخ عبد الحق حدیث نمبر۴۹۲۹)
(۱۳)(الجمع بین الصحیحین لل ۲۵۵۶، الفتح الکبیر،لل ۵۳۹۱، جامع الاحادیث لل۱۰۸۱۵ ، جامع الاصول لل ۴۰۵۹، شعب الایمان لل حدیث نمبر۱۰۳۳ )
(۱۴)(الصحیح للبخاری۱۴۶۵،سنن الکبیر لل حدیث نمبر۵۷۱۰،دلائل النبوۃ للنبھانی ۲۹۰۲، السنن للبہیقی حدیث نمبر ۵۵۰۱،شعب الایمان لل حدیث نمبر۱۰۲۹۰،الصحیح للابن حبان حدیث نمبر۳۲۲۷)
(۱۵)(سنن ابن ماجہ لل حدیث نمبر ۴۱۱۲،المصنف لابن ابی شیبہ حدیث نمبر۳۵۳۳۲،السنن للدارمی حدیث نمبر ۳۲۸،کنزالعمال لل حدیث نمبر۶۰۸۳،سند الشامین لل حدیث نمبر۱۶۳)
(۱۶)(الجامع صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر۳۲۰،المستدرک حدیث نمبر۷۸۴۸،شعب الایمان حدیث نمبر۱۰۴۶۵،کنزالعمال حدیث نمبر ۶۱۳۲)
(۱۷)(المستدرک صحیحین حدیث نمبر ۷۸۹۷،بہیقی ۶۷۵۱،صحیح حبان ۷۰۹،مجمع الزوائد۱۷۸۲۵،مسند احمد۱۹۶۹۸)
(۱۸)(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر۴۱۰۲،الموجم الکبیر۵۹۷۲،شعب الایمان حدیث نمبر ۱۰۵۲۳، کنزالعمال ۸۵۷۷)
(۱۹)(المستدرک صحیحین حدیث نمبر ۷۸۹۶،المعجم الاوسطحدیث نمبر۳۲۹۵،مسنداحمد بن حبل حدیث نمبر۱۷۵۰۶،المعجم التبرانی حدیث نمبر۴۰۴)
(۲۰)(مشکوٰۃ المصابیح ،التبیریزی حدیث نمبر ۵۱۹۹،اشعۃ للمعات حدیث نمبر ۴۹۷۰)
(۲۱)(جامع مغیرحدیث نمبر۹۵۹۲،کنزالعمال حدیث نمبر۶۱۵۱،شعب الایمان حدیث نمبر۱۰۴۵۷،مشکوٰاہ المصابیح حدیث نمبر۵۲۰۵)
(۲۲)(شعب الایمان حدیث نمبر۱۰۷۲۲،مسنداشھاب لمحمدالقضائی حدیث نمبر۴۳۴،مشکوٰاۃ امصابیح حدیث نمبر۵۲۱۰)
(۲۳)(الجامع الصغیرحدیث نمبر۴۲۷۴،الفتح الکبیرحدیث نمبر۶۴۰۱،جامع الاحادیث حدیث نمبر۴۱۰۵۷۶،شعب الایمان حدیث نمبر۱۰۶۳۷،کنزالعمال حدیث نمبر۶۰۸۵،مجمع الزوائدحدیث نمبر۱۸۰۷۸،مسنداحمد بن احنبل حدیث نمبر۲۴۴۶۴،اشعۃ اللمعات حدیث نمبر۴۹۸۲)
(۲۴)(مشکوٰہ المصابیح حدیث نمبر۵۲۱۲،اشعۃ اللمعات حدیث نمبر۴۹۸۳،)
(۲۵)(کنزالعمال حدیث نمبر ۶۱۱۴،فیض القدیر حدیث نمبر۳۶۶۲،جامع الاصول حدیث نمبر ۸۴۸۰،جامع الاحدیث حدیث نمبر۴۵۰۳۰،الزء ھد وصفت الزاہدین جلد۱،صفحہ نمبر۱۴،علم النبوہ جلد۱،صفحہ ۴۹)
(۲۶)(کشف الخفا جلد۱ صفحہ نمبر ۴۰۹،فیض القدیر جلد ۵ صفحہ نمبر ۲۸۷)
(۲۷)(روح البیان پارہ ۲۷صفحہ نمبر۵۸۴) (۲۸)(روح البیان صفحہ نمبر۱۹۸ پارہ ۴)
(۲۹)(روح البیان پارہ ۵ صفحہ نمبر ۲۵۵) (۳۰)(روح البیان پارہ ۴ صفحہ نمبر۱۹۸)
(۳۱)(روح البیان پارہ صفحہ نمبر۱۸۶) (۳۲)(روح البیان صفحہ نمبر۱۵۵)
(۳۳)(توفیق ہدایت صفحہ ۱۳۴)
(۳۴)(عین ا لفقر للسُلطان باھُو صفحہ نمبر۴۴۱، العارفین پبلیکیشنز لاہور پاکستان)