جو دل منگے ہووے ناہیں ہوون ریہا پریرے ھو
دوست نہ دیوے دل دا دارو عشق نہ واگاں پھیرے ھو
اس میدان محبت دے وچ ملن تا تکھیرے ھو
میں قربان تنہاں تو باھوؒ جنہاں رکھیا قدم اگیرے ھو
Jo dil mangey howey naheeN howan reha prairey Hoo
Dost na deway dil da daroo ishq na wagaaN phairey Hoo
Es maidan mohabat dey wich millan ta tekhairey Hoo
Main qurban tinhaaN too "Bahoo" jinhaaN rakhiya qadam agairey Hoo
What heart demands I don't have away its desires remains Hoo
Friend doesn't give my hearts remedy and Ishq remains in persistence Hoo
In this arena of love there are scorching hot instances Hoo
I sacrifice upon you " Bahoo" who perused in resistance Hoo
تشریح:
حضرت سُلطان باھورحمۃاللہ اس بیت میں راہِ حق میں درپیش ایک قلیل المدت اورعارضی نوعیت کے ہجر وفراق کاذکرکرتے ہیں کہ دل تو ہرآن اورہرلحظہ دیدِمرشد کی کسک سے لبریزہے مگر جانے کیوں مرشد نے دل لگی میں مبتلاء کررکھاہے -مذکورہ کیفیت کو اکثر شعراء وحشت اورجنون سے ملقب کرتے ہیں -راہ حق میں جوسالک مذکورہ عارضی ہجروفراق کی کیفیت سے ثابت قدمی اوراستقامت سے گزرتاہے وہی سالک جمعیتِ کل کی نعمتِ عظمیٰ کاسزاوارہوتاہے-سلطان باھورحمۃاللہ کہتے ہیں کہ بسااوقات مرشد اپنے طالب کو ایک قلیل المدت عارضی نوعیت کی فراقانہ کیفیت سے آزماتاہے اس کیفیت کوحضور نبی اکرمﷺ سے منسلک ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے -غارحرامیں پہلی وحی کے نزول کے بعد دوسری وحی کے لیے آپﷺ شوق الٰہی کی وجہ سے شدید بے قرار رہے-
’’دوست نہ دیوے دل دا دارو عشق نہ واگاں پھیرے ھو‘‘-اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کیفیت کوبیان فرمایاکہ
’’تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تواپنی طرف راہ دی-‘‘(الضحیٰ:۷)
بعدازاں آپﷺ شوق الی اللہ کی معراج سے سرفراز ہوئے -مناقبِ سلطانی میں درج ہے کہ حضرت کالوشاہ رحمۃ اللہ اپنے مرشد (سلطان باھو) کے دیدار کی نعمت کے لئے حاضر خدمت ہوئے تومرشد(سلطان باھو)نے انہیں عارضی فراقانہ کیفیت سے دوچارکیا بعدازاں سلطان باھورحمۃاللہ نے کالوشاہ کودیدار کی نعمت سے سرفراز کیا-سلطان باھورحمۃاللہ کہتے ہیں راہِ حق ایک ایسا کھلامیدان ہے کہ جہاں جگہ جگہ آگ کے الائو بھڑک رہے ہیں ان سے دامن بچاکرنکلنا توفیق الہٰی کے سواممکن نہیںہے -عشق ومحبت آسان نہیں البتہ آگ کا دریاعبور کرنے کی ماننددقت طلب کام ہے -آخری مصرع میں سلطان باھوراہِ محبت کاعالم گیر ضابطہ بیان کرتے ہیں کہ سیرفی اللہ لامحدود ہے- سیر فی اللہ میں سلطان باھو رحمۃ اللہ کامرتبہ ومقام ہر لحظہ ترقی پذیررہے گا اورابدالآباد آپ کے درجات میں لمحہ بالمحہ اضافہ ہوگاکیونکہ آپ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ فقیر کبھی کسی خاص مقام پرساکن نہیں رہتااورسیرفی اللہ میں قدم باقدم آگے سے آگے گامزن رہنے میں فقیر کودوام حاصل رہتا ہے سلطان باھورحمۃاللہ کہتے ہیں ایسے فقیر کی عظمت پہ جان قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرناچاہیے - نیز آخری مصرعہ اِس بات کی وضاحت بھی ہے کہ تصوفِ سُلطانی میں جمود و تعطُّل کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ ہر لحظہ اور ہر لمحہ آگے بڑھتے رہنا اور بہتر سے بہتر مقامِ باطنی کی جستجو پیدا کرنا طالب کیلئے بہتر ہے - کیونکہ ایک مقام پہ ٹھہر جاتا ہے وہ تالاب کا پانی ہے جو وہیں سوکھتا ، کم ہوتا رہتا ہے - جبکہ فقیرِ کامل تو دریائے پُرخروش ہے جو مسلسل آگے بڑھتا ہے جسے علامہ اقبال ’’زندہ رُود‘‘ یعنی بہتی ندّی کہتے ہیں -
سکوں پرستیٔ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طُغیانی(اقبال)