تحقیقی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے ’’حضرت سُلطان باھُو ڈیسک‘‘ کے زیرِ اہتمام بروز منگل، ۰۹ دسمبر، ۲۰۱۴ء کو ایک روزہ انٹرنیشنل ’’سلطان باہو اور مولانا رومی ‘‘کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہوا جس میں پاکستان سمیت پانچ ممالک (تاجکستان ، ترکی ، بنگلہ دیش اور بوسنیا ) کے محققین نے حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ اور حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کے مُشترکہ روحانی و ادبی ورثے پہ اپنے تحقیقی مقالات پیش کئے ۔تین سیشنز پر مشتمل کانفرنس کا آغاز تلاوت کلامِ پاک سے ہوا اور ہر سیشن کے آغاز پر کلامِ حضرت سلطان باھو اور کلامِ مولانا رومی پیش کیا گیا۔کانفرنس میں سفارتکاروں ، سیاسی و سماجی شخصیات، مُختلف اداروں کے محققین ، صحافیوںاورمختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرز و طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ ہر سیشن کے اختتام پر مسلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے معزز مہمانوں میں کانفرنس کی یادگیری شیلڈز بھی تقسیم کی گئیں۔مسلم انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ ایسوسی ایٹ عثمان حسن نے ماڈریٹر کی خدمات سر انجام دیں۔
سیشن اوّل
صاحبزادہ سلطان احمد علی
چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
Welcoming Remarks
مسلم انسٹیٹیوٹ کی دعوت پر آج کی کانفرنس میں تشریف لانے والے تمام مہمانانِ گرامی بالخصوص بیرونِ ملک سے تشریف لانے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں- مسلم انسٹیٹیوٹ کے چارر ڈیسک ہیں (۱) کشمیر ڈیسک ؛ جو کہ کشمیر پر سپیشلائزڈ سٹڈی کرتا ہے (۲) انٹرنیشنل افیئرز ڈیسک؛ اس کے زیرِ اہتمام عالمی سطح پہ مسلمان ممالک اور معاشروں کو درپیش چیلنجز پہ تحقیق کی جاتی ہے (۳) شریعہ اینڈ اسلامک جورسپروڈنس؛ اس ڈیسک کے زیرِ اہتمام تیزی سے بدلتی دُنیا میں تغیر پذیر معاشرت میں اسلامی شریعہ اور اس کی دیگر شاخوں سے متعلق نوجوان نسل میں آگاہی پیدا کی جاتی ہے اور جدید شرعی مسائل پہ تحقیق کی جاتی ہے (۴) حضرت سُلطان باھُو ڈیسک؛ اس کے زیرِ اہتمام صوفیائے کرام کی امن و محبت پہ اور اصلاح و روحانیت پہ مبنی تعلیمات کے فروغ کیلئے ملٹی ڈائمینشنل اکٹیویٹیز تشکیل دی جاتی ہیں آج کی یہ کانفرنس بھی اِسی ڈیسک کے زیرِ اہتمام اِنعقاد پذیر ہے -حضرت سلطان باھُوؒ اور مولانا رومی ؒکی تعلیمات آج کے دور میں اُتنی ہی مؤثر ہیں جتنی اُن کے اپنے دور میں تھیں-معاشرے میں امن و محبت کے فروغ کے لیے اولیائے کاملین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا نا گزیر ہو چکا ہے- ایک وقت تھا جب مثنوی ہمارے نصاب کا حصہ ہوا کرتی تھی مگر اب ہمارا معاشرہ صوفیاء کی تعلیمات سے رسمی طور پربھی محروم ہوتا جا رہا ہے-صوفیاء کے کلام کو فقط ترنم اور حسنِ ادائیگی سے پڑھ لینے سے ان کا حق ادا نہیں ہوگابلکہ ان کے پیغام کو عملی طور پر اپنانا ہو گا ۔ اِن شخصیات پر اور اُن کے افکار پر تحقیق کرنی اسلئے بھی ضروری ہے کیونکہ اُن کے بعد دوبارہ کوئی اُن جیسا نہیں پیدا ہو سکا-
پروفیسرڈاکٹر سلیم مظہر
شعبہ فارسی (سابق ڈین اورئینٹل کالج) پنجاب یونیورسٹی، لاہور
Special Remarks
مولانا رومی ؒنے اسلامی ثقافت کے مراکز ثمرقند اور بخارا کی چنگیز خان کے ہاتھوں تباہی کے بعد مسلم دنیا میں پیدا ہونے والی مایوسی کو ختم کیا اور حضرت سلطان باھو ؒنے مُغل شھزادوں کے جنگ و جدل کے دور میں پیدا ہونے والی تفرقہ بازی کااپنی فکر اور کلام سے سدِ باب کیا- ہم نے اپنے اسلاف کے فیوض و برکات کو ترک کر دیا ہے اسلئے ہم پستی کی جانب جا رہے ہیں -یہ فکر آج بھی تعلیمات کی صورت میںہمارے پاس موجود ہے ہمیں ان سے استفادہ کر کے اپنے معاشرتی مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے جو کہ غیر مسلموں کو بھی مسلمانوں کے قریب کرتی ہیں-حضرت سلطان باھوؒ مادرذات ولی اللہ تھے جبکہ مولانا رومی عظیم عالم دین تھے مگروہ’’ مولائے روم‘‘ تب بنے جب انہیںشاہ شمس تبریزؒ کی صحبت نصیب ہوئی- جیسا کہ انہوں نے فرمایا بھی ہے
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم
تا غُلامِ شمسِ تبریزی نہ شُد
کہ ’’مولوی جلال الدین‘‘ تب تک مولائے روم نہیں کہلایا جب تک شمسِ تبریزی کے حلقۂ غُلامی میں شامل نہیں ہوا -
عزت مآب مکاروِک ندیم
سفیرِ بوسنیا برائے پاکستان
Guest of Honour
بوسنیا اُن خطوں میں سے ایک ہے جہاں اِسلام کی ترویج و اشاعت صُوفیائے کرام نے فرمائی - ۱۹۹۰ء کی دہائی میں بوسنیا کے مسلمانوں پر بیش بہا مظالم ڈھائے گئے مگر اسلام ان کے دلوں سے نہیں نکل سکا جس کی وجہ صوفیاء کا اثر و رسوخ تھا- سلطان باھوؒ اور مولانا رومی ؒکے درمیان قریباً ساڑھے تین سو سال کا فاصلہ ہے مگر ان کی تعلیمات کم و بیش ایک ہی درس دیتی نظر آتی ہیں کیونکہ یہ ان کے ذاتی روحانی و قلبی مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہیں- ان کی تعلیمات کے مطابق انسان کی روحانیت اسے باقی مخلوقات سے منفرد کرتی ہے اور اگر روح بیدار نہ ہو تو انسان جانوروں کی صف میں رہتا ہے- ان ہستیوں کی تعلیمات محبت کا درس دیتی ہیں- آج کے دور میں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر تہذیبوں کے مابین مکالمہ کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
عزت مآب جانانوف شیرعلی
سفیرِ تاجکستان برائے پاکستان
Guest of Honour
حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات انسان دوستی کا سبق دیتی ہیں میری خواہش ہے کہ یہ کانفرنس ایک ابتداء ثابت ہو جو صوفیاء کی تعلیمات کو عام کرنے کا سبب بنے کیونکہ یہ وقت کا اہم تقاضا ہے- وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں ایک بڑا باہمی تعلق روحانیت ہے اِن دونوں خطوں کا اِسلامی ، روحانی و ثقافتی ورثہ مُشترک ہے ہمیں چاہئے کہ اُس مشترکہ ورثہ کی تلاشِ نو جاری رکھیں - جنوبی ایشیا میں بولی جانے والی فارسی ایران سے متاثر ہونے کی بجائے وسطی ایشیا کی فارسی سے زیادہ متاثر تھی یہاں اِس لہجے میں بہت عظیم لوگ آئے مثلاً حضرت سُلطان باھُو ، غنی کاشمیری ، مرزا عبد القادر بیدل ، زیب النسأاور مرزا غالب - حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومی ؒکی تعلیمات محبت، امن اور برداشت پر زور دیتی ہیں- ان کی تعلیمات کے مطابق انسان کا دل خالقِ کائینات کے انوار و تجلیات کی جلوہ گاہ ہے جیسے مولانا رومی فرماتے ہیں، دل گزر گاہِ جلیلِ اکبر است، اور حضرت سلطان باھو فرماتے ہیں، ایہہ تن رب سچے دا حجرہ-
عزت مآب پیر محمد ابراہیم شاہ
(عزت مآب صاحبزادہ ابراھیم شاہ صاحب نے اپنے بھائی وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات شاہ کا پیغام پہنچایاجو کسی اچانک سرکاری مصروفیت کے باعث تقریب میں شریک نہ ہو سکے)
نوجوانوں کو چاہئے کہ کتاب بینی کو اپنا شعار بنائیں اور صوفیائے کرام کی تعلیمات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ استعمار نے برصغیر سے فارسی زبان کو ایک سازش کے تحت ختم کر کے مسلمانوں کو ان کے ورثے سے جدا کر دیا ہے۔ ہمیں اپنے ماضی سے حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ جیسی شخصیات سے اُن کی تعلیمات کے ذریعے وابستہ ہونا ہے ۔ ہمیں اپنے آبائو اجداد کے علم و حکمت کے بکھرے موتی سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ صوفیاء کی تعلیمات میں اتحاد کا راز مضمر ہے اور یہی ہمارا مستقبل ہے۔ حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ نے امن، محبت، باہمی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے۔
سیشن دوئم
ڈاکٹر نور علی نورزاد
خنجد سٹیٹ یونیورسٹی، تاجکستان
Man, the crown of creation, focus of the teachings of Sultan Bahoo & Mevlana Rumi
حضرت سلطان باھوؒ کی کتب اور اور مولانا رومیؒ کا کلام فقر کی تعلیمات کے حوالے سے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ظاہری علم اسی صورت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جب باطنی علم بھی حاصل کیا جائے- حضرت سلطان باھو ؒکی تصانیف کا مطالعہ بنظر عمیق کیا جائے تو اسرار ومعنی کے نئے رموزآشکار ہوتے ہیں-حضرت سُلطان باھُو کا ہر جملہ تحقیق طلب ہے اور ان میں فارسی کے نہایت لطیف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں - حضرت سلطان باھوؒ نے مرتبہ استقامت کو مرتبہ کرامت سے بلند تر بیان کیا ہے اور مسلسل جہد کے ساتھ زندگی گزارنے پر زور دیا ہے-
ڈاکٹر عالیہ سہیل خان
پرنسپل،گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ گرلز کالج، راولپنڈی
Social balance & equity and teachings of Sultan Bahoo & Mevlana Rumi
ہمیں مغربی مفکرین کی مادیت پرستی کی سوچ سے صرفِ نظر کر تے ہوئے صوفیاء کی تعلیمات کی طرف رجوع کر کے معاشرے کی اصلاح کرنی ہے- حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کی تعلیمات کا بنیادی درس نفس کے خلاف جہاد ہے جو معاشرے میں انسانی اقدار کو عام کرتا ہے- یہ نظریہ مغربی مفکرین کی مادی سوچ سے یکسر مختلف ہے-ہمیں معاشرتی برابری اور عدل کے حصول کے لیے صوفیاء کی تعلیمات کی طرف لوٹنا پڑے گا-جب تک سیاسی و مذہبی راہنمائوں میں خود احتسابی کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ہم معاشرے میں انصاف قائم نہیں کر سکتے ہیں- جب تک ہم اپنی نفسانی خواہشات کے غلام بنے رہیں گے، نہ تو معاشرے میں بہتری آ سکتی ہے اور نہ ہی انسان اپنے اندر سے مستحکم ہو سکتا ہے-
ڈاکٹر فرید الدین خان
یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ سائنس ڈھاکہ، بنگلہ دیش
Concept of "Love for Divinity & Nothing Else" for balance in society as described by Sultan Bahoo & Rumi
ہمارے معاشرے میں لوگوں کو روحانی خوراک کی ضرورت ہے تاکہ ہم معاشرے میں عدل و انصاف اور امن وامان کو یقینی بنا سکیں اور در حقیقت یہ تعلیمات پوری انسانیت کیلئے ضروری ہیں- مولانا رومیؒ نے انسان کے مقصد حقیقی کو بیان کیا ہے اور حضرت سلطان باھو ؒنے اس کے حصول کا عملی راستہ متعین کیا ہے-جہاں مولانا رومیؒ نے عشقِ حقیقی کا بیج بویا ہے وہاں حضرت سلطان باھو ؒنے اپنے دیوان سے اس فصل کو کاٹا ہے- صوفیاء کا یہ عقیدہ ہے کہ کائنات کی وجہء تخلیق حضور نبی کریم ﷺ ہیں- تمام صوفیاء نے انسان اور خالق کائنات کے مابین رشتے کو عشق کے پیرائے میں بیان کیا ہے-ہمیں اس دنیا کی بجائے خالقِ حقیقی کے ساتھ رشتہ مضبوط کرنا ہے-
بیرسٹر ظفر اللّٰہ خان
مشیر وزیرِ اعظم پاکستان
Chief Guest
حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ کے افکار بنیادی طور پر ایک ہی درس دیتے ہیں جوخالق اور اس کی مخلوق سے محبت کا ہے- اُن کے نزدیک انسان کائنات کا مرکز ہے-ہمیں دنیا کے جھوٹے نظریات ترک کر کے اللہ رب العزت کی جانب رجوع کرنا ہے۔ اولیاء کاملین کی تعلیمات عصر حاضر کی ضرورت ہیں اور مسلم فکر پر چھائے مغربی تہذیب کے اثرات کو ختم کرنے کیلئے صوفیاء کی تعلیمات کا پرچار ضروری ہے- ہر و ہ فکر جو انسان کو مقامِ نیابت سے گرا نے کا باعث ہو وہ فکرنہ اسلامی ہے اور نہ ہی صوفیانہ - آج ہمیں معاشرے میں عدل،مساوات، برابری اور اعلیٰ اخلاق قائم کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کا خاتمہ کرنا ہے-
ڈاکٹر علی اصغر چشتی
سابق وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
Concludin Remarks of Chair of the Session
شریعت اور طریقت دراصل ایک ہی ہیں اور طریقت، شریعت پر نہایت باریکی سے عمل پیرا ہونے کا نام ہے-صوفیاء نے قرآن و سنت کے تحت زندگی گزارنے پر زور دیا ہے- اللہ تعالیٰ کا کلام نور ہے مگر ہم اسے سمجھنے کی بجائے فقط پڑھنے تک محدود ہو جاتے ہیں- تمام صوفیاء نے اسی کلام کی تشریح فرمائی ہے- آج ہمارے اعمال کی وجہ سے اسلام پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں، ہمیں اس روش کو بدلنا ہو گا۔ہمیں اعلیٰ اخلاق اپنانے اور اپنے اعمال درست کرنے کی ضرورت ہے جو روحانی تربیت کے ساتھ ہی ممکن ہے-
سیشن سوم
سکندر اسماعیل خان
وفاقی سیکریٹری ، حکومتِ پاکستان
Chief Guest
اولیائے کاملین نے عوام الناس کو قربِ الٰہی کی دعوت دی ہے - کائنات کی اصل حقیقت انسان کے اپنے اندر پوشیدہ ہے کیونکہ ہماری روح کا تعلق اللہ رب العزت کے ساتھ ہے اور یہ اسی کا قرب تلاش کرتی ہے- ہماری انا اورنفسِ امارہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں- امن اور انارکی، دونوں ہمارے اندر سے جنم لیتے ہیں- ہمیں اپنے آپ کو درست کرنا ہے اور اسی طرح معاشرہ بھی ٹھیک ہو سکتا ہے- اگر ہم اپنے آپ پر کنٹرول کر لیں تو دنیا بھر میں امن حاصل کیا جا سکتا ہے-
ڈاکٹر سلیم مظہر
شعبہ فارسی (سابق ڈین اورئینٹل کالج) پنجاب یونیورسٹی، لاہور
Inculcating humility & patience among humans through philosophy of Sultan Bahoo & Mevlana Rumi
آج انسان محبت، مروت اور رواداری کو ترک کر کے لالچ، حرص و ہوس کا شکار ہو چکا ہے جس کی بنیادی وجہ صوفیاء کی تعلیمات سے دوری ہے جو ہماری اصل میراث ہیں- محبت کے ذریعے انسان کی فطرت کو بدلا جا سکتا ہے - حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ چونکہ ساری کائنات کو خالقِ حقیقی کے نور کا پرتو سمجھتے ہیںاسی لئے مخلوق سے محبت کرتے نظر آتے ہیں-علامہ اقبالؒ نے مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھو ؒکی تعلیمات سے متاثر ہو کر بہت کچھ لکھا ہے -
پروفیسر ڈاکٹر ارکن ترکمن
کونیا کراتئی یونیورسٹی، ترکی
Different Dimensions of Knowledge & its sources in the teachings of Sultan Bahoo & Mevlana Rumi
مختلف علاقوں کے صوفیاء نے مختلف زبانوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک ہی پیغام لوگوں تک پہنچایا ہے کیونکہ ان کی بنیاد ایک ہی ہے اور صوفیاء کا کلام دراصل قرآن پاک کی تشریح ہے-صوفیاء نے روح کو بیدار کرنے کا پیغام دیا ہے اور روح ہر علم کی عالم ہے-ہمارا دماغ انفرادی شعور رکھتا ہے جبکہ روح کے پاس عالمگیر شعور ہے کیونکہ اس کا رابطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے- حضرت سلطان باھوؒ اور مولانا رومیؒ اسی کے ذریعے حقیقی علم کے حصول پر زور دیتے ہیں- حضرت سلطان باھوؒ کے ہاںہمیںـ"ھو"کا استعمال بکثرت ملتا ہے اور اسی "ھو" کی تکرار مولانا رومیؒ کے ہاں بھی نظر آتی ہے-اور "ھو" در حقیقت خدا کی سچائی کو پہچان لینے کا نام ہے- حضرت مولانا رومی ؒ کو تو میں نے ساری زندگی پڑھا ہے مگر حضرت سُلطان باھُو کو پہلی مرتبہ پڑھنے کا موقعہ مِلا ہے اور یہ بہت ہی خوشگوار تجربہ ہے کیونکہ دونوں کا روحانی مشاہدہ باہم دِگر کافی مماثلت رکھتا ہے اور علم کی ابتدا سے انتہا تک تمام کڑیوں اور متعلقات پر دونوں عظیم صوفیا کا نظریہ کافی حد تک مماثل ہے - مثلاً علم کی ابتدا و ارتقا ، علم حاصل کرنے کے ذرائع ، اقسامِ علوم ، علمِ حق و علمِ باطل کی شناخت ، علم اور ذرائع علم کا استعمال اور حقائقِ علوم - ان سب پر بہت سارے مقامات پہ سُلطان باھُوؒ و مولانا رومی کی رائے مشترک ہے - مگر اِس پہ مسلسل تحقیق کی ضرورت ہے -
صاحبزادہ سلطان احمد علی
چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ
Vote of thanks
مجھے امید ہے کہ جتنی سیر حاصل تحقیق ہمارے نیشنل و انٹرنیشنل سکالرز نے پیش فرمائی ہے یہ اِن دونوں عظیم صُوفیائے عظام کی تعلیمات کی تفھیم اور اِن کے مُشترکہ روحانی و ادبی کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہو گی - میں ایک بار پھر بیرونِ ممالک سے بطورِ خاص اِس کانفرنس میں تشریف لانے والے معزز مہمانوں کا بالخصوص شُکریّہ ادا کرتا ہوں اور ان کے علاوہ بھی جتنے ہمارے آنرایبل سپیکرز شریک ہوئے سب کا تہہِ دِل سے مشکور ہوں - میں اِن دونوں بزرگوں کے اُس پیغام پہ اس کانفرنس کا اختتام کرتا ہوں جو اُن کی خانقاہوں پہ طالبانِ مولیٰ کی راہ نمائی کیلئے آج بھی لکھا ہوا ہے -
حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہٗ:
ہر کہ طالبِ حق بَوَد من حاضرم
از ابتدا تا انتہا یک دم برم
طالب بیا! طالب بیا! طالب بیا!
تا رسانم روزِ اوّل با خُدا
ترجمہ: جو کوئی بھی طالبِ حق ہے میں اُس کی راہبری کیلئے حاضر ہوں ، اُسے ابتدا سے انتہا تک (اُس کی طلب و ظرف کے مُطابق) ایک ہی دم میں پہنچا دوں گا - اے طالبِ حق آجا ! اے طالبِ حق آجا ! اے طالبِ حق آجا ! تاکہ میں تجھے پہلے ہی روز واصل بحق کر دوں -
حضرت جلال الدین بلخی رومی :
بعد از وفات تُربتِ ما بر زمیں مجو
در سینہ ہائے مردُم عارِف مَزارِ ما ست
ترجمہ: میری وفات کے بعد میرا مزار زمین پر تلاش نہ کرنا ، بلکہ عارفانِ ذات کے سینوں میں ہماری تربت تمہیں ملے گی-