ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

زَاہد زُہد کرینْدے تھَکے روزے نفل نمازاں ھو
عاشق غرق ہوئے وچ وَحدت اللہ نال محبّت رازاں ھو
مَکھی قید شہد وِچ ہوئی کیا اُڈسی نال شہبازاں ھو
جنہاں مجلس نال نَبِیؐ دے باھوؒ سوئی صاحب ناز نوازاں ھو

Renouncer (zahid) got tired of renunciation and fasting, supererogatory prayer as such Hoo

Ashiq immersed with secret in Oneness of Allah’s love Hoo

Bee is captive in honey with royal falcons how would it fly above Hoo

Those in the company of Prophet (ﷺ)Bahoo with such favour are delighted as much Hoo

Zahid zuhad karainday thakkay rozay nafal namazaa’N Hoo

Aashiq Gharq hoye wich wahdat Allah naal mohabbat razaa’N Hoo

Makhi qaid shehad wich hoi kiya u’Dsi naal shahbazaa’N Hoo

Jinhaa’N majlis naal nabi (ﷺ) day Bahoo soi sahib naaz nawazaa’N Hoo

تشریح:

غلغلِ تسبیحِ زاہد گرچہ مقبول است و لیک

 

آہِ درد آلودِ رندان را صفائِ دیگر است[1]

’’زاہد کی تسبیح خوانی مراتب ِقبولیت تک ضرور پہنچ جاتی ہے مگر رندوں کی درد آلود آہوں کی اثر آفرینی کا قرینہ ہی کچھ اور ہے‘‘-

زاہداں با تقویٰ باشند در ثواب

 

عاشق آنرا قُوْت و قُوّت جان کباب[2]

’’زاہد تقویٰ اختیار کر کے اجر و ثواب کے امیدوار ہیں لیکن عاشقوں کی قوت و غذا اپنی جان کو کباب بنائے رکھنا ہے‘‘-

عبادت کامقصود اللہ تعالیٰ کی معرفت اورقرب وصال ہے لیکن زہاد محض ظاہری عبادت پہ اکتفا کر جاتے ہیں جیسا کہ سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں:

’’الغرض اِس دنیا میں اہل ِعلم عالم فاضل بہت ہیں اور زاہد و عابد و متقی و فقیہ بھی بہت ہیں مگر گمنام رہنے والا خفیہ صاحب ِباطن کامل فقیر ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے‘‘-[3]

آپؒ زاہد کو مخاطب فرما کر اپنی عشق کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے رقم طرازہیں :

’’اے زاہد! تُو مجھے آتش ِ دوزخ سے کیوں ڈراتا ہے؟ میرے اندر تو عشقِ اِلٰہی کی وہ آگ بھری ہے کہ اگر مَیں اُس کا ایک ذرّہ دوزخ میں ڈال دوں تو دوزخ جل کر راکھ ہو جائے‘‘[4]

3: جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، عارفوں، انبیاء، اولیاء اور جملہ اہل ِ اِسلام کی ارواح کو اپنی عبادت و معرفت و محبت و وصال کے لئے پیدا فرمایا ہے نہ کہ ہوسِ مال و زر اور قیل و قال کے لئے ‘‘-[5]

راہ ِ فقر میں دنیا وخواہشاتِ نفسانیہ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو طالب اللہ کو راہ ِخداسے باز رکھتی ہیں اور یہ شیطانی جال کی مثل ہیں اگرطالب اللہ اس جال میں پھنس جائے تو سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اس کو مکھی سے تشبیہ دے کر مختلف مقامات پہ اس کی کوتاہ ہمتی کی مذمت فرماتے ہیں-جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :

’’اہل ِنفس مکھی کی مثل ہوتا ہے، مکھی خواہ کتنی ہی اُڑان بھرے شہباز کی ہم پرواز نہیں ہو سکتی ‘‘- [6]

’’جان لے کہ عشق بلند پروازی کا نام ہے، مکھی چاہے ہاتھ ملے یا سر مارے یا ہزار ہا اڑانیں بھرتی پھرے پروانے یا شہباز کے منصب و مرتبے پر نہیں پہنچ سکتی‘‘- [7]

اسی طرح جو اللہ اور اس کے رسول مکرم (ﷺ)کی رضا کو چھوڑ کر محض کشف و کرامات اور مراتب کے حصول کو اپنا مطمعٔ نظر بنالے تو وہ بھی اللہ کے قرب و وصال سے کوسوں دور ہو جاتا ہے جیسا کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ)فرماتے ہیں :

’’محبت ِالٰہی کے علاوہ باقی جتنے بھی مراتب ِطیر سیر ہیں اُن کی قدر و قیمت بس اِتنی سی ہے کہ اگر تُو پانی پر چلتا ہے تو تُو ایک تنکا ہے اور اگر تُو ہوا میں اُڑتا ہے تو تُو ایک مکھی ہے لیکن اگر تُو نبی ٔپاک (ﷺ)کو راضی کر لے تو پھر بہت کچھ ہے‘‘-[8]

4: ’’القصہ! جو جو فوائد مجلس محمدی (ﷺ)کی حضوری سے حاصل ہوتے ہیں انہیں مکمل طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا‘‘- [9]

سب سے پہلے مجلس محمدی (ﷺ)کی سعادت صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم)کو عطاہوئی،جس کی بدولت انہیں بارگاہ ِ خداوندی سے ’’رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ‘‘کا خطاب ملا اور وہ ’’صاحب ناز نوازاں‘‘ کے مقام پہ فائز ہوئے-مجلس ِ محمدی (ﷺ)کی سعادت اورکرم نواز ی آج بھی جاری وساری ہے؛ بقول سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ):

’’دن رات مجلس ِنبوی (ﷺ) کی حضور ی کی طلب کر (لیکن یاد رکھ ) اِس خاص نور تک مرد مرشد ہی پہنچاتا ہے ‘‘- (2)’’ جو کوئی اِس خاص راہ کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہو کر روسیاہ ہو جاتا ہے‘‘-[10] مزید فرماتے ہیں : ’’مرشد قادری جامع مجمل ہوتا ہے اور ظاہر باطن میں ہر وقت ذکر فکر میں مشغول رہتاہے- قادری طریقہ کے ظاہر باطن میں قرب و وصال، معرفت ’’اِلَّااللہُ‘‘ اور مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری پائی جاتی ہے‘‘-[11]

مزید آپ (قدس اللہ سرّہٗ)مجلس ِ محمدی (ﷺ) کے حصول کا طریقہ مبارک ارشاد فرماتے ہیں کہ:

’’ جونہی طالب اسم اللہ ذات پڑھتا ہے قفل کلمہ طیب کھل جاتا ہے اور طالب اللہ روضے کے اندر داخل ہو جاتا ہے جہاں اسے سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)کی عظیم مجلس دکھائی دیتی ہے جس میں حضور نبی کریم (ﷺ)کے اہل صراط مستقیم اصحاب کبار (رضی اللہ عنھم)بھی موجود ہوتے ہیں-طالب اللہ مجلس محمدی (ﷺ) میں داخل ہو کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم صحبت ہو جاتا ہے- قرب حبیب (ﷺ) کی یہ نعمت طالب صادق صدیق کو اللہ تعالیٰ کے حکم و توفیق اور رفاقتِ مرشد کامل سے نصیب ہوتی ہے- [12]


[1](عقلِ بیدار)

[2](نور الھدیٰ)

[3](ایضاً)

[4](محک الفقر (کلاں)

[5](ایضاً)

[6](امیر الکونین)

[7](عین الفقر)

[8](ایضاً)

[9](شمس العارفین)

[10](مجموعہ شریف)

[11](شمس العارفین)

[12](عین الفقر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر