ابیات :(1)’’ جس کی آنکھیں دیدار ِالٰہی کے لئے کھل گئیں وہ ذکر فکر اور ہر مقام سے گزر گی‘‘- (2) ’’ جس کی آنکھ دیدار ِالٰہی سے سیراب ہو جائے وہ ہر وقت بیدار رہتا ہے پھر وہ سونے چاندی کی طرف نہیں دیکھتا‘‘- (3) ’’مشاہدۂ دیدار بخش کر مجھے لذتِ دیدار سے سرفراز کر دے اور میری آنکھوں کو روشنی ٔدیدار بخش دے‘‘- (4) ’’ اُس نے ہمیں دائم دیدار سے مشرف کر رکھا ہے اِس لئے ہماری آنکھیں ہر وقت مشاہدۂ دیدار میں محو رہتی ہیں‘‘- (5) ’’باھُو اُس کے دیدار کے علاوہ دیگر راہ نہیں جانتا اِس لئے اُس کی آنکھیں ہر وقت وحدتِ اِلٰہ کے مشاہدے میں غرق رہتی ہیں‘‘-
یاد رہے کہ جب تک کلمہ طیب’’ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کو ظاہر میں اقرار ِزبان اور باطن میں تصدیق ِقلب کے ساتھ نہ پڑھا جائے نفس ہرگز مسلمان نہیں ہوتا-پس کلمہ طیب ’’لَآاِلٰہَ اِلَّاللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا زبانی اقرار ہر کوئی کرتا ہے اور اِسے جانتا بھی ہے لیکن تحقیق سے اِس کی تصدیق کس طرح کی جاتی ہے اور اُس کے طریق کی توفیق کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ کلمہ طیب کی یہ توفیق صدقِ صدیق ہے- اگر کوئی تمام عمر ریاضت ِتقویٰ میں مشغول رہے یا عمر بھر علمِ مسائل ِفقہ پڑھتا رہے یا تمام عمر صوم و صلوٰۃِ نفلات میں گزار دے یا رات دن تلاوتِ قرآن میں مشغول رہے اور ذکر فکر و مراقبہ کی مشقت میں جان بہ لب ہو جائے وہ دیدار ِالٰہی سے مشرف ہوئے بغیر مراتب ِتصدیق القلب ہرگز حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ نفس کے ہر بال و رگ میں کفار سے زیادہ سخت بلکہ سخت ترین اکہتر ہزار زنار پڑے ہوئے ہیں جو ہرگز نہیں ٹوٹتے جب تک کہ وہ دیدار ِپروردگار سے مشرف ہو کر صاحب ِحضور نہ ہو جائے- مؤمن مسلمان ہمیشہ مشرف ِدیدار رہتا ہے، بعض کو اِس کی خبر ہوتی ہے اور بعض نہیں جانتے لیکن فقیر پہلے ہی روز علمِ تصدیق اور علمِ دیدار کا سبق پڑھ لیتے ہیں- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس -
بیت: ’’ وہاں نفس و قلب و روح کا نام و نشان نہیں ہوتا کہ وہ فنا فی الذات وحدتِ لامکانی کا مقام ہے‘‘-
علمِ دیدار کا مطالعہ افسانہ طرازی و قصہ خوانی سے ہاتھ نہیں آتا کہ یہ یگانگت ِ عین بعین عین ِعیانی کا مرتبہ ہے ، مراتب ِعلمِ فی اللہ غیب دانی عین العیانی کا مرتبہ ہے -
بیت: ’’ مَیں بے سر ہو کر خدا کو دیکھتا ہوں اور بے زبان ہو کراُس سے ہم کلام ہوتا ہوں یہی معرفت ِتوحید ہے کہ بندہ اُس کا ہم راز و ہم آواز بن جائے‘‘-
علمِ دیدار تعلیم نہیں تلقین و توفیق ہے- اُس وقت اپنی حالت کو دیکھنا چاہیے کہ حق شناس منصف امین حق کو لے لیتا ہے اور باطل کو چھوڑ دیتا ہے- اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس-
یاد رکھیے کہ مرشد ِکامل و مرشد ِناقص کی شناخت و تحقیق کس عمل و کس علم و کس حکمت و کس توفیق و کس طریق سے ہو سکتی ہے؟ مرشد ِکامل معرفت اللہ توحید کا دریا نوش ہوتا ہے اور مرشد ِناقص اہل ِتقلید خود فروش ہوتا ہے- مرشد ِکامل حضوری بخش کر مشرف ِدیدار کرتا ہے اور توجہ سے دل کو زندہ کرتا ہے- وہ مشرف ِحضوری ٔدیدار کے علاوہ ذکر فکر مراقبہ اور ہاتھ میں تسبیح گھمانے کی راہ کو نہیں جانتا جب کہ مرشد ِناقص طالب کو ذکر فکر و مراقبہ کی راہ سے دیوانہ کرتا ہے گویا کہ اُسے کسی دیو خبیث نے جکڑ رکھا ہو- ایسا مرشد مصاحب ِ ابلیس ہوتا ہے- مرشد ِکامل طالب ِصادق کو تصور بخشتا ہے، وہ تصور کہ جو اُسے لقائے حضور سے سرفراز کر کے معرفت ِوحدت ِخدا سے مشرف کرتا ہے- مرشد ِکامل طالب ِصادق کو تصور ِنور بخش کر فنا فی اللہ حضوری میں غرقِ دیدار کرتا ہے- طالب کے لئے مشرف ِدیدار ِپروردگار حضور ہونا ضروری و فرضِ عین ہے- طالب اللہ کو قسم ہے کہ وہ پہلے ہی روز مرشد ِکامل سے معرفت اللہ لقائے لاھوت لامکان طلب کرے اور مرشد کو بھی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)اور صحابہ کرام کی قسم ہے کہ وہ طالب اللہ کو توحید ِفی اللہ کی تلقین کرے اور اُسے حضرت رابعہ بصری و حضرت سلطان بایزید بسطامیؒ کے مراتب پر پہنچائے تاکہ طالب اللہ اولیا ٔاللہ کا خطاب پائے اور دائم مشرف ِلقا ہو کر دنیا و آخرت میں بقا حاصل کرے- جو مرشد اِن صفات سے متصف نہیں اور وہ قوت ِباطن سے توفیق ِتحقیق تک پہنچانا نہیں جانتا وہ ناقص و بے مروت و بے شرم و بے قوت و بے حیا اہل ِناسوت اہل ِہوا ناتمام ہے، اُس سے طلب ِاللہ کرنا اور تلقین لینا حرام ہے-
بیت: ’’نامرد مرشد ذکر کی راہ دکھاتا ہے اور مرد مرشد اللہ سے ملاتا ہے‘‘-
دیگر مرشد ِکامل اِس قدر صاحب ِتصرف ِخزائن اللہ ہوتا ہے کہ وہ ہر روز ایک کروڑ سرخ طلائی سکے خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے- جو مرشد اپنے عمل میں اِس قسم کے مراتب ِ روزینہ نہیں رکھتا اُس کا تصرف ابھی ناقص ہے- جو مرشد ہر وقت مشاہدۂ دیدار ِ پروردگار میں محو رہے اور اُس کے تصرف میں بے حساب و بے شمار خزائن ِالٰہی ہوں اُسے اہل ِدنیا سے اِلتجا و اِلتماس کرنے اور طالب مرید ِکاذب کو تلقین کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ مرشد ِکامل طالب ِصادق کو سب سے پہلے تصرف ِخزائن کے مراتب ِ غنایت عطا کرتا ہے جس سے طالب بے جمعیت و پریشان نہیں رہتا اور وہ مرشد سے ظاہر و باطن میں با اخلاص اتحاد کرتا ہے اور اُس سے یک وجود و یک جان و یک تن ہو جاتا ہے- طالب ِصادق خدمت ِمرشد میں دن و ماہ و سال کا شمار نہیں رکھتا کہ اُسے تو فقط مرشد کی رضامندی درکار ہوتی ہے- جو طالب اپنی خدمت گزاری پر مغرور ہو وہ روز بروز معرفت ِالٰہی سے دُور ہوتا جائے گا اور معرفت اللہ حضور سے محروم رہے گا-
یاد رکھیے کہ باطن دو قسم کا ہوتا ہے : باطن کی ایک صورت وہم و خیال کی ہے جو صاحب ِوہم و خیال کے پیش ِنظر رہتی ہے، وہ اُس سے جواب با صواب پاتا ہے اور احمق طالب اُسے باطن کی صحیح حضوری سمجھتا ہے اور وہ معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ راہزن و زوال پذیر صورت ِوہم ہے- باطن کی دوسری صورت اُس وہم کی ہے کہ جس سے وہ بے حجاب قرب اللہ حضوری کے جواب ِباصواب پاتا ہے اور جب بھی وہ مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری کی طرف متوجہ ہوتا ہے اُسے قرب اللہ وصال کی عنایات نصیب ہوتی ہیں- یہ وہ مراتب ہیں کہ جن میں فقیر کا وجود نور ہوتا ہے اور وہ قرب اللہ حضوری میں سوال جواب کرتا ہے- وہ مراقبہ کے لئے آنکھیں بند نہیں کرتا بلکہ آنکھیں کھلی رکھتا ہے- وہ چشمِ عیان سے مشاہدہ کرنے والا اہل ِراز فقیر ہوتا ہے- وہ ظاہر میں عوام سے ہم کلام ہوتا ہے اور باطن میں لاھوت لامکان کی سیر کرتا ہے اور اگر خواب میں چشمِ عالم کو بیدار کرے تو اُسے مشرف ِنور ِذات کر کے توفیق ِتصور و تحقیق ِتصرف سے فیض فضل اللہ کے دو مراتب تک پہنچا دے- ایک تصور ِاسم اللہ ذات حضور کا مرتبہ اور دوسرا تصرف ِ ملاقات ِ روحانی اہل ِقبور کا مرتبہ- یہ ہیں مراتب ِکامل تصور و مکمل تصور- اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس-یاد رکھیے کہ سوال معرفت اللہ وصال سے باز رکھتا ہے اگرچہ چھ سو سال کی ریاضت و مجاہدہ کرنے پر سوال روا ہی کیوں نہ ہو - ہاں مگر وہ سوال اکمل ہے جس کا تعلق قرب اللہ وصال سے ہو-
(جاری ہے)