حدیث قدسی کی لغوی تعریف:
’’القدسي: نسبة إلى ’’القدس‘‘ أي الطهر، كما في القاموس أي الحديث المنسوب إلى الذات القدسية، وهو الله سبحانه وتعالىٰ‘‘[1]
’’قدسی نسبت ’’قدس‘‘کی طرف ہے جس کے معنی پاکیزگی کے ہیں یعنی وہ حدیث جس کی نسبت ذاتِ قدسیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی کی طرف ہو‘‘-
حدیث قدسی کی اصطلاحی تعریف:
علمائے متقدمین و متاخرین نے اپنے اپنے دور میں حدیث قدسی کی مختلف تعریفات بیان فرمائی ہیں- متقدمین علماء میں سید علی جرجانیؒ (المتوفیٰ:816ھ) نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’کتاب التعریفات‘‘ میں حدیث قدسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہےکہ:
’’حدیث قدسی معنی کے لحاظ سے اﷲ رب العزت کی طرف سے اور الفاظ کے لحاظ سے رسول اﷲ (ﷺ) کی طرف سے ہوتی ہے- پس یہ وہ کلام ہے جسے اﷲ تعالیٰ اپنے نبی (علیہ السلالم) کو الہام یا خواب کے ذریعے بتائیں- پھر آپ (ﷺ) اپنے الفاظ میں اسے بیان فرمائیں- قرآن کریم کی فضیلت اس کے مقابلے میں اپنی جگہ پر مسلم ہے-اس لئے کہ اس کے الفاظ بھی اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ ہوتے ہیں‘‘- [2]
علمائے متاخرین میں سے احناف کے مایہ ناز محدث اور فقیہ ملا علی القاریؒ اپنی تالیف ’’الاحادیث القدسیۃ الاربعینیۃ‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :
’’حدیث قدسی وہ ہے جسے صدر الروایات و بدرالثقات (ﷺ) اﷲ تعالیٰ سے روایت کریں- کبھی جبرائیل (علیہ السلام) کے واسطہ سے اور کبھی وحی، الہام یا خواب کے ذریعہ-اس کی تعبیر آپ (ﷺ) کی مرضی پر منحصر ہوتی تھی، جن الفاظ سے چاہیں تعبیر فرما دیں- وہ قرآن مجید اور فرقان حمید سے متغیر ہوتی ہے- قرآن کریم روح الامین کے واسطہ کے بغیر نازل نہیں ہوتا اور انہی متعین الفاظ کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے جو لوح محفوظ سے نازل کئے گئے اور ہر طبقہ اور زمانہ میں متواتر منقول ہوتا ہے‘‘-
مزید فرماتے ہیں کہ اس سے علماء کرام نے بہت سے فرعی احکام مستنبط کیے ہیں:
’’ احادیث قدسیہ کی قرأت سے نماز صحیح نہیں ہوتی- جنبی حائض اور نفساء کے لئے احادیث قدسیہ کا چھونا حرام نہیں ہے- ان کا منکر کافر بھی نہیں ہے اور نہ ہی ان سے اعجاز متعلق ہے‘‘- [3]
قرآن پاک اور احادیث قدسیہ میں فرق:
- قرآن کریم اللہ پاک کا وہ کلام ہے جس کو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم پہ لوح محفوظ سے حضور نبی کریم (ﷺ) کےپاس لائے ہیں- برخلاف حدیث قدسی کے کہ اس کیلیے جبرائیل امین کا واسطہ ضروری نہیں ہے- کھبی تو خواب کے ذریعہ اس کا القاء ہوا اور کبھی الہام کے ذریعہ اس کو حضور نبی کریم(ﷺ) تک پہنچایا گیا-
- قرآن پاک کا انکار کرنےوالا کافر ہوتا ہےاور حدیث قدسی کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا ہے-
- قرآن پاک کو نماز میں تلاوت کیا جاتا ہے- جبکہ حدیث قدسی نماز میں تلاوت نہیں کی جاسکتی-
- قرآنِ کریم لفظی اور معنوی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جبکہ حدیثِ قدسی معنوی اعتبار سے اللہ تعالیٰ اور لفظی اعتبار سے حضور نبی کریم (ﷺ) کی طرف منسوب ہے-
- قرآن مجید کی بالمعنی روایت جائز نہیں جبکہ حدیثِ قدسی کی بالمعنی روایت جائز ہے-
- قرآن مجید مکمل تواتر کے ساتھ منقول ہے جبکہ حدیثِ قدسی میں تواتر کے ساتھ احاد، صحیح، حسن اور ضعیف بھی ہیں-
تصنیفاتِ حضرت سلطان باھوؒ - مختصر تعارف:
منقول و مشہور روایت کے مطابق حضرت سلطان باهُو (قدس اللہ سرّہٗ) نے کم و بیش 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے صرف 31 کتب منظر عام پر ہیں- آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی جملہ تصانیف متلاشیانِ حق کے لئے ایسے نور کی حیثیت رکھتی ہیں جو طالبانِ حق کو مادیت کے گردوغبار سے نکال کر وصالِ حق سے سرفراز کرتی ہیں-
آپؒ کی تصانیف کے جملہ افکار کا سر چشمہ تعلیمات قرآنی اور فرامین رسول (ﷺ) سے اخذ شدہ ہیں- آپؒ نے مروجہ ظاہری علم حاصل نہیں کیا تھا لیکن چونکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) مادرِ ذات ولی تھے اور اسی سبب سے آپؒ کوعلمِ لدنی حاصل تھا جس کی برکت سے آپؒ حافظِ قرآن، کامل و عاملِ سُنّت، علمِ تصوف و شریعت، فقہ و قانون اور حکمت و فلسفہ پر حاوی تھے- ان جملہ علوم کا ثبوت آپؒ کی بلند پایہ تصانیف ہیں- جہاں آپؒ کی تصانیف الہامی حیثیت رکھتی ہیں وہیں آپؒ کی تصانیف کے مطالعے سے اس بات کا اشارہ بھی ملتا ہے کہ آپ اپنے دور کے وسیع المطالعہ عالِم دین بھی تھے- آپ کی تصانیف کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس پہ آیتِ قرآنی، حدیثِ قُدسی، حدیثِ نبوی (ﷺ) یا صوفیائے کرام کے عربی اقوال درج نہ ہوں-
متعدد مقامات پر آپ(قدس اللہ سرّہٗ) نے نہ صرف فقہی احکام کو بیان کیا ہے بلکہ بعض جگہوں پر فقہا کی آراء کو بھی نقل کیا ہے جو یقیناً اس بات کا ثبوت ہے کہ ان اقوال کے لئے آپ نے فقہی کتب سے استفادہ کیا ہوگا- آپؒ نے اپنی تصانیف میں بکثرت اقوالِ صوفیاء کو بھی رقم فرمایا ہے جن میں سے چند نام مندرجہ ذیل ہیں-
’’سیّدنا امام حسن بصری، سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت ابراہیم بن ادھم، بایزید بسطامی، منصور حلاج، رابعہ بصری، شیخ ابو بکر شبلی، حضرت حاتم اصم، امام اعظم ابوحنیفہ، شیخ فرید الدین عطار، مخدوم جہانیان جہاں گشت، حضرت بہاؤ الدین، شاہ رکن عالم، مالک بن دینار، شفیق ملنجی اور شیخ واجد کرامانیؒ-
ان صوفیاء کے اقوال کو نقل کرنے اور اس سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے یقیناً آپؒ اس موضوع کی کئی کتب سے مستفید ہوئے ہوں گے بلکہ کئی مقامات پرتو آپؒ اس کتاب کا ذکر خود کر دیتے ہیں جہاں سے آپِؒ نے قول کو نقل کیا ہے- علوم الحدیث کی بات کی جائے تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) عموماً دیگر صوفیاء کی طرح احادیث نبوی (ﷺ) کو بیانِ سند کے بغیر نقل فرماتے ہیں لیکن بعض جگہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اس روایت کو بیان کرنے والے صحابی یا امام کا ذکر بھی فرمایا ہے بلکہ کلید التوحید (کلاں) میں فقراء کی شان میں 40 صحیح احادیث مبارکہ بھی نقل فرمائی ہیں اور پہلی حدیث کی مکمل سند کو بھی نقل کیا ہے اور ان احادیث کو رقم کرنے والے محدث کا نام بھی ذکر کیا ہے- اس پوری تمہید کا مقصود یہ ہے کہ جہاں آپؒ کی تصانیف الہامی حیثیت رکھتی ہیں وہیں آپؒ کی تصانیف کے مطالعے سے اس بات کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ آپؒ نے اپنے نظریات کی وضاحت کے لئے کئی کتب سے نہ صرف استفادہ فرمایا ہے بلکہ ان کے اقتباسات کو نقل فرما کر اس کی تائید یا تردید کر کے اپنے مؤقف کو واضح بھی کیا ہے-
تصنیفاتِ حضرت سلطان باھوؒ میں موجود احادیثِ قدسیہ:
زیر نظر مضمون آپؒ کی تصانیف میں موجود احادیث قدسیہ سے متعلق ہے- آپؒ کی 31 کتب منظر عام پر موجود ہیں جس میں سے 2 کتب منظوم صورت میں ہیں، ایک ابیاتِ باهو (فارسی) ہے اور ایک ابیات باهو (پنجابی) ہے- اس کے علاوہ 29 کتب نثری صورت میں ہیں- نا چیز نے صرف ان 28 کتب سے استفادہ کیا ہے جن تصانیف کا ترجمہ فارسی متن کے ساتھ ’’سید امیر خان نیازی صاحب‘‘ یا ’’کے بی نسیم صاحب‘‘ نے کیا ہے-
سید امیر خان نیازی صاحب کے تراجم کے ساتھ موجود فارسی متن بہت معیاری ہے کیونکہ انہوں نے ہر تصنیف کے ترجمے کے لئے کم از کم 3 نسخہ جات کی قید رکھی تھی اور ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی متن کو مرتب کیا ہے بلکہ کئی تصانیف میں انہوں نے ایک تصنیف کے ترجمے کے لئے 7 سے 8 نسخہ جات سے بھی استفادہ کیا ہے- جس کی وجہ سے ان کے تراجم اور دئیے گئے متن میں اغلاط کم سے کم ہیں- معیار کو مدنظر رکھنے کی وجہ سے آپ نے اپنی پوری زندگی میں صرف 11 کتب کے متون کی تصحیح اور تراجم کئے ہیں- اس لئے دیگر تصانیف سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے ناچیز نے کےبی نسیم صاحب کا انتخاب کیا- آپ نے سوائے ایک تصنیف کے تمام منظر عام پر موجود کتب کا ترجمہ کیا ہے- یہ تراجم سید امیر خان نیازی صاحب کے بعد مارکیٹ میں موجود تراجم کے مقابل اچھے تراجم ہیں لیکن چونکہ آپ نے زیادہ تر تصانیف میں ایک سے 2 نسخہ جات کے متون سے ہی استفادہ کیا ہے اس لئے کئی مقامات پر کافی سنگین غلطیاں موجود ہیں- مثلا: 7 سے 8 مقامات پر متن اور ترجمہ دونوں میں احادیث نبویہ (ﷺ) کو احادیث قدسیہ لکھا ہوا تھا یہ مسئلہ زیادہ ان تصانیف میں درپیش آیا جن میں کےبی نسیم صاحب کو زیادہ نسخہ جات میسّر نہ آ سکے لیکن یہ مسئلہ بھی اس وجہ سے زیادہ پریشانی کا باعث نہیں بنا کیوں کہ آپ قدس اللہ سرہٗ نے ایک ہی حدیث قدسی کو اپنی متعدد کتب میں رقم فرمایا ہے اور تمام تصانیف کو سامنے رکھنے سے ان مقامات کا ابہام دور ہو گیا- آپ (قدس اللہ سرہٗ)نے اپنی ہر تصنیف میں کتنی احادیثِ قدسی رقم فرمائی ہیں، اس کا ایک مختصر چارٹ پیشِ خدمت ہے-
تصانیف کے نام
اسرار القادری امیر الکونین رسالہ روحی شریف شمس العارفین عقلِ بیدار کلید التوحید (خورد) کلید التوحید(کلاں) محک الفقر (کلاں) نور الھدی (کلاں) مجالسۃ النبی (ﷺ) عین الفقر کشف الاسرار محبت الاسرار تیغِ برہنہ دیدار بخش خورد اورنگ شاہی گنج الاسرار محکم الفقراء دیدار بخش کلاں عین العارفین مفتاح العارفین توفیق الہدایت کلید جنت قرب دیدار فضل اللقاء جامع الاسرار نورالھدی خورد محک الفقر خورد کل تعداد |
فارسی متن کے صفحات 80 262 7 89 157 35 329 378 278 25 182 18 54 28 24 25 29 49 52 49 66 65 72 73 77 112 55 79 2581 |
احادیثِ قدسیہ کی تعداد (حذفِ تکرار کے بغیر) 19 2 2 1 2 1 7 16 5 - 20 - 10 1 - 1 - 4 12 4 2 1 1 5 1 4 8 8 138 |
ناچیز نے ان 28 کتب کے متون کو بار بار نظر سے گزار کر اس چارٹ کو مرتب کیا ہے- ایک تصنیف میں اگر ایک حدیث قدسی ایک سے زائد بار آئی ہے تو اسے بھی تعداد میں شامل کیا ہے لیکن تمام تصانیف میں موجود احادیث قدسیہ کو اگر ایک ایک ہی شمار کیا جائے اور تکرار کو حذف کر دیا جائے تو 28 تصانیف میں موجود احادیث قدسیہ کی تعداد 39 بنتی ہیں، جسے اہلِ علم کے استفادے کے لئے ترجمے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے- ہر حدیث قدسی کے نیچے اُن تمام کتب کا حوالہ درج ہے جن کتب میں وہ احادیث قدسیہ آئی ہیں تا کہ اہل علم کو استفادے میں آسانی ہو-
1-’’کنت کنزامخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لاعرف
’’مَیں ایک مخفی خزانہ تھا، مَیں نے چاہا کہ میری پہچان ہو، پس مَیں نے اپنی پہچان کےلیے مخلوق کو پیدا کیا‘‘-
i. عین الفقر، ص:25
ii. کلید التوحید، ص: 351
iii. رسالہ روحی شریف، ص: 8
iv. محبت الاسرار، ص: 33
v. کلید التوحید (خورد)، ص: 28
2-’’لا یسعنی ارضی ولا سماء ولکن یسعنی فی قلب عبدی المؤمن‘‘
’’مَیں نہ تو زمین میں سماتا ہوں اور نہ ہی آسمانوں میں سماتا ہوں- مَیں صرف بندۂ مومن کے دل میں سماتا ہوں‘‘-
i. عین الفقر، ص:29
ii. محک الفقر، ص :413
iii. دیدار بخش (کلاں)، ص:67
3-’’انا عند ظن عبدی بی فلیظن بی مایشاء‘‘
’’مَیں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہوں- اب میرا بندہ جیسا چاہے میرے ساتھ گمان رکھے‘‘-
i. عین الفقر، ص:45
4-’’دع نفسک وتعال ‘‘
’’نفس کو چھوڑ دے اور اللہ کو پالے‘‘-
i. عین الفقر، ص:47
ii. دیدار بخش (کلاں)، ص: 67
iii. قربِ دیدار، ص: 75
iv. محک الفقر (خورد)، ص: 41
5-انا جلیس مع من ذکرنی
’’جب کوئی میرے ذکر میں مشغول ہوتا ہے تو مَیں اس کا ہم مجلس بن جاتا ہوں‘‘-
i. عین الفقر، ص:49
ii. عین الفقر، ص: 265
iii. محک الفقر، ص :565
iv. محبت الاسرار، ص: 57
v. محبت الاسرار، ص: 75
vi. عقلِ بیدار، ص: 163
6-’’من طلبنی فقد وجدنی ومن وجدنی عرفنی و من عرفنی احبنی و من احبنی عشقنی و من عشقنی قتلته ومن قتلته فعلی دیته وانا دیته‘‘
’’جو مجھے تلاش کرتا ہے بےشک وہ مجھے پالیتا ہے، جو مجھے پالیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے، جو مجھے پہچان لیتا ہے اسے مجھ سے محبت ہوجاتی ہے، جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے، جو مجھ سے عشق کرتا ہے میں اسے قتل کر دیتا ہوں، جسے میں قتل کردیتا ہوں اس کی دیت مجھ پر لازم ہوجاتی ہےاور اس کی دیت میں ہوں‘‘-
i. عین الفقر، ص:51
ii. نور الھدی (کلاں)، ص :331
iii. کلید التوحید (کلاں)، ص: 411
iv. محک الفقر (کلاں)، ص: 721
v. نورالھدی (خورد)، ص: 51
vi. محکم الفقراء، ص :43
vii. دیدار بخش (کلاں)، ص: 37
viii.دیدار بخش، ص: 79
ix. جامع الاسرار، ص :106
7-’’الانسان سری وانا سرہ الان کما کان ‘‘
’’انسان میرا بھید ہےاور میں انسان کا بھید ہوں‘‘-
i. عین الفقر، ص:97
ii. عین الفقر، ص: 114
iii. عین الفقر، ص: 282
iv. محبت الاسرار، ص: 33
v. عین العارفین، ص: 19
vi. عین العارفین، ص: 46
vii. توفیق الہدایت، ص: 82
viii.محک الفقر(خورد)، ص: 33
ix. جامع الاسرار، ص: 58
x. عقلِ بیدار، ص: 193
8-’’ان اولیائی تحت فبائی لا یعرفھم غیری ‘‘
’’بے شک میرے اولیاء ایسے بھی ہیں جو میری قبا کے نیچے چھپے رہتے ہیں اور انہیں میرے سوا اور کوئی نہیں جانتا‘‘-
i. عین الفقر، ص:117
ii. کلید التوحید (کلاں)، ص: 233
iii. محک الفقر(کلاں)، ص:173
iv. محک الفقر(کلاں)، ص: 531
v. محک الفقر(کلاں)، ص: 597
vi. محک الفقر(کلاں)، ص: 669
vii. محبت الاسرار، ص: 73
viii.تیغ برہنہ، ص: 53
ix. دیدار بخش (کلاں)، ص: 85
x. مفتاح العارفین، ص: 145
xi. قرب دیدار، ص: 91
xii. جامع الاسرار، ص: 167
xiii.شمس العارفین، ص: 57
9-’’انا مع عبدی یذکرنی فی تحرکنی فی تحرک الشفتان انا عند ظن عبدی بی انا معه اذا ذکرنی فی نفسه ذکرته فی نفسی واذا ذکرنی فی ملاء ذکرته فی ملاء خیرمنھم ‘‘
’’میں اس وقت اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے اپنے ہونٹوں میں یاد کرتا ہے، میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہوں ، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کا ہم مجلس ہوتا ہوں، جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، جب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں‘‘-
i. عین الفقر، ص:253
ii. قربِ دیدار، ص :147
iii. جامع الاسرار، ص: 179
10-’’اذا ذکرتنی شکرتنی واذا نسیتنی کفرتنی ‘‘
’’جب تو میرا ذکر کرتا ہے تو گویا تو میرا شکر ادا کرتا ہے اور جب تو میرے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے تو گویا تو کفر کا ارتکاب کرتا ہے‘‘-
i. عین الفقر، ص:273
ii. محک الفقر، ص :769
11-’’یا محمدا کن فی الدنیا کانک غریب اوکعابر سبیل وعد نفسک من اصحب القبور ‘‘
’’اے محمد! (ﷺ) دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہو اور خود کو اصحاب قبور میں سے سمجھو‘‘-
i. عین الفقر، ص:359
ii. محک الفقر (خورد)، ص: 89
iii. کلید التوحید (کلاں)، ص :311
iv. کلیدِ جنت، ص: 155
12- ’’اذا رایت عبدی لا یذکرنی فانا احجبه عن ذلک ‘‘
’’جب تو دیکھے کہ میرا بندہ میرے ذکر سے غافل ہوگیا ہے تو میں اسے محجوب کردیتا ہوں‘‘-
i. عین الفقر، ص:257
13-’’لولاک لمااظھرت الربوبیۃ ‘‘
’’محبوب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اپنی ربوبیت ہی ظاہر نہ کرتا‘‘-
i. عین الفقر، ص:73
14-’’ان فی جسد بنی ادم مضغۃ و مضغۃ فی فواد و فواد فی قلب وقلب فی روح و روح فی سر و سر فی خفی و خفی فی اناء‘‘
’’بے شک آدمی کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جو فواد میں ہے، فواد قلب میں ہے، قلب روح میں ہے، روح سر میں ہے، سر خفی میں ہےاور خفی انا میں ہے‘‘-
i. عین الفقر، ص:51
ii. نور الھدی (کلاں)، ص: 329
iii. دیدار بخش (کلاں)، ص: 37
14-’’خلقت الحمار بصورۃ البشر ‘‘
’’خلقت کے لحاظ سے تو گدھے اور اِنسان کو ایک ہی جنس (اربعہ عناصر) سے پیدا کیا گیا ہے‘‘-
i. عین الفقر، ص:45
ii. فضل اللقاء، ص :119
16-’’لولاک لماخلقت الافلاک ‘‘
’’محبوب ! اگر آپ نہ ہوتے تو مَیں افلاک کو پیدا نہ کرتا‘‘-
i. عین الفقر، ص:25
ii. اسرار القادری، ص: 19
iii. نور الھدی، ص: 23
iv. محک الفقر، ص: 23
17-’’ماتخذاللہ ولیا جاھلا ‘‘
’’اللہ تعالیٰ جاہلوں کو دوست نہیں بناتا‘‘-
i. عین الفقر، ص:121
ii. محبت الاسرار، ص: 101
iii. تیغِ برہنہ، ص: 44
iv. نور الھدی (خورد)، ص: 25
18- ’’ولو کان لابن اٰدم وادیان من ذھب ونضۃ حتی یطمع بثلثۃ‘‘
’’اور اگر ابن آدم کے پاس دو جنگل سونے اور چاندی کے ہوں توو پھر بھی وہ تین جنگل کا حریص ہوگا‘‘-
i. محک الفقر خورد، ص: 117
19-’’عباد الذین قلوبھم عرشیۃ وابدانھم و حشیۃ وھمتھم سماویۃ وثمرۃ المحبۃ فی قلوبھم مقدوسۃ وخواطر ھم جاسوسۃ سماء سقفھم و الارض یساطھم و علم انیسھم و رب جلیسھم ‘‘-
’’میرے وہ بندے بھی ہیں جن کے دل عرش کی مثل ہیں، اُن کے بدن وحشی (پرجوش) ہیں، اُن کی ہمت آسمانی (بلند) ہے، اُن کے دلوں میں محبت کے مقدس پھل ہیں، اُن کے دل آسمانوں کے جاسوس ہیں،زمین میں اُن کا بچھونا ہے، علم اُن کا انیس ہے اور رب اُن کا جلیس ہے‘‘-
i. امیر الکونین، ص: 185
ii. نورالھدی (کلاں)، ص: 409
iii. محکم الفقراء، ص: 93
iv. دیدار بخش (کلاں)، ص: 41
v. نور الھدی (خورد)، ص: 113
20-’’عباد الذین ایجادھم فی الدنیا کمثل المطر اذا نزل فی البر انبت البر واذا نزل فی البحر خرج الدر ‘‘
’’میرے وہ بندے بھی ہیں جن کی موجودگی دنیا میں بارش کی مثل ہے کہ بارش جب خشک زمین پر برستی ہےتو غلہ اگاتی ہےاور جب سمندر پر برستی ہے تو موتی پیدا کرتی ہے‘‘-
i. امیر الکونین، ص: 187
ii. نور الھدی (کلاں)، ص: 409
iii. دیدار بخش (کلاں)، ص: 41
21- ’’من عرف اللہ تعالی لم یکن لہ لذۃ مع الخلق‘‘
’’جو اللہ کو پہچان لیتا ہےپھر خلقت کے ساتھ میل جول رکھنے سے اسے لطف نہیں آتا‘‘-
i. مفتاح العارفین، ص: 49
ii. دیدار بخش (کلاں)، ص: 57
22- ’’فتنسون النعیم اذا رایھا ‘‘
’’جب وہ دیدارِ الٰہی کریں گےتو باقی نعمتوں کو بھول جائیں گے‘‘-
i. کلید التوحید کلاں، ص:125
23-’’المسجد بیتی والعلماء والفقراء بمنزلۃ العیالی فکیف یخرج عیالی من بیتی ‘‘
’’مسجد میرا گھر ہے اور عالم اور فقراء میرے کنبے کی مانند ہیں، لہذا کوئی شخص کس طرح میرے کنبے کو میرے گھر سے نکالےگا‘‘؟
i. محک الفقر خورد، ص:157
24-’’اناجلیس مع من ذکرنی ‘‘
’’مَیں اپنے ذاکر بندے کا ہم مجلس ہوتا ہوں‘‘-
i. کلید التوحید کلاں، ص:577
25- ’’کلھم یطلبون رضائی وانااطلب رضائک یا محمد‘‘
’’ہر کوئی میری رضا چاہتا ہے لیکن اے محبوب! میں آپ کی رضا چاہتا ہوں‘‘-
i. محک الفقر کلاں، ص:23
26- ’’جعلنا الشیخ الکامل منافع الانسان کما جعلنا نبی الآخر الزمان و جعلنا الشیخ الناقص خاسر الانسان کما جعلنا رجیم الشیطان ‘‘
’’ہم نے شیخ کامل کو انسان کےلیے نفع بخش بنایا ہے جس طرح نبی آخرالزمان حضرت محمد (ﷺ)کو نفع بخش بنایا ہے اور شیخ ناقص کو انسان کےلیے زیاں کار بنایا ہے جس طرح کہ شیطان مردود کو زیاں کار بنایا ہے-
i. محک الفقر کلاں، ص:191
ii. محک الفقر کلاں، ص:311
iii. محکم الفقراء، ص: 17
27-’’خزائنتی اعظم من العرش واوسع من الکرسی والطیف من الجنۃ وازین من الملکوت وارضھا المعرفۃ وسمائھا الایمان وشمسھا شوق و قمرھا المحبۃ ونجومھا الخواطر وسحابھا العقل و مطرھا الرحمۃ اشجارھا الطاعۃ وانھارھا الخلاصۃ واجدارھا الیقین ومکانھا الھمۃ ولھا اربعۃ ارکان التوکل والتفکر والانس و الذکروبھااربعۃ ابواب العلم والحلم والصبر و الرضا فی القلب ‘‘
’’میرا خزانہ عرش سے زیادہ وسیع ہے، بہشت سے زیادہ پاکیزہ ہے اور ملکوت سے زیادہ خوبصورت ہے- اُس کی زمین معرفت ہے اور اُس کا آسمان ایمان ہے، اُس کا سورج شوق ہے اور اس کا چاند محبت ہے، اُس کے ستارے خواطر (ارادے) ہیں، اس کے بادل عقل ہے،اس کی بارش رحمت ہے، اس کے درخت طاعت ہے، اس کی دیواریں یقین ہے، اس کے مکانات ہمت ہے اور اس کے رکن چار ہیں، توکل، تفکر، انس اور ذکر اور ان کے دروازے بھی چار ہیں، علم، حلم، صبر اور رضائے قلب-
i. محک الفقر، ص: 233
28-’’ان اللہ لاینظرالی صورکم ولا ینظر الی اعمالکم بل ینظر فی قلوبکم ونیتکم‘‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کو بلکہ اس کی نظر تمہاری دلوں اور تمہاری نیتوں پر رہتی ہے‘‘-
i. قرب دیدار، ص: 29
ii. محک الفقر(کلاں)، ص: 359
iii. محبت الاسرار، ص: 81
iv. نور الھدیٰ (خورد)، ص: 59
v. محک الفقر (خورد)، ص: 69
29-’’انین المذنبین احب الی من تسبیح الکروبین‘‘
’’مجھے گنہگاروں کی آہ و زاری، کروبیوں کی تسبیح سے زیادہ پسند ہے‘‘-
i. محک الفقر کلاں، ص:539
30-تجوع ترانی تجرد وتصل
’’اگر تُو فاقہ کشی اختیار کرلے تو تُو مجھے دیکھ لےگا لہذا تنہا ہوجا اور ہر ایک سے علیحدگی اختیار کرلے‘‘-
i. محک الفقر کلاں ص553
31- ’’یامحمد لا تزین نفسک بلین اللباس وطیب الطعام ولین الوطاء فان النفس یاوی کل سوء‘‘
’’یا محمد (ﷺ)! (مومنوں کو کہہ دیں کہ)اپنے نفس کو نرم لباس سے، لذیذ کھانوں سے، نرم کھچونوں سے آراستہ نہ کریں- کیونکہ نفس بدی کی طرف مائل ہوتا ہے‘‘-
i. محک الفقر خورد، ص:93
32- ’’یا عبدی تنعم بی وانس بی وانا خیرلک من کل ماسوی اللہ ‘‘
’’اے میرے بندے! میری نعمتیں کھااور مجھ سے انس رکھ کہ مَیں تیرے لیے ہر غیر ماسوی اللہ سے بہتر ہوں‘‘-
i. قربِ دیدار، ص: 43
33- ’’یا محمد انت انس وانا انت‘‘
’’اے محمد (ﷺ) ! تُو مَیں ہے اور مَیں تُو ہے‘‘-
i. رسالہ روحی شریف، ص: 12
34- ’’ففرو الی اللہ یقبل اللہ فارق النفس‘‘
’’اللہ کی طرف بھاگو، جو شخص نفس سے علیحدہ ہوکر اس کی جانب آتا ہے وہ اسے قبول کرلیتا ہے‘‘-
i. محبت الاسرار، ص:35
35- ’’من یشغلک ین ذکر اللہ فھو صنمک‘‘
’’جو چیز ذکر اللہ سے تجھے ہٹائے وہی تیرے لیے بت ہے‘‘-
i. محبت الاسرار، ص:41
36- ’’واذ جاء الجوع یذکر اللہ واذجاء العریان نلذذ فی ذکر اللہ‘‘
’’جب بھوکا ہو، تو اللہ کو یاد کرے اور عریاں ہو تو ذکر کرے تاکہ اسے ذکر الٰہی میں لذت آئے‘‘-
i. نور الھدیٰ خورد، ص:107
37- ’’لا یشغلھم شیی عن غیر ذکر اللہ طرفۃ العین‘‘
’’طالب اللہ کو ذکر اللہ کے سوا کسی اور چیز سے دم بھر کو بھی (تشقی کے ساتھ) مشغولیت نہیں ہوتی‘‘-
i. دیدار بخش کلاں، ص: 67
38- ’’الاحمق من التبع الھوی وتمنی علی اللہ المغفرۃ
’’احمق وہ ہے جو اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ پر مغفرت کی تمنا کرے‘‘-
i. دیدار بخش کلاں، ص: 87
39- ’’تفروا من اللہ الی اللہ ثم یقبل اللہ فافرق النفس ثم قل اللہ دع روحک وقلبک ثم قل اللہ ثم ذرھم قل اللہ کان اللہ طارروحہ‘‘
’’انسان بھاگتا ہے غضبِ اللہ سے طرف اسی اللہ تعالیٰ کے- پھر اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرلیتا ہے - پھر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو جھکائے اور کہے اللہ ہی اللہ ہےاور قطع تعلق کرے حالت روح اور نفس اور قلب اپنے کی اللہ کےلیے- پھر کہے اللہ بس ماسوی اللہ ہوس اور یہاں تک قطع تعلق کہ روح اس کا سمندر اسی ذات کا بن جائے اور ایسا تمام ماسوائے اللہ سے قطع کرے، جیسا کہ نبی (علیہ السلام) نے سب سے قطع تعلق کیا‘‘-
i. دیدار بخش کلاں، ص: 101
حرفِ آخر:
اس مقالہ کا مقصد سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) کی منظرِ عام پر موجود کتب میں مندرج احادیثِ قدسیہ کو حذفِ تکرار کے ساتھ ایک جگہ جمع کرنا مقصود تھا- اس کے ساتھ یہاں پر تمام حوالہ جات کو بھی بیان کردیا گیا ہے- ایک حدیثِ قدسی کو آپ قدس اللہ سرہٗ نے اپنی مختلف تصانیف میں کہاں کہاں رقم فرمایا ہے، ہر حدیثِ قدسی کے ساتھ اس کے مکمل حوالہ جات دے دیے گئے ہیں تاکہ اہلِ علم اس سے استفادہ کر سکیں- اس موضوع کے اب بھی کئی گوشے تشنہ طلب ہیں جن میں سےاہم ترین گوشہ ان احادیثِ قدسیہ کی تخریج ہے- اگر ان احادیثِ قدسیہ کی تخریج پر کام کرلیا جائے تو ان تصانیفِ حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہٗ میں موجود احادیثِ قدسیہ کے عنوان سے ایک مختصر رسالہ منظرِ عام پر لایا جاسکتا ہے جو علمی دنیا میں تفہیمِ حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہٗ کے تناظر میں ایک خوبصورت اضافہ ہوگا-اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کاملین بالخصوص حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرہٗ کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین--!!
٭٭٭
کتابیات:
- حضرت سلطان باھو، تیغِ برہنہ، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی،پشاور 1992
- حضرت سلطان باھو،گنج الاسرار ،مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی،لاہور1995
- حضرت سلطان باھو، فضل اللقاء، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1995
- حضرت سلطان باھو، کشف الاسرار، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم،حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1995
- حضرت سلطان باھو،اورنگ شاہی،مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1995
- حضرت سلطان باھو، کلید جنت، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1996
- حضرت سلطان باھو،محبت الاسرار ،مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1996
- حضرت سلطان باھو،قربِ دیدار، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1996
- حضرت سلطان باھو، مفتاح العارفین، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1996
- حضرت سلطان باھو، دیدار بخش خورد، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1997
11. حضرت سلطان باھو، دیدار بخش کلاں،مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1997
- حضرت سلطان باھو،محکم الفقراء، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1997
- حضرت سلطان باھو،توفیق الہدایت، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1997
- حضرت سلطان باھو،عین العارفین ،مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی، لاہور1998
- حضرت سلطان باھو، نور الھدی خورد، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم،حضرت سلطان باھو اکیڈمی،لاہور1999
- حضرت سلطان باھو، محک الفقر خورد، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی،لاہور1999
- حضرت سلطان باھو، جامع الاسرار، مترجم: ڈاکٹر کے بی نسیم، حضرت سلطان باھو اکیڈمی،لاہور2003
- حضرت سلطان باھو، محک الفقر کلاں، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہور2008
- حضرت سلطان باھو، شمس العارفین، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہور مارچ2013
- حضرت سلطان باھو، کلید التوحید خورد، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہورستمبر 2014
- حضرت سلطان باھو، مجالسۃ النبی (ﷺ)، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہورستمبر 2014
- حضرت سلطان باھو، رسالہ روحی شریف، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہورستمبر 2014
- حضرت سلطان باھو، عقلِ بیدار، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہوراپریل2015
- حضرت سلطان باھو، عین الفقر، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہوراکتوبر 2015
- حضرت سلطان باھو، نور الھدیٰ، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہوراکتوبر 2015
- حضرت سلطان باھو، اسرار القادری، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہوراکتوبر 2015
- حضرت سلطان باھو، کلید التوحید، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہورجنوری 2015
- حضرت سلطان باھو،امیر الکونین ، مترجم: سید امیر خان نیازی، العارفین پبلی کیشنز، لاہورجنوری2016