شمس العارفین : قسط01

شمس العارفین : قسط01

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

رَبِّ یَسِّرْ وَلَا تُعَسِّرْ وَتَمَّمْ بِالْخَیْرِ!

تمام حمد و ثنا ہے اللہ جل شانہٗ کے لئے کہ جس نے روشن فرمایا عارفوں کے دلوں کو نورِ ہدایت و عرفان سے اورکشادہ فرمایا صادقوں کے سینوں کو صدق و ایقان سے اور صلوٰۃ وسلام ہو اُس کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر، اُن کی آل پر اور اُن کے جملہ اصحا ب پر جو سب کے سب اہل ِمغفرت اور اہل  ِرضوان ہیں - اِس کے بعد مَیں امداد ِالٰہی سے اِس رسالہ کو شروع کرتا ہوں جسے شَیْخَنَا سلطان العارفین حضر ت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف’’ کلید التوحید، قربِ دیدار، مجموعۃ الفضل، عقل ِبیدار، جامع الاسرار، نور الھدیٰ، عین نما اور فضل اللقاء‘‘ سے منتخب کیا گیا ہے-  یہ رسالہ طریقۂ قادریہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃِ وَالْغُفْرَانِ کی تعلیماتِ تصوف پر مبنی ہے جن سے اللہ تعالیٰ مالک الملک المنان کا وصال نصیب ہوتاہے- اِس کانام’’ شمس العارفین‘‘ رکھاہے اور اِسے ’’مشکل کشا اور حضور نما‘‘ کا خطاب دیاہے-یہ رسالہ سات ابواب پر مشتمل ہے-بابِ اوّل میں اِس کتا ب کے مطالعہ و عمل کے فضائل کا بیان ہے- بابِ دوم میں ذکر فکر، ترتیب ِتصور مشق ِوجودیہ، مقاماتِ مشق ِوجودیہ اور اسمِ اللہ ذات کی تاثیر قبول نہ کرنے والے سیاہ دل کے علاج کا بیان ہے- بابِ سوم میں احوالِ مراقبہ و مکاشفہ کا بیان ہے - بابِ چہارم میں فنا فی الشیخ ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے مراتب کا بیان ہے- بابِ پنجم میں مجلس ِمحمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری و ملازمت کے فضائل کا بیان ہے- بابِ ششم میں تمام دعوتوں سے افضل و اولیٰ تر دعوتِ اہل قبور پڑھنے کی ترتیب کا بیان ہے اور بابِ ہفتم میں متفرق موضوعات کا بیان ہے-

جان لے کہ طالب مرید قادری پر فرضِ عین ہے کہ پہلے وہ اِس رسالہ کو ابتداء سے انتہاء تک اپنے مطالعہ میں لا کر تحقیق ِطریق کرے اور پھر باطن میں توفیق ِرفاقت حق حاصل کرے-اے عزیز! اللہ تعالیٰ نے بندہ کو اپنی عبادت و معرفت اور پہچان کے لئے پیدا فرمایا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’  مَیں نے انسانوں اور جنوں کو محض اپنی عبادت یعنی معرفت کے لئے پیدا فرمایا ہے‘‘-

بابِ اوّل:اِس کتاب کے مطالعہ و عمل کے فضائل

اگر کسی کا نفس سرکش ہو اور غرقِ ہوا و ہوس ہو، ابلیس کے موافق اور خدا کے  مخالف ہو، کسی طرح بھی گناہوں سے باز نہ آتاہو اور خدا کی طر ف رجوع نہ کرتا ہو اور غلبۂ غفلت کے باعث اُس کا دل شیطان کے چنگل میں پھنس کر مردہ ہو چکا ہو اور کسی علاج سے زندہ نہ ہورہاہو، ذکر ِاسمِ اللہ ذات کی تاثیر اُس کے دل کو متاثر نہ کر رہی ہو،غریب و مظلوم و عاجز ہو، غمِ روزگارِ دنیا سے پریشان و محتاج و ہلاک ہو، کثیر العیال و خستہ حال و مستحق ِصدقات ہو، اِن سنگین حالات کو سدھارنے کی طاقت وقوت نہ رکھتا ہواور فقر و فاقہ میں گزر بسرکر رہا ہو تو اُسے چاہیے کہ اِس کتاب سے کہ جس میں دین و دنیا کے تمام خزائن کا علم در ج کر دیا گیا ہے، ظاہر و باطن کے جملہ خزائن کا علم حاصل کرلے تا کہ تمام خلق ِخدا اُس کی خادم اور وہ مخدوم بن جائے اور اِس کتاب سے اپنے تمام مطالب حاصل کرلے، تمام خزائن ِالٰہی اپنے قابو میں کر لے اور طریق ِتحقیق سے علمِ تصوف کے جملہ دقیق نکات کو کھول لے-جو شخص اِس کتاب کو ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھے گا اور اِس کی تعلیمات پر عمل کرے گا وہ صاحب ِتوفیق عارف باللہ ہوجائے گا اور ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس ِپُرنور میں حاضر رہے گا، جملہ انبیاءو اؤلیاء اللہ کی ارواح اُس سے ملاقات کریں گی اور ظاہر و باطن کی کوئی چیز بھی اُس سے پوشیدہ نہیں رہے گی کہ یہ عطائے الٰہی اور فیض ِفضل اللہ طریق ِمحمدی ( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے تحقیق شدہ ہے -یہ کتاب صاحب ِابتدا ء و انتہاء کے لئے کامل راہنماہے-اگر کوئی عالم فاضل صاحب ِتفسیر اِسے پڑھے گا تو اِس کے مطالعہ سے چار علوم حاصل کرلے گا یعنی علمِ کیمیائے اکسیر، علمِ دعوتِ تکسیر، علمِ ذکر اللہ روشن ضمیر اور علمِ استغراق باتاثیر صاحب ِنظیر بر نفس امیر-یہ کتاب صاحب ِصدق مریدوں،صاحب ِتصدیق طالبوں، صاحب ِتحقیق عارفوں،رفیق ِحق واصلوں،صاحب ِتوفیق عالموں اور وحدانیت کے دریائے عمیق میں غرق فنا فی اللہ فقیروں کے لئے کسوٹی ہے- جس نے اِس کتا ب سے اسمِ اعظم اور گنجِ بے رنج حاصل نہ کیا اُس کے سوال کا وبال اُس کی اپنی گردن پر ہوگا کیونکہ اِس میں ایسا علمِ تصرف ہے کہ اگر کوئی اِس مرتبے پر پہنچ جائے تو اِس کی تاثیر سے اُس پر عرش سے تحت الثریٰ تک کے ستر ہزار مراتب واضح و روشن ہوجاتے ہیں اور لوحِ محفوظ ہمیشہ اُس کی چشمِ ظاہر کے مطالعہ میں رہتی ہے اور خاک اُس کی نظر سے سونا چاندی بن جاتی ہے، کشف و کرامات کے ذریعے وہ ماضی حال و مستقبل کے تمام حالات سے باخبر رہتا ہے، اگر وہ کسی دیوار یا پہاڑ یا درخت پر سوا ر ہوجائے تو وہ بہتے ہوئے پانی کی طرح چلنے لگتے ہیں- اگر قبرستان میں چلا جائے تو اہل ِقبور روحانی اُس کے پاس حاضر ہو جاتے ہیں-اگر کسی خشک درخت پر توجہ کردے تو وہ سر سبز ہوجاتاہے اور اُسی وقت اُس میں شگوفے پھوٹ پڑتے ہیں اور کھانے کے قابل پکے ہوئے پھل لگ جاتے ہیں-اگر وہ زمین سے پانی مانگ لے تو زمین اُسے پانی دے دیتی ہے- اگر آسمان کی طرف نظر اُٹھا دے تو اُسی وقت بادل چھا جاتے ہیں اور لوگوں کی طلب کے مطابق بارش برس جاتی ہے- اگر وہ پانی پر توجہ کر دے تو پانی فوراً گھی بن جاتاہے اور اگر وہ ریت پر توجہ کردے تو ریت سفید چینی بن جاتی ہے اور اِسی قسم کے دیگر کام وہ ہر وقت کرسکتاہے لیکن یہ تمام مراتب فقرِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے بہت دوراور معرفت ِالٰہی سے محروم و بے نصیب ہیں-مرشد کو ایسا صاحب ِنظر ہونا چاہیے جیسا کہ میرے پیر محی الدینؒ ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہزاراں ہزار طالبوں مریدوں میں سے بعض کو معرفت ِ’’اِلَّااللّٰہُ‘‘میں غرق کر دیتے ہیں اور بعض کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی دائمی حضور ی بخش دیتے ہیں-پیر کو ایسا گنج بخش ہونا چاہیے کہ اُس کی ایک ہی نظر طالب اللہ کے دل کو بلا رنج و ریاضت ذکر اللہ سے چاک کر دے، نفس کو ہلا ک کر دے اور روح کو پاک کر کے موافق ِرحمٰن اور مخالف ِشیطان کردے-اگر کسی کو مشکل پیش آجائے اور وہ شیخ محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کو تین بار اِن الفاظ سے پکارے ’’اُحْضُرُوْابَمَلَکَ الْاَرْوَاحِ الْمُقَدَّ سِ وَالْحَیُّ الْحَقِّ یا شیخ عبدا لقادر جیلانی حاضر شو‘‘ اور ساتھ ہی تین بار دل پر کلمہ طیب کی ضرب لگائے تو اُسی وقت حضرت پیرؒ دستگیر تشریف لے آتے ہیں اور سائل کی امداد کر کے اُس کی مشکل حل فرما دیتے ہیں-اگر کسی کے پاس عقل و شعور ہے اور وہ اچھی سوچ کا مالک ہے تو اُسے جان لینا چاہیے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے حکم سے لکھی گئی ہے اور اُس کی نگاہِ رحمت میں منظور شد ہ ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضور ی میں ان کی اجازت سے تحریر کی گئی ہے-

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر