خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ دوم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ دوم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ دوم

مصنف: ملک نورحیات خان جنوری 2020

حافظ شیرازی اسلامی دنیا، بالخصوص دنیائے تصوف کی مجالس میں چراغِ محفل کی حیثیت رکھتے ہیں-ان کا میلان ابتداء ہی سے معرفت و حقیقت کی طرف تھا- یقیناًان کے دل میں محبتِ الٰہی کی کوئی ایسی چنگاری موجود تھی جس کی وجہ سے ظاہری بادہ دوستی کی اصطلاحات کے باوجود ان کے کلام میں عرفان کا تڑپتا ہوا جذبہ پایہ جاتا ہے – جیسا کہ غالب نے بھی کَہ رکھا ہے:

ہر چند ہو مُشاہدۂ حق کی گفتگو

 

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

غزل میں مشاہدۂ حق کے احوال کو بادہ و ساغر کی اصطلاحات میں ابلاغ کرنے کا فنِ فصاحت قرطاسِ حافظ سے نمایاں ہوتا ہوا اُردو کی روایت میں ڈھلا ہے - یہاں تک کہ حضرت علامہ اقبال نے بھی اِشتراکی سیاست و معیشت پہ تنقید میں اِنہی اصطلاحات کو بَرتا ہے -

لبالب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے ’’مئے لا‘‘سے

 

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں ’’پیمانۂ اِلّا‘‘

گوکہ حافظ شیرازی اِن اصطلاحات کے موجد نہیں ، مگر غزل کی روایت میں ان کے رواج کو اوجِ ثُریّا پہ پہنچانے میں ناقابلِ تردید نام ہیں - حافظ کے اندازِ غزل گوئی میں ایسی عارفانہ سحر آفریں تاثیر پائی جاتی ہے جو پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے- حافظ شیرازی اپنےکلام کے متعلق خود فرماتے ہیں:

غزلِ گفتی و دُر سُفتی، بیا و خوش بخوان حافظ

 

کہ بر نظم تو افشاند فلک عقدِ ثریا را

’’ اے حافظ! تونے غزل کہی اور موتی پرو دیے، اس کو محبت کے ساتھ پڑھ کیونکہ آسمان تیرے اشعار پر ثریا کے ہار نچھاور کرتا ہے‘‘-

اس شعر میں حافظ نے اپنے مخصوص جوشِ بیان کے ساتھ مسرت کا اظہار کیا ہےاگرچہ یہ لب و لہجہ حافظ کی ذاتی قلبی واردات کی تصویر کشی کرتا ہے مگر اس میں معرفت و حقیقت کی جھلک موجود ہے-

آئیے! آسمان تصوف کے اس درخشاں ستارے سے پھوٹنے والی ایک کرن کی روشنی میں حقائق و معرفت کے موتی تلاش کرتے ہیں-حافظ شیرازی فرماتے ہیں:

سالہا دل طلبِ جامِ جَم از ما می کرد

 

آنچہ خود داشت، زبیگانہ تمنا می کرد

’’ایک مدت تک دل ہم سے جامِ جم طلب کرتا رہا جو کچھ خود اس کے اپنے پاس موجود تھا وہ غیروں سے مانگتا رہا ‘‘-

اس شعر میں جامِ جم سے مراد معرفتِ الٰہی ہے جو روزِ ازل سے ہی حق تعالیٰ نے انسان کے لئے مخصوص کردی ہوئی ہے-انسانی زندگی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے وجودِ آدم میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو سجدۂ  آدم (علیہ السلام) کا حکم فرمایا-

گر نہ بودے نُورِ حق اندر وجود

 

آب و گِل را کے ملک کردند سجود

’’اگر آدم کے وجود میں خود اَنوارِ حق کی جلوہ گری نہ ہوتی تو فرشتوں کو پانی اور مٹی کے ڈھانچے کو سجدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘-

قرآنِ حکیم میں ہمیں خبر دی گئی ہے کہ وہی اول ہیں؛ وہی آخر ہیں، وہی ظاہر ہیں، وہی باطن ہیں، وہی شہ رگ سے زیادہ ہمارے قریب ہیں، وہی ہمہ وقت ہمارے ساتھ ہیں، تو پھر ان کو کسی دیگر جگہ ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے-ہماری اپنی ذات کے عرفان سے ہی عرفانِ حق تعالیٰ کا حصول ممکن ہے-اگر وہ ذاتِ حق ہم سے دور ہے تو اس میں ہماری اپنی ہی ذات باعثِ حجاب ہے-قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ‘‘ [1]                                      ’’اور ہم بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘-

اسی طرح حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:

’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ‘‘ [2]                                            ’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘-

 سلطان العارفین حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی کلام ابیابِ باھو میں فرماتے ہیں:

ایہہ تَن ربّ سَچّے دا حُجرا وِچ پَا فَقیرا جَھاتی ھو

 

ناں کر مِنّت خَواج خِضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو

یعنی یہ دل حق تعالیٰ کی قیام گاہ ہے، اس کے اندر جھانک کر دیکھو اور آبِ حیات کی تلاش میں حضرت خضر(علیہ السلام) کی منت نہ کروکیونکہ تمہارے اپنے اندر آبِ حیات کا وہ چشمہ موجود ہے جس سے حیاتِ جاودانی حاصل ہوتی ہے-حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ)  کے کلام کا نچوڑ یہی ہے کہ حق تعالیٰ کو اپنےدل میں تلاش کرو اور ادھر ادھر بھٹکنے میں وقت ضائع نہ کرو-اسی ضمن میں شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:

آنچہ مے جست ز بیت الحرم و مسجد و دیر

 

با خود بودم دلم، وائے چہ باجامے کرد

’’یعنی تو کعبہ، مسجد اور مندر میں کیا تلاش کرتا ہے، اے دل!وہ سب کچھ تیرے اپنے پاس موجود ہے توکیا بیکار تلاش کرر ہاہے‘‘-

اولیاء اللہ کی تعلیمات کےبقول محبوبِ حقیقی سے ملاقات عرش پر نہیں ،بلکہ مرشدِ کامل کے توسط سے انسان کے اپنے خانۂ دل میں ممکن ہے-کیونکہ جس طرح پانی جگہ اور مقامات کے اختلافی تاثیر کی وجہ سے ذائقے میں دو قسم کا ہوتا ہے کسی جگہ کا پانی شیریں اور پیاس بجھانے والا ہوتا ہے اور کسی جگہ کا پانی شور اور کھاری ہوتا ہے-دونوں صورتوں میں اگرچہ اس کے ذائقے مختلف ہوتے ہیں مگر ہر حال میں وہ پانی ہی رہتا ہے-اسی طرح حق تعالیٰ کا وصال چاہنے والے لوگ بھی اپنے اپنے ظرف و ذوق کی وجہ سے دو قسم کے ہوتے ہیں-ایک وہ ہوتے ہیں جو راہِ حق پر تو چلتے ہیں مگر مرشدِ کامل کی صُحبت میسر نہ ہونے کی وجہ سے راہ و رسمِ عشق سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے فقط ظاہری اذکار و عبادات میں مشغول رہتےہیں مگر اپنے دل کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور دل کو بیدار کرنےکی کوشش نہیں کرتے-اس لئے ان کا حجرۂ خلوت باعثِ حجاب ہوتا ہے-دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے مرشدِ کامل کی تربیّت سے دل عشقِ الٰہی کی لافانی شمع سے روشن ہوجاتے ہیں وہ ہروقت اپنے محبوبِ حقیقی کی تجلیات کا مشاہدہ اپنےدل کے آئینے میں کرتےہیں گو کہ راستہ اِن کا بھی ظاہری اذکار و عبادات کی مشغولیّت ہی ہوتا ہے لیکن فرق یہی ہے جو حضرت سُلطان باھُو نے بیان فرما دیا:

 کی ہویا جے راتیں جاگیوں جے مُرشد جاگ نہ لائی ھو

دونوں قسم کے لوگوں کی غرض و غایت ایک ہی ہوتی ہے-

حضرت مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

دل بدست آور کہ حج اکبر است

 

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

یہی نقطہ نظر حافظ شیرازی نے اپنے متذکرہ بالا شعر میں بیان کیا ہےکہ سرگردان ہونے کے بجائے اپنے دل کے آئینے میں محبوبِ حقیقی کی جلوہ نمائی اور مناظرِ لاہوت و ملکوت کا مشائدہ کرنا چاہیے-کیونکہ دل جب محبتِ الٰہی سے سرفراز ہوتا ہے تو اس میں ہر طرح کی وسعت اور ہر تجلی کی سمائی ممکن ہوتی ہے-

٭٭٭


[1](ق:16)

[2](’’المقا صد الحسنۃ‘‘ ص426)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر