سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے کسی باعمل صاحب ِشریعت عالم فاضل سروری قادری مرشد ِکامل مکمل کے ہاتھ پر بیعت کرے اور اُس کے بعد سلک سلوک میں قدم رکھے کہ دوسرے ہر طریقہ کی انتہاء قادری کامل کی ابتداء کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ وہ عمر بھر ریاضت کے پتھر سے سر ٹکراتا رہے- مرشد قادری جامع مجمل ہوتاہے اور ظاہر باطن میں ہر وقت ذکر فکر میں مشغول رہتا ہے- قادری طریقہ کے ظاہر باطن میں قرب و وصال، معرفت ِ ’’اِلَّا اللّٰہُ‘‘ اور مجلس ِمحمدی(ﷺ) کی حضوری پائی جاتی ہے-الغرض! عارف باللہ، مظہرِ متبرکاتِ قدرتِ سبحانی، محبوبِ ربانی، پیر دستگیر حضرت شاہ عبدالقادرجیلانی قدس اللہ سرّہ ٗ دورانِ حیات ہر روز پانچ (5) ہزار مریدوں اور طالبوں کو اِس شان سے بامراد فرماتے رہے کہ تین ہزار کو مشاہدہ ِنورِ وحدا نیت اور معرفت ’’اِلَّااللّٰہُ ‘‘ میں غرق کرکے ’’اِذَاتَمَّ الْفَقْرُفَھُوَاللّٰہُ ‘‘ کے مرتبے پر پہنچاتے رہے اور دو ہزار کو مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضور ی سے مشرف فرماتے رہے- توجۂ باطنی سے حضوری کا یہ سلک سلوک اور حاضراتِ اسمِ اللہ ذات و حاضراتِ کلمہ طیبات سے حاصل ہونے والے ذوق شوق اور سخاوت و تصور و تصرفِ کامل کا یہ سلسلہ طریقۂ قادریہ میں ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا چلا آرہاہے او ر قیامت تک منتقل ہوتا چلا جائے گا کہ یہ طریقہ آفتاب کی طرح روشن ہے جس نے اپنے نورانی فیض سے ہر دوجہان کو روشن کر رکھاہے-
ابیات:(۱) ’’باھُونے علم کیمیاء کا یہ خزانہ مفلسوں کے لئے کھول دیاہے، اب جس میں عقل ہوگی وہ اِسے فوراًحاصل کرلے گا‘‘-
(۲) ’’ اسمِ اعظم سے معیت ِ ذات حق کا انتہائی مرتبہ کھلتاہے اِس لئے باھُو ہر وقت ذکرِ یَاھُوْ میں غرق رہتاہے‘‘-
(۳)’’ اندھا آدمی آفتا ب کو کہاں دیکھ سکتاہے کہ ا ندھے اور آفتاب کے درمیان سینکڑوں حجابات ہیں‘‘-
جان لے کہ قادری طالب کو جو کچھ بھی ملے گا صرف قادری مرشد ہی سے ملے گا- اگر طریقۂ قادریہ کا طالب کسی دوسرے طریقے کی طرف رجوع کرے گا تو گناہگار و گمراہ و بے برکت ہوجائے گا اور اپنے مرتبے سے گر جائے گا لیکن سالک کے لئے وسیلۂ مرشد پکڑنا ضروری ہے کیونکہ جو شغل مرشد کی نگرانی کے بغیر کیا جائے وہ نہ تو طالب کوکوئی فائدہ دیتاہے، نہ اُس کا کوئی نتیجہ نکلتاہے اور نہ ہی وہ کسی منزل مقام پر پہنچاتاہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اُس کی طرف وسیلہ پکڑو‘‘-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’پہلے راہنما رفیق ِراہ تلاش کرو ، پھر راہ چلو‘‘-اگر کسی کو مرشد ِکامل قادری نہیں ملتا تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اِس کتاب کو ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھے، پورے اخلاص سے اِسے پڑھے اور اِس پر یقین ِصادق رکھے تا کہ اِس کی تاثیر اُسے مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری سے مشرف کردے، اُس پر اسرارِ الٰہی منکشف کردے اور اُس پر زمین وآسمان کی کوئی چیز بھی مخفی و پوشیدہ نہ رہنے دے- اِس کتاب کو پڑھنے والا عارفِ حق اور راہنمائے خلق ہوجائے گا- اگر کوئی محتاج آدمی اِس تحریر کو پڑھے گا تو لایحتاج ولی اللہ بن جائے گا-اگر کوئی مفلس اِسے پڑھے گا تو غنی ہوجائے گا اوراگرپریشان حال پڑھے گا تو صاحب ِ جمعیت ہوجائے گا-جو شخص اِس کتاب کو اوّل سے آخر تک پڑھتا رہے گا اُسے کسی ظاہری مرشد سے دست بیعت کرنے کی حاجت نہیں رہے گی- اگرکوئی صاحب ِ رجعت اِسے پڑھے گا تو رجعت سے نجات پاجائے گا، اگر کوئی مردہ دل پڑھے گا تو زندہ دل ہوجائے گا-اگر جاہل پڑھے گا تو علم علومِ حیُّ قیوم کا عالم ہو جائے گا اور حقیقت ِماضی حال و مستقبل اُس پر منکشف ہوجائے گی-
ابیات:(۱) ’’اصل چیز یقین ہے، یقین سے دوستی کر لے تاکہ تُو اسرارِ کنۂ کن کا محرم ہوجائے‘‘-
(۲)’’اصل یقین یقین ِمصطفٰے (ﷺ)ہے اور اصل یقین یقین ِمرتضیٰ ہے‘‘-
(۳) ’’اصل چیز یقین ہے اور اگر یقین تجھے حاصل ہوجائے تو تیرا معاملہ سات آسمانوں سے آگے بڑھ جائے گا‘‘-
الغر ض !مرشد ِکامل کو چاہیے کہ وہ تصورِ اسمِ اللہ ذات کے شروع ہی میں طالب اللہ کو مشرفِ دیدار کر کے نورِ حضور میں غرق کر دے تا کہ اُسے ریاضت ِخلوت و چلہ کشی کی حاجت ہی نہ رہے- اہل ِحضور لایحتاج کو بھلا ورد وظائف اور دعوت پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آدمی نفس و شیطان کی قید سے ہر گز خلاصی نہیں پاسکتا اور نہ ہی دنیاسے اُس کا دل سرد ہو سکتاہے جب تک کہ وہ مرشد ِ کامل کی زیرِ نگرانی تصورِ اسمِ اللہ ذات میں مشغول نہیں ہوجاتا کیونکہ تصورِ اسمِ اللہ ذات اور ذکر ِغرقِ نورِ ربوبیت ہی ایسا ذریعہ ہے جو طالب اللہ پر نورِ حضور کا ہر مرتبہ واضح و روشن کرتا ہے اور ظاہر باطن میں لوحِ محفوظ کو اُس کی لوحِ ضمیر میں دکھاتاہے - حاضراتِ تصورِ کلمہ طیبات ’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ سے طالب پر ذکر ِپاکی غیبی کھل جاتاہے جو اُسے دونوں جہان میں بہرہ مند کرکے ہر مطلب سے ہمکنار کرتاہے-مرشد ِکامل طالب ِ صادق کو اِن سات چابیوں سے حاضرات کے سات قفل کھول دیتاہے اور ایک ہی دم میں اور ایک ہی قدم پر طالبوں کو اُن کے دونوں جہان کے تمام مطلوب و مقصود اور تمام تصرفات مثلاً تصرفِ ظاہری، تصرفِ باطنی، تصرفِ ازلی، تصرفِ ابدی،تصرفِ دنیا و عقبیٰ، تصرفِ غرق فنا فی اللہ مولیٰ، تصرف ِتوحید ِمعرفت اور قربِ اعلیٰ و اولیٰ کے ہر مرتبے کا تصرف کھول کر دکھا دیتا ہے- ایسا رازِ بے ریاضت اور گنجِ بے رنج مرشد سروری قادری کامل اکمل جامع مجموع الفضل ہی عطا کرتا ہے-
اے عزیز!صاحب ِحاضراتِ اسم اللہ ذات فقیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت عطا کر رکھی ہے کہ اگر و ہ علمِ کیمیا کی تفصیل یا سنگ ِپارس کہ جسے اگر لوہے سے مس کر دیا جائے تو لوہا سونا بن جاتاہے مؤکل فرشتوں سے طلب کرلیں تو اسمِ اعظم کی برکت سے مؤکل فرشتے اُسی وقت غیب الغیب سے لا کر حاضر کردیتے ہیں لیکن اہل اللہ فقراء کہ جن کو باطن میں دائمی استغراق مع اللہ نصیب رہتا ہے اور وہ ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں، ظاہر میں اُن کا دل اِس قدر غنی ہوتا ہے کہ وہ مرتبۂ مؤکل، جملہ مراتب ِدنیا اور مراتب ِکیمیا و سنگ ِپارس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھتے چاہے وہ فقر و فاقہ کے باعث خون جگر ہی کیوں نہ پی رہے ہوں کیونکہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے :’’اِس دنیا میں ہم نے اُن کے پیچھے لعنت لگا دی ہے‘‘-یاد رکھ کہ ایک دفعہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اُن کے اصحاب اور یاروں نے پوچھا کہ یا حضرت! وہ کون سی بہتر چیز ہے کہ جس سے دنیا و آخرت میں قربِ حق تعالیٰ نصیب ہوتا ہے اور وہ کون سی بُری چیز ہے کہ جو دنیا و آخرت میں اللہ سے بعد و دُوری کا باعث بنتی ہے؟حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا :’’ معرفت ِالٰہی اور فقر سے دوستی رکھو کہ اِن سے دونوں جہان میں فخرو سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور دنیا کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھو کہ دنیا متاعِ شیطان ہے‘‘-
(جاری ہے)