خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ سوم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ سوم

خراباتِ حافظ سے ایک جام : حصہ سوم

مصنف: ملک نورحیات خان فروری 2020

حافظ شیرازی قدرتِ کلام اور اضافِ شعر پر اپنی فنکارانہ گرفت کے اعتبار سے ہمیشہ اربابِ علم و تحقیق کی توجہ کا مرکز رہےہیں- ان کے اشعار میں ایسی عرفانی تاثیر پائی جاتی ہے جو دل پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتی ہے-حافظ شیرازی کو وہ مقام حاصل ہے جس کو فضل و کمال کے لحاظ سے صدق وصفا کا آئینہ کہا جاسکتا ہے-حافظ شیرازی نے راہِ سلوک کی جادہ پیمائی کرنے والے سالکین کی راہنمائی کی ہے-تمثیلات اور تشبیہات کے ذریعے ایسے اسرار و رموز کی طرف اشارہ کیا ہے جن سے بادِ نسیم کی مانند حقائق و معارف کے غنچے کھلتے ہیں اور کئی سربستہ راز افشاں ہوتے ہیں-حافظ شیرازی نے طریقت کے کئی پیچ و خم کی گتھیاں سلجھانے کے لئے جو اسلوب بیان  کیے ہیں اس کی ایک جھلک اس شعر میں نمایاں ہے-حافظ شیرازی فرماتے ہیں:

جمالِ یار ندارد نقاب و پردہ ولے
 

 

غبارِ راہ بنشاں، تانظر توانی کرد
 

’’محبوب کے حسن و جمال پر کوئی نقاب یا پردہ نہیں  تو راستے کا غبار بٹھادے تاکہ تو اس کو دیکھ سکے‘‘-

اس شعر میں حافظ شیرازی نے مشاہدہ حق کرنے کے طلب گارطالبانِ مولیٰ کو  راستے کا غبار  بٹھادینے کا مشورہ دے کر راہِ سلوک کی اس منزل کی طرف اشارہ کیا ہے جس کو تصوف کی اصطلاح میں  ’’موتو قبل ان تموتو‘‘ یعنی مرنے سے پہلے مرجاؤ کا نام دیا ہے- مرنے کا یہ مطلب نہیں کہ مقررہ وقت پر طبعی موت آنے سے پہلے خود کشی کر لی جائے بلکہ اس میں خاکی وجود کا پردہ اور ماسویٰ اللہ کا نقش مٹا دینا مراد ہےجو اہل صفاءکےنزدیک انتقالِ احوال کا ایک مرتبہ جس کے ذریعے طالبانِ حق  رجوعاتِ خلق اور دنیاوی خواہشات سے کنارہ کش ہو کر یکسوئی اختیار کرتے ہیں؛ اس کو تصوف کی زبان میں ’’انتقالِ حیاتی‘‘ کہا جاتاہے-انتقال کی اصل حق تعالیٰ کا وصال ہے جو دو قسم کا ہوتا ہے-

  1. ایک انتقال وہ ہوتا ہے جو مرنے کے بعد جسم قبر میں چلا جاتا ہے اس کو ’’انتقالِ مماتی‘‘ کہا جاتا ہے-
  2. دوسرا انتقال وہ ہوتا ہے جو حال و احوال کا ایک مرتبہ ہے یہ وہ مرتبۂ انتقال ہے جس کے ذریعے طالبِ حق معرفتِ وصال تک پہنچتا ہے-اس ’’کو انتقالِ حیاتی ‘‘کہاجاتاہے-

چونکہ  وصالِ الٰہی اور معرفتِ دیدار کا وسیلہ موت ہے جو دوست کو دوست سے ملاتی ہے-اس لئے اس کیفیت کو ’’موتو قبل ان تموتو‘‘ کہا جاتا ہے-یہ بعض لوگوں کو مراقبہ میں، بعض کو خواب میں، بعض کو استغراق میں اور بعض کو عیاں طور پر نصیب ہوتا ہے-حضرت سلطان باھو (قدس اللہ سرّہٗ) اس انتقالِ احوال کے متعلق اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں:

مَرن توں اَگے مَر گئے باھوؒ تاں مَطلب نوں پایا ھو

یعنی جو لوگ ظاہری موت سے پہلے ہی اپنی جان مالکِ حقیقی کے سپرد کر کےیعنی اپنی خواہشات کے ارادے اور مرضی کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر قربان کر کے  وہ لوگ اپنے مطلب یعنی معرفتِ حق تعالیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے-’’موتو قبل ان تموتو‘‘ کو بہ الفاظ دیگر نیندِ اختیار بھی کہا جاتا ہے –نیند دو قسم کی ہوتی ہے-

ایک نیند بے اختیاری و قدرتی ہوتی ہے جو انسان کے اپنے بس میں نہیں ہوتی-خود بخود اپنے مقررہ وقت پر طاری ہوجاتی ہے-

دوسری نیند اختیاری ہے جو کسی عمل یعنی مراقبہ یا استغراق وغیرہ کی صورت میں اپنے اوپر خود طاری کی جاتی ہے- اس نیند کے دوران انسان پر عالمِ ملکوت کے اسرارِ غیبی منکشف ہوتے ہیں اور خیالات میں یکسوئی کی وجہ سے محویت  طاری  ہوجاتی ہے جو نیند ہی کی مانند ہوتی ہے-اس کے دوران انسان ہر قسم کی خواہشات و رجوعات سے مکمل طور پر آزاد ہوجاتا ہے اور انسان کا دل اس تصور میں ڈوب کر آئینہ بن جاتا ہے جس میں حق تعالیٰ کے نورِ مقدس کا عکس اُس صاف شفاف دل پر چمکنے لگتا ہے-

بقول سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ):

واہ نصیب اُنہاندا باھوؒ جِیہڑا وِچ حَیاتی مردا ھو

یعنی اے باھو! کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص (عارف) جس نے حیاتِ ظاہری میں زندہ رہتے ہوئے موت کی لذت حاصل کر لی اور’’موتو قبل ان تموتو‘‘  کے مقام سے گزر کر عالمِ برزخ کی تمام کیفیات کو سمجھ لیا-

اللہ تعالیٰ   نے ساری مخلوق  میں سے انسان کو اپنا خلیفہ منتخب فرمایا اور اسے لباسِ بشریت عطا  کر کے زمین پر بھیج دیا جہاں اس کو ’’عبد‘‘ کہا جاتا ہے-یہی  عبد جب محبتِ الٰہی میں سرشار ہو کر اپنی ذاتی حیثیت کو فنا کر دیتا ہے تو اس کو حق تعالیٰ کے  ساتھ بقا حاصل ہوتی ہے-وہ فانی  ز خویش اور باقی بحق ہو کر  نورانی ہو جاتا ہے-اس کا علم و عمل’’من اللہ‘‘ ہوتا ہے تو ’’امانتِ الٰہی‘‘ اس کے سپرد کر کے خلافت کا تاج اس کے سر پر سجادیا جاتا ہے-جب وہ بارگاہِ خداوندی کی طرف رجوع کرتاہے تو ’’عبد اللہ‘‘ کہلاتا ہےاور جب  اس  عطا کی گئی امانتِ الٰہیہ کا استعمال کرنے کے لئے کائنات  کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو ’’خلیفۃ اللہ‘‘ کہلاتا ہے-حافظ شیرازی اپنے مندرجہ بالا شعر میں راستے کا غبار بٹھا کر عبد سے ’’عبد اللہ‘‘ کی صورت اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں-انسان کے لئے مخصوص کی گئی اس امانتِ الٰہیہ اور منصبِ خلافت کے پیش نظر حکیم الامت فرماتے ہیں کہ:

تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا

 

خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجمان ہو جا

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر