سید سلطان بہادرعلی شاہ مشہدی کاکلام

سید سلطان بہادرعلی شاہ مشہدی کاکلام

سید سلطان بہادرعلی شاہ مشہدی کاکلام

مصنف: وقار حسن فروری 2020

شہبازِ عارفاں سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان سید محمد بہادر شاہ مشہدیؒ کا سلسلہ نسب امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضٰیؒ کی اولاد میں سے حضرت امام موسیٰ کاظمؒ سے جاملتا ہے- 1801ء کوآپؒ کی ولادت باسعادت ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کے ایک قصبہ ’’حسووالی‘‘ میں ہوئی-آپؒ کے والدین سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) کے عقیدت مندوں میں سے تھےجس کی جھلک حضور پیر صاحبؒ کی مکمل زندگی میں نظر آتی ہے-سید سلطان بہادر علی شاہ المعروف ’’حضور پیر صاحب(قدس اللہ سرّہٗ)‘‘ نے بہت طویل عمر پائی آپؒ نے 1934ء میں وصال فرمایا-آپؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایس ایچ قادری مرحوم رقم طراز ہیں:

’’حضور پیر صاحبؒ نے قرآن مجید اور حضرت سلطان باھو ؒ کی کتب کے کئی نسخے اپنے دست ِمبارک سے تحریر فرمائے- آپ کا جاذبِ نظر اور دلکش رسم الحظ آپ کے علمی و فنی ذوق کا غماز ہے - آپؒ کی تصنیف میں سرائیکی شاعری کے علاوہ کسی کتاب کا تذکرہ نہیں ملتا-ان اشعار میں سرائیکی، پنجابی، اردو، فارسی اور عربی جیسی پانچ عظیم زبانوں سے موتی پروئے گئے ہیں جن میں فیضانِ باھو کی ایسی چمک ہے جو طالبان ِمولیٰ کی راہنمائی کرتے ہوئے انہیں مطلوب و مقصود تک پہنچا دیتی ہے-شاعری مختصر ہے گویا سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے جسے ہم آپؒ کی 133 سالہ زندگی کا خلاصہ کَہ سکتے ہیں ‘‘-[1]

چونکہ سلطان سید محمد بہادر علی شاہ صاحبؒ کی روحانی نسبت سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) سے تھی اسی لیے آپؒ نے اپنے کلام میں مرشد کامل کے اوصاف بیان کیے اور اس کے ساتھ ساتھ طالب ِصادق کیلیے معیارات مقرر کیے -آپؒ کی تعلیمات میں قرآن حکیمِ، حدیث مبارکہ اور سلطان العارفین کی تعلیمات شامل ہیں-آپؒ کا کلام قرآن و حدیث کی طلبانِ مولیٰ کےلئے راہِ سلوک میں عملی شرح ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے معرفتِ الہٰی کے حصول کیلیے وسیلہ پکڑنے کا حکم فرمایا:

’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[2]

’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور)  تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ‘‘-

گوکہ وسیلہ ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے ، وسیلہ سے مراد قرآن بھی ہے، نماز بھی ہے اور جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے -صوفیاء نے وسیلہ سے مراد مرشدِ کامل کی ذات بھی لی ہے-راہِ تصوف میں طالب کو سب سے پہلے کسی ایسے مرشد کی تلاش کرنی ہوتی ہے جو خود بھی معرفتِ الٰہی کی راہ جانتا ہو اور معرفتِ الٰہی کے مشکل و پر خطر راستے دیگر متلاشیانِ حق کو طے بھی کرا سکتا ہو-سید سلطان بہادر علی شاہ صاحبؒ بھی طالب حق کو بمطابق فرمانِ الٰہی مرشد کامل پکڑنے کی تلقین فرماتے ہیں:

مجرم نوں محرم پیر کرے بخشے جاہل نوں علم عیان بیلی
کافر فاسق تے جیکر نظر کرے ہووے کامل اہل عرفان بیلی
وسیلہ اہلِ ایمان تے فرض ہویا ثابت نال آیت قرآن بیلی
 سلطان سید محمد بہادر شاہ رموز تے راز کھلن جد مرشد کرے دھیان بیلی

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:

طلب تینوں جے خدا دی ہے اول مرشد گول کمال میاں

مرشدِ کامل کی راہنمائی کے بغیر معرفتِ الہٰی کا راستہ طے نہیں کیا جاتا کیونکہ جس کا کوئی مرشد نہ ہو اس کا مرشد ابلیس ہوتا ہے اور ابلیس انسان کو راہِ حق سے دور کرتاہے-اسی لیے آپؒ نے اپنے کلام میں سب سے زیادہ مرشد کامل کی صحبت اختیار کر کے اس کی اطاعت کرنے کا درس دیا ہے-

اللہ دی خبر نہ بھلیاں نوں بھلے پیر توں رب توں بھل گئے
 رفیق بناں طریق ناہیں اوجھڑ جنگل دے وچ رُل گئے

آپؒ کی زندگی کا ہر لمحہ طالب صادق و کامل کی طرح گزرا-آپؒ نے اپنے مرشد گرامی سے جو روحانی و ظاہری فیض حاصل کیا-اس کا پرچارآپؒ کی زندگی کا عملی مشغلہ بھی رہا اور آپ کےکلام میں بھی بدرجہ اتم موجود ہےآپؒ کا کلام عارفانِ مولا کو ظاہری و باطنی ہر دو حوالوں سے سرشار کرتا ہے اور تشنگانِ علم و معرفت کی پیاس بجھاتا ہے-آپؒ کا کلام طالبانِ مولیٰ کیلیے راہِ فقر و معرفت میں ابتداء تا انتہاء مکمل نصاب کا درجہ رکھتا ہے-آپؒ نے حقیقی طالبِ مولیٰ کے جو اوصاف بیان فرمائے ان کا جامع اور مختصر تذکرہ ذیل میں ہے-آپؒ فرماتے ہیں:

ہمیشہ تکیہ ہم تیرا
تساں بن کوئی نہیں میرا
پائیو احسان دا پھیرا
کرو وَل وَل نگہبانی
 بنام اللہ سنو فریاد یام محبوب سبحانی

حضور پیر بہادر علی شاہ صاحب ؒکے نزدیک ایک طالب صادق کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مرشد کامل کا فرماں بردار ہو اور اپنے مرشد کے فیض و نظرِ شفقت پہ اکتفا کرے-وہ طالب، صادق کسی صورت نہیں ہو سکتا جو اپنے مرشد کی بارگاہ کو چھوڑ کر کسی اور جگہ پر سکون تلاش کرتا ہے -آپؒ عملی نمونہ کے طور پر اپنے کلام میں اس چیز کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ میرا چارہ گر میرامرشد ہے-حضور پیر صاحبؒ فرما رہے ہیں کہ ایک طالب کےلیے ہمہ وقت ضروری ہے کہ وہ عرض گزار رہے-حضور پیر صاحبؒ اپنے کلام میں اپنے مرشد کی شان اور کمال نہایت خوبصورت اور واضح الفاظ میں بیان کرتے ہیں جو کہ ایک طالب صادق کیلیے از حد ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ کا ہر دم چرچا کرتا رہے-اس کی عملی مثال حضور پیر صاحب ؒ کے کلام میں یوں ملتی ہے-آپؒ مناجات درشانِ سلطان العارفین میں ارشاد فرماتے ہیں :

سبحان اللہ سلطان صاحب دا محل مقدس وادی
ھو اللہ تے یا ھو دی ہے صدا ندا مُنادی
وجدانی عرفانی دی واہ اس جا کل آبادی
فیض رسانی دا ہے قبلہ روز ازل دا عادی
بخشے لکھ ہا گنج الٰہی، خاص جمیعت شاہ دی
اکسیر نظر تے قُلزم رحمت تعریف اُس راہنما دی
 سُن فریاد نمانے دی یا اکمل مرشد ہادی

آپؒ کے اندازِ بیان میں عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے-آپؒ جب اپنے مرشد کی بارگاہ میں عرض گزار ہوتے ہیں تو ایک طالب صادق کے اوصاف بھی متعین کرتے ہیں اور یہ درس دیتے ہیں کہ ایک طالب صادق کو اپنے مرشد کی بارگاہ میں حاضری کےلیے کیسے حاضر ہونا چاہیے-یہ حاضری ظاہر و باطن دونوں حوالوں سے ہے-آپؒ  کے کلام کی روشنی میں ایک طلب صادق کےلیے عاجزی کا وصف بہت ضروری ہے تاکہ طالب کے وجودسے نفسیانیت و انانیت ختم ہو جائے اور اس کےوجود میں محبت الٰہی، قربانی اور عاجزی پیدا ہو جائے -اپنی تمام خواہشوں کو ختم کر کے رضائے ربانی پہ راضی ہوجانا اللہ تعالیٰ کے کامیاب بندوں کی نشانی ہے اور یہی وصف ایک طالب مولا میں بھی ہونا چاہیے کہ اس کی خواہشیں بے لگام نہ ہوں-جب انسان کا وجود عاجزی و انکساری میں ڈھل جاتا ہے اور پھر وہ یوں اپنے مرشد کی بارگاہ میں عاجزی کرتے ہوئے نظر آتا ہے جیسےآپؒ ارشاد فرماتے ہیں:

باہجھ تساڈے مینوں سوھنا ہرگز آس نہ کائی
خود دانا تے بینا ہو ہے ایہہ تقلید نہ کائی
وانگ زلیخاں ذوق ترے وچ عُمر تمام گنائی
عرض گزار ہویم اس ویلے جان لباں تے آئی
شالا آسی ترس تسانوں ہوسی فضل خدائی
استدعا منظور ہو ویسی مسکین غریب گدا دی
 سن فریاد نمانے دی، یا اکمل مرشد ہادی

آپؒ کے نزدیک توکل الی اللہ کا وصف طالب کے اندر ہونا ضروری ہے چونکہ راہِ فقر میں توکل پہلی صفت ہے جس کا اپنانا طالب کے لیےاشد ضروری ہوتا ہے-یعنی راہ توکل میں انسان اسباب کو ترک کرکے مسبب الاسباب پر مکمل بھروسا کرتا ہے- جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کو رب تسلیم کر لیتا ہے اور اپنی تمام ضروریات اسی رب کائنات سے پوری ہونے کا یقین اپنے دل میں بٹھا لیتا ہے تو اس کے وجود سے غیراللہ کی محبت نکل جاتی ہے؛ اور یہی کلمہ طیب کی حقیقت ہے-آپؒ فرماتے ہیں:

بس اللہ ماسویٰ ہوس چھک لے ’’لا‘‘ تلوار پیارے

جب طالب توکل کی راہ اختیار کر لیتا ہے تو اگلا مرحلہ طالب کے لیےترکِ دنیا کا ہوتا ہے-کیونکہ دنیا کی محبت بھی راہِ خدا میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے-اسی دنیا کی محبت کی وجہ سے فرعون،قارون اور شداد غضبِ خداوندی کے مرتکب ٹھہرے-اسی دنیاکی محبت نے یزید لعین کو امام عالی مقام کے مد مقابل کھڑے کیا-اس لیے راہِ فقر میں طالب کو ترکِ دنیا کا درس دیا جاتا ہے-سید سلطان بہادر علی شاہ صاحبؒ طالبِ مولیٰ کو اس ضمن میں کچھ یوں فرماتے ہیں:

دنیا متاع غرور بھائی ہو دور سلطان پسند کرے

آپؒ کے نزدیک یقین طالب کیلیے سب سے بڑی دولت یہ ہےکہ انسان راہِ حق میں علم الیقین اور عین الیقین سے آگے گزر کر حق الیقین کا مرتبہ حاصل کرے اور اپنے مرشد پر یقین رکھے -آپ فرماتے ہیں:

بہادر شاہ یقین ہے دین بھائی، رب بخشے ایہہ سامان میاں

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:

حق یقین تے عین یقین ہے ایہہ سامان ضروری
سفر دراز طریقت دا اس باہجھ نہ منزل پوری

نفس اور شیطان بھی دنیا کی طرح انسان کے دشمن ہیں جو ہمہ وقت اس کو صراطِ مستقیم سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور بالخصوص جب انسان راہِ خدا میں چل نکلتا ہے تو نفس اور شیطان دونوں اس کو سب سے پہلے مرشد کی نافرمانی پر آمادہ کرتے ہیں -جب انسان راہبر کی ہی بات اور حکم نہ مانے تو وہ منزل تک کیسے پہنچ سکتا ہے-اس لیے آپؒ طالب کو تلقین فرماتے ہیں کہ طالبِ حق کو ہر وقت اپنے مرشد کے احکام کی پاسداری کرنی چاہیےاور شیطان اور نفس کے حربوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے جس  کے لئے مرشد کامل کی صورت پر نظر رکھنی چاہیے-

زیان کرے شیطان تنہاں جیہڑے مرشد نوں بہندے وِسار بیلی
ہوئے غرق طوفان ،کنعان وانگوں کیتے نفس خبیث خوار بیلی
 صورت پیر دی کشتی امان میاں ہو سوار نہ رکھ افکار بیلی

المختصر!آپؒ کی ذات گرامی طالبانِ مولیٰ کے لیے رول ماڈل ہےاور آپؒ کا کلام بھی سچی طلبِ الٰہی رکھنے والوں کے لیےمشعلِ راہ ہے-

٭٭٭


[1](ماہنامہ مرآۃ العارفین انٹرنیشنل،مناجات حضرت سلطان سید بہادر شاہؒ درشان حضرت سلطان باھوؒ، فروری 2015ء)

[2](المائدہ:35)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر