جددا مرشد کاسا دِتڑا تددی بے پرواہی ھو
کی ہویا جے راتیں جاگیوں جے مرشد جاگ نہ لائی ھو
راتیں جاگیں تے کریں عبادت ڈینہہ نندیا کریں پرائی ھو
کوڑا تخت دنیا دا باھو(رح) تے فقر سچی شاہی ھو
Jad da Murshid kasaa ditRa tad di be-parwaahi Hoo
Ki hoya jay ratie'N jagiyu'N, jay Murshid jaag na laai Hoo
Ratie'N jage'N tay kare'N ebadat Denh nindiya kare'N paraai Hoo
KoRa takht dunya da 'Bahoo' tay faqr sachi shaahi Hoo
Ever since Murshid handed me begging bowl I have become carefree Hoo
What use is your night vigil if Murshid has not cultured (jaag) enzyme in thee Hoo
During night vigil you worship and during daytime you start backbiting you see Hoo
Worldly throne is false 'Bahoo' and faqr is the true kingship of thee Hoo
تشریح:
﴿۱﴾ ہر سو نفسانفسی کا عالم ہو، دُنیَوی اغراض کی جنگ میں اپنے پرائے کی شناخت ختم ہونے کے قریب ہو، روپیہ پیسہ ہی عزت و وقار کی علامت ہو، قریب قریب معاشرہ اخلاق باختہ ہو چکا ہو، خدا اور رسول سے تعلق برائے نام ہو، دِین و مذہب کے ناموس کوبیچ کرمال و دولت اکٹھی کرنے کی روایات عام ہوں، تو ایسے حالات میں مرشد کامل کا میّسر آجانا ایک بڑی غنیمت اور نعمتِ عظیم ہے- مرشد محبتِ الٰہی کے مئے خانہ کا ساقی ہوتا ہے اور جب وہ طالب کو اُلفت حق کا پیالا بھر کے پِلاتا ہے تو اُس کا دِل قربِ الٰہی کی طلب میں ہر دو جہان سے بے نیاز ہو جاتا ہے- اس سے طالب میں کمال درجہ کا استغنا در آتا ہے اور وہ معاشرے کا مفید اور فیض رساں فرد بن جاتا ہے- ایسا مردِ کامل کہ جو نفسانی خواہشات کے چنگل سے آزاد کر کے معاشرے کی مجموعی فلاح کا ضامن ہو- اس امر کے بارے میں حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ:-
’’قلب آبِ حیا ت کی مثل ہے کہ جو کوئی آب ِحیا ت کے چشمے سے معرفت ِالٰہی کا پیالہ پی لیتا ہے وہ مست و دیوانہ و بے ہو ش ہو کر دنیا و عقبیٰ کو فرموش کر دیتا ہے اور نفس و ہوا سے فار غ ہو کر ’’ مَازَاغ َ الْبَصَرُ وَمَاطَغٰی ‘‘ کا مصداق بن جا تا ہے ‘‘- ﴿محک الفقر:۹۹۶﴾
’’سن! فقیر باھُو کہتا ہے کہ فقر کے تین حروف ہیں، فقہ کے بھی تین حروف ہیں، علم کے بھی تین حروف ہیں، عمل کے بھی تین حروف ہیں، حلم کے بھی تین حروف ہیں اور حلیم اللہ تعالیٰ کا نام ہے، اِن سب کو ملا کر یکجا کر دے اور شریعت کے پانی میں گھول کر اِس میں طریقت و معرفت و حقیقت اور عشق و محبت ملا دے اور پھر پیالہ بھر کے پی لے، اِس کے بعد میدانِ فقر میں قدم رکھ اور ہر دو جہان کو بھول جا‘‘- ﴿عین الفقر:۷۹﴾
﴿۲﴾دوسری جانب آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے بے مرشد، خشک و سطحی قسم کے عابد کی بات کرتے ہیں کہ جو رسمی و رواجی عبادت تو ضرور کرتا ہے لیکن نفسِ امّارہ اُسے اپنی لپیٹ میں لیے رکھتا ہے- رسمی و رواجی عبادات،چلہ کشی اور زبانی اذکار میں رات بھر مصروف رہتا ہے لیکن وہ ہمہ قسم کے رُوحانی تجُربات سے محروم رہتا ہے کیونکہ نفسِ امّارہ اُسے اِس غلط فہمی میں مبتلا رکھتا ہے کہ اب اُسے کسی مرشد کی ضرورت نہیں ہے- اُس کے زہد و تقویٰ کی مثال ایسے دودھ کی ہے جو گرم ہو ہو کر سرخ ہو جاتا ہے لیکن اُسے دہی کاخمیر نہیں لگایا جاتا اِس لیے اُس کے زہد کا دودھ رُوحانی تجُربات کامکھن اورقربِ الٰہی کاروغن دینے سے قاصر رہتا ہے- فرمانِ حق باھُو ہے کہ:-
علمِ باطن ہمچو مسکہ علمِ ظاہر ہمچو شِیر کی بود بی شِیر مسکہ کی بود بی پیر پیر
’’علمِ باطن مکھن کی مانند ہے اور علمِ ظاہر دودھ کی مانند، دودھ کے بغیر مکھن کہاں بنتاہے؟ اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں نصیب ہوتی ہے؟ ﴿نورالہدیٰ:۷۶﴾
﴿۳﴾مرشد کے بغیر اُس کی ریاضت بے فیض رہتی ہے بلکہ نفسِ امّار اُس کے دِل میں کئی قسم کی برائیاں پیدا کر دیتا ہے- رات بھر کی عبادت کے بعد اُس کا دِل عاجزی کی بجائے تکبر کو زیادہ قبول کرتا ہے وہ دن کے وقت حسد و کینہ کی بنا پہ لوگوں کی غیبت گوئی میں مصروف رہتاہے-یہ سچ ہے کہ ہمہ قسم کے گناہوں میں ملوث رہنے سے عبادات کی منفعت فوت ہو جاتی ہے- ایسا زاہد نماز پڑھتا ہے مگر اس کے با وصف شرعی منہیّات اور فحاشی کی دلدل میں دھنسا رہتا ہے-
﴿۴﴾ آخری مصرعہ میں حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ دُنیَوی مناصب،ا قتدار و حکومت،ما ل و دولت و اسبابِ دُنیا کی فراوانی فنا پذیر ہے اور نقش برآب ثابت ہوتی ہے، جب کہ فقر دائمی صداقت اورہمیشہ رہنے والی بادشاہت ہے- آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:-
’’مرتبۂ فقر حاصل کرلینا دونوںجہان کی بادشاہی ہے، اِس مرتبے کا فقیر دونوں جہان پر غالب و حاکم وامیر ہوتاہے --- تیسرا مرتبہ ’’وَاُولِی الْاَمْرِ‘‘ ہے اور یہ مرتبۂ فنا فی الشیخ ہے- اِن مراتب کی بدولت طالب باطنی نظر اور توجہ سے ہر ایک پر غالب و حاکم ہوتا ہے اور کلمہ طیب ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی برکت سے مراتب ِحیات وممات کو طے کر لیتاہے‘‘- ﴿نورالہدیٰ:۵۵۴﴾
یاد رہے کہ اگر کسی شخص کو دین و دنیا کی کوئی مشکل پیش آجائے تو اُس کی مشکل کشائی کرنے یا کوئی عاجز مفلس گداگر مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ملک ِسلیمانی جیسی بادشاہی طلب کرے تو اُسے بادشاہی عطا کردینے یا اگر کوئی ہفت اقلیم کا بادشاہ کسی فقیر ولی اللہ سے دشمنی عداوت رکھتا ہو تو اُسے بادشاہی سے معزول کردینے اور ایسے ہی دیگر مناصب ودرجا ت واحکام و خدمات کے جملہ امور کی چابی فقیرِ کامل اہل ِتوحید کے ہاتھ میںہوتی ہے- ﴿نورالہدیٰ:۵۰۳﴾
آپ کے نور الہدیٰ شریف والا یہ فرمان قرآن پاک کی اس آیت کی شرح میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ﴿ان الارض یرثہا عبادی الصالحون﴾ ﴿الانبیا ۵۰۱﴾ یعنی ’’میری زمین کے وارث میرے بندے ہونگے ‘‘ - اِسی آیت کا پنجابی ترجمہ حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا :
ہر مشکل دی کنجی یارو! ہتھ مرداں دے آئی - مرد نظر کرن جس ویلے مشکل رہے نہ کائی