شمس العارفین : قسط 03

شمس العارفین : قسط 03

اے عزیز! اعمالِ ظاہر سے دل ہر گز پاک نہیں ہوتا اور نہ ہی دل سے نفاق جاتا ہے جب تک کہ دل کو مشقِ تصورِ اسمِ اللہ ذات کی آگ سے جلایا نہ جائے اور نہ ہی اِس کے بغیر دل کا زنگار اُترتا ہے- ذکر اللہ کے بغیر دل ہر گز زندہ نہیں ہوتا اور نفس ہر گز نہیں مرتا چاہے تمام عمر قرآنِ مجید کی تلاوت کی جائے یا مسائل ِفقہ پڑھے جائیں یا زہد و ریاضت کی کثر ت سے پیٹھ کبڑی کر لی جائے یا سوکھ سوکھ کر بال کی طرح باریک ہولیا جائے دل ویسے کا ویسا سیاہ ہی رہتا ہے، مشق ِتصورِ اسمِ اللہ ذات کے بغیر ہر گز فائدہ نہ ہوگا چاہے سنگ ِریاضت سے سر کو پھوڑ لیا جائے- تصورِ اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والا آد می معشوقِ بے مشقت اور محبوبِ بے محنت ہوتاہے اور یہ نہایت ہی مرغوب مرتبہ ہے-اگر کوئی آدمی زمین کو اڑھائی قدموں میں طے کر لیتا ہے یا پانچوں وقت خانہ کعبہ میں باجماعت نماز ادا کرتاہے یا ہمیشہ حضرت خضر علیہ السلام کا ہم مجلس ہو کر اُن سے مقابلۂ علم کرتاہے یا حضرت آدم علیہ السلام سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روزِ جزا تک تمام انبیا ٔو اؤلیأو تمام مومن مسلمانوں کی ارواح سے مصافحہ و ملاقا ت و مجلس کرتا ہے اور تمام ارواح کو اُن کے نام سے جانتا پہچانتا ہے یا زمین بھر کے تمام اہل ِورد وظائف و اہل ِدعوت و حافظ جو رات دن پوری طہار ت کے ساتھ تلاوتِ قرآنِ مجید کرتے رہتے ہیں یا وہ شخص کہ جس نے تمام دنیا کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے اور رات دن اللہ کی را ہ میں سخاوت کرکے مسلمانوں کو فائدہ پہنچاتا رہتاہے تو اِن سب سے بہتر یہ ہے کہ تصورِ اسمِ اللہ ذا ت میں غرق ہوکر ہمیشہ مجلس ِسرورِ کائنات (ﷺ) میں حاضر رہا جائے - یاد رکھئے کہ بندے کو ایک دم کے لئے بھی ذکر ِخدا سے غافل نہیں رہنا چاہیے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :’’سانس گنتی کے ہیں اور جو دم ذکر اللہ کے بغیر جاتاہے وہ مردہ ہے‘‘  -

فرد:’’ جوآدمی ذکر ِحق میں غرق ہوکر دیوا نہ ہوجاتاہے، عرش و کرسی اور تمام طبقات اُس کے زیرِ قدم آجاتے ہیں لیکن اِس کے برعکس جو آدمی ذکر ِحق سے غافل ہوجاتاہے اُس کا نفس موٹا ہو جاتا ہے اور وہ کفر و ریا میں مبتلا ہو جاتا  ہے‘‘-

باب دوم :ذکر شرو ع کرنے کے بارے میں

جان لے کہ مرشد ِکامل پر فرضِ عین ہے کہ وہ سب سے پہلے طالب اللہ کو مقامِ خوف و رجا، مقامِ کشف القبور اور مقامِ مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی حضوری کا مشاہدہ کرائے اِس کے بعد اُسے علمِ معرفت کی تلقین کرے، چنانچہ شروع ہی میں اُسے ذکر فکر و مراقبہ اور ورد وظائف میں ہر گز مشغول نہ کرے بلکہ تصورِ اسمِ اللہ ذات سے اُسے حضوری بخشے اور تفکر ِاسمِ اللہ ذات سے اُس کا باطن آباد کرے- مرشد ِکامل کو چاہیے کہ سب سے پہلے خوشخط اسمِ اللہ ذات لکھ کر طالب اللہ کے حوالے کر دے اور اُسے کہے کہ اے طالب! اِسے اپنے دل پر لکھ لے اور جب طالب اللہ اپنے دل پر اسمِ اللہ ذات لکھ لیتاہے اور اسمِ اللہ ذات اُس کے دل میں سکونت و قرار پکڑلیتاہے تو مرشد اُسے کہتاہے کہ اے طالب ! اب اسمِ اللہ ذات کو دیکھ، چنانچہ اُس وقت حروفِ اسمِ اللہ ذات سے سورج کی طرح روشن تجلی ٔنور ظاہر ہوتی ہے جس کی روشنی میں طالب اللہ کو دل کے اردگرد چودہ طبق سے وسیع تر میدان دکھائی دیتاہے جس میں دونوں جہان اسپند کے دانے کے برابر نظر آتے ہیں- اُس میدان میں  طالب اللہ کو ایک گنبددار روضہ نظر آتاہے جس کے درواز ے پر کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ  اللّٰہِ‘‘کا قفل لگا ہوتا ہے جس کی چابی اسمِ اللہ ذات ہے - جو نہی طالب اسمِ اللہ ذات پڑھتاہے قفل ِکلمہ طیب کھل جاتا ہے اور طالب اللہ روضے  کے اندر داخل ہوجاتاہے جہاں اُسے سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظیم مجلس دکھائی دیتی ہے جس میں حضور نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہل ِ صراطِ مستقیم اصحابِ کبار(رضی اللہ عنھم) بھی موجود ہوتے ہیں-طالب اللہ مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہو کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم صحبت ہوجاتاہے- قربِ حبیب کی یہ نعمت طالب ِصادق صدیق کو اللہ تعالیٰ کے حکم و توفیق اور رفاقت ِمرشد ِکامل سے نصیب ہوتی ہے- اگر کوئی طالب چاہے کہ اپنے دل کو اُن تمام وساوسِ شیطانی اور وہماتِ نفسانی سے پاک کر لے جو آدمی کے وجود میں ہزاراں ہزار آثا ر کی صورت میں موجود رہتے ہیں جن کی مجموعی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہے اور اُن کا رشتۂ زنار رشتۂ یہود و نصاریٰ سے سخت تر ہے اور اُ ن کے سبب سے اُس کا دل سیاہ و مردہ و افسردہ رہتاہے تو مرشد کو چاہیے کہ ایسے طالب اللہ کو تصورِ اسمِ اللہ ذات کا حکم دے اور تفکر و توجہ سے طالب کے دل کے ارد گرد حروفِ اسمِ اللہ ذات و حروف ِکلمہ طیبات لکھ دے کہ اِن حروف کے لکھے جانے سے طالب کے وجود میں سر سے قدم تک انوارِ قرب و دیدارِ پروردگار کی ایسی آگ بھڑک اُٹھتی ہے جو اُن تمام بدکردار زناروں کو ایک ہی دم میں جلا ڈالتی ہے اور طالب اللہ طہارتِ دل اور تصدیق ِ یقین کے ساتھ مسلمانِ حقیقی بن جاتاہے اور توحید و دیدارِ پروردگار میں غرق ہو کر کفر و شرک سے بیزار ہو جاتا ہے-سن اے جانِ من! کہ مرشدوں او ر طالبوں کے لئے یہی ایک  نکتہ ہی کافی ہے کہ تیرے بائیں پہلو میں نفس اور دائیں پہلومیں شیطان کا ڈیرہ ہے  اور اِن دونوں دشمنوں سے تیری جنگ چھڑی ہوئی ہے-پس جس شخص کے دونوں پہلوؤں میں مثل ِزخمِ تیر یا مثل ِدردِ خار ایسے دشمن ہر وقت موجود رہتے ہوں اور اُنہوں نے اُس کے باطن میں تباہی مچا رکھی ہو، اُسے بھلا خواب و خوش وقتی سے کیا واسطہ؟ اے عقلمند! ہوش سے کام لے اور ہمیشہ یاد رکھ کہ موت کا کوئی بھروسہ نہیں، اُسے بلا فرصت آناہے- پس طالب اللہ کو چاہیے کہ ہر وقت تصورِ اسمِ اللہ ذات میں مشغول رہے اور حروفِ اسمِ اللہ ذات سے پیدا ہونے والے شعلۂ تجلی ٔانوار میں غرق ہوکر اِس شان سے مشرفِ دیدارِ پروردگار رہے کہ اُسے بہارِ بہشت یاد رہے نہ نارِ جہنم- ایک روایت میں حضور علیہ الصلوٰۃُو السلام کافرمان ہے: ’’ایمان کا مقام خوف و اُمید کے درمیان ہے‘‘- فقیر جس وقت تصورِ اسمِ اللہ ذات میں مشغول ہوتا ہے تو اُس کے وجود کا ہر بال زبان کھول لیتا ہے اور جوش میں آکر اَللّٰہُ، اَللّٰہُ،اَللّٰہُ  پکارنے لگتاہے، اُس کا دل سِرِّھُوْ، سِرِّھُوْ، سِرِّ ھُوْکا ورد کرنے لگتاہے، اُس کی روح ھُوَالْحَقُّ، ھُوَالْحَقُّ،ھُوَالْحَقُّ کی فریاد کرنے لگتی ہے اور اُس کا نفس التجا کرتاہے: ’’ رَ بَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا‘‘(اے ہمارے ربّ ہم نے اپنی جان پر بڑا ظلم ڈھایاہے-)مشق ِ وجودیہ اسمِ اللہ ذات میں مراتب ِمعشوقی و مراتب ِمحبوبی پائے جاتے ہیں-خوشخط اسمِ اللہ ذات کا نمونہ یہ ہے :-

اَللّٰہُ

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر